میری کہانی میری زبانی


اللہ رب العزت عزوجل کا بیش بہا کرم ہے کہ اُس نے مجھے ایک کامل اور اپنے محبوب بندے  یعنی کہ حضرت قبلہ سیّد غلام حسین شاہ  غفاری نقشبندی  دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالی کی نسبت عطاء فرمائی اور مجھ پر احسانِ عظیم فرمایا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو ناجانے یہ روح کہاں کہاں بھٹکتی رہتی۔

میں اپنے مرشد کریم سے کس طرح مِلا اس کا حال میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میرا تعلق آزاد کشمیر سے ہے اور میں پیدائش سے لیکر اب تک کراچی ہی میں مُقیم ہوں ۔ ہمارے کچھ رشتہ دار ہمارے علاقے ہی میں رہتے تھے ، یہ  واقع اس وقت کا ہے جبکہ میری عمر شاید ۱۸ یا ۱۹ سال تھی  ایک دن میرے ابو کے رشتے میں بھائی جنہیں ہم چچا کہتے تھے انکے گھر ہماری ملاقات ایک پیر صاحب سے ہوئی جسے وہ اپنا مرشد کہہ کر پُکار رہے تھے۔ دیکھنے میں انکا حلیہ کچھ اس طرح تھا کہ وہ سگریٹ پی رہے تھے اور انکے چہرے پر داڑھی بھی نہ تھی وہ انکی بہت خدمت کررہے تھے۔  میں نے دل میں پیدا ہونے والی خواہش کو دعا کی صورت میں اللہ سے عرض کی کہ یارب میں جب بھی بیعت کروں گا تو ایسے ولی سے کروں گا جو سادات میں سے ہوں اور انکو دیکھ کر خلاف شریعت کوئی معاملہ نظر نہ آئے اور وہ بخاری سید ہوں بس یہی دعا میرے دل میں آئی تو میں نے کردی۔ایسے مرشد کہ جنہیں دیکھ کر بے اختیار رب کا ذکر زبان سے جاری ہوجائے۔

 کچھ عرصہ بعد میری ملاقات ہماری مسجد کے امام صاحب سے ہوئی جنکی گفتگو نے مجھے اُنکا گرویدہ بنا لیا اور میں زیادہ تر انکے حجرہ میں بیٹھ کر سیرت نبویﷺ پر لکھی ہوئ کتابیں پڑھتا رہتا تھا اور ان سے شریعت کے احکامات سیکھتا رہتا ۔ان دنوں ہماری مسجد میں معزن صاحب جنکا تعلق پنچاب سےتھا اکثر لوگوں کے فاعل یعنی حساب کتاب اعداد کے علم سے  کرتے تھے میں نے اس میں دلچسپی لیتے ہوئے کہا کہ حضرت یہ مجھے بھی سیکھا دیں تو انہوں نے فرمایا کہ یہ کوئی معمولی کام نہیں اسے سیکھنے کے لیئے کامل مرشد کا دستِ شفقت سر پر ہونا بہت ضرور ی ہے ورنہ لوگ بغیر پیر کامل کے ہاتھ کے  اس میں برباد ہوجاتے ہیں تو میں نے ان سے معلوم کرنا شروع کیا کہ کامل مرشد کیا ہوتا ہے مجھے بھی کچھ بتائیں تو انہوں نے مجھے بیعت کرنے کے بارے میں  اور مرشد کے بارے میں بہت کچھ بتایا اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ ہر شخص کا کوئ نا کوئی مرشد لکھا ہوا  ہوتا ہے جسے تلاش کرنے پر ملاقات ہوجاتی ہے۔میں نے اُن سے پوچھا کہ اگر میں تلاش کرنا چاہوں کہ میرا مرشد کون ہے  تو کیسے کروں ، انہوں نے مجھے ایک استخارہ کرنے کو کہا جسکا طریقہ بھی لکھوایا تو میں نے لکھ کر اسے یاد کرنا شروع کر دیا اور جلد ہی مجھے یاد ہوگیا۔(ایک دوست نے کچھ دن پہلے بتایا کہ آپ کو بتایا گیا طریقہ حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی ایک تصنیف میں بیان فرمایا ہے)۔

ایک دفعہ کا  ذکر ہے کہ  میں نے عشاء کی نماز کے بعد کچھ دیرا حادیث کی کتابوں کا مطالعہ کیا پھر رات میں مسجد ہی میں استخارہ کرنے کے لئے تیاری کی اور آخر کار سب کچھ پڑھ کر میں وہیں سو گیا ۔ سونا کیا تھا کہ میری قسمت انگڑائی لے کر اٹھ کھڑی ہوئی اور خواب میں کیا دیکھا کہ ایک بہت بڑا  میدان ہے جس میں ڈم ڈم کے پودوں کی دیواریں بنی ہوئی تھیں اور دُور ایک قدآور حسین و جمیل  بزرگ سفید عمامہ اور چادراوڑھے کچھ مریدوں ساتھ کھڑے تھے اور اچانک وہ چل پڑے اور انکا راستہ میری جانب ہی سےگزرتا تھا ۔میں انتہائی حیرانی سے انکی طرف متوجہ ہوکرکھڑا تھا   اور اچانک جب وہ میرےقریب سے گزرے تو میں انکے  قریب ہوا تو انہوں نے مجھ گلے لگایا تو میں نے کہا کہ ‘بزرگِ والا آپ کون ہیں میں آپ سے مِلنا چاہتا ہوں تو وہ فرمانے لگے کہ بچّا انشاء اللہ جلد ملاقات ہوگی ‘ پھر کچھ دیر بعد میری آنکھ کھل گئی اور میں گھر روانہ ہوگیا۔ اس خواب کو میں نے کسی سے ذِکر نہیں کیا اور وقت گزرتا گیا۔

ہماری مسجد پھٹان ، کشمیری اور پنچابی لوگوں کے علاقے میں تھی ، جس میں ہر طبقے کے لوگ نماز پڑھا کرتے تھے، کچھ عرصہ بعد ہماری مسجد کے امام صاحب وہا ں سے چھوڑ کر چلے گئے پھر روزانہ وہاں نئے نئے مولویوں کے آڈیشن ہوتے اور ایک دن ایک سندھی امام کا تقرر ہوا جو کہ بہت عجیب بات تھی کہ کہاں سندھی امام اور کہاں علاقے کے لوگ ، جنکا انداز بیان لوگوں کو بہت پسند آیا اور ساتھ ساتھ وہ حافظ قرآن بھی تھے اور بہت اچھے نعت خوان بھی تھے۔ ان سے میرے اچھے تعلقات بن گئے اور وہ ہمارے گھر اکثر نعت خوانی میں بھی تشریف لاتے تھے۔اُس سال میں مسجد میں اعتکاف کے لیئے بیٹھا تووہ مجھے اپنے پیر صاحب کی ایک اخبار میں چھپی تصویر دیکھانے لگے اور کہنے لگے کہ آپ چلیں میں آپ کو ان سے ملاقات کرواتا ہوں یہ ایک بہت بڑے اللہ کے ولی ِکامل ہیں  اور اس وقت کی وزیر اعظم بھی انکے پاس دعا کروانے آتی ہے۔میں نے اعتکاف کے بعد چلنے کی حامی بھری اور رمضان کے بعد میں نے اپنے ایک رشتہ دار جو کہ میرا اچھا  دوست  بھی تھا کو راضی کیا کہ چلتے ہیں انکے پیر صاحب سے بھی ملاقات کرلیں گے اور سندھ بھی گھوم لیں گے۔ لیٰذا ہمارا سفر شروع ہوا اور ہم فجر کے بعد صبح سویرے وہاں پہنچے اور جیسے ہی ہم ان کے پیر صاحب کی درگاہ پر پہنچے تو کیا دیکھا کہ تمام لوگ سر پر چادریں ڈال کر اللہ کے ذکر میں مشغول تھے اور ایک ٹک ٹک کی  آواز مسلسل تصبیح چلانے کی آتی رہی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے میں کسی اور دنیا میں پہنچ گیا ہوں اور کسی پُرانے زمانے میں آگیا ہوں۔بہت دیر بعدسب ذکر سے فارغ ہوئے تو وہ مولوی صاحب ہمیں اپنے پیر صاحب کے سامنے لے گئے اور ہمیں بعیت کروادیا ۔ پھر ہمیں ناشتہ کرنے کے لیئے ایک کمرے میں لے جایا گیا تو وہاں سب نے ناشتا کیا اور پھر ہم نے پیر صاحب سے عرض کی کہ ہم تنہائی میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں تو کوئی جواب نہ دیا  اور وہ مجھے دیکھتے رہےاور ہم وہاں سے مولوی صاحب کے گھر چل پڑے، ابھی ہم درگاہ سے کچھ دور ہی پہنچے تھے کہ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ یہ جو بزرگ تھےجن سے ہم نے ملاقات کی ہے  انہیں  میں نے کہیں دیکھا ہے تو وہ کہنے لگا کہ ارے یار ! نہ یہ ٹی وی پر آتے ہیں اور نہ ہی کراچی آتے ہیں تُونے کسی اور کو دیکھا ہوگا جنکی  اِن سے مشابہت ہوگی۔تو میں مسلسل سوچتا رہا کہ کہاں دیکھا ہے انہیں تو اچانک مجھے یاد آگیا کہ یہ تو وہی بزرگ ہیں جنہیں میں نے استخارے میں دیکھا تھا اور انہوں نے مجھے گلے بھی لگایا تھا اور  فرمایا تھا کہ انشاء اللہ جلد مُلاقات ہوگی۔

بس یہ یاد کرنے ہی کی دیر تھی کہ اچانک پیچھے سے ایک شخص کی دُورسے آواز آئی کہ فقیر فقیر میں پیچھے مُڑا تو دیکھا کہ وہ ہمیں پُکارتا ہوا ہماری طرف دوڑتا ہوا چلا آرہا ہے۔ جب ہمارے پاس پہنچا تو کہنے لگا کہ کیا  آپ میں سے کسی نے حضرت قبلہ مرشد کریم سے ملاقات کی درخواست کی تھی تو میں بے اختیار کہہ اٹھا کہ جی میں نے عرض کی تھی تو وہ ہمیں لے کہ واپس وہاں پہنچا اور ہم ایک کمرے  میں گئے جہاں مرشد کریم کے رُو برو بیٹھ گئے اور ہم سے انہوں نے گفتگو کی ، دورانِ گفتگو میں انکے چہرے کو تکتا رہا اور یقین آگیا کہ یہ تو وہی بزرگ ہیں ۔سبحان اللہ کتنا عجیب واقع ہے کہ کس طرح سائیں کے فرمان کے مطابق میں حضور مرشد کریم تک پہنچا کہ اسکا کبھی تصّور بھی نہیں کیا ہوگا کہ کہاں کراچی اور کہاں قمبر شریف ۔آپ کی عطاء و توجہ میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا  اور ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ حضرت قبلہ مرشد کریم کی محبت دل میں بڑھتی گئی ۔

 شروع شروع میں جب بھی کوئی  بتاتا کہ جناب عالی کراچی تشریف لائے ہیں تو  ان سے ملاقات کے لیئے ہم ڈیفنس جاتے لیکن ملاقات نہ ہوتی لیکن آج حضرت قبلہ مرشد کریم  مدظلہ العالی کا خصوصی قُرب نصیب ہے اور کچھ عرصہ پہلے 2012 میں جناب کے ساتھ مدینے کی حاضری نصیب ہوئی اور انکے ساتھ دس دن ایک ہی ہوٹل میں رہنا نصیب ہوا اور پانچ نمازوں میں ایک ہی گاڑی میں سفر نصیب ہوا۔ اور الحمدللہ اسی سال اگست میں رمضان کے مہینے میں انشاء اللہ پھر ایک بار عمرہ کی سعادت نصیب ہوگی۔

چونکہ میں کوئی رائٹر یا شاعر  نہیں تو ہوسکتا ہے کہ بیان کرنے میں کہیں کوئی کمی یا شان کے مطابق  بات تحریر نہ ہوسکی ہو تو معافی چاہتا ہوں۔

فقیر ۔ سیّد زاہد حسین شاہ حسینی

 

 

Leave a Reply

Enable Google Transliteration.(To type in English, press Ctrl+g)