حضور پُر نور ﷺ کی بہت پیاری سنت – مسواک کرنا

حضور پُر نور ﷺ کی بہت پیاری سنت (مسواک کرنا)

سرکارِ دو عالم تاجدارِ مدینہﷺکی سنت مبارکہ مسواک کرنا جسے آپ ﷺ نے نہایت پسند فرمایا اور ظاہری زندگی کےآخری دن تک اس کا استعمال جاری رکھا ۔  مسواک کرنا ایسی سنت ہے جسے ہرزمانے کے اولیاء اللہ نے بھی نا صرف خود اپنا یا  بلکہ اپنے مریدین کو بھی اس پر عمل پیرا رہنے کی تعلیم دی۔حضرت قبلہ مرشد کریم دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالی اپنے مریدوں کومسواک کے بارے میں  اکثر و بیشتر تلقین فرماتے ہیں۔  دورانِ بیعت آپ جناب عالی  طالبین کو مسواک کی بھی تلقین فرماتے ہیں ، حضرت ِ والا کو مسواک سے نہایت محبت ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ ہمارے پیار ے سرکارِ دو عالمﷺ کی پسندیدہ سنت مبارکہ ہے۔مندرجہ زیل احادیث کے زریعے آپ ﷺ کی مسواک سے محبت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ (آخری روز) نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حضرت عبدالرحمٰن بن ابو بکر حاضر ہوئے اور میں آپ کو سینے سے لگائے ہوئے تھی، حضرت عبدالرحمٰن کے پاس گیلی لکڑی کی مسواک تھی۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اسکی جانب دیکھا تو میں نے ان سے مسواک لے لی ، اسے چبایا، نرم کیا اور  پھر صاف کرکے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کردی۔ آپ نے خوب مسواک کی اور اس سے پہلےاتنی خوبصورتی کے ساتھ مسواک کرتے ہوئے میں نے آپ ﷺ کو ہرگز نہیں دیکھا تھا۔ جب اس سے فارغ ہوگئے تو تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا  دست مبارک یا انگشت مبارک آسمان کی جانب اٹھا کر کہا۔ اعلی کی رفاقت میں ۔ تین مرتبہ یہی کہا اور پھر انتقال فرماگئے۔ حضرت صدیقہ  (رضی اللہ عنہا) فرماتی تھیں کہ بوقت وصال سرمبارک میری ہنسلی اور ٹھوڑی کے درمیان تھا۔

رواه البخاري کتاب المغازی

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہاسے رو ایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم جب کاشانئہ اقدس میں تشریف لاتے توپہلے مسواک فرماتے ۔
۴۲۹۔ الصحیح لمسلم ، الطہارۃ، ۱/۱۲۸  السنن لابی داؤد ، الطہارۃ، ۱/۸ الجامع الصغیر للسیوطی ، ۲/۴۱۴ السنن لابن ماجہ، الطہارۃ، ۲۵۱

اگر میں اپنی اُمت پر باعثِ دُشواری نہ سمجھتا تو اُنہیں ہر نماز میں دانتوں کی صفائی کا حکم دیتا۔

 (صحيح البخاري، 1 : 122)
(سنن النسائي، 1 : 6)

حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب رات کو تہجد کے لئے اٹھتے تو اپنا منہ مبارک مسواک سے صاف فرماتے تھے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

اخرجہ البخاری فی الصحیح ، ابواب التھجد، باب طول القیام فی صلاۃ اللیل

مسلم فی الصحیح ، کتاب  الطھارۃ، باب السواک

حضرت ابو ہریرہ    رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا: اگر مجھے میری اُمت یا لوگوں پر مشقت میں پڑجانے کا خیال نہ ہوتا تو میں اُنہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

اخرجہ البخاری فی الصحیح ، کتاب الجمعہ باب السواک یوم الجمعہ                           مسلم فی الصحیح ، کتاب  الطھارۃ، باب السواک

حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا:مجھے مسواک کرنے کا حکم (اس قدر تاکید کے ساتھ) دیا گیا کہ میں نے گمان کیا اس کے متعلق (مجھ پر ) قرآن احکام نازل ہوں گے۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابو یعلی نے روایت کیاہے۔

اٗخرجہ احمد بن حنبل فی المسند                ابو یعلی فی المسند

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مداومت کے ساتھ مسواک فرمایا کرتے تھے۔ آپ مسواک ہمیشہ اُوپر سے نیچے اور نیچے سے اُوپر کی طرف فرمایا کرتے تھے۔ یہی وہ طریقہ ہے جسے آجکل تجویز کیا جاتا ہے۔

مسواک کی لمبائی کم از کم ایک بالشت ہونی چاہیئے، حاشیہ طحطاویہ علٰی مراقی الفلاح میں    فرماتے ہیں ۔۔۔۔

یکون طول شبرعــــــہ مستعملہ لان الزائد یرکب علیہ الشیطان۱؎مسواک جو استعمال کرنے والاہے اس کی بالشت بھرہونی چاہئے اس لئے کہ جو زیادہ ہو اس پر شیطان بیٹھتا ہے ۔(ت)

(۱؎ حاشیۃ طحطاوی علی مراقی الفلاح،کتاب الطہارۃ ،فصل فی سنن الوضوء، دار الکتب العلمیہ بیروت۱ /۴۰)

اگر چہ علامہ طحطاوی نے حاشیہ در میں فرمایا :لعل المراد من ذلک انہ ینسیہ استعمالہ اویوسوس لہ اھ ۱؎شاید اس سے مرادیہ ہے کہ وہ اسے استعمال کرنا بھلادیتا ہے یا اسے وسوسہ میں مبتلا کرتا ہے اھ ۔

 ( ۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار         کتاب الطہارۃ مکتبۃ العربیۃ کوئٹہ ۱ /۷۰)

جو شخص کھانا کھائے اُسے خلال کرنا چاہئے۔

(سنن الدارمي، 2 : 35)

دانتوں کے تمام ڈاکٹر بھی معیاری ٹوتھ پکس کے ساتھ خلال کو ضروری قرار دیتے ہیں کیونکہ اُس سے دانتوں کے درمیان پھنسے کھانے کے چھوٹے ذرّات نکل جاتے ہیں، جس سے بندہ منہ اور معدہ کے بہت سے اَمراض سے محفوظ رہتا ہےسرکارِ دو عالم،شاہ بنی آدم،تاجدارِ مدینہﷺنے خلال کرنے کی تعلیم دے کر اُمت کو بہت سے ممکنہ اَمراض سے محفوظ فرما دیا۔

 ایک دفعہ عاجز فقیر خود حضور مرشد کریم کی بارگاہ میں حاضر تھا اور آپ وضو ءفرمارہے تھے دوران مسواک آپ نے میری جانب توجہ فرمائی اور پوچھا کہ مسواک کرتے ہو تو میں نہایت مودبانہ عرض کی کہ حضور اکثرو بیشتر کرتا ہوں جب مسواک میرے پاس موجود نہیں ہوتا تو کرنا رہ جاتا ہے تو آپ نے انتہائی رہنمائی کے انداز میں فرمایا کہ مسواک لازمی کیا کرو اس میں 70 سے زائد فوائد پوشیدہ ہیں۔ الحمدللہ مسواک کی سنت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرشد کی توجہ سے حاصل ہوگئی۔

ایک پیر بھائی کی حیثیت سے آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ بھی اسے اپنائیں اور اس کے فوائد حاصل کریں اور حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ ‘جس نے میری (آپ ﷺ کی) ایک سنت کو زندہ کیا اسے ۱۰۰ شہیدوں کا ثواب ملے گا۔’ مسواک کو ہمیشہ جیب میں رکھیں اور جس طرح موبائل ہمیشہ جیب میں ہوسکتا ہے بالکل اسی طرح مسواک کو بھی رکھا جا سکتا ہے تاکید کے ساتھ۔ اس طرح آپ مرشد کے فرمان پر بھی عمل پیرا ہوجائیں گے۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ النبی رحمۃ اللعلمین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہ اجمعین۔

Leave a Reply

Enable Google Transliteration.(To type in English, press Ctrl+g)