950true dots bottomright 300true true 800http://www.murshidhussain.com/wp-content/plugins/thethe-image-slider/style/skins/frame-white
  • 9000 random false 60 bottom 0 https://www.facebook.com/murshid.hussain.7315?pnref=story
     Slide6
  • 5000 random false 60 bottom 0 https://www.facebook.com/murshid.hussain.7315?pnref=story
     Slide2
  • 5000 random false 60 bottom 0 https://www.facebook.com/murshid.hussain.7315?pnref=story
     Slide4
?

گمراہوں کی صحبت سے بچو کہیں تمہیں گمراہ نہ کردیں

MadinahCity 1950احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں

 

 

 

 

 

 

 

اللہ عزوجل فرماتا ہے:قال عزوجل واماینسینک الشیطن فلاتقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین ۲؎۔ اور اگر شیطان تجھے بھلادے تو یاد آنے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھو۔

 (۲؎ القرآن           ۶/۶۸)

اللہ عزوجل فرماتا ہے:ومن یتولھم منکم فانہ منھم ۲؎ تم میں جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انھیں میں سے ہوگا۔

 (۲؎ القرآن        ۵/۵۱)

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:المرء مع من احب ۳؎۔  رواہ الائمۃ احمد والستۃ الاابن ماجہ عن انس والشیخان عن ابن مسعود واحمد ومسلم عن جابر وابوداؤد عن ابی ذر والترمذی عن صفوان بن عسال وفی الباب  عن علی وابی ھریرۃ وابی موسٰی وغیرھم رضی اﷲ تعالٰی عنھم۔

آدمی کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت رکھتا ہے (اس کو امام محمد نے اور ابن ماجہ کے ماسوا صحاح ستہ کے ائمہ نے روایت کیاہے حضرت انس سے اور بخاری ومسلم نے ابن مسعود سے، احمد ومسلم نے جابر سے، ابوداؤد نے ابوذر سے، اور رترمذی نے صفوان بن عباس سے، اور اس باب میں علی، ابو ھریرہ، ابوموسٰی وغیرہم رضی اللہ تعالٰی عنہم سے بھی روایت ہے۔ ت)

قال اﷲ تعالٰی (اللہ تعالٰی نے فرمایا):لاتلقوا بایدیکم الی التھلکۃ ۴؎۔ اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور بد مذہبی ہلاک حقیقی ہے۔

 (۴؎ القرآن         ۲/۱۹۵)

اور صحبت خصوصاً بدکا اثر پڑجانا احادیث وتجاربِ صحیحہ سے ثابت۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:انما مثل الجلیس الصالح وجلیس السوء کحامل المسک ونافخ الکیر فحامل المسک اما ان یحذیک واماان تبتاع منہ واما ان تجد منہ ریحا طیبۃ ونافخ الکیر اماان یحرق ثیابک واماان تجد منہ ریحا خبیثۃ ۱؎۔  رواہ الشیخان عن ابی موسٰی رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

اچھے اور برے ہمنشین کی کہاوت ایسی ہے جیسے ایک کے پاس مشک ہے اور دوسرا دھونکنی پھونکتا، وہ مشک والایا تجھے مفت دے گا یا تو اس سے مول لے گا۔ اور کچھ نہیں تو خوشبو ضرور آئے گی، اور دھونکنی والا تیرے کپڑے جلادے گا یا تجھے اس سے بد بو آئے گی، (اسے شیخین (امام بخاری و مسلم) نے ابو موسٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

(۱؎ صحیح بخاری        باب المسک            قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/۸۳۰)

(۳؎ سنن ابوداؤد    کتاب الادب                آفتاب عالم پریس لاہور    ۲/۳۴۳)

دوسری حدیث میں فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:مثل جلیس السوء کمثل صاحب الکیران لم یصبک من سوادہ اصابک من دخانہ ۲؎۔  رواہ ابوداؤد والنسائی عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

برا ہمنشین دھونکنے والے کی مانند ہے تجھے اس کی سیاہی نہ پہنچے تو دھواں تو پہنچے گا۔ (اس کو ابوداؤد اور نسائی نے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 (۲؎ سنن ابوداؤد    باب من یومران یجالس        آفتاب عالم پریس لاہور    ۲/۳۰۸)

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:ایاکم وایاھم لایضلونکم ولا یفتنونکم ۴؎۔ رواہ مسلم عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ۔ان سے دور رہو اور انھیں اپنے سے دور کرو کہیں وہ تمھیں گمراہ نہ کردیں وہ تمھیں فتنہ میں نہ ڈال دیں اسے مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔

 ( ۴؎ صحیح مسلم        باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء الخ     مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی    ۱/۱۰ )

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:اتخذالناس رؤسا جھالا فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا واضلوا۳؎  رواہ الائمۃ احمد والبخاری ومسلم والترمذی و ابن ماجۃ عن عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہمالوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے اور ان سے مسئلہ پوچھیں گے وہ بے علم فتوٰی دیں گے آپ بھی گمراہ ہوئے اوروں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ اس کو ائمہ کرام احمد بخاری ،مسلم ،ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔

 (صحیح البخاری        باب الحرص علی الحدیث         مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۰)

(صحیح مسلم         باب رفع العلم وقبضہ الخ         مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی    ۲/۳۴۰)

(جامع الترمذی     باب ماجاء فی الاستیصاء بمن یطلب العلم     مطبوعہ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی    ۲/۹۰)

ایسے لوگوں کے  پاس بیٹھنا جائز نہیں۔ حدیث میں ہے :ایاکم وایاھم لایضلونکم ولایفتنونکم ۳؎ ۔ ان سے دور  رہو اور ان کو اپنے سے دور رکھو کہیں وہ تم کو گمراہ نہ کردیں اور فتنے میں نہ ڈال دیں (ت)

 (۳؎ صحیح مسلم        باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء الخ        قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ /۱۰)

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ضلع اعظم گڑھ کے قریب وجوار یہ رسم قدیم میّت کے ایصال ثواب کے واسطے جاری تھی کہ ورثاء میّت چہلم تک قرآن خوانی کراتے تھے اور بعد اختتام میعاد قرآن خوانی کی اجرت بصورت نقد و پارچہ اور اشارے قرآن خوانی میں کھانا دیاکرتے تھے، اب چند لوگوں ہندوستانی مدرسے سے تعلیم پا کر اسی ضلع میں آئے اور ہم لوگوں کے طریقہ مستمر ایصال ثواب کو ممنوع وناجائز کہتے اور فعل عبث قرار دیتے ہیں، پس علمائے اہلسنت وجماعت سے استدعا ہے کہ طریقہ مروجہ ایصال ثواب عند الشرع جائز ودرست ہے یا ممنوع، اور میّت کو ثواب قرآن خوانی وکھانا وغیرہ کا ملتا ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا

الجواب

گندے عقیدہ والوں کی نسبت علمائے کرام حرمین شریفین نے بالا تفاق تحریر فرمایا ہے کہ یہ لوگ اسلام سے خارج ہیں، اور فرمایا:من شک فی عذابہ وکفرہ وفقد کفر ۱؎ جو ان کے کافر ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ ان کی کوئی بات نہ سنی جائے نہ ان کی کسی بات پر عمل کیا جائے جب تک اپنے علماء سے تحقیق نہ کرلیں۔

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:وایاکم وایاھم لایضلونکم ولایفتونکم ۲؎۔ ان سے دور بھاگو اور انھیں اپنے سے دور کریں۔ کہیں وہ تم کو گمراہ نہ کردیں کہیں وہ تم کو فتنہ میں نہ ڈال دیں۔

 (۱؎ درمختار        باب المرتد            مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۳۵۶)

(۲؎ مشکوٰۃ        باب الاعتصام بالکتاب    فصل اول    مطبع مجتبائی دہلی    ص۲۸)

اور ان کا بتایا ہوا کوئی مسئلہ اگر صحیح بھی نکلے توا س سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ عالم ہیں، یا ان کے اور مسائل بھی صحیح ہوں گے۔ دنیا میں کوئی ایسا فرقہ نہیں جس کی کوئی نہ کوئی بات صحیح نہ ہو، مثلاً یہود ونصارٰی کی یہ بات صحیح ہے کہ موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نبی ہیں۔ کیا اس سے یہودی اور نصرانی سچے ہوسکتے ہیں، رسول اللہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:الکذوب قد یصدق ۳؎ بڑا جھوٹا بھی کبھی سچ بولتا ہے،

(۳؂مجمع بحار الانوار    تحت لفظ صدق        نولکشور لکھنؤ        ۲ /۲۳۹)

وہابی تو اموات مسلمین کو ثواب پہنچانے ہی سے جلتے ہیں، فاتحہ، سوم،دہم، چہلم سب کو حرام کہتے ہیں، یہ سب باتیں جائز ہیں، میّت کو قرآن خوانی وطعام دونوں کا ثواب پہنچتا ہے، تیجے وچالیسویں وغیر کا تعین عرفی ہے جس سے ثواب میں خلل نہیں آتا، ہاں قرآن خوانی پر اُجرت لینا دینا منع ہے، اس کا طریقہ یہ کیا جائے کہ حافظ کو مثلاًچالیس دن کے لیے نو کر رکھ لیں کہ جو چاہیں کام لیں گے اور یہ تنخواہ دیں گے، پھراس سے قبر پر پڑھنے کا کام لیاجائے، اب یہ اجرت بلاشبہہ جائزہے کہ اس وقت کے مقابل ہے نہ کہ تلاوت قرآن کے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

پانچویں حدیث میں ہے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ایاک وقرین السوء فانک بہ تعرف ۱؎۔ رواہ ابن عساکر عن انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

برے ہمنشین سے دور بھاگ کہ تو اسی کے ساتھ مشہور ہوگا(اس کو ابن عساکر نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 ( ۱؎ کنزالعمال        بحوالہ ابن عساکر حدیث۲۴۸۴۴    مکتبۃ التراث الاسلامی حلب    ۹/۴۳)

مولٰی علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:ماشئی ادل علی الشئی ولاالدخان علی النار من الصاحب علی الصاحب ۲؎۔  ذکرہ التیسیر۔

کوئی چیز دوسری پر اور نہ دھواں آگ پر اس سے زیادہ دلالت کرتا ہے جس قدر ایک ہمنشین دوسرے پر (اس کو تیسیر میں ذکر کیا گیا۔ ت)

 (۲؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر    حدیث ماقبل کے تحت        مکتبۃ امام شافعی الریاض السعودیہ    ۱/۴۰۲)

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:رویدک یاانجشہ بالقواریر ۴؎ (اے انجشہ! آبگینوں کو بچا کر رکھو۔ ت)

(۴؎ صحیح بخاری     با ب المعاریض مندوحۃ عن الکذب الخ    قدیمی کتب خانہ کراچی        ۲/۹۱۷)

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:حبک الشئی یعمی ویصم ۵؎۔ رواہ احمد والبخاری فی التاریخ وابوداؤد عن ابی الدرداء وابن عساکر بسند حسن عن عبداﷲ بن انیس والخرائطی فی الاعتلال عن ابی برزۃ الاسلمی رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔

محبت اندھا بہرا کردیتی ہے (اسے احمد وبخاری نے اپنی تاریخ میں اور ابوداؤد نے ابودرداء سے،ا ور ابن عساکر نے سند حسن کے ساتھ عبداللہ بن انیس سے اور خرائطی نے اعتلال میں ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا ہے۔ ت)

(۵؎ سنن ابو داؤد    کتاب الادب باب فی الہوٰی    آفتاب عالم پریس لاہور        ۲/۳۴۳)

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:الرجل علی دین خلیلہ فلینظر احد کم من یخالل ۱؎۔ رواہ ابوداؤد والترمذی عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔

آدمی اپنے محبوب کے دین پر ہوتا ہے تو دیکھ بھال کر کسی سے دوستی کرو (اسے ابوداؤد اور ترمذی نے سند حسن کے ساتھ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 (۱؎ سنن ابوداؤد        کتاب الادب باب من یومران یجالس    آفتاب عالم پریس لاہور    ۲/۳۰۸)

مسلمانو! اللہ عزوجل عافیت بخشے دل پلٹتے خیال بدلتے کیا کچھ دیر لگتی ہے قلب کہتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ منقلب ہوتاہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:مثل القلب مثل الریشۃ تقلبھا الریاح بفلاۃ ۲؎۔ رواہ ابن ماجۃ عن ابی موسٰی الاشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

دل کی حالت اس پر کی طرح ہے کہ میدان میں پڑاہو اور ہوائیں اسے پلٹے دے رہی ہوں۔ (اس کو ابن ماجہ نے ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)

 (۲؎ سنن ابن ماجہ    باب فی القدر   ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۰)

متعدد حدیثوں میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان علی ھدم الاسلام ۱؎۔ رواہ ابن عدی وابن عساکر عن ام المومنین الصدیقہ والحسن بن سفیان فی مسندہ وابونعیم فی الحلیۃ عن معاذ بن جبل والسجزی فی الابانۃ عن ابن عمر وکابن عدی عن ابن عباس والطبرانی فی الکبیر وابونعیم فی الحلیۃ عن عبداﷲ بن بسر والبیھقی فی شعب الایمان عن ابراھیم بن میسرۃ التابعی المکی الثقۃ مرسلا فالصواب ان الحدیث حسن بطرقہ۔

جس نے کسی بد مذہب کی توقیر کی اس نے اسلام کے ڈھانے میں مدد کی (اس کوابن عدی اور ابن عساکر نے ام المومنین عائشہ صدیقہ اور حسن بن سفیان نے اپنی مسند میں اور ابو نعیم نے حلیہ میں معاذ بن جبل سے اور سجزی نے ابانۃ میں ابن عمر سے اور ابن عدی نے ابن عباس سے اور طبرانی نے کبیر میں اور ابونعیم نے حلیہ میں عبداللہ بن بسر اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابراہیم بن میسرہ تابعی مکی سے مرسل طورپر روایت کیاہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ اپنے طرق پر یہ حدیث حسن ہے۔ ت)

 ( ۱؎ شعب الایمان    حدیث نمبر ۹۴۶۴    دارالکتب العلمیہ بیروت        ۷/۶۱)

علمائے کرام تصریح فرماتے ہیں کہ مبتدع تو مبتدع فاسق بھی شرعا واجب الاہانۃ ہے اور اس کی تعظیم ناجائز، علامہ حسن شرنبلالی مراقی الفلاح میں فرماتے ہیں:الفاسق العالم تجب اھانتہ شرعا فلایعظم۔ ۲؎

فاسق عالم کی شرعا توہین ضروری ہے اس لیے ا س کی تعظیم نہ کی جائے۔ (ت)

 (۲؎ مراقی الفلاح    فصل فی بیان الاحق بالامامۃ    نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص۱۶۵)

امام علامہ فخر الدین زیلعی تبیین الحقائق، پھر علامہ سید ابوالسعود ازہری فتح المعین، پھر علامہ سید احمد مصری حاشیہ درمختار میں فرماتے ہیں:قد وجب علیھم اھانتہ شرعا ۱؎۔

ان پر اس کی اہانت ضروری ہے۔ (ت)

 (۱؎ طحطاوی علی الدرالمختار    باب الامامۃ        دارالمعرفۃ بیروت        ۱/۲۴۳)

علامہ محقق سعد الملۃ والدین تفتازانی مقاصد وشرح مقاصد میں فرماتے ہیں:حکم المبتدع البغض والعداوۃ والاعراض عنہ والاھانۃ والطعن واللعن ۲؎۔

بد مذہب کے لیے حکم شرعی یہ ہے کہ اس سے بغض و عداوت رکھیں، روگردانی کریں، اس کی تذلیل وتحقیر بجالائیں۔ اس سے طعن کے ساتھ پیش آئیں۔

 (۲؎ شرح مقاصد    المبحث الثامن حکم المومن    دارالمعارف النعمانیہ لاہور        ۲/۲۷۰)

اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:لاتقولوا للمنافق یاسید فانہ ان یکن سیدا فقدا سخطتم ربکم عزوجل ۵؎۔ رواہ ابوداؤد و النسائی بسند صحیح عن بریدۃ بن الحصیب رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

منافق کو ”اے سردار” کہہ کر نہ پکارو کہ اگر وہ تمھارا سردار ہو تو بیشک تم نے اپنے رب عزوجل کو ناراض کیا۔ (اس کو ابوداؤد اور نسائی نے صحیح سند کے ساتھ بریدہ بن حصیب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)

(۵؎ سنن ابی داؤد    کتاب الادب    آفتاب عالم پریس لاہور        ۲/۳۲۴)

حاکم نے صحیح مستدرک میں بافادہ تصحیح اور بیہقی نے شعب الایمان میں ان لفظوں سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:اذا قال الرجل للمنافق یاسید فقد اغضب ربہ ۱؎۔

جو شخص کسی منافق کو ”سردار” کہہ کر پکارے وہ اپنے رب عزوجل کے غضب میں پڑے۔

 (۱؎ مستدرک للحاکم    کتاب الرقاق            دارالفکربیروت    ۴/۳۱۱)

(شعب الایمان    حدیث ۴۸۸۴            دارالکتب العلمیہ بیروت    ۴/۲۳۰)

امام حافظ الحدیث عبدالعظیم زکی الدین نے کتاب الترغیب والترھیب میں ایک باب وضع کیا :الترھیب من قولہ لفاسق او مبتدع یاسیدی، اونحوھا من الکلمات الدالۃ علی التعظیم ۲؎۔

یعنی ان حدیثوں کا بیان جن میں کسی فاسق یابدمذہب کو ”اے میرے سردار” یا کوئی کلمہ تعظیم کہنے سے ڈرانا۔

 (۲؎ الترغیب والترھیب    الترھیب من قولہ لفاسق او مبتدع یاسیدی الخ    مصطفی البابی مصر    ۳/۵۷۹)

امام دارقطنی کی روایت یوں ہے:حدثنا القاضی الحسین بن اسمٰعیل نامحمد بن عبداﷲ المخرمی نا اسمعیل بن ابان نا حفص بن غیاث عن الاعمش عن ابی غالب عن ابی امامۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اھل البدع کلاب اھل النار ۳؎۔

 (قاضی حسین بن اسمعیل نے محمد بن عبداللہ مخرمی سے انھوں نے اسمعیل بن ابان سے انھوں نے حفص بن غیاث سے انھوں نے اعمش سے انھوں نے ابو غالب سے انھوں نے ابوامامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث بیان کی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا) بد مذہب لوگ دوزخیوں کے کتے ہیں،

 (۳؎ کنزا لعمال     بحوالہ قط فی الافراد عن ابی امامہ      حدیث۱۱۲۵                 موسسۃ الرسالۃ بیروت    ۱/۲۲۳)

ابو نعیم حلیہ میں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:اھل البدع شرالخلق والخلیقۃ ۱؎۔

بدمذہب لوگ سب آدمیوں سے بدتر اورسب جانوروں سے بدتر ہیں۔

 (۱؎ حلیۃ الاولیا        ترجمہ ابومسعود موصلی    دارالکتاب العربی بیروت        ۸/۲۹۱)

علامہ مناوی نے تیسیر میں فرمایا:الخلق الناس والخلیقۃ البھائم ۲؎۔

خلق سے مراد لو گ اور خلیقہ سے مراد جانور ہیں۔ (ت)

 (۲؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر    تحت حدیث ماقبل    مکتبہ امام شافعی الریاض سعودیہ    ۱/۳۸۳)

لاجر م حدیث میں ان کی مناکحت سے ممانعت فرمائی، عقیلی وابن حبان حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:لاتجالسوھم، ولاتشاربوھم، ولاتؤاکلوھم ولاتناکحوھم ۳؎۔

بدمذہبوں کے پاس نہ بیٹھو، ان کے ساتھ پانی نہ پیو، نہ کھانا کھاؤ، ان سے شادی بیاہ نہ کرو۔

 (۳؎ الضعفاء الکبیر للعقیلی    حدیث ۱۵۳        دارالکتب العلمیہ بیروت        ۱/۱۲۶)

بہتر یہ ہے کہ بلاضرورت ان سے نکاح نہ کرے اور نہ ذبیحہ کھائے۔ (ت)

 (۴؎ فتح القدیر        فصل فی بیان المحرمات    نوریہ رضویہ سکھر        ۳/۱۳۵)

الم احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا اٰمنّا وھم لایفتنون ۱؎۔ کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اس زبانی کہہ دینے پرچھوڑدئے جائیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اوران کی آزمائش نہ ہوگی۔

 (۱؎ القرآن الکریم        ۲۹/۲)

لاالٰہ الااﷲ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم، وحسبنا اﷲ ونعم الوکیل ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم۔

اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ا ورحضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالٰی ہمیں کافی ہے اور وہ اچھا وکیل ہے کوئی حرکت اور کوئی قوت اللہ تعالٰی عظیم وبلند کی مشیت کے بغیر نہیں ہے۔ (ت)

بہت اچھا جو صاحب مشتبہ الحال وہابیت سے انکار فرمائیں امور ذیل پر دستخط فرماتے جائیں؂

کھوٹے کھرے کا پردہ کھل جائے گا چلن میں

(۱) مذہب وہابیہ ضلالت وگمراہی ہے۔

(۲) پیشوایان وہابیہ مثل ابن عبدالوہاب نجدی واسمعیل دہلوی ونذیر حسین دہلوی وصدیق حسن بھوپالی اور دیگر چھٹ بھیے آروی بٹالی پنجابی بنگالی سب گمراہ بد دین ہیں۔

(۳) تقویۃ الایمان وصراط مستقیم ورسالہ یکروزی وتنویرالعینین تصانیف اسمعیل اور ان کے سوا دہلوی و بھوپالی وغیرہما وہابیہ کی جتنی تصنیفیں ہیں صریح ضلالتوں گمراہیوں اور کلمات کفریہ پر مشتمل ہیں۔

(۴) تقلید ائمہ فرض قطعی ہے بے حصول منصب اجتہاد اس سے روگردانی بددین کا کام ہے، غیر مقلدین مذکورین اور ان کے اتباع واذناب کہ ہندوستان میں نامقلدی کا بیڑا اٹھائے ہیں محض سفیہان نامشخص ہیں ان کا تارک تقلید ہونا اوردوسرے جاہلوں اور اپنے سے اجہلوں کو ترک تقلید کا اغوا کرنا صریح گمراہی وگمراہ گری ہے۔

(۵) مذاہب اربعہ اہلسنت سب رشد وہدایت ہیں جو ان میں سے جس کی پیروی کرے اور عمر بھر اس کا پیرو رہے، کبھی کسی مسئلہ میں اس کے خلاف نہ چلے، وہ ضرور صراط مسقیم پرہے، اس پرشرعاً الزام نہیں ان میں سے ہر مذہب انسان کے لیے نجات کوکافی ہے تقلید شخصی کو شرک یا حرام ماننے والے گمراہ ضالین متبع غیر سبیل المومنین ہیں۔

(۶) متعلقات انبیاء واولیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء مثل استعانت وندا وعلم وتصرف بعطائے خدا وغیرہ مسائل متعلقہ اموات واحیا میں نجدی ودہلوی اور ان کے اذناب  نےجو احکام شرک گھڑے اورعامہ مسلمین پر بلاوجہ ایسے ناپاک حکم جڑے یہ ان گمراہوں کی خباثت مذہب اور اس کے سبب انھیں استحقاق عذاب وغضب ہے۔

(۷) زمانہ کو کسی چیز کی تحسین وتقبیح میں کچھ دخل نہیں، امر محمود جب واقع ہو محمود ہے اگرچہ قرون لاحقہ میں ہو، اور مذموم جب صادر ہو مذموم ہے اگرچہ ازمنہ سابقہ میں ہو، بدعت مذ مومہ صرف وہ ہے جو سنت ثابتہ کے ردوخلاف پر پید ا کی گئی ہو، جواز کے واسطے صرف اتنا کافی ہے کہ خدا ورسول نے منع نہ فرمایا، کسی چیز کی ممانعت قرآن وحدیث میں نہ ہو تو اسے منع کرنے والا خود حاکم وشارع بننا چاہتا ہے۔

(۸) علمائے حرمین طیبین نے جتنے فتاوے ورسائل مثل الدرر السنیہ فی الردعلی الوہابیہ وغیرہا رد وہابیہ میں تالیف فرمائے سب حق وہدایت ہیں اور ان کا خلاف باطل وضلالت۔

حضرات! یہ جنت سنت کے آٹھ باب ہادی حق وصواب ہیں، جو صاحب بے پھیرپھار بے حیلہ انکار بکشادہ پیشانی ان پردستخط فرمائیں تو ہم ضرور مان لیں گے کہ وہ ہر گز وہابی نہیں، ورنہ ہر ذی عقل پر روشن ہوجائیگا کہ منکر صاحبوں کا وہابیت سے انکار نرا حیلہ ہی حیلہ تھا، مسمے پر جمنا اور اسم سے رمنا، اس کے کیا معنی ؎

منکر می بودن ودر رنگ مستان زیستن

(منکر ہونا اور مستیوں کے رنگ میں جینا۔ ت)

واﷲ یھدی من یشاء الٰی صراط مستقیم ۱؎ (اللہ تعالٰی جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرماتا ہے۔ ت)

 (۱؎ القرآن الکریم        ۲/۲۱۳)

الحمد ﷲ کہ یہ مختصر بیان تصدیق مظہر حق وحقیق اوائل عشرہ اخیرہ ماہ مبارک ربیع الاول شریف سے چند جلسوں میں بدرسمائے تمام اوربلحاظ تاریخ ”ازالۃ العار بحجر الکرائم عن کلاب النار” نام ہوا، و صلی اﷲ تعالٰی علٰی سیدناومولٰنا محمد واٰلہ واصحابہ اجمعین والحمد ﷲ رب العالمین۔

Leave a Reply

Enable Google Transliteration.(To type in English, press Ctrl+g)