شان رسول ﷺ و محبت رسول ﷺ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ عزوجل اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے باقی ہر ایک سے محبوب تر نہ ہوجائیں، اور اس وقت تک جب کہ وہ کفر سے نجات پانے کے بعد دوبارہ (حالت) کفر (اور ایک روایت میں ہے کہ یہودیت اور نصرانیت) کی طرف لوٹنے کو وہ اس طرح ناپسند کرتا ہو کہ اس کے بدلے اسے آگ میں پھینکا جانا پسند ہو۔ اور تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اُس کی اولاد اور اس کے والد (یعنی والدین) اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 207، الرقم : 13174، 3 / 278، الرقم : 13991 – 13992، 3 / 230، الرقم : 13431، وابن حبان في الصحيح، 1 / 473، الرقم : 237، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 394، الرقم : 1328، وابن منده في الإيمان، 1 / 433، الرقم : 283، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 33.

————————————————————————————————————————————————

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ مجھے میری جان اور میرے اہل و عیال اور میری اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو بھی آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں اور اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کرلوں۔ لیکن جب مجھے اپنی موت اور آپ کے وصال مبارک کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ آپ تو جنت میں انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ بلند ترین مقام پر جلوہ افروز ہوں گے اور اگر میں جنت میں داخل ہوں گا تو خدشہ ہے کہ کہیں آپ کی زیارت سے محروم نہ ہو جاؤں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی کے جواب میں سکوت فرمایا : یہاں تک کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام یہ آیت مبارکہ کو لے کر اترے : ’’اور جو کوئی اللہ تعالیٰ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روز قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے (خاص) انعام فرمایا ہے۔‘‘ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو بلایا اور اسے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔

الحديث رقم 41 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 152، الرقم : 477، وفي المعجم الصغير، 1 / 53، الرقم : 52، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 4 / 240، 8 / 125، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 7، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 524، والسيوطي في الدر المنثور، 2 / 182.
————————————————————————————————————————————————

حضرت آدم بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا : روزِ قیامت سب لوگ گروہ در گروہ ہو جائیں گے۔ ہر امت اپنے اپنے نبی کے پیچھے ہو گی اور عرض کرے گی : اے فلاں! شفاعت فرمائیے، اے فلاں! شفاعت کیجئے۔ یہاں تک کہ شفاعت کی بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آ کر ختم ہو گی۔ پس اس روز شفاعت کے لئے اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : تفسير القرآن، باب : قوله : عسي أن يبعثک ربک مقاما محمودا، 4 / 1748، الرقم : 4441، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 381، الرقم : 295، وابن منده في الإيمان، 2 / 871، الرقم : 927.
————————————————————————————————————————————————

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری شفاعت میری امت کے ان افراد کے لئے ہے جنہوں نے کبیرہ گناہ کئے۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في الشفاعة، 4 / 625، الرقم : 2435، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في الشفاعة، 4 / 236، الرقم : 4739، وابن ماجه عن جابر رضي الله عنه في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة، 2 / 1441، الرقم : 4310، والحاکم في المستدرک، 1 / 139، الرقم : 228، وقال الحاکم : هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين، وأبو يعلي في المسند، 6 / 40، الرقم : 3284، والطبراني في المعجم الصغير، 1 / 272، الرقم : 448، والطيالسي في المسند، 1 / 233، الرقم : 1669.
————————————————————————————————————————————————

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری حیات میں میری زیارت کی۔

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 406، الرقم : 13496، والدارقطني عن حاطب رضي الله عنه في السنن، 2 / 278، الرقم : 193، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 489، الرقم : 4154، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 2.
————————————————————————————————————————————————

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قیامت کے متعلق سوال کیا کہ (یا رسول اﷲ!) قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا : میرے پاس تو کوئی تیاری نہیں۔ (امام احمد کی روایت میں ہے کہ اس نے عرض کیا : میں نے تو اس کے لئے بہت سے اعمال تیار نہیں کیے، نہ بہت سی نمازیں اور نہ بہت سے روزے) سوائے اس کے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم (قیامت کے روز) اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت رکھتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں (یعنی تمام صحابہ کو) کبھی کسی خبر سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمانِ اقدس سے ہوئی کہ تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما سے محبت کرتا ہوں لہٰذا امید کرتا ہوں کہ ان کی محبت کے باعث میں بھی ان حضرات کے ساتھ ہی رہوں گا اگرچہ میرے اعمال تو ان کے اعمال جیسے نہیں۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص القرشي العدوي، 3 / 1349، الرقم : 3485، وفي کتاب : الأدب، باب : ما جاء في قول الرجل ويلک، 5 / 2285، الرقم : 5815، ومسلم في الصحيح، کتاب : البر والصلة والآداب، باب : المرء مع من أحب، 4 / 2032، الرقم : 2639، والترمذي في السنن، کتاب : الزهد عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم باب : ما جاء أن المرء مع من أحب، 4 / 595، الرقم : 2385، وقال أبو عيسي : هذا حديث صحيح، وأبو داود في السنن، کتاب : الأدب، باب : إخبار الرجل الرجل بمحبته إياه، 4 / 333، الرقم : 5127، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 129، الرقم : 352، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 104، 168، 178، الرقم : 12032، 12738، 12846، وابن حبان في الصحيح، 10 / 308، الرقم : 105، وأبو يعلي في المسند، 5 / 372، الرقم : 3023، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 254، الرقم : 8556.
————————————————————————————————————————————————

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا : (یا رسول اﷲ!) قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا : اﷲ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت (یہی میرا سرمایہ حیات ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبت ہے۔

أخرجه البخاري في صحيح، کتاب : الأدب، باب : علامة الحب في اﷲ، 3 / 1349، الرقم : 3485، ومسلم في الصحيح، کتاب : البر والصلة والآداب، باب : المرء مع من أحب، 4 / 2032، الرقم : 2639، والترمذي في السنن، کتاب : الزهد عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء أن المرء مع من أحب، 4 / 595، الرقم : 2385.
————————————————————————————————————————————————

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میں ایک مرتبہ مسجد سے نکل رہے تھے کہ مسجد کے دروازے پر ایک آدمی ملا اور اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ وہ آدمی کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اس کے لئے (فرائض سے) زیادہ روزہ، نماز اور صدقہ وغیرہ (اعمال) تو تیار نہیں کئے لیکن (اتنا ہے کہ) میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے تم محبت رکھتے ہو۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الأحکام، باب : القَضَاءِ وَالفُتْيَاَ في الطَّرِيْقِ، 6 / 2615، الرقم : 6734، وفي کتاب : الأدب، باب : ماجائَ في قول الرّجُلِ ويلَکَ، 5 / 2282، الرقم : 5815، وفي کتاب الأدب، باب : علامًةِ حُبِّ اﷲِ عزوجل لقولِهِ : (وَإِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِي يُحْبِبْکُمُ اﷲُ)، (آل عمران : 31)، 5 / 2285، الرقم : 5816 – 5819، وفي کتاب : فضائل أصحاب النّبِي صلي الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب عُمَرَ بنِ الْخطَّابِ، 3 / 1349، الرقم : 3485، ومسلم في الصحيح، کتاب : البرو الصلة والآداب، باب : المرء مع من أحبَّ 4 / 2032. 2033، الرقم : 2639، والترمذي نحوه في السنن، کتاب : الزهد عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء أن المرء مع من أحب، 4 / 595، الرقم : 2385 وَصَحَّحَهُ، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 465 الرقم : 12715، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 149، الرقم : 1796، وابن حبان في الصحيح، 1 / 182، الرقم : 8، والطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 267، الرقم : 7465، والطيالسي في المسند، 1 / 284، الرقم : 2131، وأبويعلي في المسند، 5 / 372، الرقم : 3023، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 387، الرقم : 498.
————————————————————————————————————————————————

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : یارسول اﷲ! ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ جب ہم آپ کی بارگاہِ اقدس میں ہوتے ہیں تو ہمارے دل نرم ہوتے ہیں ہم دنیا سے بے رغبت اور آخرت کے باسی ہو جاتے ہیں اور جب آپ کی بارگاہ سے چلے جاتے ہیں اور اپنے گھر والوں میں گھل مل جاتے ہیں اور اپنی اولاد سے ملتے جلتے رہتے ہیں تو ہمارے دل بدل جاتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم اسی حالت میں رہو جس طرح میرے پاس سے اٹھ کر جاتے ہو تو فرشتے تمہارے گھروں میں تمہاری زیارت کریں اور اگر تم گناہ نہ کرو تو اﷲتعالیٰ ضرور ایک نئی مخلوق لے آئے گا تاکہ وہ گناہ کریں (اور پھر توبہ کر لیں) اور پھر اﷲ تعالیٰ انہیں بخش دے۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفة الجنة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في صفة الجنة ونعيمها، 4 / 672، الرقم : 2526، وابن حبان في الصحيح، 16 / 396، الرقم، 3787، والطيالسي في المسند، 1 / 337، الرقم : 2583، والبيهقي في شعب الإيمان، 5 / 409، الرقم : 7101، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 415، الرقم : 1420، وابن المبارک في الزهد، 1 / 380، الرقم : 1075.
————————————————————————————————————————————————

حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے، عروہ بن مسعود (جب بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کفار کا وکیل بن کر آیا تو) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم (کے معمولاتِ تعظیم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو دیکھتا رہا کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعاب دہن پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ پر لے لیتا تھا جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو اس کی فوراً تعمیل کی جاتی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو فرماتے ہیں تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ (اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے ہر ایک کی کوشش ہوتی تھی کہ یہ پانی میں حاصل کروں) جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو فرماتے ہیں تو صحابہ کرام اپنی آوازوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پست رکھتے تھے اور انتہائی تعظیم کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا : اے قوم! اﷲ ربّ العزت کی قسم! میں (بڑے بڑے عظیم الشان) بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں، میں قیصر و کسری اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں۔ لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس طرح تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! جب وہ تھوکتے ہیں تو ان کا لعاب دہن کسی نہ کسی شخص کی ہتھیلی پر ہی گرتا ہے، جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو فوراً ان کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے، جب وہ وضو فرماتے ہیں تو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ لوگ وضو کا استعمال شدہ پانی حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جائیں گے وہ ان کی بارگاہ میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، اور غایت تعظیم کے باعث وہ ان کی طرف آنکھ بھر کر دیکھ نہیں سکتے۔

الحديث رقم 51 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الشروط، باب : الشروط في الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب وکتابة، 2 / 974، الرقم : 2581، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 329، وابن حبان في الصحيح، 11 / 216، الرقم : 4872، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 9، الرقم : 13، والبيهقي في السنن الکبري، 9 / 220.
————————————————————————————————————————————————

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقام جمرہ پر کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی کا فریضہ ادا فرما لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا، اس نے بال مبارک مونڈے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو وہ بال عطا فرمائے، اِس کے بعد حجام کے سامنے (سر انور کی) بائیں جانب کی اور فرمایا : یہ بھی مونڈو، اس نے ادھر کے بال مبارک بھی مونڈ دیئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ بال بھی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائے اور فرمایا : یہ بال لوگوں میں تقسیم کر دو۔

الحديث رقم 52 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الحج، باب : بيان أن السنة يوم النحر أن يرمي ثم ينحر ثم يحلق، 2 / 948، الرقم : 1305، والترمذي فيالسنن، کتاب : الحج عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء بأي جانب الرأس يبدأ في الحلق، 3 / 255، الرقم : 912، وأبوداود في السنن، کتاب : المناسک، باب : الحلق والتقصير، 2 / 203، الرقم : 1981، والنسائي في السنن الکبري، 2 / 449، الرقم : 4114، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 111، الرقم : 12113، وابن حبان في الصحيح، 9 / 191، الرقم : 1743، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 299، الرقم : 2928، والحاکم في المستدرک، 1 / 647، الرقم : 1743، وَ قَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
————————————————————————————————————————————————
ُ
حضرت ابن سیرین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حصرت عبیدہ سے کہا : ہمارے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ موئے مبارک ہیں جنہیں ہم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یا حضرت انس کے گھر والوں سے حاصل کیا ہے۔ حضرت عبیدہ نے فرمایا : اگر ان میں سے ایک موئے مبارک بھی میرے پاس ہوتا تو وہ مجھے دنیا (اور جو کچھ اس دنیا میں ہے ان سب) سے کہیں زیادہ محبوب ہوتا۔

الحديث رقم 54 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الوضوء، باب : الماء الذي يغسل به شعرا الإنسان وکان عطاء لا يري، 1 / 75، الرقم : 168، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 67، الرقم : 13188.
————————————————————————————————————————————————

حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ عنھما کے غلام حضرت عبداﷲ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت اسماء رضی اﷲ عنھا نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جبّہ مبارک کے متعلق بتایا اور فرمایا : یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جبّہ مبارک ہے اور پھر انہوں نے ایک جبّہ نکال کر دکھایا جو موٹا دھاری دار کسروانی (کسریٰ کے بادشاہ کی طرف منسوب ہے) جبّہ تھا جس کا گریبان دیباج کا تھا اور اس کے دامنوں پر دیباج کے سنجاف تھے حضرت اسماء رضی اﷲ عنھا نے فرمایا : یہ مبارک جبّہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کے پاس ان کی وفات تک محفوظ رہا، جب ان کی وفات ہوئی تویہ میں نے لے لیا۔ یہی وہ مبارک جبّہ ہے جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہنتے تھے۔ سو ہم اسے دھو کر اس کا پانی بیماروں کو پلاتے ہیں اور اس کے ذریعے شفا طلب کی جاتی ہے۔

الحديث رقم 55 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : اللباس والزينة، باب : تحريم استعمال إناء الذهب والفضة علي الرجال، 3 / 1641، الرقم : 2069، وأبو داود في السنن، کتاب : اللباس، باب : الرخصة في العلم وخيط الحرير، 4 / 49، الرقم : 4054، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 423، الرقم : 4010، وفي شعب الإيمان 5 / 141، الرقم : 6108، وأبو عوانة في المسند، 1 / 230، الرقم : 511، وابن راهويه في المسند، 1 / 133، الرقم : 30.
————————————————————————————————————————————————

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت اُم سُلیم رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کے بچھونے پر سو جاتے جبکہ وہ گھر میں نہیں ہوتی تھیں۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور اُن کے بچھونے پر سو گئے، وہ آئیں تو ان سے کہا گیا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے گھر میں تمہارے بچھونے پر آرام فرما ہیں۔ یہ سن کر وہ (فورًا) گھر آئیں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسینہ مبارک آیا ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ مبارک چمڑے کے بستر پر جمع ہو گیا ہے۔ حضرت اُمّ سُلیم نے اپنی بوتل کھولی اور پسینہ مبارک پونچھ پونچھ کر بوتل میں جمع کرنے لگیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچانک اٹھ بیٹھے اور فرمایا : اے اُمّ سُلیم! کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم اس (پسینہ مبارک) سے اپنے بچوں کے لئے برکت حاصل کریں گے (اور اسے بطور خوشبو استعمال کریں گے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے ٹھیک کیا ہے۔

الحديث رقم 56 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : طيب عرق النبي صلي الله عليه وآله وسلم والتبرک به، 4 / 1815، الرقم : 2331، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 221، الرقم : 1334 / 1339.
————————————————————————————————————————————————

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا جاتا کہ وہ منبر (نبوی) کی وہ جگہ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوتے، اسے اپنے ہاتھ سے چھوتے اور پھر ہاتھ اپنے چہرہ پر مل لیتے۔

قاضي عياض، الشفاء بتعريف حقوق المصطفیٰ، 2 : 620
تميمي، الثقات، 4 : 9، رقم : 1606
ابن سعد، الطبقات الکبری، 1 : 254
ابن قدامه، المغني، 3 : 299
————————————————————————————————————————————————

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قحط پڑ جاتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے : اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برسا دیتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معزز چچا جان کو وسیلہ بناتے ہیں کہ تو ہم پر بارش برسا۔ فرمایا : تو ان پر بارش برسا دی جاتی۔

الحديث رقم 57 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاستسقاء، باب : سُؤَالِ النَّاسِ الإمام الاستسقاء إِذا قَحَطُوا، 1 / 342، الرقم : 964، وفي کتاب : فضائل الصحابة، باب : ذکر العَبَّاسِ بنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ رضي اﷲ عنهما، 3 / 1360، الرقم : 3507، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 337، الرقم : 1421، وابن حبان في الصحيح، 7 / 110، الرقم : 2861، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 49، الرقم : 2437، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 352، الرقم : 6220، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 270، الرقم : 351، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 / 135، الرقم : 87 وابن عبد البر في الاستيعاب، 2 / 814، وابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 4 / 433.
————————————————————————————————————————————————

Leave a Reply

Enable Google Transliteration.(To type in English, press Ctrl+g)