نجات کا راستہ – واقع حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہ


 

کسی زمانے میں بغداد میں جنید نامی ایک پہلوان رہا کرتا تھا۔ پورے بغداد میں اس پہلوان کے مقابلے کا کوئی نہ تھا۔ بڑے سے بڑا پہلوان بھی اس کے سامنے زیر تھا۔ کیا مجال کہ کوئی اس کے سامنے نظر ملا سکے۔ یہی وجہ تھی کہ شاہی دربار میں اس کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور بادشاہ کی نظر میں اس کا خاص مقام تھا۔

ایک دن جنید پہلوان بادشاہ کے دربار میں اراکین سلطنت کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا کہ شاہی محل کے صدر دروازے پر کسی نے دستک دی۔ خادم نے آکر بادشاہ کو بتایا کہ ایک کمزور و ناتواں شخص دروازے پر کھڑا ہے جس کا بوسیدہ لباس ہے۔ کمزوری کا یہ عالم ہے کہ زمین پر کھڑا ہونا مشکل ہو رہا ہے۔ اس نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ جنید کو میرا پیغام پہنچا دو کہ وہ کشتی میں میرا چیلنج قبول کرے۔ بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ اسے دربار میں پیش کرو۔ اجنبی ڈگمگاتے پیروں سے دربار میں حاضر ہوا۔ وزیر نے اجنبی سے پوچھا تم کیا چاہتے ہو۔ اجنبی نے جواب دیا میں جنید پہلوان سے کشتی لڑنا چاہتا ہوں۔ وزیر نے کہا چھوٹا منہ بڑی بات نہ کرو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جنید کا نام سن کر بڑے بڑے پہلوانوں کو پسینہ آ جاتا ہے۔ پورے شہر میں اس کے مقابلے کا کوئی نہیں اور تم جیسے کمزور شخص کا جنید سے کشتی لڑنا تمہاری ہلاکت کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔ اجنبی نے کہا کہ جنید پہلوان کی شہرت ہی مجھے کھینچ کر لائی ہے اور میں آپ پر یہ ثابت کرکے دکھاؤں گا کہ جنید کو شکست دینا ممکن ہے۔ میں اپنا انجام جانتا ہوں آپ اس بحث میں نہ پڑیں بلکہ میرے چیلنج کو قبول کیا جائے۔ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ شکست کس کا مقدر ہوتی ہے۔

جنید پہلوان بڑی حیرت سے آنے والے اجنبی کی باتیں سن رہا تھا۔ بادشاہ نے کہا اگر سمجھانے کے باوجود یہ بضد ہے تو اپنے انجام کا یہ خود ذمہ دار ہے۔ لٰہذا اس کا چیلنج قبول کر لیا جائے۔ بادشاہ کا حکم ہوا اور کچھ ہی دیر کے بعد تاریخ اور جگہ کا اعلان کر دیا گیا اور پورے بغداد میں اس چیلنج کا تہلکہ مچ گیا۔ ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ اس مقابلے کو دیکھے۔ تاریخ جوں جوں قریب آتی گئی لوگوں کا اشتیاق بڑھتا گیا۔ ان کا اشتیاق اس وجہ سے تھا کہ آج تک انہوں نے تنکے اور پہاڑ کا مقابلہ نہیں دیکھا تھا۔ دور دراز ملکوں سے بھی سیاح یہ مقابلے دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ جنید کے لئے یہ مقابلہ بہت پراسرار تھا اور اس پر ایک انجانی سی ہیبت طاری ہونے لگی۔ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر شہر بغداد میں امنڈ آیا تھا۔

جنید پہلوان کی ملک گیر شہرت کسی تعارف کی محتاج نہ تھی۔ اپنے وقت کا مانا ہوا پہلوان آج ایک کمزور اور ناتواں انسان سے مقابلے کے لئے میدان میں اتر رہا تھا۔ اکھاڑے کے اطراف لاکھوں انسانوں کا ہجوم اس مقابلے کو دیکھنے آیا ہوا تھا۔ بادشاہ وقت اپنے سلطنت کے اراکین کے ہمراہ اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔ جنید پہلوان بھی بادشاہ کے ہمراہ آ گیا تھا۔ سب لوگوں کی نگاہیں اس پراسرار شخص پر لگی ہوئی تھیں۔ جس نے جنید جیسے نامور پہلوان کو چیلنج دے کر پوری سلطنت میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ مجمع کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اجنبی مقابلے کے لئے آئے گا پھر بھی لوگ شدت سے اس کا انتظار کرنے لگے۔ جنید پہلوان میدان میں اتر چکا تھا۔ اس کے حامی لمحہ بہ لمحہ نعرے لگا کر حوصلہ بلند کر رہے تھے۔ کہ اچانک وہ اجنبی لوگوں کی صفوں کو چیرتا ہوا اکھاڑے میں پہنچ گیا۔ ہر شخص اس کمزور اور ناتواں شخص کو دیکھ کر محو حیرت میں پڑ گیا کہ جو شخص جنید کی ایک پھونک سے اڑ جائے اس سے مقابلہ کرنا دانشمندی نہیں۔ لیکن اس کے باوجود سارا مجمع دھڑکتے دل کے ساتھ اس کشتی کو دیکھنے لگا۔ کشتی کا آغاز ہوا دونوں آمنے سامنے ہوئے۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گئے۔ پنجہ آزمائی شروع ہوئی اس سے پہلے کہ جنید کوئی داؤ لگا کر اجنبی کو زیر کرتے اجنبی نے آہستہ سے جنید سے کہا اے جنید ! ذرا اپنے کام میرے قریب لاؤ۔ میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اجنبی کی باتیں سن کر جنید قریب ہوا اور کہا کیا کہنا چاہتے ہو۔

اجنبی بولا اے جنید ! میں کوئی پہلوان نہیں ہوں۔ زمانے کا ستایا ہوا ہوں۔ میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ سید گھرانے سے میرا تعلق ہے میرا ایک چھوٹا سا کنبہ کئی ہفتوں سے فاقوں میں مبتلا جنگل میں پڑا ہوا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے شدت بھوک سے بے جان ہو چکے ہیں۔ خاندانی غیرت کسی سے دست سوال نہیں کرنے دیتی۔ سید زادیوں کے جسم پر کپڑے پھٹے ہوئے ہیں۔ بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچا ہوں۔ میں نے اس امید پر تمہیں کشتی کا چیلنج دیا ہے کہ تمہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم

کے گھرانے سے عقیدت ہے۔ آج خاندان نبوت کی لاج رکھ لیجئے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا۔ تمہاری ملک گیر شہرت اور اعزاز کی ایک قربانی خاندان نبوت کے سوکھے ہوئے چہروں کی شادابی کے لئے کافی ہوگی۔ تمہاری یہ قربانی کبھی بھی ضائع نہیں ہونے دی جائے گی۔

اجنبی شخص کے یہ چند جملے جنید پہلوان کے جگر میں اتر گئے۔ اس کا دل گھائل اور آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ سیدزادے کی اس پیش کش کو فوراً قبول کرلیا اور اپنی عالمگیر شہرت، عزت و عظمت آل سول صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کی۔ فوراً فیصلہ کر لیا کہ اس سے بڑھ کر میری عزت و ناموس کا اور کونسا موقع ہو سکتا ہے کہ دنیا کی اس محدود عزت کو خاندان نبوت کی اڑتی ہوئی خاک پر قربان کردوں۔ اگر سید گھرانے کی مرجھائی ہوئی کلیوں کی شادابی کے لئے میرے جسم کا خون کام آ سکتا ہے تو جسم کا ایک ایک قطرہ تمہاری خوشحالی کے لئے دینے کے لئے تیار ہوں۔ جنید فیصلہ دے چکا۔ اس کے جسم کی توانائی اب سلب ہو چکی تھی۔ اجنبی شخص سے پنجہ آزمائی کا ظاہری مظاہرہ شروع کر دیا۔

کشتی لڑنے کا انداز جاری تھا۔ پینترے بدلے جا رہے تھے۔ کہ اچانک جنید نے ایک داؤ لگایا۔ پورا مجمع جنید کے حق میں نعرے لگاتا رہا جوش و خروش بڑھتا گیا جنید داؤ کے جوہر دکھاتا تو مجمع نعروں سے گونج اٹھا۔ دونوں باہم گتھم گتھا ہو گئے یکایک لوگوں کی پلکیں جھپکیں، دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں کھلیں تو ایک ناقابل یقین منظر آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ جنید چاروں شانے چت پڑا تھا اور خاندان نبوت کا شہزادہ سینے پر بیٹھے فتح کا پرچم بلند کر رہا تھا۔ پورے مجمع پر سکتہ طاری ہو چکا تھا۔ حیرت کا طلسم ٹوٹا اور پورے مجمعے نے سیدزادے کو گود میں اٹھا لیا۔ میدان کا فاتح لوگوں کے سروں پر سے گزر رہا تھا۔ ہر طرف انعام و اکرام کی بارش ہونے لگی۔ خاندان نبوت کا یہ شہزادہ بیش بہا قیمتی انعامات لے کر اپنی پناہ گاہ کی طرف چل دیا۔

اس شکست سے جنید کا وقار لوگوں کے دلوں سے ختم ہو چکا تھا۔ ہر شخص انہیں حقارت سے دیکھتا گزر رہا تھا۔ زندگی بھر لوگوں کے دلوں پر سکہ جمانے والا آج انہی لوگوں کے طعنوں کو سن رہا تھا۔ رات ہو چکی تھی۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر جنید اپنے بستر پر لیٹا اس کے کانوں میں سیدزادے کے وہ الفاظ بار بار گونجتے رہے۔ “آج میں وعدہ کرتا ہوں اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا۔

جنید سوچتا کیا واقعی ایسا ہوگا کیا مجھے یہ شرف حاصل ہوگا کہ حضور سرور کونین حضرت محمد کے م صلی اللہ علیہ وسلم قدس ہاتھوں سے یہ تاج میں پہنوں ؟ نہیں نہیں میں اس قابل نہیں، لیکن خاندان نبوت کے شہزادے نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ آل رسول کا وعدہ غلط نہیں ہو سکتا یہ سوچتے سوچتے جنید نیند کی آغوش میں پہنچ چکا تھا نیند میں پہنچتے ہی دنیا کے حجابات نگاہوں کے سامنے سے اٹھ چکے تھے ایک حسین خواب نگاہوں کے سامنے تھا اور گنبد خضراء کا سبز گنبد نگاہوں کے سامنے جلوہ گر ہوا، جس سے ہر سمت روشنی بکھرنے لگی، ایک نورانی ہستی جلوہ فرما ہوئی، جن کے حسن و جمال سے جنید کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں، دل کیف سرور میں ڈوب گیا در و دیوار سے آوازیں آنے لگیں الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ۔ جنید سمجھ گئے یہ تو میرے آقا ہیں جن کا میں کلمہ پڑھتا ہوں۔ فوراً قدموں سے لپٹ گئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جنید اٹھو قیامت سے پہلے اپنی قسمت کی سرفرازی کا نظارہ کرو۔ نبی ذادوں کے ناموس کے لئے شکست کی ذلتوں کا انعام قیامت تک قرض رکھا نہیں جائے گا۔ سر اٹھاؤ تمہارے لئے فتح و کرامت کی دستار لے کر آیا ہوں۔ آج سے تمہیں عرفان و تقرب کے سب سے اونچے مقام پر فائز کیا جاتا ہے۔ تمہیں اولیاء کرام کی سروری کا اعزاز مبارک ہو۔

ان کلمات کے بعد حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنید پہلوان کو سینے سے لگایا اور اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت خواب میں جنید کو کیا کچھ عطا کیا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اتنا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ جب جنید نیند سے بیدار ہوئے تو ساری کائنات چمکتے ہوئے آئینے کی طرح ان کی نگاہوں میں آ گئی تھی ہر ایک کے دل جنید کے قدموں پر نثار ہو چکے تھے۔ بادشاہ وقت نے اپنا قیمتی تاج سر سے اتار کر ان کے قدموں میں رکھ دیا تھا۔ بغداد کا یہ پہلوان آج سید الطائفہ سیدنا حضرت جنید بغدادی کے نام سے سارے عالم میں مشہور ہو چکا تھا۔ ساری کائنات کے دل ان کے لئے جھک گئے تھے۔ (تاریخی واقعہ کی تفصیل ملاحظہ کیجئے کتاب زلف و انجیر صفحہ 72۔ 62)

مسلمانو ! اس سچے واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ خاندان نبوت اہل بیت و آل رسول سے محبت کرنا اور ان کی عزت و ناموس کا خیال رکھنا ایک مسلمان کے لئے کس قدر ضروری ہے اہلبیت سے محبت ایمان اور ان سے بغض و حسد منافقت اور گمراہی ہے۔ اسلام نے ہمیں جو تعلیم دی ہے اس میں خاندان نبوت اہلبیت سے محبت کا خصوصی ذکر ہے۔ اہلبیت کا مقام و مرتبہ کس قدر بلند ہے اس کا اندازہ قرآن مجید کے ارشاد سے لگایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔

انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت ویطھرکم تطھیرا۔

(سورہ احزاب 33)

ترجمہ :۔ اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

اس آیت کریمہ میں اہلبیت (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے) کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ اہلبیت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے علاوہ خاتون جنت بی بی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سب داخل ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے “اپنی اولاد کو تین عادتیں سکھاؤ۔ اپنے نبی کی محبت، اس کے اہل بیت کی محبت اور تلاوت قرآن”۔ أدبوا أولادكم على ثلاث خصال حب نبيكم و حب أهل بيته و قراءة القرآن فإن حملة القرآن في ظل الله يوم القيامة يوم لا ظل إلا ظله مع أنبيائه و أصفيائه.

 

 

تخريج السيوطي عن علي. ملاحظہ کیجئے جامع صغیر جلد اول 751، جواہر البحار جلد دوم صفحہ 130

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا۔ “اور مجھ سے محبت کی وجہ سے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔” (سنن الترمذی جلد پنجم صفحہ 622)

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ “اہل بیت سے ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔” (الفردوس الماثور الخطاب جلد دوم صفحہ 142)

ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہم کا ہاتھ پکڑا اور ارشاد فرمایا “جو شخص مجھے محبوب رکھے ان دونوں کو محبوب رکھے ان کے والد اور والدہ کو محبوب رکھے وہ یوم قیامت میرے ساتھ میرے درجہ میں ہوگا۔” (مسند احمد جلد اول صفحہ 168 )

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ار شاد گرامی ہے۔ “اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے جو کوئی بھی اہل بیت سے بغض رکھے اللہ اس کو ضرور جہنم میں داخل کرے گا“۔ (المستدرک جلد سوئم صفحہ 161)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات سے اہلبیت کی عظمت اور ان کے بلند مرتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی معاشرتی زندگی پر غور کریں تو ہم میں یہ بات اکثر پائی جاتی ہے کہ جب ہم کسی شخص کی تعظیم کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ بھائی اس کی عزت کرو یہ بڑے باپ کا بیٹا ہے۔ بظاہر تو یہ عزت بیٹے کی ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ تعظیم اس کے باپ کی ہے۔ تعظیم کا یہ طریقہ خود ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے۔

جب حاتم طائی کی بیٹی قیدی بناکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا “اس کو چھوڑ دو اس کا باپ اخلاقی خوبیوں کو پسند کرتا تھا“۔ (البدایہ والنہایہ ابن کثیر جلد5 صفحہ 66)

ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پوشاک پہنائی، خرچہ دیا سواری پر بٹھایا اور اس کی قوم کے لوگوں کو رہا کرکے ان کے ساتھ بھجوا دیا۔

غور کیجئے بیٹی کی تعظیم کافر باپ کی سخاوت کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ غیرت و تعظیم کا یہ سلسلہ بظاہر بیٹی کے ساتھ نظر آ رہا ہے۔ لیکن حقیقت میں تعظیم اس کے باپ حاتم طائی کی ہو رہی ہے۔ لٰہذا اہل بیت کی تعظیم کرنا دراصل حضورصلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تعظیم و توقیر کرنا ہے۔ کیونکہ خاندان نبوت کے یہ چشم و چراغ ہیں۔ چنانچہ یہ تعظیم “پنتجن پاک” ہی تک محدود نہیں ہونی چاہئیے۔ بلکہ قیامت تک حضور کی تمام آل کے لئے بھی ہونی چاہئیے۔ آل سول کی تعظیم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کی وجہ سے ہے۔ نہ کہ ان کے تقوٰی اور پرہیزگاری کی وجہ سے۔ ان کی تعظیم مسلمانوں کے لئے کس قدر ضروری ہے, اس کا اندازہ حسب ذیل ارشاد سے لگائیے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ تم میں سب سے زیادہ پل صراط پر ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے اہل بیت اور میرے صحابہ کی محبت میں زیادہ سخت ہوگا۔ (جامع الاحادیث جلد اول صفحہ 92)

مذکورہ بالا حدیث میں اہلبیت کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کی فضیلت بھی بتائی گئی ہے جس سے یہ معلوم ہوا کہ اہلبیت اور صحابہ کرام کی سچی محبت ہی ذریعہ نجات اور پل صراط پر سے با آسانی گزرنے کا ذریعہ ہے اگر کوئی ان کی محبت میں کامل نہیں تو اس کے لئے خسارے کے سوا کچھ نہیں۔ مذکورہ ارشاد میں صحابہ کرام اور اہلبیت سے محبت کا حکم موجود ہے۔ خاندان نبوت اور صحابہ کرام وہ عظیم اور قابل احترام ہستیاں ہیں کہ جنہوں نے اپنا خون اسلام کی آبیاری کے لئے وقف کر دیا تھا۔

Leave a Reply

Enable Google Transliteration.(To type in English, press Ctrl+g)