Archive for the ‘تبصرے’ Category

گمراہوں کی صحبت سے بچو کہیں تمہیں گمراہ نہ کردیں

MadinahCity 1950احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں

 

 

 

 

 

 

 

اللہ عزوجل فرماتا ہے:قال عزوجل واماینسینک الشیطن فلاتقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین ۲؎۔ اور اگر شیطان تجھے بھلادے تو یاد آنے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھو۔

 (۲؎ القرآن           ۶/۶۸)

اللہ عزوجل فرماتا ہے:ومن یتولھم منکم فانہ منھم ۲؎ تم میں جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انھیں میں سے ہوگا۔

 (۲؎ القرآن        ۵/۵۱)

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:المرء مع من احب ۳؎۔  رواہ الائمۃ احمد والستۃ الاابن ماجہ عن انس والشیخان عن ابن مسعود واحمد ومسلم عن جابر وابوداؤد عن ابی ذر والترمذی عن صفوان بن عسال وفی الباب  عن علی وابی ھریرۃ وابی موسٰی وغیرھم رضی اﷲ تعالٰی عنھم۔

آدمی کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت رکھتا ہے (اس کو امام محمد نے اور ابن ماجہ کے ماسوا صحاح ستہ کے ائمہ نے روایت کیاہے حضرت انس سے اور بخاری ومسلم نے ابن مسعود سے، احمد ومسلم نے جابر سے، ابوداؤد نے ابوذر سے، اور رترمذی نے صفوان بن عباس سے، اور اس باب میں علی، ابو ھریرہ، ابوموسٰی وغیرہم رضی اللہ تعالٰی عنہم سے بھی روایت ہے۔ ت)

قال اﷲ تعالٰی (اللہ تعالٰی نے فرمایا):لاتلقوا بایدیکم الی التھلکۃ ۴؎۔ اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور بد مذہبی ہلاک حقیقی ہے۔

 (۴؎ القرآن         ۲/۱۹۵)

اور صحبت خصوصاً بدکا اثر پڑجانا احادیث وتجاربِ صحیحہ سے ثابت۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:انما مثل الجلیس الصالح وجلیس السوء کحامل المسک ونافخ الکیر فحامل المسک اما ان یحذیک واماان تبتاع منہ واما ان تجد منہ ریحا طیبۃ ونافخ الکیر اماان یحرق ثیابک واماان تجد منہ ریحا خبیثۃ ۱؎۔  رواہ الشیخان عن ابی موسٰی رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

اچھے اور برے ہمنشین کی کہاوت ایسی ہے جیسے ایک کے پاس مشک ہے اور دوسرا دھونکنی پھونکتا، وہ مشک والایا تجھے مفت دے گا یا تو اس سے مول لے گا۔ اور کچھ نہیں تو خوشبو ضرور آئے گی، اور دھونکنی والا تیرے کپڑے جلادے گا یا تجھے اس سے بد بو آئے گی، (اسے شیخین (امام بخاری و مسلم) نے ابو موسٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

(۱؎ صحیح بخاری        باب المسک            قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/۸۳۰)

(۳؎ سنن ابوداؤد    کتاب الادب                آفتاب عالم پریس لاہور    ۲/۳۴۳)

دوسری حدیث میں فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:مثل جلیس السوء کمثل صاحب الکیران لم یصبک من سوادہ اصابک من دخانہ ۲؎۔  رواہ ابوداؤد والنسائی عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

برا ہمنشین دھونکنے والے کی مانند ہے تجھے اس کی سیاہی نہ پہنچے تو دھواں تو پہنچے گا۔ (اس کو ابوداؤد اور نسائی نے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 (۲؎ سنن ابوداؤد    باب من یومران یجالس        آفتاب عالم پریس لاہور    ۲/۳۰۸)

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:ایاکم وایاھم لایضلونکم ولا یفتنونکم ۴؎۔ رواہ مسلم عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ۔ان سے دور رہو اور انھیں اپنے سے دور کرو کہیں وہ تمھیں گمراہ نہ کردیں وہ تمھیں فتنہ میں نہ ڈال دیں اسے مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔

 ( ۴؎ صحیح مسلم        باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء الخ     مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی    ۱/۱۰ )

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:اتخذالناس رؤسا جھالا فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا واضلوا۳؎  رواہ الائمۃ احمد والبخاری ومسلم والترمذی و ابن ماجۃ عن عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہمالوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے اور ان سے مسئلہ پوچھیں گے وہ بے علم فتوٰی دیں گے آپ بھی گمراہ ہوئے اوروں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ اس کو ائمہ کرام احمد بخاری ،مسلم ،ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔

 (صحیح البخاری        باب الحرص علی الحدیث         مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۰)

(صحیح مسلم         باب رفع العلم وقبضہ الخ         مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی    ۲/۳۴۰)

(جامع الترمذی     باب ماجاء فی الاستیصاء بمن یطلب العلم     مطبوعہ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی    ۲/۹۰)

ایسے لوگوں کے  پاس بیٹھنا جائز نہیں۔ حدیث میں ہے :ایاکم وایاھم لایضلونکم ولایفتنونکم ۳؎ ۔ ان سے دور  رہو اور ان کو اپنے سے دور رکھو کہیں وہ تم کو گمراہ نہ کردیں اور فتنے میں نہ ڈال دیں (ت)

 (۳؎ صحیح مسلم        باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء الخ        قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ /۱۰)

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ضلع اعظم گڑھ کے قریب وجوار یہ رسم قدیم میّت کے ایصال ثواب کے واسطے جاری تھی کہ ورثاء میّت چہلم تک قرآن خوانی کراتے تھے اور بعد اختتام میعاد قرآن خوانی کی اجرت بصورت نقد و پارچہ اور اشارے قرآن خوانی میں کھانا دیاکرتے تھے، اب چند لوگوں ہندوستانی مدرسے سے تعلیم پا کر اسی ضلع میں آئے اور ہم لوگوں کے طریقہ مستمر ایصال ثواب کو ممنوع وناجائز کہتے اور فعل عبث قرار دیتے ہیں، پس علمائے اہلسنت وجماعت سے استدعا ہے کہ طریقہ مروجہ ایصال ثواب عند الشرع جائز ودرست ہے یا ممنوع، اور میّت کو ثواب قرآن خوانی وکھانا وغیرہ کا ملتا ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا

الجواب

گندے عقیدہ والوں کی نسبت علمائے کرام حرمین شریفین نے بالا تفاق تحریر فرمایا ہے کہ یہ لوگ اسلام سے خارج ہیں، اور فرمایا:من شک فی عذابہ وکفرہ وفقد کفر ۱؎ جو ان کے کافر ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ ان کی کوئی بات نہ سنی جائے نہ ان کی کسی بات پر عمل کیا جائے جب تک اپنے علماء سے تحقیق نہ کرلیں۔

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:وایاکم وایاھم لایضلونکم ولایفتونکم ۲؎۔ ان سے دور بھاگو اور انھیں اپنے سے دور کریں۔ کہیں وہ تم کو گمراہ نہ کردیں کہیں وہ تم کو فتنہ میں نہ ڈال دیں۔

 (۱؎ درمختار        باب المرتد            مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۳۵۶)

(۲؎ مشکوٰۃ        باب الاعتصام بالکتاب    فصل اول    مطبع مجتبائی دہلی    ص۲۸)

اور ان کا بتایا ہوا کوئی مسئلہ اگر صحیح بھی نکلے توا س سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ عالم ہیں، یا ان کے اور مسائل بھی صحیح ہوں گے۔ دنیا میں کوئی ایسا فرقہ نہیں جس کی کوئی نہ کوئی بات صحیح نہ ہو، مثلاً یہود ونصارٰی کی یہ بات صحیح ہے کہ موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نبی ہیں۔ کیا اس سے یہودی اور نصرانی سچے ہوسکتے ہیں، رسول اللہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:الکذوب قد یصدق ۳؎ بڑا جھوٹا بھی کبھی سچ بولتا ہے،

(۳؂مجمع بحار الانوار    تحت لفظ صدق        نولکشور لکھنؤ        ۲ /۲۳۹)

وہابی تو اموات مسلمین کو ثواب پہنچانے ہی سے جلتے ہیں، فاتحہ، سوم،دہم، چہلم سب کو حرام کہتے ہیں، یہ سب باتیں جائز ہیں، میّت کو قرآن خوانی وطعام دونوں کا ثواب پہنچتا ہے، تیجے وچالیسویں وغیر کا تعین عرفی ہے جس سے ثواب میں خلل نہیں آتا، ہاں قرآن خوانی پر اُجرت لینا دینا منع ہے، اس کا طریقہ یہ کیا جائے کہ حافظ کو مثلاًچالیس دن کے لیے نو کر رکھ لیں کہ جو چاہیں کام لیں گے اور یہ تنخواہ دیں گے، پھراس سے قبر پر پڑھنے کا کام لیاجائے، اب یہ اجرت بلاشبہہ جائزہے کہ اس وقت کے مقابل ہے نہ کہ تلاوت قرآن کے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

پانچویں حدیث میں ہے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ایاک وقرین السوء فانک بہ تعرف ۱؎۔ رواہ ابن عساکر عن انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

برے ہمنشین سے دور بھاگ کہ تو اسی کے ساتھ مشہور ہوگا(اس کو ابن عساکر نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 ( ۱؎ کنزالعمال        بحوالہ ابن عساکر حدیث۲۴۸۴۴    مکتبۃ التراث الاسلامی حلب    ۹/۴۳)

مولٰی علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:ماشئی ادل علی الشئی ولاالدخان علی النار من الصاحب علی الصاحب ۲؎۔  ذکرہ التیسیر۔

کوئی چیز دوسری پر اور نہ دھواں آگ پر اس سے زیادہ دلالت کرتا ہے جس قدر ایک ہمنشین دوسرے پر (اس کو تیسیر میں ذکر کیا گیا۔ ت)

 (۲؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر    حدیث ماقبل کے تحت        مکتبۃ امام شافعی الریاض السعودیہ    ۱/۴۰۲)

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:رویدک یاانجشہ بالقواریر ۴؎ (اے انجشہ! آبگینوں کو بچا کر رکھو۔ ت)

(۴؎ صحیح بخاری     با ب المعاریض مندوحۃ عن الکذب الخ    قدیمی کتب خانہ کراچی        ۲/۹۱۷)

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:حبک الشئی یعمی ویصم ۵؎۔ رواہ احمد والبخاری فی التاریخ وابوداؤد عن ابی الدرداء وابن عساکر بسند حسن عن عبداﷲ بن انیس والخرائطی فی الاعتلال عن ابی برزۃ الاسلمی رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔

محبت اندھا بہرا کردیتی ہے (اسے احمد وبخاری نے اپنی تاریخ میں اور ابوداؤد نے ابودرداء سے،ا ور ابن عساکر نے سند حسن کے ساتھ عبداللہ بن انیس سے اور خرائطی نے اعتلال میں ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا ہے۔ ت)

(۵؎ سنن ابو داؤد    کتاب الادب باب فی الہوٰی    آفتاب عالم پریس لاہور        ۲/۳۴۳)

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:الرجل علی دین خلیلہ فلینظر احد کم من یخالل ۱؎۔ رواہ ابوداؤد والترمذی عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔

آدمی اپنے محبوب کے دین پر ہوتا ہے تو دیکھ بھال کر کسی سے دوستی کرو (اسے ابوداؤد اور ترمذی نے سند حسن کے ساتھ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 (۱؎ سنن ابوداؤد        کتاب الادب باب من یومران یجالس    آفتاب عالم پریس لاہور    ۲/۳۰۸)

مسلمانو! اللہ عزوجل عافیت بخشے دل پلٹتے خیال بدلتے کیا کچھ دیر لگتی ہے قلب کہتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ منقلب ہوتاہے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:مثل القلب مثل الریشۃ تقلبھا الریاح بفلاۃ ۲؎۔ رواہ ابن ماجۃ عن ابی موسٰی الاشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

دل کی حالت اس پر کی طرح ہے کہ میدان میں پڑاہو اور ہوائیں اسے پلٹے دے رہی ہوں۔ (اس کو ابن ماجہ نے ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)

 (۲؎ سنن ابن ماجہ    باب فی القدر   ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۰)

متعدد حدیثوں میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان علی ھدم الاسلام ۱؎۔ رواہ ابن عدی وابن عساکر عن ام المومنین الصدیقہ والحسن بن سفیان فی مسندہ وابونعیم فی الحلیۃ عن معاذ بن جبل والسجزی فی الابانۃ عن ابن عمر وکابن عدی عن ابن عباس والطبرانی فی الکبیر وابونعیم فی الحلیۃ عن عبداﷲ بن بسر والبیھقی فی شعب الایمان عن ابراھیم بن میسرۃ التابعی المکی الثقۃ مرسلا فالصواب ان الحدیث حسن بطرقہ۔

جس نے کسی بد مذہب کی توقیر کی اس نے اسلام کے ڈھانے میں مدد کی (اس کوابن عدی اور ابن عساکر نے ام المومنین عائشہ صدیقہ اور حسن بن سفیان نے اپنی مسند میں اور ابو نعیم نے حلیہ میں معاذ بن جبل سے اور سجزی نے ابانۃ میں ابن عمر سے اور ابن عدی نے ابن عباس سے اور طبرانی نے کبیر میں اور ابونعیم نے حلیہ میں عبداللہ بن بسر اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابراہیم بن میسرہ تابعی مکی سے مرسل طورپر روایت کیاہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ اپنے طرق پر یہ حدیث حسن ہے۔ ت)

 ( ۱؎ شعب الایمان    حدیث نمبر ۹۴۶۴    دارالکتب العلمیہ بیروت        ۷/۶۱)

علمائے کرام تصریح فرماتے ہیں کہ مبتدع تو مبتدع فاسق بھی شرعا واجب الاہانۃ ہے اور اس کی تعظیم ناجائز، علامہ حسن شرنبلالی مراقی الفلاح میں فرماتے ہیں:الفاسق العالم تجب اھانتہ شرعا فلایعظم۔ ۲؎

فاسق عالم کی شرعا توہین ضروری ہے اس لیے ا س کی تعظیم نہ کی جائے۔ (ت)

 (۲؎ مراقی الفلاح    فصل فی بیان الاحق بالامامۃ    نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص۱۶۵)

امام علامہ فخر الدین زیلعی تبیین الحقائق، پھر علامہ سید ابوالسعود ازہری فتح المعین، پھر علامہ سید احمد مصری حاشیہ درمختار میں فرماتے ہیں:قد وجب علیھم اھانتہ شرعا ۱؎۔

ان پر اس کی اہانت ضروری ہے۔ (ت)

 (۱؎ طحطاوی علی الدرالمختار    باب الامامۃ        دارالمعرفۃ بیروت        ۱/۲۴۳)

علامہ محقق سعد الملۃ والدین تفتازانی مقاصد وشرح مقاصد میں فرماتے ہیں:حکم المبتدع البغض والعداوۃ والاعراض عنہ والاھانۃ والطعن واللعن ۲؎۔

بد مذہب کے لیے حکم شرعی یہ ہے کہ اس سے بغض و عداوت رکھیں، روگردانی کریں، اس کی تذلیل وتحقیر بجالائیں۔ اس سے طعن کے ساتھ پیش آئیں۔

 (۲؎ شرح مقاصد    المبحث الثامن حکم المومن    دارالمعارف النعمانیہ لاہور        ۲/۲۷۰)

اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:لاتقولوا للمنافق یاسید فانہ ان یکن سیدا فقدا سخطتم ربکم عزوجل ۵؎۔ رواہ ابوداؤد و النسائی بسند صحیح عن بریدۃ بن الحصیب رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

منافق کو ”اے سردار” کہہ کر نہ پکارو کہ اگر وہ تمھارا سردار ہو تو بیشک تم نے اپنے رب عزوجل کو ناراض کیا۔ (اس کو ابوداؤد اور نسائی نے صحیح سند کے ساتھ بریدہ بن حصیب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)

(۵؎ سنن ابی داؤد    کتاب الادب    آفتاب عالم پریس لاہور        ۲/۳۲۴)

حاکم نے صحیح مستدرک میں بافادہ تصحیح اور بیہقی نے شعب الایمان میں ان لفظوں سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:اذا قال الرجل للمنافق یاسید فقد اغضب ربہ ۱؎۔

جو شخص کسی منافق کو ”سردار” کہہ کر پکارے وہ اپنے رب عزوجل کے غضب میں پڑے۔

 (۱؎ مستدرک للحاکم    کتاب الرقاق            دارالفکربیروت    ۴/۳۱۱)

(شعب الایمان    حدیث ۴۸۸۴            دارالکتب العلمیہ بیروت    ۴/۲۳۰)

امام حافظ الحدیث عبدالعظیم زکی الدین نے کتاب الترغیب والترھیب میں ایک باب وضع کیا :الترھیب من قولہ لفاسق او مبتدع یاسیدی، اونحوھا من الکلمات الدالۃ علی التعظیم ۲؎۔

یعنی ان حدیثوں کا بیان جن میں کسی فاسق یابدمذہب کو ”اے میرے سردار” یا کوئی کلمہ تعظیم کہنے سے ڈرانا۔

 (۲؎ الترغیب والترھیب    الترھیب من قولہ لفاسق او مبتدع یاسیدی الخ    مصطفی البابی مصر    ۳/۵۷۹)

امام دارقطنی کی روایت یوں ہے:حدثنا القاضی الحسین بن اسمٰعیل نامحمد بن عبداﷲ المخرمی نا اسمعیل بن ابان نا حفص بن غیاث عن الاعمش عن ابی غالب عن ابی امامۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اھل البدع کلاب اھل النار ۳؎۔

 (قاضی حسین بن اسمعیل نے محمد بن عبداللہ مخرمی سے انھوں نے اسمعیل بن ابان سے انھوں نے حفص بن غیاث سے انھوں نے اعمش سے انھوں نے ابو غالب سے انھوں نے ابوامامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث بیان کی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا) بد مذہب لوگ دوزخیوں کے کتے ہیں،

 (۳؎ کنزا لعمال     بحوالہ قط فی الافراد عن ابی امامہ      حدیث۱۱۲۵                 موسسۃ الرسالۃ بیروت    ۱/۲۲۳)

ابو نعیم حلیہ میں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:اھل البدع شرالخلق والخلیقۃ ۱؎۔

بدمذہب لوگ سب آدمیوں سے بدتر اورسب جانوروں سے بدتر ہیں۔

 (۱؎ حلیۃ الاولیا        ترجمہ ابومسعود موصلی    دارالکتاب العربی بیروت        ۸/۲۹۱)

علامہ مناوی نے تیسیر میں فرمایا:الخلق الناس والخلیقۃ البھائم ۲؎۔

خلق سے مراد لو گ اور خلیقہ سے مراد جانور ہیں۔ (ت)

 (۲؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر    تحت حدیث ماقبل    مکتبہ امام شافعی الریاض سعودیہ    ۱/۳۸۳)

لاجر م حدیث میں ان کی مناکحت سے ممانعت فرمائی، عقیلی وابن حبان حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:لاتجالسوھم، ولاتشاربوھم، ولاتؤاکلوھم ولاتناکحوھم ۳؎۔

بدمذہبوں کے پاس نہ بیٹھو، ان کے ساتھ پانی نہ پیو، نہ کھانا کھاؤ، ان سے شادی بیاہ نہ کرو۔

 (۳؎ الضعفاء الکبیر للعقیلی    حدیث ۱۵۳        دارالکتب العلمیہ بیروت        ۱/۱۲۶)

بہتر یہ ہے کہ بلاضرورت ان سے نکاح نہ کرے اور نہ ذبیحہ کھائے۔ (ت)

 (۴؎ فتح القدیر        فصل فی بیان المحرمات    نوریہ رضویہ سکھر        ۳/۱۳۵)

الم احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا اٰمنّا وھم لایفتنون ۱؎۔ کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اس زبانی کہہ دینے پرچھوڑدئے جائیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اوران کی آزمائش نہ ہوگی۔

 (۱؎ القرآن الکریم        ۲۹/۲)

لاالٰہ الااﷲ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم، وحسبنا اﷲ ونعم الوکیل ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم۔

اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ا ورحضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالٰی ہمیں کافی ہے اور وہ اچھا وکیل ہے کوئی حرکت اور کوئی قوت اللہ تعالٰی عظیم وبلند کی مشیت کے بغیر نہیں ہے۔ (ت)

بہت اچھا جو صاحب مشتبہ الحال وہابیت سے انکار فرمائیں امور ذیل پر دستخط فرماتے جائیں؂

کھوٹے کھرے کا پردہ کھل جائے گا چلن میں

(۱) مذہب وہابیہ ضلالت وگمراہی ہے۔

(۲) پیشوایان وہابیہ مثل ابن عبدالوہاب نجدی واسمعیل دہلوی ونذیر حسین دہلوی وصدیق حسن بھوپالی اور دیگر چھٹ بھیے آروی بٹالی پنجابی بنگالی سب گمراہ بد دین ہیں۔

(۳) تقویۃ الایمان وصراط مستقیم ورسالہ یکروزی وتنویرالعینین تصانیف اسمعیل اور ان کے سوا دہلوی و بھوپالی وغیرہما وہابیہ کی جتنی تصنیفیں ہیں صریح ضلالتوں گمراہیوں اور کلمات کفریہ پر مشتمل ہیں۔

(۴) تقلید ائمہ فرض قطعی ہے بے حصول منصب اجتہاد اس سے روگردانی بددین کا کام ہے، غیر مقلدین مذکورین اور ان کے اتباع واذناب کہ ہندوستان میں نامقلدی کا بیڑا اٹھائے ہیں محض سفیہان نامشخص ہیں ان کا تارک تقلید ہونا اوردوسرے جاہلوں اور اپنے سے اجہلوں کو ترک تقلید کا اغوا کرنا صریح گمراہی وگمراہ گری ہے۔

(۵) مذاہب اربعہ اہلسنت سب رشد وہدایت ہیں جو ان میں سے جس کی پیروی کرے اور عمر بھر اس کا پیرو رہے، کبھی کسی مسئلہ میں اس کے خلاف نہ چلے، وہ ضرور صراط مسقیم پرہے، اس پرشرعاً الزام نہیں ان میں سے ہر مذہب انسان کے لیے نجات کوکافی ہے تقلید شخصی کو شرک یا حرام ماننے والے گمراہ ضالین متبع غیر سبیل المومنین ہیں۔

(۶) متعلقات انبیاء واولیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء مثل استعانت وندا وعلم وتصرف بعطائے خدا وغیرہ مسائل متعلقہ اموات واحیا میں نجدی ودہلوی اور ان کے اذناب  نےجو احکام شرک گھڑے اورعامہ مسلمین پر بلاوجہ ایسے ناپاک حکم جڑے یہ ان گمراہوں کی خباثت مذہب اور اس کے سبب انھیں استحقاق عذاب وغضب ہے۔

(۷) زمانہ کو کسی چیز کی تحسین وتقبیح میں کچھ دخل نہیں، امر محمود جب واقع ہو محمود ہے اگرچہ قرون لاحقہ میں ہو، اور مذموم جب صادر ہو مذموم ہے اگرچہ ازمنہ سابقہ میں ہو، بدعت مذ مومہ صرف وہ ہے جو سنت ثابتہ کے ردوخلاف پر پید ا کی گئی ہو، جواز کے واسطے صرف اتنا کافی ہے کہ خدا ورسول نے منع نہ فرمایا، کسی چیز کی ممانعت قرآن وحدیث میں نہ ہو تو اسے منع کرنے والا خود حاکم وشارع بننا چاہتا ہے۔

(۸) علمائے حرمین طیبین نے جتنے فتاوے ورسائل مثل الدرر السنیہ فی الردعلی الوہابیہ وغیرہا رد وہابیہ میں تالیف فرمائے سب حق وہدایت ہیں اور ان کا خلاف باطل وضلالت۔

حضرات! یہ جنت سنت کے آٹھ باب ہادی حق وصواب ہیں، جو صاحب بے پھیرپھار بے حیلہ انکار بکشادہ پیشانی ان پردستخط فرمائیں تو ہم ضرور مان لیں گے کہ وہ ہر گز وہابی نہیں، ورنہ ہر ذی عقل پر روشن ہوجائیگا کہ منکر صاحبوں کا وہابیت سے انکار نرا حیلہ ہی حیلہ تھا، مسمے پر جمنا اور اسم سے رمنا، اس کے کیا معنی ؎

منکر می بودن ودر رنگ مستان زیستن

(منکر ہونا اور مستیوں کے رنگ میں جینا۔ ت)

واﷲ یھدی من یشاء الٰی صراط مستقیم ۱؎ (اللہ تعالٰی جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرماتا ہے۔ ت)

 (۱؎ القرآن الکریم        ۲/۲۱۳)

الحمد ﷲ کہ یہ مختصر بیان تصدیق مظہر حق وحقیق اوائل عشرہ اخیرہ ماہ مبارک ربیع الاول شریف سے چند جلسوں میں بدرسمائے تمام اوربلحاظ تاریخ ”ازالۃ العار بحجر الکرائم عن کلاب النار” نام ہوا، و صلی اﷲ تعالٰی علٰی سیدناومولٰنا محمد واٰلہ واصحابہ اجمعین والحمد ﷲ رب العالمین۔

علمِ غیب کا بیان ۔ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم غیب کی خبریں بتانے والے

بسم اﷲ الرحمن الرحیم ط

 islamic-images4

حضرت علمائے کرام اہلسنت کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ میں کہ زید (عہ)دعوٰی کرتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم   کو حق تعالٰی نے علم غیب عطا فرمایا ہے،  دنیا میں جو کچھ ہوا اور ہوگا حتی کہ بدئ الخلق سے لے کر دوزخ و جنت میں داخل ہونے تک کا تمام حال اور اپنی امت کا خیر و شر تفصیل سے جانتے ہیں۔ اور جمیع اولین و آخرین کو اس طرح ملاحظہ فرماتے ہیں جس طرح اپنے کفِ دست مبارک کو،  اور اس دعوے کے ثبوت میں آیات و احادیث و اقوالِ علماء پیش کرتا ہے۔

 

 ( عہ :  زید سے مراد جناب مولانا ہدایت رسول صاحب لکھنوی مرحوم ہیں )

 

بکر اس عقیدے کو کفر و شرک کہتا ہے اور بکمال درشتی دعوٰی کرتا ہے کہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کچھ نہیں جانتے،  حتی کہ آپ کو اپنے خاتمے کا حال بھی معلوم نہ تھا،  او ر اپنے اس دعوے کے اثبات میں کتاب تقویۃ الایمان کی عبارتیں پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ رسول اﷲ   صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کی نسبت یہ عقیدہ کہ آپ کو علمِ ذاتی تھا خواہ یہ کہ خدا نے عطا فرمادیا تھا۔ دونوں طرح شرک ہے۔

 

اب علمائے ربانی کی جناب میں التماس ہے کہ ان دونوں سے کون برسرِ حق موافق   عقیدہ سلف صالح ہے اور کون بدمذہب جہنمی ہے،  نیز عمرو کا دعوٰی ہے کہ شیطان کا علم معاذ اﷲ حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علم سے زیادہ ہے۔ اس کا گنگوہی مرشد اپنی کتاب براھین قاطعہ کے صفحہ ۴۷ پر یوں لکھتا ہے کہ ”  شیطان کو وسعتِ علم نص سے ثابت ہوئی فخر عالم کی وسعتِ علم کی کون سی نصف قطعی ہے۔۱ ؎ ۔

 ( ۱ ؎ البراہین القاطعہ         بحث علمِ غیب    مطبع لے بلاسا واقع ڈھور ص ۵۱)

 

 

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللھم لک الحمد سرمداً صل وسلم وبارک علٰی من علمتہ الغیب و نزھتہ من کل عیب وعلی اٰلہ وصحبہ ابداً رب انی اعوذ بک من ھمزات الشیاطین واعوذبک رب ان یحضرون

 

اے اﷲ تمام تعریفیں ہمیشہ ہمیشہ تیرے لیے ہیں،  درود و سلام اور برکت نازل فرما اس پر جس کو تو نے غیب کا علم عطا فرمایا ہے اور اس کو ہر عیب سے پاک بنایا ہے اور اس کی آل و اصحاب پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ اے میرے پرورگار ! تیری پناہ شاطین کے وسوسوں سے،  اور اے میرے پروردگار ! تیری پناہ کہ وہ میرے پاس آئیں۔(ت)

زید کا قول حق و صحیح اور بکر کا زعم مردود و قبیح ہے۔ بے شک حضرت عزت عزت عظمۃ نے اپنے حبیب اکرم   صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کو تمامی اولین و آخرین کا علم عطا فرمایا۔ شرق تا غرب ،  عرش تا فرش سب انہیں دکھایا۔ملکوت السموت والارضکا شاہد بنایا،  روزِ اول سے روزِ آخر تک سبماکان ومایکونانہیں بتایا،  اشیائے مذکورہ سے کوئی ذرہ حضور کے علم سے باہر نہ رہا۔ علم عظیم حبیب کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم ان سب کو محیط ہوا۔ نہ صرف اجمالاً بلکہ صغیر و کبیر،  ہر رطب و یابس،  جو پتّہ گرتا ہے،  زمین کی اندھیریوں میں جو دانہ کہی پڑا ہے سب کو جدا جدا تفصیلاً جان لیا،  ﷲ الحمد کثیراً۔ بلکہ یہ جو کچھ بیان ہوا ہرگز ہرگز محمد رسول اﷲ کا پورا علم نہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وصحبہ اجمعین و کّرم ،  بلکہ علم حضور سے ایک چھوٹا حصہ ہے،  ہنوز احاطہ علم محمدی میں وہ ہزار دو ہزار بے حد و کنار سمندر لہرا رہے ہیں جن کی حقیقت کو وہ خود جانیں یا ان کا عطا کرنے والا ان کامالک و مولٰی جل و علا الحمد ﷲ العلی الاعلٰی۔

 

کُتب حدیث و تصانیف علمائے قدیم و حدیث میں اس کے دلائل کا بسط شافی اور بیان وافی ہے اور اگر کچھ نہ ہو تو بحمداﷲ قرآن عظیم خود شاہد عدل و حکم فصل ہے۔

 

آیاتِ قُرآنی

 

قال اﷲ تعالٰی (اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) :ونزلنا علیک الکتٰب تبیاناً لکل شیئ وھدی ورحمۃ وبشرٰی للمسلمین” ۱ ؎۔ اتاری ہم نے تم پر کتاب جو ہر چیز کا روشن بیان ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت و رحمت و بشارت۔

 (۱ ؎ القرآن الکریم         ۱۶ /۸۹)

 

قال اﷲ تعالٰی (اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) :ماکان حدیثا یفترٰی ولکن تصدیق الذی بین یدیہ وتفصیل کل شیئ ” ۲ ؎۔ قرآن وہ بات نہیں جو بنائی جائے بلکہ اگلی کتابوں کی تصدیق ہے اور ہر شے کا صاف جدا جدا بیان ہے۔

 (۲ ؎ القرآن الکریم         ۱۳ /۱۱۱)

 

وقال اﷲ تعالٰی ( اﷲ تعالٰی نے فرمایا۔ت) :مافرطنا فی الکتب من شیئ ۳ ؎۔ ہم نے کتاب میں کوئی شے اٹھا نہیں رکھی۔

 

 (۳ ؎ القرآن الکریم         ۶/  ۳۸)

 

اقول : وباﷲ التوفیق ( میں کہتا ہوں اﷲ تعالٰی کی توفیق کے ساتھ۔ت) جب فرقان مجید میں ہر شے کا بیان ہے اور بیان بھی کیسا ،  روشن اور روشن بھی کس درجہ کا،  مفصل ،  اور اہلسنت کے مذہب میں شے ہر موجود کو کہتے ہیں،  تو عرش تا فرش تمام کائنات جملہ موجودات اس بیان کے احاطے میں داخل ہوئے اور منجملہ موجودات کتابت لوحِ محفوظ بھی ہے تابالضرورت یہ بیانات محیط،  اس کے مکتوب بھی بالتفصیل شامل ہوئے۔ اب یہ بھی قرآن عظیم سے ہی پوچھ دیکھئے کہ لوحِ محفوظ میں کیا لکھا ہے۔

 

قال اﷲ تعالٰی” (اﷲ تعالٰی نے فرمایا۔ت) :وکل صغیر وکبیر مستطر ۴ ؎ ہرچھوٹی بڑی چیز لکھی ہوئی ہے۔

 

 (۴ ؎القرآن الکریم         ۵۴ /۵۳)

 

وقال اﷲ تعالٰی ” ( اور اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) :”  وکل شیئ احصینٰہ فی امام مبین ” ۱ ؎ ۔ ہر شَے ہم نے ایک روشن پیشوا میں جمع فرمادی ہے۔

 

 (۱ ؎ القرآن الکریم         ۳۶ /۱۲)

 

وقال اﷲ تعالٰیاور اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) :“ولا حبّۃ فی ظلمٰت الارض ولارطب ولایا بس الا فی کتٰب مبین ” ۲ ؎ ۔ کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک مگر یہ کہ سب ایک روشن کتاب میں لکھا ہے۔

 

 ( ۲ ؎ القرآن الکریم         ۶/ ۵۹)

 

اور اصول میں مبرہن ہوچکا کہ نکرہ حیز نفی میں مفید عموم ہے اور لفظ کُل تو ایسا عام ہے کہ کبھی خاص ہو کر مستعمل ہی نہیں ہوتا اور عام افادہ استغراق میں قطعی ہے،  اور نصوص ہمیشہ ظاہر پر محمول رہیں گی۔ بے دلیل شرعی تخصیص و تاویل کی اجازت نہیں۔ ورنہ شریعت سے امان اٹھ جائے،  نہ احادیث احاد اگرچہ کیسے ہی اعلٰی درجے کی ہوں ،  عمومِ قرآن کی تخصیص کرسکیں بلکہ اس کے حضور مضمحل ہوجائیں گی بلکہ تخصیص متراخی نسخ ہے اور اخبار کا نسخ ناممکن اور تخصیص عقلی عام کو قطعیت سے نازل نہیں کرتی نہ اس کے اعتماد پر کسی ظنی سے تخصیص ہوسکے تو بحمد اﷲ تعالٰی کیسے نص صحیح قطعی سے روشن ہوا کہ ہمارے حضور صاحبِ قرآن   صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم   کو اﷲ عزوجل نے تمام موجودات جملہ ماکان ومایکون الٰی یوم القیمۃ جمیع مندرجاتِ لوح محفوظ کا علم دیا اور شرق و غرب و سماء و ارض و عرش فرش میں کوئی ذرہ حضور کے علم سے باہر نہ رہا ۔وﷲ الحجۃ الساطعۃاور جب کہ یہ علم قران عظیم کےتبیانا لکل شیئ ۳؂۔ ( ہر چیز کا روشن بیان ۔ت) ہونے نے دیا،

 

 (۳ ؎ القرآن الکریم         ۱۶ /۸۹)

 

 اور پُر ظاہر کہ یہ وصف تمام کلام مجید کا ہے،  نہ ہر آیت یا سورت کا،  تو نزول جمیع قرآن شریف سے پہلے اگر بعض انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی نسبت ارشاد ہو”  لم نقصص علیک ” ۴ ؎۔ ( ان کا قصّہ ہم نے آ پ پر بیان نہیں کیا۔ت) یا منافقین کے با ب میں فرمایا جائے  :لاتعلمھم ۵ ؎۔ (آپ ان کو نہیں جانتے۔ت) ہر گز ان آیات کے منافی اور علمِ مصطفوی کا نافی نہیں۔

 

 (۴ ؎ القرآن الکریم    ۴۰/ ۷۸)   (۵ ؎ القرآن الکریم       ۹ /۱۰۱)

 

الحمدﷲ جس قدر قصص و روایات و اخبار و حکایاتِ علم عظیم محمد رسول اﷲ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کے گھٹانے کو آیاتِ قطعیہ قرآنیہ میں پیش کی جاتی ہیں ان سب کا جواب انہیں دو فقروں میں ہوگیا ہے دو حال سے خالی نہیں،  یا تو ان قصص سے تاریخ معلوم ہوگی یا نہیں،  اگر نہیں تو ان سے استدلال درست نہیں کہ جب تاریخ مجہول تو ان کا تمامی نزولِ قرآن سے پہلے ہونا صاف معقول اور اگر ہاں تو دو حال سے خالی نہیں یا وہ تاریخ تمامی نزول سے پہلے کی ہوگی یا بعد کی،

 

پہلی صورت میں استدلال کرنا درست نہیں،  برتقدیر ثانی اگر مدعائے مخالف میں نص صریح نہ ہو تو استناد محض خرط القتاد،  مخالفین جو پیش کرتے ہیں سب انہیں اقسام کی ہیں۔ ان آیات  کے خلاف پر اصلاً ایک دلیل صحیح صریح قطعی الافادہ نہیں دکھا سکتے،  اور اگر بفرض غلط تسلیم ہی کرلیں تو ایک یہی جواب جامع و نافع و نافی و قامع سب کے لیے شافی و کافی ،  کہ عموم آیاتِ قطعیہ قرآنیہ کی مخالفت میں اخبار احاد سے استناد محض غلط ہے۔ اس مطلب پر تصریحاتِ آئمہ اصول سے احتجاج کروں اس سے یہی بہتر ہے کہ خود مخالفین کے بزرگوں کی شہادت پیش کروں۔ع

مدعی لاکھ پرہ بھاری ہے گواہی تیری

 

نصوص قطعیہ قرآن عظیم کے خلاف پر احادیث احاد کا سُنا جانا بالائے طاق،  یہ بزرگوار صاف تصریح کرتے ہیں کہ یہاں خبر واحد سے استدلال ہی جائز نہیں،  نہ اصلاً اس پر التفات ہوسکے،  اسی براہن قاطعہ ما امر اﷲ بہ ان یوصل میں اسی مسئلہ علم غیب کی تقریریوں لکھتے ہیں : ” عقائد مسائل قیاسی نہیں کہ قیاس سے ثابت ہوجائیں ،  بلکہ قطعی ہیں،  قطعیات نصوص سے ثابت ہوتے ہیں کہ خبرِ واحد یہاں بھی مفید نہیں،  لہذا اس کا اثبات اس وقت قابلِ التفات ہو کہ قطعیات سے اس کو ثابت کرے۔” ۱ ؎۔

 

 (۱ ؎ البراہین القاطعہ         بحث علم   غیب        مطبع لے بلاسا واقع ڈھور                     ص۵۱)

 

نیز صفحہ ۸۱ پر لکھا: ” اعتقادات میں قطعیات کا اعتبار ہوتا ہے،  نہ ظنیاتِ صحاح کا۔۲ ؎۔

صفحہ ۸۷ پر ہے: ” احاد صحاح بھی معتبرنہیں،  چنانچہ فنِ اصول میں مبرہن ہے۔” ۳ ؎۔

 

 (۲ ؎ البراہین القاطعہ     شب جمعہ میں ارواح کے اپنے گھر آنے کے اثبات میں روایات سب مخدوش ہیں        ص۸۹)

 (۳ ؎ البراہین القاطعہ  مسئلہ فاتحہ اعتقادیہ ہے اس میں ضعاف کیا احادِ صحاح بھی قابلِ اعتماد نہیں ص ۹۶)

 

الحمدُ ﷲ تمام مخالفین کو دعوتِ عام ہے”  فاجمعوا شرکاء کم ” (اپنے شرکاء کو جمع کرلو۔ت) چھوٹے بڑے سب اکٹھے ہو کر ایک آیت قطعی الدلالۃ یا ایک حدیث متواتر یقینی الافادہ چھانٹ لائیں جس سے صاف صریح طور پر ثابت ہو کہ تمام نزولِ قرآن عظیم کے بعد بھی اشیائے مذکورہ ماکان ومایکون سے فلاں امر حضور اقدس  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  پر مخفی رہا جس کا علم حضور کو دیا ہی نہ گیا۔

 

فان لم تفعلواولن تفعلوا  ۱؂ فاعلموا ان اﷲ لایھدی کیدالخائنین۲ ؎ ۔ اگر ایسی نص نہ لاسکو اور ہم کہے دیتے ہیں کہ ہر گز نہ کرسکو گے،  تو خوب جان لو کہ اﷲ راہ نہیں دیتا دغا بازوں کے مکر کو۔

 

 (۱ ؎القرآن الکریم          ۲/ ۲۴)      (۲ ؎ القرآن الکریم       ۱۲ /۵۲)

 

والحمدﷲ رب العالمین (اور سب تعریفیں اﷲ کے لیے ہیں جو پروردگار ہے تمام جہانوں کا۔ت) یہی مولوی رشید احمد صاحب پھر لکھتے ہیں  : ”  خودِ فخر عالم علیہ ا لسلام فرماتے ہیں “واﷲ لاادری مایفعل بی ولا بکم ” (الحدیث)( اور بخدا میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا۔ ت)

اورشیخ عبدالحق روایت کرتے ہیں کہ مجھ کو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں ” ۳ ؎۔

 

 (۳ ؎ البراہین القاطعہ     بحث علمِ غیب    مطبع لے بلاسا واقع ڈھور     ص ۵۱)

 

قطع نظر اس سے کہ اس آیت و حدیث کے کیا معنی ہیں اور قطع نظر اس سے کہ یہ کس وقت کے ارشاد ہیں اور قطع نظر اس سے کہ خود قرآن عظیم و احادیثِ صحیحہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس کا ناسخ موجود کہ جب آیۃ کریمہ :”لیغفرلک اﷲ ماتقدم من ذنبک وماتاخر ” ۴ ؎۔ (تاکہ اﷲ بخش دے تمہارے واسطے سے سب اگلے پچھلے گناہ) نازل ہوئی تو صحابہ نے عرض کی :ھنیأ لک یارسول اللہ  لقدبیّن اﷲ لک ماذا یُفعل بک فماذا اُیفعل بنا ” ۱ ؎ ۔ یارسول اﷲ ! آپ کو مبارک ہو،  خدا کی قسم ! اﷲ عزوجل نے یہ تو صاف بیان فرمادیا کہ حضور کے ساتھ کیا کرے گا،  اب رہا یہ کہ ہمارے ساتھ کیاکرے گا۔

 

 (۴ ؎القرآن الکریم     ۴۸ /۲)

(۱ ؎ صحیح البخاری      کتاب المغازی ۲ /۶۰۰     و سنن الترمذی   کتاب التفسیر حدیث۳۲۷۴     ۵ /۱۷۶)

 

اس پر یہ آیت اُتری :لیدخل المؤمنین والمؤمنٰت جنّٰت تجری من تحتہا الانھر خٰلدین فیہا ویکفر عنھم سٰیاتھم وکان ذٰلک عنداﷲ فوزًا اعظیما۲ ؎ ۔ تاکہ داخل کرے اﷲ ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوںکو باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ہمیشہ رہیں گے ان میں اور مٹا دے ان سے ان کے گناہ ،  اور یہ اللہ کے یہاں بڑی مراد پانا ہے۔

 

 (۲ ؎ القرآن الکریم     ۴۸ /۵)

 

یہ آیت اور ان کے امثال بے نظیر اور یہ حدیث جلیل و شہیر۔

رہا شیخ عبدالحق کا حوالہ،  قطع نظر اس سے کہ روایت و حکایت میں فرق ہے،  اس بے اصل حکایت سے استناد اور شیخ محقق قدس سرہ العزیز کی طرف اسناد کیسی جرات و وقاحت ہے،  شیخ رحمۃ اﷲ علیہ نے مدارج شریف میں یوں فرمایا ہے :اینجا اشکال می آرند کہ در بعض روایات آمدہ است کہ گفت آں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم من بندہ ام نمی دانم آں چہ درپس ایں دیوارست،  جوابش آنست کہ ایں سخن اصلے نہ دارد،  وروایت بداں صحیح نشدہ است ۳ ؎ ۔ اس موقعہ پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں بندہ ہوں مجھے معلوم نہیں کہ اس دیوار کے پیچھے کیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اسکی کوئی اصل نہیں اور یہ روایت صحیح نہیں۔

 

 (۳ ؎ مدارج النبوت ”  لاعلم ماورای جداری ایں سخنے اصل ندارد ”    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۷)

 

ایسا ہی”  لاتقربواالصلوۃ ” ( نماز کے قریب مت جاؤ ۔ت) پر عمل کرو گے تو خوب چین سے رہو گےع

اس آنکھ سے ڈرئیے جو خدا سے نہ ڈرے آنکھ

امام ابن حجر عسقلانی ( رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ ) فرماتے ہیں ۔”  لَااَصْلَ لَہ” ۴ ؎ ۔ یہ حکایت محض بے اصل ہے۔

 

 (۴ ؎المواہب الدنیۃ     المقصد الثالث     الفصل الاول    المکتب الاسلامی بیروت    ۲ /۲۲۸)

 

امام ابن حجر مکی نے افضل القرٰی میں فرمایا :”  لم یُعرف سَنَد” ۱ ؎ ۔ اس کے لیے کوئی سند نہ پہنچانی گئی۔

 

 (۱ ؎ افضل القرا لقراء ام القرٰی)

 

افسوس اسی منہ سے مقام اعتقادیات بتانا،  احادیثِ صحیحہ بھی نامقبول ٹھہرنا،  اسی منہ سے نبی  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کا علمِ عظیم گھٹا کر ایسی بے اصل حکایت سے سند لانا اور ملمع کاری کے لیے شیخ محقق کا نام لکھ جانا جو صراحۃً فرمارہے ہیں کہ اس حکایت کی جڑ نہ بنیاد ،  آپ اس کے سوا کیا کہیے کہ ایسوں کی داد نہ فریاد۔ اﷲ اﷲ نبی صل اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مناقب عظیمہ اور باب فضائل سے نکلوا کر اس تنگنائے میں داخل کرائیں تاکہ صحیحیں بخاری و مسلم کی حدیثیں بھی مردود بنائیں اور حضور کی تنقیص شان میں یہ فراخی دکھائیں کہ بے اصل بے سند مقولے سب سما جائیں۔ع

حال ایمان کا معلوم ہے بس جانے دو

 

بالجملہ بحمداﷲ تعالٰی زید سُنی حفظہ اﷲ تعالٰی کا دعوٰی آیات قطعیہ قرآنیہ سے ایسے جلیل و جمیل طور سے ثابت جس میں اصلاً مجال دم زدن نہیں،  اگر یہاں کوئی دلیل ظنّی تخصیص سے قائم بھی ہوتی تو عموم قطعی قرآن عظیم کے حضور مضمحل ہوجاتی ۔ نہ کہ صحیح مسلم و صحیح بخاری وغیرہا سُنن وصحاح و مسانید و معاجیم کی احادیث صریحہ ،  صحیحہ ،  کثیرہ ،  شہیرہ اس عموم و اطلاق کی اور تاکید وتائید فرمارہی ہیں۔

 

احادیثِ مبارکہ :

 

صحیحین بخاری و مسلم میں حضرت حذیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ہے :قام فینا رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مقاماً ماترک شیئا یکون فی مقامہ ذٰلک الٰی قیام الساعۃ الّاحدّث بہ حفظہ من حفظہ ونسیہ من نسیہ ” ۲ ؎۔

 

رسول اﷲ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  نے ایک بار ہم میں کھڑے ہو کر ابتدائے آفرنیش سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا سب بیان فرمادیا،  کوئی چیز نہ چھوڑی،  جسے یاد رہا یاد رہا،  جو بھول گیا بھول گیا۔

 

(۲ ؎مشکوۃ المصابیح برمز متفق علیہ      کتاب الفتن الفصل الاول         مطبع مجتبائی دہلی        ص ۴۶۱)

(صحیح مسلم     کتاب الفتن     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۳۹۰)

(مسند احمد بن حنبل    عن حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ    المکتب الاسلامی بیروت    ۵ /۳۸۵ و ۳۸۹)

 

یہی مضمون احمد نے مسند ،  بخاری نے تاریخ،  طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔

 

صحیح بخاری شریف میں حضرت امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے :”قام فینا النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مقاماً فاخبرنا عن بدء الخلق حتی دخل اھل الجنۃ منازلھم و اھل النار منازلھم حفظ ذٰلک من حفظہ ونسیہ من نسیہ “۱ ؎۔

 

ایک بار سید عالم  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  نے ہم میں کھڑے ہو کر ابتدائے آفرنیش سے لے کر جنتیوں کے جنت اور دوزخیوں کے دوزخ جانے تک کا حال ہم سے بیان فرمادیا۔ یاد رکھا جس نے یاد رکھا اور بھول گیا جو بھول گیا۔

 

 (۱ ؎ صحیح البخاری   کتاب بدء الخلق     باب ماجاء فی قول اﷲ وھو الذی یبدء الخلق الخ   قدیمی کتب خانہ کراچی  ۱ /۴۵۳)

 

صحیح مسلم شریف میں حضرت عمر و بن اخطب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے :  ایک دن رسول اﷲ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  نے نمازِ فجر سے غروبِ آفتاب تک خطبہ فرمایا،  بیچ میں ظہر و عصر کی نمازوں کے علاوہ کچھ کام نہ کیا “فاخبرنا بما ھو کائن الی یوم القیمۃ فاعلمنا احفظہ ” ۲ ؎ ۔ اس میں سب کچھ ہم سے بیان فرمادیا جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا ہم میں زیادہ علم والا وہ ہے جسے زیادہ یاد رہا۔

 

 (۲ ؎ صحیح مسلم   کتاب الفتن    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۳۹۰)

 

جامع ترمذی شریف وغیرہ کتب کثیرئہ آئمہ حدیث میں باسانید عدیدہ و طرق متنوعہ دس صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے ہے کہ رسول اﷲ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا :فرأیتہ عزّوجل وضع کفّہ بین کتفّی فوجدت برد انا ملہ بین ثدّی فتجلّٰی لی کل شیئ وعرفت۳ ؎ ۔ میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا اس نے اپنا دستِ قدرت میر ی پشت پر رکھا کہ میرے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی اسی وقت ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے سب کچھ پہچان لیا۔

 

 (۳ ؎ سنن الترمذی کتاب التفسیر     حدیث ۳۲۴۶    دارالفکر بیروت    ۵ /۱۶۰)

 

امام ترمذی فرماتے ہیں :ھذا حدیث حسن سألت محمد بن اسمٰعیل عن ھذا الحدیث فقال صحیح” ۱ ؎ ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے ،  میں نے امام بخاری سے اس کا حال پوچھا،  فرمایا صحیح ہے۔

 

 (۱ ؎ سنن الترمذی     کتاب التفسیر          حدیث ۳۲۴۶              دارالفکر بیروت          ۵ /۱۶۱)

 

اسی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اسی معراجِ منامی کے بیان میں ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :”  فعلمت مافی السمٰوٰت وما فی الارض” ۲ ؎ ۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب میرے علم میں آگیا۔

 

 (۲؎ سنن الترمذی    کتاب التفسیر   حدیث ۳۲۴۴   دارالفکر بیروت          ۵ /۱۵۹)

 

شیخ محقق رحمۃ اﷲ علیہ شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں :پس دانستم ہر چہ در آسمانہا وہرچہ در زمین ہا بود عبارت است از حصولِ تمامہ علوم جزوی و کلّی واحاطہ آں۳ ؎ ۔ چنانچہ میں نے جان لیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے یہ تعبیر ہے تمام علوم کے حصول اور ان کے احاطہ سے چاہے وہ علوم جزوی ہوں یا کلُی ۔(ت)

 

 (۳ ؎ اشعۃ اللمعات     کتاب الصلوۃ      باب المساجد و مواضع الصلوۃ         مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱ /۳۳۳)

 

امام احمد مسند اور ابن سعد طبقات اور طبرانی معجم میں بسند صحیح حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ابویعلٰی وابن منیع و طبرانی حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی :لقد ترکنارسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وما یحّرک طائر جناحیہ فی السمّاء الّا ذکر لنا منہ علما۴ ؎ ۔ نبی  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  نے ہمیں اس حال پر چھوڑا کہ ہوا میں کوئی پرندہ پَر مارنے والا ایسا نہیں جس کا علم حضور نے ہمارے سامنے بیان نہ فرمادیا ہو۔

 

 (۴ ؎ مسند احمد بن حنبل     عن ابی ذر غفار ی رضی اللہ عنہ       المکتب الاسلامی بیروت    ۵/۱۵۳)

(مجمع الزوائد عن ابی الدرداء      کتاب علامات النبوۃ باب فیما اوقی من العلم،  الخ    دارالکتاب     ۸ /۲۶۴)

 

نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض و شرح زرقانی للمواہب میں ہے :ھذا تمثیل لبیان کل شیئ تفصیلاً تارۃً واجمالاً اُخرٰی۱؂۔یہ ایک مثال دی ہے اس کی کہ نبی کریم  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  نے ہر چیز بیان فرمادی،  کبھی تفصیلاً کبھی اجمالاً ۔

 

 (۱ ؎ نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض     فصل و من ذٰلک مااطلع الخ    مرکز اہلسنت برکایت رضا گجرات  ۳ /۱۵۳)

(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ         المقصدالثامن الفصل الثالث      القسم الثانی دارالمعرفۃ بیروت   ۷ /۲۰۶)

 

مواہب امام قسطلانی میں ہے :ولا شک ان اﷲ تعالٰی قد اطلعہ علٰی اَزْیَدَمن ذٰلک والقٰی علیہ علم الاوّلین والاخرین۲؎۔ اور کچھ شک نہیں کہ اﷲ تعالٰی نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس سے زیادہ علم دیا اور تمام اگلے پچھلوں کا علم حضور پر القاء کیا،  صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔

 

 (۲ ؎ المواہب اللدنیہ    المقصدالثامن الفصل مااخبربہ صلی اللہ علیہ وسلم من الغیب     المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۵۶۰)

 

طبرانی معجم کبیر اور نصیم بن حماد کتاب الفتن اور ابونعیم حلیہ میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی،  رسول اﷲ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  فرماتے ہیں :ان اﷲ قدرفع لی الدنیا فانا انظر الیہا والٰی ما ھوکائن فیہا الٰی یوم القیامۃ کانمّا انظر الٰی کفی ھذہ جلیان من اﷲ جلاّہ لنبیّہ کما جلّاہ لنبیّن من قبلہ ۳ ؎۔ بے شک میرے سامنے اﷲ عزوجل نے دنیا اٹھالی ہے اور میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کچھ ایسا دیکھ رہا ہوں جیسے اپنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ،  اس روشنی کے سبب جو اﷲ تعالٰی نے اپنے نبی کے لیے روشن فرمائی جیسے محمد سے پہلے انبیاء کے لیے روشن کی تھی۔صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔

 

 (۳ ؎ حلیۃ الاولیاء      ترجمہ ۳۳۸     حدید بن کریب    دارلکتاب العربی بیروت        ۶ /۱۰۱)

(کنزالعمال  حدیث ۳۱۸۱۰ و ۳۱۹۷۱    موسستہ الرسالہ بیروت     ۱۱ /۳۷۸ و ۴۲۰)

 

اس حدیث ہے کہ جو کچھ سماوات وارض میں ہے اور جو قیامت تک ہوگا اس سب کا علم اگلے انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی عطا ہوا تھا اور حضرت عزت عزوجلالہ نے اس تمام ماکان ومایکون کو اپنے ان محبوبو ں کے پیش نظر فرمادیا،  مثلاً مشرق سے مغرب تک سماک سے سمک تک ،  ارض سے فلک تک اس وقت جو کچھ ہورہا ہے ،  سیدنا ابراہیم خلیل علیہ الصلوۃ والسلام والتسلیم ہزار ہا برس پہلے اس سب کو ایسا دیکھ رہے تھے گویا اس وقت ہر جگہ موجود ہیں،  ایمانی نگاہ میں یہ نہ قدرتِ الہی پر دشوار اور نہ عزت و وجاہت انبیاء کے مقابل بسیار،  مگر معترض بیچارے جن کے یہاں خدائی کی حقیقت اتنی ہو کہ ایک پیڑ کے پتّے گنِ دیئے وہ آپ ہی ان حدیثوں کو شرکِ اکبر کہنا چاہیں اور جو آئمہ کرام و علمائے اعلان ان سے سند لائے ،  انہیں مقبول مسلم رکھتے آئے،  جیسے امام خاتم الحفاظ جلال الملّۃ والدین سیوطی مصنف خصائص کبری و امام شہاب احمد محمد خطیب قسطلانی صاحب   مواہب لدنّیہ وامام ابوالفضل شہاب ابن حجر مکی ہیثمی شارح ہمزیہ و علامہ شہاب احمد مصری خفا جی صاحب نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض و علامہ محمد عبدالباقی زرقانی شارح مواہب وغیرہم رحمہم اﷲ تعالٰی انہیں مشرک کہیں۔والعیاذ باﷲ رب العالمین۔

 

صحیح مسلم و مسند امام احمد و سُنن ابنِ ماجہ میں ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اﷲ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  فرماتے ہیں :عرضت علیّ امتی باعمالہا حسنہا وقبیحھا۱ ؎۔ میری ساری اُمت اپن سب اعمالِ نیک و بد کے ساتھ میرے حضور پیش کی گئی۔

 

 (۱ ؎ صحیح مسلم     کتاب المساجد باب النہی عن البصاق فی المسجد     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۰۷)

(مسند احمد بن حنبل     عن ابی ذر رضی اللہ عنہ    المکتب الاسلامی بیروت     ۵ /۱۸۰)

 

طبرانی اور ضیاء مختارہ میں حذیفہ بن اُسید رضی اللہ تعالٰی عنہا سے راوی،  رسول اﷲ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  فرماتے ہیں :”عرضت علٰی امتی البارحۃ لدی ھٰذہ الحجرۃ حتی لانا اعرف بالرّجل منھم من احد کم بصاحبہ” ۲ ؎۔ گزشتہ رات مجھ پر میری اُمّت اس حجرے کے پاس میرے سامنے پیش کی گئی بے شک میں ان کے ہر شخص کو اس سے زیادہ پہچانتا ہوں جیسا تم میں کوئی اپنے ساتھی کو پہچانے۔والحمدﷲ ربّ العالمین (سب تعریفیں اﷲ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ت)

 

 (۲ ؎ المعجم الکبیر    حدیث ۳۰۵۴     المکتبۃ الفیصلیۃبیروت    ۳ /۱۸۱)

(کنزالعمال    حدیث ۳۱۹۱۱     موسستہ الرسال بیروت    ۱۱ /۴۰۸)

 

 

 

اقوال ائمہ کرام

 

امام اجل سیّدی بوصیری قدس سرہ،  ام القرٰی میں فرماتے ہیں :وسع العالمین علماً وحکمًا ۱ ؎۔ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا علم و حکمت تمام جہان کو محیط ہوا۔

 

 (۱ ؎ مجموع المتون     متن قصیدۃ الہمزیۃ فی مدح خیر البریۃ     الشؤن الدینیہ دولتہ قطر     ص ۱۸)

 

امام ابن حجر مکی اس کی شرح افضل القرٰی میں فرماتے ہیں  :لانّ اﷲ تعالٰی اطلعہ علی العالم فعلم علم الاولین والاٰخرین وماکان ومایکون ۲ ؎۔ یہ اس لیے کہ بے شک عزوجل نے حضور اقدس  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کو تمام جہان پر اطلاع بخشی تو سب اگلے پچھلوں اور ماکان ومایکون کا علم حضور پر نور  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کو حاصل ہوگیا۔

 

 (۲؂افضل القراء لقراء ام القرٰی )

 

امام جلیل قدوۃ المحد ثین سیدی زین الدین عراقی استاذ امام حافظ الشان ابن حجر عسقلانی شرح مہذب میں پھر علامہ خفا جی نسیم الریاض میں فرماتے ہیں :  ان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عرضت علیہ الخلائق من لدن اٰدم علیہ الصلوۃ والسلام الی قیام الساعۃ فعرفھم کلھم کما عُلّم ادم الاسماء ۳ ؎۔ حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے لے کر قیامِ قیامت تک کی تمام مخلوقات   الہٰی حضور سید عالم  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کو پیش کی گئی حضور   صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  نے جمیع مخلوقات گزشتہ اور آئندہ سب کو پہچان لیا۔ جس طرح آدم علیہ الصلوۃ والسلام کو تمام نام سکھائے گئے تھے۔

 

 (۳ ؎ نسیم الریاض الباب الثالث     الفصل الاول فیما ورومن ذکر مکانتہ     مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات الہند۲ /۲۰۸)

 

علامہ عبدالرؤف مناوی تیسیر میں فرماتے ہیں :النفوسُ القدسیّۃ اذا تَجَرَّدَتْ عن العلائق البدنیۃ اتصلت بالملاء الاعلٰی ولم یبق لہا حجاب فترٰی وتسمع الکل کالمشاھد۱ ؎ ۔پاکیزہ جانیں جب بدن کے علاقوں سے جدا ہو کر عالمِ بالا سے ملتی ہیں ان کے لیے کوئی پردہ نہیں رہتا ہے وہ ہر چیز کو ایسا دیکھتی اور سنتی ہیں جیسے پاس حاضر ہیں۔

 

 (۱ ؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث حیثما کنتم فصلوا علیّ الخ    مکتبۃ الامام الشافعی ریاض   ۱ /۵۰۲)

 

امام ابن الحاج مکی مدخل امام قسطلانی مواہب میں فرماتے ہیں :  قد قال علماء ُ نار حمھم اﷲ تعالٰی لا فرق بین موتہ وحیاتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی مشاھدتہ لامّتہ و معرفتہ باحوالھم و نیاتھم وعزائمھم وخواطر ھم وذٰلک جلی عندہ،  لاخِفاء بہ۲ ؎۔ بے شک ہمارے علمائے کرام رحمہم اﷲ تعالٰی نے فرمایا رسول اللہ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کی حالت دنیوی اور اس وقت کی حالت میں کچھ فرق نہیں ہے اس بات میں کہ حضور اپنی امت کو دیکھ رہے ہیں ان کے ہر حال،  ان کی ہر نیت ،  ان کے ہر ارادے ،  ان کے دلوں کے ہر خطرے کو پہچانتے ہیں،  اور یہ سب چیزیں حضور  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  پر ایسی روشن ہیں جن میں اصلاً کسی طرح کی پوشیدگی نہیں۔

 

 (۲ ؎ المدخل لابن الحاج     فصل فی الکلام علٰی زیارۃ سیدالمرسلین   دارالکتاب العربی بیروت    ۱ /۲۵۲)

(المواہب اللدنیۃ المقصد العاشر         الفصل الثانی    المکتب الاسلامی العربی بیروت            ۴ /۵۸۰)

 

یہ عقیدے ہیں علمائے ربانیین کے محمد رسول اللہ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کی جناب ارفع میں،  جل جلالہ،  وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔

 

شیخ شیوخ علمائے ہند مولانا شیخ محقق نور اﷲ تعالٰی مرقدہ المکرم مدارج شریف میں فرماتے ہیں :ذکر کن اُو را ودرود بفرست بروے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم،  وباش در حال ذکر گویا حاضر ست پیش او در حالتِ حیات و می بینی تو او  رامتادب باجلال و تعظیم و ہیبت و امید بداں کہ وے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم می بیند ومی شنود کلام ترا زیرا کہ وے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم متصف است بصفات اﷲ ویکے از صفات الہی آنست کہ انا جلیس من ذکرنی ۱ ؎۔ ان کی یاد کر اور ان پر درود بھیج،  اور ذکر کے وقت ایسے ہوجاؤ گویا تم ان کی زندگی میں ان کے سامنے حاضر ہو اور ان کو دیکھ رہے ہو ،  پورے ادب اور تعظیم سے رہو،  ہیبت بھی ہو اور امید بھی،  اور جان لو کہ رسول اللہ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  تمہیں دیکھ رہے ہیں اور تمہارا کلام سن رہے ہیں۔ کیونکہ وہ صفاتِ الہیہ سے متصف ہیں اور اللہ کی ایک صفت یہ ہے کہ جو مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے پاس ہوتا ہوں۔

 

 (۱ ؎مدارج النبوۃ     باب یاز    دہم وصل نوع ثانی کہ تعلق معنوی است الخ   مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر     ۲ /۲۶۱)

 

اﷲ تعالٰی کی بے شمار رحمتیں شیخ محقق پر،  جب نبی  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کا دیکھنا ہمیں بیان کیا بدانکہ بڑھایا تاکہ اسے کوئی گویاکے نیچے داخل نہ سمجھے،  غرض ایمانی نگاہوں کے سامنے اس حدیث پاک کی تصویر کھینچ دی کہ :اعبدِ اﷲ کانّک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک۲ ؎۔ ﷲ تعالٰی کی عبادت کر،  گویا تُو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہ دیکھے تو وہ تو یقینا تجھے دیکھتا ہے۔

 

 (۲ ؎ صحیح بخاری     کتاب الایمان  باب سوال جبریل النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عن الایمان  قدیمی کتب خانہ ۱ /۱۲)

(صحیح مسلم  کتاب الایمان     باب سوال جبریل النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم   قدیمی کتب خانہ کراچی      ۱ /۲۹)

 

نیز فرماتے ہیں :ہر چہ درد نیا است زمانِ آدم تانفحہ اولٰی بروے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم منکشف ساختند تاہمہ احوال رااز اول تاآخر معلوم کرد و یاران خود رانیز بعضے از اں احوال خبر داد ۳ ؎۔ جو کچھ دنیا میں زمانہئ آدم سے پہلے صور پھونکے جانے تک ہے ان (  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) پر منکشف کردیا یہاں تک کہ انہیں اول سے آخر تک تمام احوال معلوم ہوگئے۔ انہوں نے بعض اصحاب کو ان احوال میں سے بعض کی اطلاع دی۔

 

 (۳ ؎مدارج النبوۃ     کتاب الایمان      باب پنجم     وصل خصائص آنحضرت  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر     ۱ /۱۴۴)

 

نیز فرماتے ہیں :وھو بکل شیئ علیم o ووے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دانا است ہمہ چیز از شیونات ذات الہٰی و احکام صفاتِ حق و اسماء وافعال و آثار و جمیع علومِ ظاہر و باطن اول و آخر احاطہ نمودہ و مصداق فوق کل ذی علم علیم oعلیہ من الصلوت افضلہا من التحیات اتمہاواکملہا۱ ؎۔”

 

وھو بکل شیئ علیم ،  اور وہ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) سب چیزوں کو جاننے والے ہیں،  احوالِ احکام الہٰی احکامِ صفاتِ حق،  اسماء افعال آثار،  تمام علوم ظاہر و باطن،  اول و آخر کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ اور”  فوق کل ذی علم علیم”کے مصداق ہیں،  آ پ پر افضل درود اور اتم وواکمل سلام ہو۔ت)

 

 (۱ ؎ مدارج النبوۃ    مقدمۃ الکتاب   مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر         ۱ /۲ و ۳)

 

شاہ ولی اﷲ دہلوی ،  فیوض الحرمین میں لکھتے ہیں :فاضَ علیّ من جنابہِ المقدّس صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کیفیۃُ ترقی العبدِ من حَیزہ الٰی حیزا لقدسِ فیتجلّٰی لہ حینئذٍ کُلُّ شَیئٍ کما اخبرعن ھٰذاا المشھد فی قصّۃِ المعراج المنامی” ۲ ؎۔ حضور اقدس  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کی بارگاہِ اقدس سے مجھ پر اس حالت کا علم فائض ہوا کہ بندہ اپنے مقام سے مقامِ قدس تک کیونکر ترقی کرتا ہے کہ اس پر ہر چیز روشن ہوجاتی ہے جس طرح حضور اقدس  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  نے اپنے اس مقام سے معراجِ خواب کے قصے میں خبر دی۔

 

 (۲ ؎ فیوض الحرمین     مشہد اﷲ تعالٰی مخلوق کی طرف کتاب نازل کرنے کے لیے وقت کیا کرتا ہے  محمد سعید اینڈ سنز کراچی ۱۶۹)

 

قرآن وحدیث و اقوالِ آئمہ حدیث سے اس مطلب پر دلائل بے شمار ہیں اور خدا انصاف دے تو یہی اقل قلیل کہ مذکور ہوئے بسیار ہوئے،  غرض شمس وامس کی طرح روشن ہوا کہ عقیدہ مذکورئہ زید کو معاذ اﷲ کفر و شرک کہنا خود قرآن عظیم پر تہمت رکھنا اور احادیث صحیحہ صریحہ شہیرہ کثیرہ کو رَد کرنا اور بہ کثرت آئمہئ دین و اکابر علمائے عاملین واعظم علمائے کاملین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ،  یہاں تک کہ شاہ ولی اللہ ،  شاہ عبدالعزیز صاحب کو بھی عیاذًا باﷲ کافر و مشرک بنانا اور بحکم ظواہر احادیث صحیحہ و روایات   معتمدہ فقیہہ خود کافر و مشرک بننا ہے اس کے متعلق احادیث و روایات و اقوالِ آئمہ و ترجیحات و تصریحات فقیر کے رسالہالنھی الاکید عن الصلوۃ وراء عدی التقلید و رسالہ الکوکبۃ الشہابیۃ علٰی کفریات ابی الوہابیۃ وغیرھامیں ملاحظہ کیجئے۔

 

افسوس کہ ان شرک فروش اندھوں کو اتنا نہیں سوجھتا کہ علمِ الہی ذاتی ہے اور علمِ خلق عطائی،  وہ واجب یہ ممکن،  وہ قدیم یہ حادث،  وہ نامخلوق یہ مخلوق وہ نامقدور یہ مقدور،  وہ ضروری البقا یہ جائز الفنا،  وہ ممتنع التغیر یہ ممکن التبدّل ۔ ان عظیم تفرقوں کے بعد احتمال شرک نہ ہوگا مگر کسی مجنون کو،  بصیرت کے اندھے اس علم ماکان ومایکون بمعنی مذکور ثابت جاننے کو معاذ اﷲ علمِ الہٰی سے مساوات مان لینا سمجھتے ہیں حالانکہ العظمۃُ ﷲ علمِ الہٰی تو علمِ الہٰی جس میں غیر متناہی علوم تفصیلی فراوانی بالفعل کے غیر متناہی سلسلے غیر متناہی یا وہ جسے گویا مصطلح حساب کے طور پر غیر متناہی کا مکعب کہئے بالفعل وبالدوام ازلاً ابداً موجود ہیں۔ یہ شرق تا غرب و سماوات وارض وعرش تا فرشوماکان ومایکون من اوّل یوم الٰی اٰخر الایامسب کے ذرے ذرّے کا حال تفصیل سے جاننا وہ بالجملہ جملہ مکتوبات لوح و مکنونات قلم کو تفصیلاً محیط ہونا علوم محمد رسول اللہ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے،  یہ تو ان کے طفیل سے ان کے بھائیوں حضرات مرسلین،  کرام علیہ وعلیہم افضل الصلوۃ واکمل السلام بلکہ ان کی عطا سے ان کے غلاموں (ف) ،  بعض اعاظم اولیائے عظام قدست اسرار ہم کو ملا،  اور ملتا ہے ہنوز علومِ محمدیہ میں وہ بجارذخارنا پیدا کنار ہیں جن پر ان کی افضلیت کلیہ اور افضلیت مطلقہ کی بناء ہے۔

 

ف : تمام ماکان ومایکون کا علم علومِ حضور سے ایک علم ہے ، یہ تو ان کی عطا سے ان کے غلاموں اکابر اولیاء کو بھی ملتا ہے ۱۲ منہ ۔

 

اﷲ عزوجل کے بے شمار رحمتیں امام اجل محمد بوصیری شرف الحق والدین رحمۃ اﷲ علیہ پر قصیدہ بردہ شریف میں فرماتے ہیں ۔فانّ من جودک الدّنیا وضرّتھاومن علومک علم اللّوح والقلم۱ ؎۔ یعنی یارسول اللہ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  دنیا و آخرت دونوں حضور کے خوانِ جودو کرم سے ایک ٹکڑا ہیں اور لوح و قلم کا تمام علم جن میںماکان و مایکونمندرج ہے حضور کے علوم سے ایک حصہ “صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وعلٰی اٰلک وصحبک وبارک وسلم “

 

(۱؂ مجموع المتون    متن قصیدۃ البردۃ    الشئون الدینیۃ  دولۃ قطر      ص ۱۰)

 

مولانا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری زبدہ شرح بردہ میں فرماتے ہیں :توضیحہ ان المراد بعلم اللّوح ما اثبت فیہ من النقوش القدسیۃ و الصور الغیبیۃ وبعلم القلم ما اثبت فیہ کما شاء والا ضافۃ لادنی ملابسۃ وکون علمھما من علومہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انّ علومہ تتنوع الی الکلیات والجزئیات وحقائق ومعارف وعوارف تتعلق بالذات والصفات وعلمھما انما یکون سطراً من سطور علمہ ونہراً من بحور علمہ ثم مع ھذا ھو من برکۃ وجودہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۱ ؎۔

 

یعنی توضیح اس کی یہ ہے کہ علمِ لوح سے مراد نقوشِ قدس وصور غیب ہیں جو اس میں منقوش ہوئے،  اور قلم کے علم سے مراد وہ ہیں جو اﷲ عزوجل نے جس طرح چاہا اس میں ودیعت رکھے،  ان دونوں کی طرف علم کی اضافت ادنی علاقے یعنی محلیت نقش و اثبات کے باعث ہے اور ان دونوں میں جس قدر علوم ثبت ہیں ان کا علم علوم محمدیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ایک پارہ ہونا،  اس لیے کہ حضور اقدس  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کے علوم بہت اقسام کے ہیں،  ،  علوم کلیہ،  علوم جزئیہ،  علوم حقائق اشیاء و علومِ اسرار خفیہ اور وہ علوم اور معرفتیں کہ ذات و صفات حضرت عزت جل جلالہ،  سے متعلق ہیں اور لوح و قلم کے جملہ علوم علومِ محمدیہ کی سطروں سے ایک سطر،  اور ان کے دریاؤں سے ایک نہر ہیں،  پھر بہ ایں ہمہ وہ حضور ہی کی برکت وجود سے توہیں۔ کہ اگر حضور نہ ہوتے تو نہ لوح و قلم ہوتے نہ اُن کے علوم،صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم۔

 

 (۱؂    الذبدۃ العمدۃ فی شرح البردۃ ناشر جمعیت علماء سکندریہ خیرپور سندھ  ص ۱۱۷)

 

منکرین کو صدمہ ہے کہ محمد رسول اﷲ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کے لیے روزِ اول سے قیامت تک کے تمام ماکان ومایکون کا علم تفصیلی ماناجاتا ہے لیکن بحمدﷲ تعالٰی وہ جمیع علم ماکان ومایکون علومِ محمد رسول اللہ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کے عظیم سمندر وں سے ایک نہر بلکہ بے پایاں موجوں سے ایک لہر قرار پاتا ہے۔

 

والحمد ﷲ رب العٰلمین o وخسر ھنالک المبطلون o  فی قلوبھم مرض فزادھم اﷲ مرضا،  وقیل بُعدًا للقوم الظّٰلمین oاور تمام تعریفیں اﷲ کے لیے ہیں جو پروردگار ہے تمام جہانوں کا اور باطل والوں کا وہاں خسارہ ہے،  ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اﷲ نے ان کی بیماری اور بڑھائی اور فرمایا گیا کہ دور ہوں ے انصاف لوگ (ت)

 

نصوصِ حصر

 

یعنی جن آیات واحادیث میں ارشاد ہوا ہے کہ علمِ غیب خاصہ خدا تعالٰی ہے،  مولٰی عزوجل کے سوا کوئی نہیں جانتا،  قطعاً حق اور بحمداﷲ تعالٰی مسلمان کے ایمان ہیں مگر منکر متکبر کا اپنے دعوائے باطلہ پر ان سے استدلال اور ا س کی بنا پر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علم ماکان ومایکون بمعنی۔ مذکور ماننے والے پر حکمِ کفر و ضلال ،  نصِ جنون و خام خیال بلکہ خود مستلزمِ کفر و ضلال ہے۔

 

علم بہ اعتبار منشا دو قسم ہے : ذاتی کہ اپنی ذا ت سے بے عطائے غیر ہو،  اور عطائی کہ اﷲ عزوجل کا عطیہ ہو،  اور بہ اعتبارِمتعلق بھی دو قسم ہے،  علم مطلق یعنی محیط حقیقی ،  تفصیلی فعلی فروانی کہ جمیع معلوماتِ الہٰیہ عزوعلاء کو جن میں غیر متناہی معلومات کے سلاسل وہ بھی غیر متناہیہ وہ بھی غیر متناہی بار داخل اور خود کنہ ذات   الہی و احاطہ تامِ صفاتِ الہٰیہ نامتناہی سب کو شامل فرداً فرداً تفصیلاً مستغرق ہو اور مطلق علم یعنی جاننا،  اگر محیط باحاطہ حقیقیہ نہ ہو،  ان تقسیمات میں علم ذاتی و علم مطلق یعنی مذکور بلاشبہ اﷲ عزوجل کے لیے خاص ہیں اور ہر گز کسی غیر خدا کے لیے ان کے حصول کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔

 

ہم ابھی بیان کر آئے کہ علم ماکان و مایکون بمعنی مسطور اگرچہ کیسا ہی تفصیلی بروجہ اتم واکمل ہو علومِ محمدیہ کی وسعت عظیمہ کو نہیں پہنچتا ، پھر علوم محمدیہ تو علومِ الٰہیہ ہیں،  جل و علا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم،  مطلق علم ہرگز حضرت حق عزوعلا سے خاص نہیں بلکہ قسم عطائی تو مخلوق ہی کے ساتھ خاص ہے۔

مولٰی عزوجل کا علم عطائی ہونے سے پاک ہے،  تو نصوصِ حصر میں یقیناً قطعاً وہی قسمِ اوّل مراد ہوسکتی ہے۔ نہ کہ قسمِ اخیر،  اور بداہۃً ظاہر کہ علم تفصیل جملہ ذرّات ماکان ومایکون بمعنی مزبور بلکہ اس سے ہزار  در ہزار ازید وافزوں علم بھی کہ بہ عطائے الہٰی مانا جائے اسی قسم اخیر سے ہوگا۔ تو نصوصِ حصر کو مدعائے مخالف سے اصلاً مس نہیں بلکہ وہ اس کی صریح جہالت پر نص ہیں،  وﷲ الحمد،  یہ معنی بآنکہ خودبدیہی وواضح ہے،  آئمہ دین نے اس کی تصریح بھی فرمائی۔

 

امام اجل ابوزکریا نووی رحمۃ اﷲ علیہ اپنے فتاوٰی پھر امام ابنِ حجر مکی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ اپنے فتاوٰی حدیثیہ میں فرماتے ہیں :  لایعلم ذٰلک استقلالاً وعلم احاطۃٍ بکل المعلومات الا اﷲ تعالٰی اما المعجزات والکرامات فباعلام اﷲ تعالٰی اما المعجزات والکرامات فبا علام اﷲ تعالٰی لھم علمت و کذا ماعُلِمَ باجراء العادۃ ۱ ؎۔

 

یعنی آیت میں غیر خدا سے نفی علمِ غیب کے یہ معنی ہیں کہ غیب اپنی ذات سے بے کسی کے بتائے جاننا اور ایسا علم کہ جمیع معلومات الہیہ کو محیط ہوجائے یہ اللہ تعالٰی کے سوا کسی کو نہیں رہے انبیاء کے معجزات اور اولیاء یہ تو اﷲ عزوجل کے بتانے سے انہیں علم ہوا ہے یونہی وہ باتیں کہ عادت کی مطابقت سے جن کا علم ہوتا ہے۔

 

 ( ۱ ؎فتاوی حدیثیہ    مطلب فی حکم ما اذا قال قائل فلان یعلم الغیب   مصطفی البابی مصر  ص  ۲۲۸)

 

مخالفین کا استدلال محض باطل و خےال محال ہونا تو یہیں سے ظاہر ہوگیا،  مگر فقیر نے اپنے رسائل میں ثابت کیا ہے کہ یہ استدلال ان ضلّال کے خود اقراری کفر و ضلال کا تمغہ ہے،  نیز انہیں میں روشن کیا کہ خلق کے لیے ادعائے علم غیب پر فقہا کا حکم کفر بھی درجہ اولائے حقیقت حق میں اسی صورت علم ذاتی اور درجہ اخرائے طرزِ فقہاء میں علم مطلق بمعنی مرقوم کے ساتھ مخصوص ہے،  جیسا کہ محققین کے کلام میں منصوص ہے۔

 

بکر پر مکر کا وہ زعم مردود جس میں حضور  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کی نسبت ”  کچھ نہیں جانتے(ف)”  کا لفظ ناپاک ہے وہ بھی کلمہ کفر و ضلال بیباک ہے بکر نے جس عقیدے کو کفر و شرک کہا اور اس کے رد میں یہ کلما بدفر جام بکا،  خود اس میں تصریح ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو حضرت حق جل شانہ نے یہ علم عطا فرمایا ہے ،  لاجرم بکر کی یہ نفی مطلق شاملِ علم عطائی بھی ہے اور خود بعض شیاطین الانس کے قول سے استناد بھی اس تعلیم پر دلیل جلی ہے کہ اس قول میں خواہ یوں اور خواہ یوں،  دونوں صورت پر حکم شرک دیا ہے،  اب اس لفظ قبیح کے کلمہ کفر صریح ہونے میں کیا تامل ہوسکتا ہے۔  قرآن عظیم کی روشن آیتوں کی تکذیب بلکہ سارے قرآن کی تکذیب رسالت نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا انکار بلکہ نبوت تمام انبیاء کا  انکار،  سید عالم  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کی تنقیص مکان بلکہ رب العزۃ جلالہ کی توہین شان،  ایک دو کفر ہوں توگِنے جائیں۔والعیاذ باﷲ رب العالمین۔

 

ف  :   اپنے خاتمے کا حال حضور  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو معلوم نہ ماننا صریح کفر ہے۔

 

یوں ہی اس کا قول کہ “اپنے خاتمے کا بھی حال معلوم نہ تھا” صریح کلمہ ئ کفر و خسار اور بیشمار آیاتِ قرآنیہ و احادیثِ متواتر ہ کا انکار ہے۔ آیہ کریمہ”  لیغفرلک اﷲ “مع حدیث صحیحین بخاری و مسلم ،بعض اور سنئے،قال اﷲ تعالٰی (اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) :وللٰاخرۃ خیرلک من الاولٰی” ۱ ؎۔ اے نبی ! بے شک آخرت تمہارے لیے دنیا سے بہتر ہے۔

 

وقال اﷲ تعالٰی (اللہ تعالٰی نے فرمایا۔ ت) :“ولسوف یعطیک ربک فترضٰی”۲ ؎۔ بے شک نزدیک ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا عطا فرمائے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔

 

وقال اﷲ تعالٰی (اﷲ تعالٰی نے فرمایا۔ت):“یوم لایخزی اﷲ النبی والذین اٰمنوا معہ نورھم یسعٰی بین ایدیھم وبایمانھم” ۱ ؎۔ جس دن اﷲ رسوانہ کرے گا نبی اور ان کے صحابہ کو ان کا نور ان کے آگے اور داہنے جوالان (عہ)کرے گا۔

 

عہ  :  دوڑے گا۔۱۲

 

وقال اﷲ تعالٰی ( اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت):“عسٰی ان یبعثک ربک مقاماً محمودا ” ۲ ؎۔ قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں تعریف کے مکان میں بھیجے گا جہاں اولین و آخرین سب تمہاری حمد کریں گے۔

 

وقال اﷲ تعالٰی ( اور اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت):”  تبرٰک الذی ان شآ ء جعل لک خیرا من ذٰلک جنّات تجری من تحتھا الانھٰر ویجعل لک قصورا o ۳ ؎۔ بڑی برکت والا ہے وہ جس نے اپنی مشیت سے تمہارے لیے اس خزانہ و باغ سے ( جس کی طلب یہ کافر کررہے ہیں) بہتر چیزیں کردیں جنتیں جن کے نیچے نہریں رواں اور وہ تمہیں بہشت بریں کے اونچے اونچے محل بخشے گا۔

 

 ( ۱ ؎ القرآن الکریم         ۹۳ /۴)     (۲ ؎ القرآن الکریم         ۹۳/ ۵  )

(۱ ؎ القرآن الکریم         ۶۶ /۸)     (۲ ؎ القرآن الکریم         ۱۷ /۷۹)

 (۳ ؎ القرآن الکریم         ۲۵ /۱۰)

 

علٰی قراء ۃ الرفع قراۃ بن کثیر وابن عامر ورِوایۃ ابی بکر عن عاصم،  الٰی غیر ذلک من الاٰیات ۔یجعل کو مرفوع پڑھنے کی تقدیر پر جو کہ ابن کثیر اور ابن عامر کی قراء ۃ ہے اور ابوبکر کی عاصم سے یہ روایت ہے اس کے علاوہ اور بھی متعدد آیات ہیں۔(ت)

اور احادیثِ کریمہ میں تو جس تفصیل جلیل سے حضور اقدس  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کے فضائل و خصائص وقتِ وفاتِ مبارک و برزخ مطہر و حشر منور و شفاعت و کوثر و خلافتِ عظمٰی و سیادتِ کبرٰی ودخولِ جنت و رویت وغیرہا وارد ہیں،  انہیں جمع کیجئے تو ایک دفتر طویل ہوتا ہے۔ یہاں صرف ایک حدیث تبرکاً سُن لیجئے۔

 

جامع ترمذی وغیرہ میں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے،  رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتےہیں:انا اول الناس خروجا اذا بعثوا و انا خطیبھم اذا وفدوا،  وانا خطیبھم اذا  اُنصتوا،  وانا مستشفعھم اذا حُبِسوا،  وانا مبشرھم  اذا یئسوا لِکرامۃٍ و المفاتیح یومئذٍ بیدی،  وانا  اکرم  ولد اٰدم علی ربی یطوف علیّ الف خادمٍ کانھم بیض مکنون اولؤلؤ منثور  ۱؎۔

 

جب لوگوں کا حشر ہوگا تو سب سے پہلے میں مزار اطہر سے باہر تشریف لاؤں گا،  اور جب وہ سب دم بخود رہیں گے تو اُن کا خطبہ خواں میں ہوں گا،  اور جب وہ رو کے جائیں گے تو ان کا شفاعت خواہ میں ہوں گا۔ اور جب وہ نا امید ہوجائیں  گے تو ان کا بشارت دینے والا میں ہوں گا،  عزت کے لیے اور تمام کنجیاں اس دن میرے ہاتھ ہوں گی ،  لواء الحمد اس دن میرے ہاتھ میں ہوگا،  بارگاہِ عزت میں میری عزت تمام اولادِ آدم سے زائد ہے،  ہزار خدمتگار میرے اردگرد گھومیں گے گویا وہ گردو غبار سے پاکیزہ انڈے ہیں محفوظ رکھے ہوئے یاجگمگاتے موتی ہیں بکھیرے ہوئے۔

 

 (۱ ؎ جامع الترمذی     ابواب المناقب باب منہ      امین کمپنی دہلی            ۲ /۲۰۱)

(دلائل النبوۃ    ذکر الفضیلۃ الرابعۃ باقسام اﷲ بحیاتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم    عالم الکتب بیروت            ص ۱۳)

(سنن الدارمی     باب مااعطی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حدیث ۴۹        دارالمحاسن للطباعۃ            ۱ /۳۰)

(الدرالمنثور     بحوالہ ابن مردویۃ عن انس رضی اللہ عنہ            مکتبہ آیۃ العظمی قم ایران        ۶ /۳۰۱)

 

بالجملہ بکر پر مکر کے گمراہ و بددین ہونے میں اصلاً شُبہہ نہیں ،  اور اگر کچھ نہ ہوتا تو صرف اتنا ہی کہ تقویۃ الایمان پر جو حقیقتاً تفویۃ الایمان ہے اس کا ایمان ہے،  یہی اس کا ایمان سلامت نہ رکھنے کو بس تھا،  جیسا کہ فقیر کے رسالہ الکوکبۃ الشھابیۃ وغیرہا کے مطالعے سے ظاہر ہے۔ع

 

اذاکان الغراب دِلّیْل قومٍ سیھدیھم طریق الہا لکینا۲؂ ( جب کّوا کسی قوم کا رہبر ہو تو وہ اس کو ہلاکت کی راہ پر ڈال دے گا۔ت) والعیاذ باﷲ تعالٰی۔

 

 (۲ ؎ )

 

وہ شخص جو شیطان کے علم ملعون کو علمِ اقدس حضور پر نور عالمِ ماکان ومایکون صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے زائد  ہے اس کا جواب اس کفرستانِ ہند میں کیا ہوسکتا ہے،ان شاء اﷲ القہار (اگر بہت قہر فرمانے والا خدا نے چاہا۔ ت)  روزِ جزا وہ ناپاک ناہنجار اپنے کیفر کفری گفتار کو پہنچے گا۔

 

وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون ۱ ؎۔ (اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کون سی کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔ت)

 

 (۱ ؎ القرآن الکریم      ۲۷ /۲۲۷ )

 

یہاں اسی قدر کافی ہے کہ یہ ناپاک کلمہ صراحتاً محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو عیب لگانا ہے،  اور حضور  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کو عیب لگانا کلمہ کفر نہ ہوا تو اور کیا کلمہ کفر ہوگا۔والذین یؤذون رسول اﷲ لھم عذاب الیم ” ۲ ؎۔ اور جو لوگ رسول اﷲ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دکھ کی مار ہے۔

 

 (۲ ؎ القرآن الکریم         ۹ /۶۱)

 

ان الذین یؤذون اﷲ وسولہ لعنھم اﷲ فی الدنیا والاخرۃ واعدلھم عذاباً مھینا ۳ ؎۔ جو لوگ ایذا دیتے ہیں اﷲ تعالٰی اور اس کے رسول کو،  اﷲ نے اُن پر لعنت فرمائی ہے دنیا اور آخرت میں ،  اور ان کے لیے تیار کررکھی ہے ذلت والی مار۔

 

 (۳؎القرآن الکریم         ۳۳ /۵۷)

 

شفائے امامِ اجل قاضی عیاض اور شرح علامہ شہاب خفا جی مسمّٰی بہ نسیم الریاض میں ہے :جمیع من سبّ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بشتمۃ اوعابہ ھو اعم من السب فان من قال فلان اعلم منہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فقد عابد و نقصہ وان لم یسبہ (فھو ساب والحکم فیہ حکم الساب) من غیر فوق بینھما (لانستثنی منہ) (فصلاً ) اَی صورۃً (ولا نمتری) فیہ تصریحاً کان اوتلویحاً وھذا کلّہ اجماع من العلماء وائمۃ الفتوٰی من لدن الصحابۃ رضی اﷲ تعالٰی علٰی عنھم الٰی ھلّم جرًّا  ۱؂ ا ھ مختصراً ۔

 

یعنی جو شخص نبی  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کو گالی دے یا حضور کو عیب لگائے اور یہ گالی دینے سے علم تر ہے کہ جس نے کسی کی نسبت کہا کہ فلاں کا علم نبی  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کے علم سے زیادہ ہے اس نے ضرور حضور کو عیب لگایا،  حضور کی توہین کی، اگرچہ گالی نہ دی،  یہ سب گالی دینے والے کے حکم میں ہے،  ان کے اور گالی دینے والے کے حکم میں کوئی فرق نہیں،  نہ ہم اس سے کسی صورت کا استثناء کریں نہ اس میں شک وتردد کو راہ دیں،  صاف صاف کہا ہو یا کنایہ سے،  ان سب احکام پر تمام علماء اور آئمہ فتوٰی کا اجماع ہے کہ زمانہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آج تک برابر چلا آیا ہے۔ اھ مختصراً

 

 (۱ ؎ نسیم الریاض القسم الرابع      الباب الاول     مرکز اھل سنت برکاتِ رضا گجرات ہند ۴ /۳۳۵ و ۳۳۶)

 

نسأل اﷲ العفووالعافیۃ فی الدنیا والاخرۃ ونعوذ بہ من الحور بعد الکور ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم وصلی اللہ تعالٰی علیہ سید المرسلین واﷲ سبحانہ تعالی اعلم ۔

 

ہم اﷲ تعالٰی سے دنیاو آخرت میں معافی اور عافیت چاہتے ہیں اور کثرت کے بعد قلت سے اس کی پناہ چاہتے ہیں نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی قوت مگر بلندی و عظمت والے خدا کی توفیق سے اور درود نازل فرمائے اﷲ تعالٰی رسولوں کے سردار پر ،  اور اﷲ سبحنہ و تعالٰی خوب جانتا ہے۔(ت)

 

فقیر غفرلہ المولی القدیر نے اس سوال کے ورود پر ایک مسبوط کتاب ” بحرعباب”  منقسم بہ چار باب مسمّٰی بہ نام تاریخی” مائی الحبیب بعلوم الغیب ” (۱۳۱۸ھ)کی طرح ڈالی۔

 

باب اول : فصوص یعنی فوائد جلیلہ و نفائس جزیلہ کہ ترصیف دلائل اہلسنت کے مقدمات ہوں۔

باب دوم : نصوص یعنی اپنے مدعا پر دلائل جلائل قرآن وحدیث و اقوالِ آئمہ قدیم و حدیث۔

باب سوم : عموم و خصوص کہ احاطہئ علومِ محمدیہ میں تحریر محل نزاع کرے۔

باب چہارم  :قطع اللصوص یعنی اس مسئلے میں تمام مہملات نجدیہئ نو وکہن کی سرفگنی و تکبر شکنی،  مگر فصوص ونصوص کے ہجوم و وفور نے ظاہر کردیا کہ اطالت تاحدّ ملالت متوقع،

 

لہذا باذن اﷲ تعالٰی نفع عامّہ کے لیے اس بحرذخار سے ایک گوہرشہوار لامع الانوار گویا خزائن الاسرار سے درمختار مسمّی بہ نام تاریخی”اللؤلؤ المکنون فی علم البشیر ما کان ومایکون” (۱۳۱۸ھ) (پوشیدہ موتی بشیر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علمِ ماکان ومایکون کے بارے میں۔ت) چنُ لیا جس نے جمع و تلفیق کے عوض نفع و تحقیق کی طرف بحمداﷲ زیادہ رُخ کیا۔ اس کے ایک ایک نور نے نورالسمٰوت والارض جل جلالہ کے عون سے وہ تابشیں دکھائیں کہ ظلماتِ باطلہ کا فور ہوتی نظر آئیں۔

 

یہ چند حرفی فتوٰی کہ اس کے لمعات سے ایک شعشہ اور بلحاظ تاریخبنام ابناء المصطفٰی بحال سّرواخفی ( مصطفٰی  صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو پوشیدہ اور پوشیدہ ترین کے حال کی خبر دینا ۔ت) مسمّٰی ہے۔ اس کے تمام اشارات خفیہ کا بیان مفصل اسی پر محول ذی علم ماہر تو ان ہی چند حروف سے اِنشاء اﷲ تعالٰی سب خرافات و جزافات مخالفین کو کیفر چشانی کرسکتا ہے مگر جو صاحب تفصیل کے ساتھ دست نگر ہوں بعونہ تعالٰی رسائل مذکور ہ کے لآلی متلالی سے بہرہ ور ہوں،  حضراتِ مخالفین سے بھی گزارش ہے کہ اگر توفیقِ الہی مساعدت کرے یہی حرفِ مختصر ہدایت کرے تو ازیں چہ بہتر،  ورنہ اگر بوجہ کوتاہی فہم و غلبہئ وہم و قلتِ تدرّب و شدتِ تعصب اپنی تمام جہالاتِ فاحشہ کی پردہ دری ان مختصر سطور میں نہ دیکھ سکیں۔ تو اسی مہر جہاں تاب کا انتظار کریں۔ جو بہ عنایت الہٰی و اعانت رسالت پناہی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان کی تمام ظلمتوں کی صبح کردے گا۔ ان کا ہر کاسہ سوال آبِ زلال رَدو ابطال سے بھردے گا۔

 

الا انّ موعد ھم الصبح الیس الصبح بقریب ط وما توفیقی الاّ باﷲ علیہ توکلت والیہ اُنیب ط۔خبردار ! بے شک ان کا وعدہ صبح کے وقت ہے کیا صبح قریب نہیں،  اور میری توفیق اﷲ ہی کی طرف سے ہے،  میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔(ت)

کیا فائدہ کہ اس وقت آپ کا خواب غفلت کچھ ہذیات (بے ہودہ گوئی) کا رنگ دکھائے،  اور جب صبح ہدایت افق سعادت سے طالع ہو تو کھل جائے کہ ۔۔۔۔۔۔ع

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو کہا افسانہ تھا

 

معہذا طائفہ ارانب وثعالب کو یہی مناسب کہ جب شیر ژیاں کو چہل قدمی کرتا دیکھ لیں سامنے سے ٹل جائیں اپنے اپنے سوراخوں میں جان چھپائیں،  نہ یہ کہ اس وقت اس کے خرام نرم پر غرّہ ہو کر آئیں اس کی آتشِ غضب کو بھڑکائیں اپنی موت اپنے منہ بلائیں ،ع

 

نصیحت گوش کن جاناں کہ از جاں دور تر خواہندشغالانِ ہزیمت مند خشم شیر ہیجارا (اے دوست ! نصیحت سُن کہ اپنی جان سے دور چاہتے ہیں،  شکست پسند گیدڑ بپھرے ہوئے شیر کے غصےکو۔ت)

 

اقول : قولی ھذا واستغفراﷲ لی ولسائر المؤمنین والمؤمنات و الصلوۃ الزاکیات والتحیّات النامیات علٰی سید نا محمدٍ نبی المغیبات مظھر الخفیات وعلٰی الہ وصحبہ الاکارم السادات واﷲ سبحنہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اَتَمُّ واحکم”میں کہتا ہوں یہ میرا قول ہے،  اور میں اﷲ تعالٰی سے اپنے لیے اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں،  پاکیزہ درود اور بڑھنے والے سلام ہوںہمارے سردار محمد پر جو غیب کی خبریں دینے والے اور پوشیدہ باتوں کو ظاہر فرمانے والے ہیں اور آپ کی آل و اصحاب پر جو بزرگی والے سردار ہیں،  اور اﷲ سبحانہ و تعالٰی خوب جانتا ہے اور اﷲ جل مجدہ،  کا کلام اتم اور مستحکم ہے۔(ت)

 

 

نجات کا راستہ – واقع حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہ


 

کسی زمانے میں بغداد میں جنید نامی ایک پہلوان رہا کرتا تھا۔ پورے بغداد میں اس پہلوان کے مقابلے کا کوئی نہ تھا۔ بڑے سے بڑا پہلوان بھی اس کے سامنے زیر تھا۔ کیا مجال کہ کوئی اس کے سامنے نظر ملا سکے۔ یہی وجہ تھی کہ شاہی دربار میں اس کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور بادشاہ کی نظر میں اس کا خاص مقام تھا۔

ایک دن جنید پہلوان بادشاہ کے دربار میں اراکین سلطنت کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا کہ شاہی محل کے صدر دروازے پر کسی نے دستک دی۔ خادم نے آکر بادشاہ کو بتایا کہ ایک کمزور و ناتواں شخص دروازے پر کھڑا ہے جس کا بوسیدہ لباس ہے۔ کمزوری کا یہ عالم ہے کہ زمین پر کھڑا ہونا مشکل ہو رہا ہے۔ اس نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ جنید کو میرا پیغام پہنچا دو کہ وہ کشتی میں میرا چیلنج قبول کرے۔ بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ اسے دربار میں پیش کرو۔ اجنبی ڈگمگاتے پیروں سے دربار میں حاضر ہوا۔ وزیر نے اجنبی سے پوچھا تم کیا چاہتے ہو۔ اجنبی نے جواب دیا میں جنید پہلوان سے کشتی لڑنا چاہتا ہوں۔ وزیر نے کہا چھوٹا منہ بڑی بات نہ کرو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جنید کا نام سن کر بڑے بڑے پہلوانوں کو پسینہ آ جاتا ہے۔ پورے شہر میں اس کے مقابلے کا کوئی نہیں اور تم جیسے کمزور شخص کا جنید سے کشتی لڑنا تمہاری ہلاکت کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔ اجنبی نے کہا کہ جنید پہلوان کی شہرت ہی مجھے کھینچ کر لائی ہے اور میں آپ پر یہ ثابت کرکے دکھاؤں گا کہ جنید کو شکست دینا ممکن ہے۔ میں اپنا انجام جانتا ہوں آپ اس بحث میں نہ پڑیں بلکہ میرے چیلنج کو قبول کیا جائے۔ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ شکست کس کا مقدر ہوتی ہے۔

جنید پہلوان بڑی حیرت سے آنے والے اجنبی کی باتیں سن رہا تھا۔ بادشاہ نے کہا اگر سمجھانے کے باوجود یہ بضد ہے تو اپنے انجام کا یہ خود ذمہ دار ہے۔ لٰہذا اس کا چیلنج قبول کر لیا جائے۔ بادشاہ کا حکم ہوا اور کچھ ہی دیر کے بعد تاریخ اور جگہ کا اعلان کر دیا گیا اور پورے بغداد میں اس چیلنج کا تہلکہ مچ گیا۔ ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ اس مقابلے کو دیکھے۔ تاریخ جوں جوں قریب آتی گئی لوگوں کا اشتیاق بڑھتا گیا۔ ان کا اشتیاق اس وجہ سے تھا کہ آج تک انہوں نے تنکے اور پہاڑ کا مقابلہ نہیں دیکھا تھا۔ دور دراز ملکوں سے بھی سیاح یہ مقابلے دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ جنید کے لئے یہ مقابلہ بہت پراسرار تھا اور اس پر ایک انجانی سی ہیبت طاری ہونے لگی۔ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر شہر بغداد میں امنڈ آیا تھا۔

جنید پہلوان کی ملک گیر شہرت کسی تعارف کی محتاج نہ تھی۔ اپنے وقت کا مانا ہوا پہلوان آج ایک کمزور اور ناتواں انسان سے مقابلے کے لئے میدان میں اتر رہا تھا۔ اکھاڑے کے اطراف لاکھوں انسانوں کا ہجوم اس مقابلے کو دیکھنے آیا ہوا تھا۔ بادشاہ وقت اپنے سلطنت کے اراکین کے ہمراہ اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔ جنید پہلوان بھی بادشاہ کے ہمراہ آ گیا تھا۔ سب لوگوں کی نگاہیں اس پراسرار شخص پر لگی ہوئی تھیں۔ جس نے جنید جیسے نامور پہلوان کو چیلنج دے کر پوری سلطنت میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ مجمع کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اجنبی مقابلے کے لئے آئے گا پھر بھی لوگ شدت سے اس کا انتظار کرنے لگے۔ جنید پہلوان میدان میں اتر چکا تھا۔ اس کے حامی لمحہ بہ لمحہ نعرے لگا کر حوصلہ بلند کر رہے تھے۔ کہ اچانک وہ اجنبی لوگوں کی صفوں کو چیرتا ہوا اکھاڑے میں پہنچ گیا۔ ہر شخص اس کمزور اور ناتواں شخص کو دیکھ کر محو حیرت میں پڑ گیا کہ جو شخص جنید کی ایک پھونک سے اڑ جائے اس سے مقابلہ کرنا دانشمندی نہیں۔ لیکن اس کے باوجود سارا مجمع دھڑکتے دل کے ساتھ اس کشتی کو دیکھنے لگا۔ کشتی کا آغاز ہوا دونوں آمنے سامنے ہوئے۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گئے۔ پنجہ آزمائی شروع ہوئی اس سے پہلے کہ جنید کوئی داؤ لگا کر اجنبی کو زیر کرتے اجنبی نے آہستہ سے جنید سے کہا اے جنید ! ذرا اپنے کام میرے قریب لاؤ۔ میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اجنبی کی باتیں سن کر جنید قریب ہوا اور کہا کیا کہنا چاہتے ہو۔

اجنبی بولا اے جنید ! میں کوئی پہلوان نہیں ہوں۔ زمانے کا ستایا ہوا ہوں۔ میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ سید گھرانے سے میرا تعلق ہے میرا ایک چھوٹا سا کنبہ کئی ہفتوں سے فاقوں میں مبتلا جنگل میں پڑا ہوا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے شدت بھوک سے بے جان ہو چکے ہیں۔ خاندانی غیرت کسی سے دست سوال نہیں کرنے دیتی۔ سید زادیوں کے جسم پر کپڑے پھٹے ہوئے ہیں۔ بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچا ہوں۔ میں نے اس امید پر تمہیں کشتی کا چیلنج دیا ہے کہ تمہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم

کے گھرانے سے عقیدت ہے۔ آج خاندان نبوت کی لاج رکھ لیجئے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا۔ تمہاری ملک گیر شہرت اور اعزاز کی ایک قربانی خاندان نبوت کے سوکھے ہوئے چہروں کی شادابی کے لئے کافی ہوگی۔ تمہاری یہ قربانی کبھی بھی ضائع نہیں ہونے دی جائے گی۔

اجنبی شخص کے یہ چند جملے جنید پہلوان کے جگر میں اتر گئے۔ اس کا دل گھائل اور آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ سیدزادے کی اس پیش کش کو فوراً قبول کرلیا اور اپنی عالمگیر شہرت، عزت و عظمت آل سول صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کی۔ فوراً فیصلہ کر لیا کہ اس سے بڑھ کر میری عزت و ناموس کا اور کونسا موقع ہو سکتا ہے کہ دنیا کی اس محدود عزت کو خاندان نبوت کی اڑتی ہوئی خاک پر قربان کردوں۔ اگر سید گھرانے کی مرجھائی ہوئی کلیوں کی شادابی کے لئے میرے جسم کا خون کام آ سکتا ہے تو جسم کا ایک ایک قطرہ تمہاری خوشحالی کے لئے دینے کے لئے تیار ہوں۔ جنید فیصلہ دے چکا۔ اس کے جسم کی توانائی اب سلب ہو چکی تھی۔ اجنبی شخص سے پنجہ آزمائی کا ظاہری مظاہرہ شروع کر دیا۔

کشتی لڑنے کا انداز جاری تھا۔ پینترے بدلے جا رہے تھے۔ کہ اچانک جنید نے ایک داؤ لگایا۔ پورا مجمع جنید کے حق میں نعرے لگاتا رہا جوش و خروش بڑھتا گیا جنید داؤ کے جوہر دکھاتا تو مجمع نعروں سے گونج اٹھا۔ دونوں باہم گتھم گتھا ہو گئے یکایک لوگوں کی پلکیں جھپکیں، دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں کھلیں تو ایک ناقابل یقین منظر آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ جنید چاروں شانے چت پڑا تھا اور خاندان نبوت کا شہزادہ سینے پر بیٹھے فتح کا پرچم بلند کر رہا تھا۔ پورے مجمع پر سکتہ طاری ہو چکا تھا۔ حیرت کا طلسم ٹوٹا اور پورے مجمعے نے سیدزادے کو گود میں اٹھا لیا۔ میدان کا فاتح لوگوں کے سروں پر سے گزر رہا تھا۔ ہر طرف انعام و اکرام کی بارش ہونے لگی۔ خاندان نبوت کا یہ شہزادہ بیش بہا قیمتی انعامات لے کر اپنی پناہ گاہ کی طرف چل دیا۔

اس شکست سے جنید کا وقار لوگوں کے دلوں سے ختم ہو چکا تھا۔ ہر شخص انہیں حقارت سے دیکھتا گزر رہا تھا۔ زندگی بھر لوگوں کے دلوں پر سکہ جمانے والا آج انہی لوگوں کے طعنوں کو سن رہا تھا۔ رات ہو چکی تھی۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر جنید اپنے بستر پر لیٹا اس کے کانوں میں سیدزادے کے وہ الفاظ بار بار گونجتے رہے۔ “آج میں وعدہ کرتا ہوں اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا۔

جنید سوچتا کیا واقعی ایسا ہوگا کیا مجھے یہ شرف حاصل ہوگا کہ حضور سرور کونین حضرت محمد کے م صلی اللہ علیہ وسلم قدس ہاتھوں سے یہ تاج میں پہنوں ؟ نہیں نہیں میں اس قابل نہیں، لیکن خاندان نبوت کے شہزادے نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ آل رسول کا وعدہ غلط نہیں ہو سکتا یہ سوچتے سوچتے جنید نیند کی آغوش میں پہنچ چکا تھا نیند میں پہنچتے ہی دنیا کے حجابات نگاہوں کے سامنے سے اٹھ چکے تھے ایک حسین خواب نگاہوں کے سامنے تھا اور گنبد خضراء کا سبز گنبد نگاہوں کے سامنے جلوہ گر ہوا، جس سے ہر سمت روشنی بکھرنے لگی، ایک نورانی ہستی جلوہ فرما ہوئی، جن کے حسن و جمال سے جنید کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں، دل کیف سرور میں ڈوب گیا در و دیوار سے آوازیں آنے لگیں الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ۔ جنید سمجھ گئے یہ تو میرے آقا ہیں جن کا میں کلمہ پڑھتا ہوں۔ فوراً قدموں سے لپٹ گئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جنید اٹھو قیامت سے پہلے اپنی قسمت کی سرفرازی کا نظارہ کرو۔ نبی ذادوں کے ناموس کے لئے شکست کی ذلتوں کا انعام قیامت تک قرض رکھا نہیں جائے گا۔ سر اٹھاؤ تمہارے لئے فتح و کرامت کی دستار لے کر آیا ہوں۔ آج سے تمہیں عرفان و تقرب کے سب سے اونچے مقام پر فائز کیا جاتا ہے۔ تمہیں اولیاء کرام کی سروری کا اعزاز مبارک ہو۔

ان کلمات کے بعد حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنید پہلوان کو سینے سے لگایا اور اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت خواب میں جنید کو کیا کچھ عطا کیا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اتنا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ جب جنید نیند سے بیدار ہوئے تو ساری کائنات چمکتے ہوئے آئینے کی طرح ان کی نگاہوں میں آ گئی تھی ہر ایک کے دل جنید کے قدموں پر نثار ہو چکے تھے۔ بادشاہ وقت نے اپنا قیمتی تاج سر سے اتار کر ان کے قدموں میں رکھ دیا تھا۔ بغداد کا یہ پہلوان آج سید الطائفہ سیدنا حضرت جنید بغدادی کے نام سے سارے عالم میں مشہور ہو چکا تھا۔ ساری کائنات کے دل ان کے لئے جھک گئے تھے۔ (تاریخی واقعہ کی تفصیل ملاحظہ کیجئے کتاب زلف و انجیر صفحہ 72۔ 62)

مسلمانو ! اس سچے واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ خاندان نبوت اہل بیت و آل رسول سے محبت کرنا اور ان کی عزت و ناموس کا خیال رکھنا ایک مسلمان کے لئے کس قدر ضروری ہے اہلبیت سے محبت ایمان اور ان سے بغض و حسد منافقت اور گمراہی ہے۔ اسلام نے ہمیں جو تعلیم دی ہے اس میں خاندان نبوت اہلبیت سے محبت کا خصوصی ذکر ہے۔ اہلبیت کا مقام و مرتبہ کس قدر بلند ہے اس کا اندازہ قرآن مجید کے ارشاد سے لگایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔

انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت ویطھرکم تطھیرا۔

(سورہ احزاب 33)

ترجمہ :۔ اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

اس آیت کریمہ میں اہلبیت (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے) کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ اہلبیت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے علاوہ خاتون جنت بی بی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سب داخل ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے “اپنی اولاد کو تین عادتیں سکھاؤ۔ اپنے نبی کی محبت، اس کے اہل بیت کی محبت اور تلاوت قرآن”۔ أدبوا أولادكم على ثلاث خصال حب نبيكم و حب أهل بيته و قراءة القرآن فإن حملة القرآن في ظل الله يوم القيامة يوم لا ظل إلا ظله مع أنبيائه و أصفيائه.

 

 

تخريج السيوطي عن علي. ملاحظہ کیجئے جامع صغیر جلد اول 751، جواہر البحار جلد دوم صفحہ 130

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا۔ “اور مجھ سے محبت کی وجہ سے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔” (سنن الترمذی جلد پنجم صفحہ 622)

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ “اہل بیت سے ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔” (الفردوس الماثور الخطاب جلد دوم صفحہ 142)

ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہم کا ہاتھ پکڑا اور ارشاد فرمایا “جو شخص مجھے محبوب رکھے ان دونوں کو محبوب رکھے ان کے والد اور والدہ کو محبوب رکھے وہ یوم قیامت میرے ساتھ میرے درجہ میں ہوگا۔” (مسند احمد جلد اول صفحہ 168 )

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ار شاد گرامی ہے۔ “اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے جو کوئی بھی اہل بیت سے بغض رکھے اللہ اس کو ضرور جہنم میں داخل کرے گا“۔ (المستدرک جلد سوئم صفحہ 161)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات سے اہلبیت کی عظمت اور ان کے بلند مرتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی معاشرتی زندگی پر غور کریں تو ہم میں یہ بات اکثر پائی جاتی ہے کہ جب ہم کسی شخص کی تعظیم کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ بھائی اس کی عزت کرو یہ بڑے باپ کا بیٹا ہے۔ بظاہر تو یہ عزت بیٹے کی ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ تعظیم اس کے باپ کی ہے۔ تعظیم کا یہ طریقہ خود ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے۔

جب حاتم طائی کی بیٹی قیدی بناکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا “اس کو چھوڑ دو اس کا باپ اخلاقی خوبیوں کو پسند کرتا تھا“۔ (البدایہ والنہایہ ابن کثیر جلد5 صفحہ 66)

ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پوشاک پہنائی، خرچہ دیا سواری پر بٹھایا اور اس کی قوم کے لوگوں کو رہا کرکے ان کے ساتھ بھجوا دیا۔

غور کیجئے بیٹی کی تعظیم کافر باپ کی سخاوت کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ غیرت و تعظیم کا یہ سلسلہ بظاہر بیٹی کے ساتھ نظر آ رہا ہے۔ لیکن حقیقت میں تعظیم اس کے باپ حاتم طائی کی ہو رہی ہے۔ لٰہذا اہل بیت کی تعظیم کرنا دراصل حضورصلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تعظیم و توقیر کرنا ہے۔ کیونکہ خاندان نبوت کے یہ چشم و چراغ ہیں۔ چنانچہ یہ تعظیم “پنتجن پاک” ہی تک محدود نہیں ہونی چاہئیے۔ بلکہ قیامت تک حضور کی تمام آل کے لئے بھی ہونی چاہئیے۔ آل سول کی تعظیم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کی وجہ سے ہے۔ نہ کہ ان کے تقوٰی اور پرہیزگاری کی وجہ سے۔ ان کی تعظیم مسلمانوں کے لئے کس قدر ضروری ہے, اس کا اندازہ حسب ذیل ارشاد سے لگائیے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ تم میں سب سے زیادہ پل صراط پر ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے اہل بیت اور میرے صحابہ کی محبت میں زیادہ سخت ہوگا۔ (جامع الاحادیث جلد اول صفحہ 92)

مذکورہ بالا حدیث میں اہلبیت کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کی فضیلت بھی بتائی گئی ہے جس سے یہ معلوم ہوا کہ اہلبیت اور صحابہ کرام کی سچی محبت ہی ذریعہ نجات اور پل صراط پر سے با آسانی گزرنے کا ذریعہ ہے اگر کوئی ان کی محبت میں کامل نہیں تو اس کے لئے خسارے کے سوا کچھ نہیں۔ مذکورہ ارشاد میں صحابہ کرام اور اہلبیت سے محبت کا حکم موجود ہے۔ خاندان نبوت اور صحابہ کرام وہ عظیم اور قابل احترام ہستیاں ہیں کہ جنہوں نے اپنا خون اسلام کی آبیاری کے لئے وقف کر دیا تھا۔

میری کہانی میری زبانی


اللہ رب العزت عزوجل کا بیش بہا کرم ہے کہ اُس نے مجھے ایک کامل اور اپنے محبوب بندے  یعنی کہ حضرت قبلہ سیّد غلام حسین شاہ  غفاری نقشبندی  دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالی کی نسبت عطاء فرمائی اور مجھ پر احسانِ عظیم فرمایا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو ناجانے یہ روح کہاں کہاں بھٹکتی رہتی۔

میں اپنے مرشد کریم سے کس طرح مِلا اس کا حال میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میرا تعلق آزاد کشمیر سے ہے اور میں پیدائش سے لیکر اب تک کراچی ہی میں مُقیم ہوں ۔ ہمارے کچھ رشتہ دار ہمارے علاقے ہی میں رہتے تھے ، یہ  واقع اس وقت کا ہے جبکہ میری عمر شاید ۱۸ یا ۱۹ سال تھی  ایک دن میرے ابو کے رشتے میں بھائی جنہیں ہم چچا کہتے تھے انکے گھر ہماری ملاقات ایک پیر صاحب سے ہوئی جسے وہ اپنا مرشد کہہ کر پُکار رہے تھے۔ دیکھنے میں انکا حلیہ کچھ اس طرح تھا کہ وہ سگریٹ پی رہے تھے اور انکے چہرے پر داڑھی بھی نہ تھی وہ انکی بہت خدمت کررہے تھے۔  میں نے دل میں پیدا ہونے والی خواہش کو دعا کی صورت میں اللہ سے عرض کی کہ یارب میں جب بھی بیعت کروں گا تو ایسے ولی سے کروں گا جو سادات میں سے ہوں اور انکو دیکھ کر خلاف شریعت کوئی معاملہ نظر نہ آئے اور وہ بخاری سید ہوں بس یہی دعا میرے دل میں آئی تو میں نے کردی۔ایسے مرشد کہ جنہیں دیکھ کر بے اختیار رب کا ذکر زبان سے جاری ہوجائے۔

 کچھ عرصہ بعد میری ملاقات ہماری مسجد کے امام صاحب سے ہوئی جنکی گفتگو نے مجھے اُنکا گرویدہ بنا لیا اور میں زیادہ تر انکے حجرہ میں بیٹھ کر سیرت نبویﷺ پر لکھی ہوئ کتابیں پڑھتا رہتا تھا اور ان سے شریعت کے احکامات سیکھتا رہتا ۔ان دنوں ہماری مسجد میں معزن صاحب جنکا تعلق پنچاب سےتھا اکثر لوگوں کے فاعل یعنی حساب کتاب اعداد کے علم سے  کرتے تھے میں نے اس میں دلچسپی لیتے ہوئے کہا کہ حضرت یہ مجھے بھی سیکھا دیں تو انہوں نے فرمایا کہ یہ کوئی معمولی کام نہیں اسے سیکھنے کے لیئے کامل مرشد کا دستِ شفقت سر پر ہونا بہت ضرور ی ہے ورنہ لوگ بغیر پیر کامل کے ہاتھ کے  اس میں برباد ہوجاتے ہیں تو میں نے ان سے معلوم کرنا شروع کیا کہ کامل مرشد کیا ہوتا ہے مجھے بھی کچھ بتائیں تو انہوں نے مجھے بیعت کرنے کے بارے میں  اور مرشد کے بارے میں بہت کچھ بتایا اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ ہر شخص کا کوئ نا کوئی مرشد لکھا ہوا  ہوتا ہے جسے تلاش کرنے پر ملاقات ہوجاتی ہے۔میں نے اُن سے پوچھا کہ اگر میں تلاش کرنا چاہوں کہ میرا مرشد کون ہے  تو کیسے کروں ، انہوں نے مجھے ایک استخارہ کرنے کو کہا جسکا طریقہ بھی لکھوایا تو میں نے لکھ کر اسے یاد کرنا شروع کر دیا اور جلد ہی مجھے یاد ہوگیا۔(ایک دوست نے کچھ دن پہلے بتایا کہ آپ کو بتایا گیا طریقہ حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی ایک تصنیف میں بیان فرمایا ہے)۔

ایک دفعہ کا  ذکر ہے کہ  میں نے عشاء کی نماز کے بعد کچھ دیرا حادیث کی کتابوں کا مطالعہ کیا پھر رات میں مسجد ہی میں استخارہ کرنے کے لئے تیاری کی اور آخر کار سب کچھ پڑھ کر میں وہیں سو گیا ۔ سونا کیا تھا کہ میری قسمت انگڑائی لے کر اٹھ کھڑی ہوئی اور خواب میں کیا دیکھا کہ ایک بہت بڑا  میدان ہے جس میں ڈم ڈم کے پودوں کی دیواریں بنی ہوئی تھیں اور دُور ایک قدآور حسین و جمیل  بزرگ سفید عمامہ اور چادراوڑھے کچھ مریدوں ساتھ کھڑے تھے اور اچانک وہ چل پڑے اور انکا راستہ میری جانب ہی سےگزرتا تھا ۔میں انتہائی حیرانی سے انکی طرف متوجہ ہوکرکھڑا تھا   اور اچانک جب وہ میرےقریب سے گزرے تو میں انکے  قریب ہوا تو انہوں نے مجھ گلے لگایا تو میں نے کہا کہ ‘بزرگِ والا آپ کون ہیں میں آپ سے مِلنا چاہتا ہوں تو وہ فرمانے لگے کہ بچّا انشاء اللہ جلد ملاقات ہوگی ‘ پھر کچھ دیر بعد میری آنکھ کھل گئی اور میں گھر روانہ ہوگیا۔ اس خواب کو میں نے کسی سے ذِکر نہیں کیا اور وقت گزرتا گیا۔

ہماری مسجد پھٹان ، کشمیری اور پنچابی لوگوں کے علاقے میں تھی ، جس میں ہر طبقے کے لوگ نماز پڑھا کرتے تھے، کچھ عرصہ بعد ہماری مسجد کے امام صاحب وہا ں سے چھوڑ کر چلے گئے پھر روزانہ وہاں نئے نئے مولویوں کے آڈیشن ہوتے اور ایک دن ایک سندھی امام کا تقرر ہوا جو کہ بہت عجیب بات تھی کہ کہاں سندھی امام اور کہاں علاقے کے لوگ ، جنکا انداز بیان لوگوں کو بہت پسند آیا اور ساتھ ساتھ وہ حافظ قرآن بھی تھے اور بہت اچھے نعت خوان بھی تھے۔ ان سے میرے اچھے تعلقات بن گئے اور وہ ہمارے گھر اکثر نعت خوانی میں بھی تشریف لاتے تھے۔اُس سال میں مسجد میں اعتکاف کے لیئے بیٹھا تووہ مجھے اپنے پیر صاحب کی ایک اخبار میں چھپی تصویر دیکھانے لگے اور کہنے لگے کہ آپ چلیں میں آپ کو ان سے ملاقات کرواتا ہوں یہ ایک بہت بڑے اللہ کے ولی ِکامل ہیں  اور اس وقت کی وزیر اعظم بھی انکے پاس دعا کروانے آتی ہے۔میں نے اعتکاف کے بعد چلنے کی حامی بھری اور رمضان کے بعد میں نے اپنے ایک رشتہ دار جو کہ میرا اچھا  دوست  بھی تھا کو راضی کیا کہ چلتے ہیں انکے پیر صاحب سے بھی ملاقات کرلیں گے اور سندھ بھی گھوم لیں گے۔ لیٰذا ہمارا سفر شروع ہوا اور ہم فجر کے بعد صبح سویرے وہاں پہنچے اور جیسے ہی ہم ان کے پیر صاحب کی درگاہ پر پہنچے تو کیا دیکھا کہ تمام لوگ سر پر چادریں ڈال کر اللہ کے ذکر میں مشغول تھے اور ایک ٹک ٹک کی  آواز مسلسل تصبیح چلانے کی آتی رہی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے میں کسی اور دنیا میں پہنچ گیا ہوں اور کسی پُرانے زمانے میں آگیا ہوں۔بہت دیر بعدسب ذکر سے فارغ ہوئے تو وہ مولوی صاحب ہمیں اپنے پیر صاحب کے سامنے لے گئے اور ہمیں بعیت کروادیا ۔ پھر ہمیں ناشتہ کرنے کے لیئے ایک کمرے میں لے جایا گیا تو وہاں سب نے ناشتا کیا اور پھر ہم نے پیر صاحب سے عرض کی کہ ہم تنہائی میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں تو کوئی جواب نہ دیا  اور وہ مجھے دیکھتے رہےاور ہم وہاں سے مولوی صاحب کے گھر چل پڑے، ابھی ہم درگاہ سے کچھ دور ہی پہنچے تھے کہ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ یہ جو بزرگ تھےجن سے ہم نے ملاقات کی ہے  انہیں  میں نے کہیں دیکھا ہے تو وہ کہنے لگا کہ ارے یار ! نہ یہ ٹی وی پر آتے ہیں اور نہ ہی کراچی آتے ہیں تُونے کسی اور کو دیکھا ہوگا جنکی  اِن سے مشابہت ہوگی۔تو میں مسلسل سوچتا رہا کہ کہاں دیکھا ہے انہیں تو اچانک مجھے یاد آگیا کہ یہ تو وہی بزرگ ہیں جنہیں میں نے استخارے میں دیکھا تھا اور انہوں نے مجھے گلے بھی لگایا تھا اور  فرمایا تھا کہ انشاء اللہ جلد مُلاقات ہوگی۔

بس یہ یاد کرنے ہی کی دیر تھی کہ اچانک پیچھے سے ایک شخص کی دُورسے آواز آئی کہ فقیر فقیر میں پیچھے مُڑا تو دیکھا کہ وہ ہمیں پُکارتا ہوا ہماری طرف دوڑتا ہوا چلا آرہا ہے۔ جب ہمارے پاس پہنچا تو کہنے لگا کہ کیا  آپ میں سے کسی نے حضرت قبلہ مرشد کریم سے ملاقات کی درخواست کی تھی تو میں بے اختیار کہہ اٹھا کہ جی میں نے عرض کی تھی تو وہ ہمیں لے کہ واپس وہاں پہنچا اور ہم ایک کمرے  میں گئے جہاں مرشد کریم کے رُو برو بیٹھ گئے اور ہم سے انہوں نے گفتگو کی ، دورانِ گفتگو میں انکے چہرے کو تکتا رہا اور یقین آگیا کہ یہ تو وہی بزرگ ہیں ۔سبحان اللہ کتنا عجیب واقع ہے کہ کس طرح سائیں کے فرمان کے مطابق میں حضور مرشد کریم تک پہنچا کہ اسکا کبھی تصّور بھی نہیں کیا ہوگا کہ کہاں کراچی اور کہاں قمبر شریف ۔آپ کی عطاء و توجہ میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا  اور ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ حضرت قبلہ مرشد کریم کی محبت دل میں بڑھتی گئی ۔

 شروع شروع میں جب بھی کوئی  بتاتا کہ جناب عالی کراچی تشریف لائے ہیں تو  ان سے ملاقات کے لیئے ہم ڈیفنس جاتے لیکن ملاقات نہ ہوتی لیکن آج حضرت قبلہ مرشد کریم  مدظلہ العالی کا خصوصی قُرب نصیب ہے اور کچھ عرصہ پہلے 2012 میں جناب کے ساتھ مدینے کی حاضری نصیب ہوئی اور انکے ساتھ دس دن ایک ہی ہوٹل میں رہنا نصیب ہوا اور پانچ نمازوں میں ایک ہی گاڑی میں سفر نصیب ہوا۔ اور الحمدللہ اسی سال اگست میں رمضان کے مہینے میں انشاء اللہ پھر ایک بار عمرہ کی سعادت نصیب ہوگی۔

چونکہ میں کوئی رائٹر یا شاعر  نہیں تو ہوسکتا ہے کہ بیان کرنے میں کہیں کوئی کمی یا شان کے مطابق  بات تحریر نہ ہوسکی ہو تو معافی چاہتا ہوں۔

فقیر ۔ سیّد زاہد حسین شاہ حسینی

 

 

حضور پُر نور ﷺ کی بہت پیاری سنت – مسواک کرنا

حضور پُر نور ﷺ کی بہت پیاری سنت (مسواک کرنا)

سرکارِ دو عالم تاجدارِ مدینہﷺکی سنت مبارکہ مسواک کرنا جسے آپ ﷺ نے نہایت پسند فرمایا اور ظاہری زندگی کےآخری دن تک اس کا استعمال جاری رکھا ۔  مسواک کرنا ایسی سنت ہے جسے ہرزمانے کے اولیاء اللہ نے بھی نا صرف خود اپنا یا  بلکہ اپنے مریدین کو بھی اس پر عمل پیرا رہنے کی تعلیم دی۔حضرت قبلہ مرشد کریم دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالی اپنے مریدوں کومسواک کے بارے میں  اکثر و بیشتر تلقین فرماتے ہیں۔  دورانِ بیعت آپ جناب عالی  طالبین کو مسواک کی بھی تلقین فرماتے ہیں ، حضرت ِ والا کو مسواک سے نہایت محبت ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ ہمارے پیار ے سرکارِ دو عالمﷺ کی پسندیدہ سنت مبارکہ ہے۔مندرجہ زیل احادیث کے زریعے آپ ﷺ کی مسواک سے محبت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ (آخری روز) نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حضرت عبدالرحمٰن بن ابو بکر حاضر ہوئے اور میں آپ کو سینے سے لگائے ہوئے تھی، حضرت عبدالرحمٰن کے پاس گیلی لکڑی کی مسواک تھی۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اسکی جانب دیکھا تو میں نے ان سے مسواک لے لی ، اسے چبایا، نرم کیا اور  پھر صاف کرکے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کردی۔ آپ نے خوب مسواک کی اور اس سے پہلےاتنی خوبصورتی کے ساتھ مسواک کرتے ہوئے میں نے آپ ﷺ کو ہرگز نہیں دیکھا تھا۔ جب اس سے فارغ ہوگئے تو تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا  دست مبارک یا انگشت مبارک آسمان کی جانب اٹھا کر کہا۔ اعلی کی رفاقت میں ۔ تین مرتبہ یہی کہا اور پھر انتقال فرماگئے۔ حضرت صدیقہ  (رضی اللہ عنہا) فرماتی تھیں کہ بوقت وصال سرمبارک میری ہنسلی اور ٹھوڑی کے درمیان تھا۔

رواه البخاري کتاب المغازی

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہاسے رو ایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم جب کاشانئہ اقدس میں تشریف لاتے توپہلے مسواک فرماتے ۔
۴۲۹۔ الصحیح لمسلم ، الطہارۃ، ۱/۱۲۸  السنن لابی داؤد ، الطہارۃ، ۱/۸ الجامع الصغیر للسیوطی ، ۲/۴۱۴ السنن لابن ماجہ، الطہارۃ، ۲۵۱

اگر میں اپنی اُمت پر باعثِ دُشواری نہ سمجھتا تو اُنہیں ہر نماز میں دانتوں کی صفائی کا حکم دیتا۔

 (صحيح البخاري، 1 : 122)
(سنن النسائي، 1 : 6)

حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب رات کو تہجد کے لئے اٹھتے تو اپنا منہ مبارک مسواک سے صاف فرماتے تھے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

اخرجہ البخاری فی الصحیح ، ابواب التھجد، باب طول القیام فی صلاۃ اللیل

مسلم فی الصحیح ، کتاب  الطھارۃ، باب السواک

حضرت ابو ہریرہ    رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا: اگر مجھے میری اُمت یا لوگوں پر مشقت میں پڑجانے کا خیال نہ ہوتا تو میں اُنہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

اخرجہ البخاری فی الصحیح ، کتاب الجمعہ باب السواک یوم الجمعہ                           مسلم فی الصحیح ، کتاب  الطھارۃ، باب السواک

حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا:مجھے مسواک کرنے کا حکم (اس قدر تاکید کے ساتھ) دیا گیا کہ میں نے گمان کیا اس کے متعلق (مجھ پر ) قرآن احکام نازل ہوں گے۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابو یعلی نے روایت کیاہے۔

اٗخرجہ احمد بن حنبل فی المسند                ابو یعلی فی المسند

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مداومت کے ساتھ مسواک فرمایا کرتے تھے۔ آپ مسواک ہمیشہ اُوپر سے نیچے اور نیچے سے اُوپر کی طرف فرمایا کرتے تھے۔ یہی وہ طریقہ ہے جسے آجکل تجویز کیا جاتا ہے۔

مسواک کی لمبائی کم از کم ایک بالشت ہونی چاہیئے، حاشیہ طحطاویہ علٰی مراقی الفلاح میں    فرماتے ہیں ۔۔۔۔

یکون طول شبرعــــــہ مستعملہ لان الزائد یرکب علیہ الشیطان۱؎مسواک جو استعمال کرنے والاہے اس کی بالشت بھرہونی چاہئے اس لئے کہ جو زیادہ ہو اس پر شیطان بیٹھتا ہے ۔(ت)

(۱؎ حاشیۃ طحطاوی علی مراقی الفلاح،کتاب الطہارۃ ،فصل فی سنن الوضوء، دار الکتب العلمیہ بیروت۱ /۴۰)

اگر چہ علامہ طحطاوی نے حاشیہ در میں فرمایا :لعل المراد من ذلک انہ ینسیہ استعمالہ اویوسوس لہ اھ ۱؎شاید اس سے مرادیہ ہے کہ وہ اسے استعمال کرنا بھلادیتا ہے یا اسے وسوسہ میں مبتلا کرتا ہے اھ ۔

 ( ۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار         کتاب الطہارۃ مکتبۃ العربیۃ کوئٹہ ۱ /۷۰)

جو شخص کھانا کھائے اُسے خلال کرنا چاہئے۔

(سنن الدارمي، 2 : 35)

دانتوں کے تمام ڈاکٹر بھی معیاری ٹوتھ پکس کے ساتھ خلال کو ضروری قرار دیتے ہیں کیونکہ اُس سے دانتوں کے درمیان پھنسے کھانے کے چھوٹے ذرّات نکل جاتے ہیں، جس سے بندہ منہ اور معدہ کے بہت سے اَمراض سے محفوظ رہتا ہےسرکارِ دو عالم،شاہ بنی آدم،تاجدارِ مدینہﷺنے خلال کرنے کی تعلیم دے کر اُمت کو بہت سے ممکنہ اَمراض سے محفوظ فرما دیا۔

 ایک دفعہ عاجز فقیر خود حضور مرشد کریم کی بارگاہ میں حاضر تھا اور آپ وضو ءفرمارہے تھے دوران مسواک آپ نے میری جانب توجہ فرمائی اور پوچھا کہ مسواک کرتے ہو تو میں نہایت مودبانہ عرض کی کہ حضور اکثرو بیشتر کرتا ہوں جب مسواک میرے پاس موجود نہیں ہوتا تو کرنا رہ جاتا ہے تو آپ نے انتہائی رہنمائی کے انداز میں فرمایا کہ مسواک لازمی کیا کرو اس میں 70 سے زائد فوائد پوشیدہ ہیں۔ الحمدللہ مسواک کی سنت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرشد کی توجہ سے حاصل ہوگئی۔

ایک پیر بھائی کی حیثیت سے آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ بھی اسے اپنائیں اور اس کے فوائد حاصل کریں اور حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ ‘جس نے میری (آپ ﷺ کی) ایک سنت کو زندہ کیا اسے ۱۰۰ شہیدوں کا ثواب ملے گا۔’ مسواک کو ہمیشہ جیب میں رکھیں اور جس طرح موبائل ہمیشہ جیب میں ہوسکتا ہے بالکل اسی طرح مسواک کو بھی رکھا جا سکتا ہے تاکید کے ساتھ۔ اس طرح آپ مرشد کے فرمان پر بھی عمل پیرا ہوجائیں گے۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ النبی رحمۃ اللعلمین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہ اجمعین۔

ا س ذات اقدس کے سائے کی نفی جس کے نور سے ہر مخلوق منور ہوئی

(ا س ذات اقدس کے سائے کی نفی جس کے نور سے ہر مخلوق منور ہوئی)

 

مسئلہ۴۳ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ رسول  اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم کے لئے سایہ تھایانہیں ؟ بینواتوجروا (بیان فرمائیے اجردئے جاؤ۔ت)

الجواب

ہم اللہ کی حمدبیان کرتے ہیں اوراس کے رسول کریم پر درود بھیجتے ہیں ۔ تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کیلئے ہیں جس نے تمام اشیاء سے قبل ہمارے نبی کے نور کو اپنے نور سے بنایا ، اورتمام نوروں کے آپ کے ظہور کے جلووں سے بنایا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تمام نوروں کے نور اورہر شمس وقمر کے ممدہیں ۔ آپ کے رب نے اپنی کتاب کریم میں آپ کانام نور اورسراج منیر رکھا ہے ۔ اگر آپ جلوہ فگن نہ ہوتے تو سورج روشن نہ ہوتا ، نہ آج کل سے ممتاز ہوتااورنہ ہی خمس کے لئے وقت کا تعین ہوتا۔ اللہ تعالٰی آپ پر درودنازل فرمائے اور آپ کے نور سے مستنیر ہونے والوں پر جو مٹ جانے سے محفوظ ہیں۔ اللہ تعالٰی ہمیں ان سے بنائے دنیا میں اوراس دن جس میں نہیں سنائی دے گی مگر بہت آہستہ آواز۔(ت)

بیشک اس مہر سپہر اصطفاء ماہ منیر اجتباء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سایہ نہ تھا،اور یہ امر احادیث واقوال علماء کرام سے ثابت اوراکابر ائمہ وجہابذفضلاء مثل حافظ رزین محدث وعلامہ ابن سبع صاحب شفاء الصدور وامام علامہ قاضی عیاض صاحب کتاب الشفاء فی تعریف حقوق المصطفٰی وامام عارف باللہ سیدی جلال الملۃ والدین محمد بلخی رومی قدس سرہ، وعلامہ حسین بن دیار بکری واصحاب سیرت شامی وسیرت حلبی وامام علامہ جلال الملّۃ والدین سیوطی وامام شمس الدین ابوالفرج ابن جوزی محدث صاحب کتاب الوفاء وعلامہ شہاب الحق والدین خفاجی صاحب نسیم الریاض وامام احمد بن محمد خطیب قسطلانی صاحب مواہب لدنیہ ومنہج محمدیہ وفاضل اجل محمد زرقانی مالکی شارح مواہب وشیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی وجناب شیخ مجدد الف ثانی فاروقی سرہندی وبحرالعلوم مولانا عبدالعلی لکھنوی وشیخ الحدیث مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی وغیرہم اجلہ فاضلین ومقتدایان کہ آج کل کے مدعیان خام کا رکوان کی شاگردی بلکہ کلام سمجھنے کی بھی لیاقت نہیں ، خلفاً عن سلف دائماً اپنی تصنیف میں اس کی تصریح کرتے آئے اورمفتی عقل وقاضی نقل نے باہم اتفاق کر کے اس کی تاسیس وتشیید کی۔

فقد اخرج الحکیم الترمذی عن ذکوان ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل فی شمس ولا قمر ۱؂۔

حکیم ترمذی نے ذکوان سے روایت کی کہ سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نظر نہ آتا تھا دھوپ میں نہ چاندنی میں ۔

 (۱؂الخصائص الکبرٰی بحوالہ الحکیم الترمذی باب الآیۃ فی انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل مرکز اہلسنت گجرات ہند ۱ /۶۸)

سیدنا عبداللہ بن مبارک اورحافظ علامہ ابن جوزی محدث رحمہمااللہ تعالٰی حضرت سیدنا وابن سید نا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماسے روایت کرتے ہیں :

قال لم یکن لرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل ، ولم یقم مع شمس قط الاغلب ضؤوہ ضوء الشمس ، ولم یقم مع سراج قط الاغلب ضوؤہ علی ضوء السراج۱؂۔

یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سایہ نہ تھا ، اور نہ کھڑے ہوئے آفتاب کے سامنے مگر یہ ان کا نور عالم افروز خورشید کی روشنی پر غالب آگیا، اورنہ قیام فرمایا چراغ کی ضیاء میں مگر یہ کہ حضورکے تابش نور نے اس کی چمک کو دبالیا۔

 (۱؂الوفاء باحوال المصطفٰی الباب التاسع والعشرون مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۴۰۷)

امامِ علام حافظ جلال الملۃ والدین سیوطی رحمہ اللہ تعالٰی نے کتاب خصائصِ کُبرٰی میں اس معنی کے لئے ایک باب وضع فرمایا اوراس میں حدیث ذکوان ذکر کے نقل کیا:قال ابن سبع من خصائصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان ظلہ کان لایقع علی الارض وانہ کان نورا فکان اذا مشٰی فی الشمس اوالقمر لاینظر لہ ظل قال بعضھم ویشھد لہ حدیث قول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی دعائہ واجعلنی نورا۲؂۔

یعنی ابن سبع نے کہا حضور کے خصائص کریمہ سے ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہ پڑتا اورآپ نو رمحض تھے ، تو جب دھوپ یا چاندنی میں چلتے آپ کا سایہ نظر نہ آتا ۔ بعض علماء نے فرمایا اس کی شاہد ہے وہ حدیث کہ حضور نے اپنی دعا میں عرض کیا کہ مجھے نور کردے۔

(۲؂الخصائص الکبرٰی باب الآیۃ انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۶۸)

نیز انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم باب ثانی فصل رابع میں فرماتے ہیں :لم یقع ظلہ علی الارض ولارئی لہ ظل فی شمس ولا قمر قال ابن سبع لانہ کان نوراقال رزین لغلبۃ انوارہ۳؂۔

نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ زمین پر نہ پڑا ، حضور کا سایہ نظر نہ آیا نہ دھوپ میں نہ چاندنی میں ۔ ابن سبع نے فرمایا اس لئے کہ حضور نور ہیں ۔امام رزین نے فرمایا اس لئے کہ حضور کے انوار سب پر غالب ہیں۔

(۳؂انموذج اللبیب)

امام علامہ قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالٰی شفاء شریف میں فرماتے ہیں :وما ذکر من انہ کان لاظل لشخصہ فی شمس ولا قمر لانہ کان نوراً ۱؂۔

یعنی حضور کے دلائل نبوت وآیات رسالت سے ہے وہ بات جو مذکور ہوئی کہ آپ کے جسم انور کا سایہ نہ دھوپ میں ہوتا نہ چاندنی میں اس لئے کہ حضور نور ہیں۔

 (۱؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل ومن ذٰلک ماظہر من الآیات دارالکتب العلمیۃ بیروت     ۱ /۲۲۵)

علامہ شہاب الدین خفاجی رحمہ اللہ تعالٰی اس کی شرح نسیم الریاض میں فرماتے ہیں : دھوپ اورچاندنی اورجو روشنیاں کہ ان میں بسبب اس کے کہ اجسام ، انوار کے حاجب ہوتے ہیں لہذا ان کا سایہ نہیں پڑتا جیساکہ انوار حقیقت میں مشاہدہ کیا جاتاہے ۔ پھر حدیث کتاب الوفاء ذکر کر کے اپنی ایک رباعی انشاد کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سایہ احمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا دامن بسبب حضور کی کرامت وفضیلت کے زمین پر نہ کھینچا گیا اورتعجب ہے کہ باوجود اس کے تمام آدمی ان کے سایہ میں آرام کرتے ہیں ۔ پھر فرماتے ہیں : بہ تحقیق قرآن عظیم ناطق ہے کہ آپ نور روشن ہیں اورآپ کا بشر ہونا اس کے منافی نہیں جیسا کہ وہم کیا گیا، اگر تو سمجھے تو وہ نور علی نور ہیں۔وھذا ما نصّہ الخفاجی (خفاجی کی عبارت یہ ہے ) (و) ومن دلائل نبوتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم (ماذکر) بالبناء للمجہول والذی ذکرہ ابن سبع (من انہ) بیان لما الموصولۃ (لاظل لشخصہ )ای لجسدہ الشریف اللطیف اذا کان (فی شمس ولاقمر)مما ترٰی فیہ الظلال لحجب الاجسام ضوء النیراین ونحوھما وعلل ذٰلک ابن سبع بقولہ (لانہ ) صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم (کان نورا)والانوار شفافۃ لطیفۃ لاتحجب غیر ھا من الانوار فلاظل لھا کما ھو مشاھد فی الانوار الحقیقۃ وھذا رواہ صاحب الوفاء عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ قال لم یکن لرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل ولم یقم مع شمس الا غلب ضوؤہ ضوئھا ولا مع سراج الا غلب ضوؤہ ضوؤہ وقد تقدم ھٰذا والکلام علیہ ورباعیتھافیہ

 وھی : ؎ ماجر لظل احمد اذیال

فی الارض کرامۃ کما قد قالوا

ھذا عجب وکم بہ من عجب

والناس بظلہ جمیعا قالوا”

وقالواھذا من القیلولۃ وقد نظق القراٰن بانہ النورالبمین وکونہ بشرا لا ینافیہ کما توھم فان فھمت فھو نور علی نور فان النور ھو الظاھر بنفسہ المظھر لغیرہ وتفصیلہ فی مشکوٰۃ الانوار ۱؂ انتھٰی۔

حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دلائل نبوت سے ہے وہ جو کہ مذکورہوا ، اوروہ جو ابن سبع نے ذکر فرمایا کہ آپ کے تشخص یعنی جسم اطہر ولطیف کا سایہ نہ ہوتا جب آپ دھوپ اورچاندنی میں تشریف فرماہوتے یعنی وہ روشنیاں جن میں سائے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اجسام، شمس وقمر وغیرہ کی روشنی کے لئے حاجب ہوتے ہیں ۔  ابن سبع نے اس کی علت یہ بیان کی کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور ہیں اورانوار شفاف ولطیف ہوتے ہیں وہ غیر کے لئے حاجت نہیں ہوتے اوران کا سایہ نہیں ہوتا جیسا کہ انوار حقیقت میں دیکھاجاتاہے ۔ اس کو صاحب وفاء نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ۔ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا ، نہ کھڑے ہوئے آپ کبھی سورج کے سامنے مگر آپ کا نور سورج پر غالب آگیا، اورنہ قیام فرمایا آپ نے چراغ کے سامنے مگر آپ کا نور چراغ کی روشنی  پر غالب آگیا۔یہ اوراس پر کلام پہلے گزر چکا ہے اوراس سلسلہ میں رباعی جو کہ یہ ہے : ”حضرت امام الانبیاء احمد مجتبٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سایہئ اقدس نے آپ کی کرامت وفضیلت کی وجہ سے دامن زمین پر نہیں کھینچاجیسا کہ لوگوں نے کہا ۔یہ کتنی عجیب بات ہے کہ عدم سایہ کے باوجود سب لوگ آپ کے سایہ رحمت میں آرام کرتے ہیں ۔”

یہاں قالوا، قیلولہ سے مشتق ہے (نہ کہ قول سے ) تحقیق قرآن عظیم ناطق ہے کہ آپ نور روشن ہیں اورآپ کا بشرہونا اس کے منافی نہیں جیسا کہ وہم کیا گیا ۔ اگر تو سمجھے توآپ نور علی نور ہیں ،کیونکہ نور وہ ہے جو خود ظاہر ہوں اوردوسروں کو ظاہر کرنے والا ہو۔ اس کی تفصیل مشکوۃ الانوار میں ہے ۔ (ت)

 (۱؂نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۳ /۲۸۲)

حضرت مولوی معنوی قدس سرہ القوی دفتر پنجم مثنوی شریف میں فرماتے ہیں : ؎

چوں فنانش از فقر پیرایہ شود

اومحمد داربے سایہ شود۱؂

(جب اس کی فنا فقر سے آراستہ ہوجاتی ہے تو وہ محمدمصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرح بغیر سایہ کے ہوجاتاہے ۔ت)

 (۱؂مثنوی معنوی درصفت آں بیخود کہ دربقای حق فانی شدہ است دفترپنجم نورانی کتب خانہ پشاور ص۱۹)

مولانا بحرالعلوم نے شرح میں فرمایا :درمصرع ثانی اشارہ بمعجزئہ آن سرور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ آن سرور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راسایہ نمی افتاد۲؂۔

دوسرے مصرعے میں سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے معجزے کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتاتھا۔(ت)

امام علامہ احمد بن محمد خطیب قسطلانی رحمہ اللہ تعالٰی مواہب لدنیہ ومنہج محمدیہ میں فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سایہ نہ تھا دھوپ میں نہ چاندی میں ۔ اسے حکیم ترمذی نے ذکوان سے پھر ابن سبع کا حضور کے نور سے استدلال اورحدیث اجعلنی نوراً (مجھے نور بنادے ۔ ت) سے استشہادذکر کیا۔حیث قال(امام قسطلانی نے فرمایا۔ت) :لم یکن لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی شمس ولا قمر رواہ الترمذی عن ذکوان ،  وقال ابن سبع کان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نوراً فکان اذا مشٰی فی الشمس اوالقمر لایظھر لہ ظل قال غیرہ ویشھد لہ قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی دعائہ واجعلنی نورا۳؂۔

دھوپ اورچاندنی میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کاسایہ نہ ہوتا ۔ اس کو ترمذی نے ذکوان سے روایت کیا۔ ابن سبع نے کہا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور تھے ، جب آپ دھوپ اورچاندنی میں چلتے تو سایہ ظاہر نہ ہوتا ۔ اس کے گیر نے کہا اس کا شاہد نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وہ قول ہے جو آپ دعا میں کہتے کہ اے اللہ ! مجھے نور بنادے۔(ت)

 (۳؂المواھب اللدنیۃ المقصد الثالث الفصل الاول المکتب الاسلامی بیروت   ۲ /۳۰۷)

اسی طرح سیرت شامی میں ہے :وزاد عن الامام الحکیم قال معناہ لئلایطأعلیہ کافر فیکون مذلۃ لہ۱؂۔

یعنی امام ترمذی نے یہ اضافیہ کیا: اس میں حکمت یہ تھی کہ کوئی کافر سایہ  اقدس پر پاؤں نہ رکھے کیونکہ اس میں آپ کی توہین ہے۔

 (۱؂سبل الہدٰی والرشادالباب العشرون فی مشیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دارالکتب العلمیۃ بیروت    ۲ /۹۰)

اقول : سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالٰی عنہما تشریف لئے جاتے تھے ، ایک یہودی حضرت کے گرد عجب حرکات اپنے پاؤں سے کرتاجاتاتھااس سے دریافت فرمایا،بولا :بات یہ ہے کہ اورتوکچھ قابو ہم تم پر نہیں پاتے جہاں جہاں تمہاراسایہ پڑتاہے اسے اپنے پاؤں سے روندتا چلتاہوں۔ ایسے خبیثوں کی شرارتوں سے حضرت حق عزجلالہ، نے اپنے حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو محفوظ فرمایا۔ نیز اسی طرح سیرت حلبیہ میں قدرمافی شفاء الصدور۔

محمد زرقانی رحمہ اللہ تعالٰی شرح میں فرماتے ہیں : حضور کے لئے سایہ نہ تھا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ حضور نور ہیں ، جیسا کہ ابن سبع نے کہا اورحافظ رزین محدث فرماتے ہیں :سبب اس کا یہ تھا کہ حضور کا نور ساطع تمام انوار عالم پر غالب تھا ، اور بعض علماء نے کہا کہ حکمت اس کی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بچانا ہے اس سے کہ کسی کافر کا پاؤں ان کے سایہ پر نہ پڑے ۔وھذا کلامہ برمہ (زرقانی کی اصل عبارت) : (ولم یکن لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل فی شمس ولاقمر لانہ کان نورا کما قال ابن سبع وقال رزین لغلبۃ انوارہ قیل وحکمۃ ذالک صیانتہ عن ان یطأکافر علی ظلہ (رواہ الترمذی الحکم عن ذکوان )ابی صالح السمان الزیات المدنی اوابی عمرو المدنی مولی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا وکل منھما ثقۃ من التابعین فھو مرسل لکن روی ابن المبارک وابن الجوزی عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما لم یکن للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل ولم یقم مع الشمس قط الاغلب ضوؤہ ضوء الشمس ولم یقم مع سراج قط الا غلب ضوؤہ ضوء السراج (وقال ابن سبع کان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور افکان اذا مشٰی فی الشمس والقمر لایظھر لہ ظل) لان النور لا ظل لہ (قال غیرہ ویشھدلہ قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی دعائہ)لما سئل اللہ تعالٰی ان یجعل فی جمیع اعضائہ وجہاتہ نوراً ختم بقولہ (واجعلنی نورا)والنور لاظل لہ وبہ یتم الا ستشہاد ۱؂ انتہٰی ۔)

حضورانور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا نہ دھوپ میں اورنہ ہی چاندنی میں ، کیونکہ آپ نور ہیں جیسا کہ ابن سبع نے فرمایا ۔ رزین نے فرمایا عدم سایہ کا سبب آپ کے انوار کا غلبہ ہے ۔ کہا گیا ہے کہ اس کی حکمت آپ کو بچانا ہے اس بات سے کہ کوئی کافر آپ کے سایہ پر اپنا پاؤں رکھے ۔ اس کو حکیم ترمذی نے روایت کیا ہے زکوان ابوصالح السمان زیات المدنی سے یاسیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے آزاد کردہ غلام ابو عمروالمدنی سے اوروہ دونوں ثقہ تابعین میں سے ہیں ، چنانچہ یہ حدیث مرسل ہوئی ، مگر ابن مبارک اورابن جوزی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا ، آپ کبھی بھی سورج کے سامنے جلوہ افروز نہ ہوئے مگر آپ کا نور سوج کے نور پر غالب آگیا اور نہ ہی کبھی آپ چراغ کے سامنے کھڑے ہوئے مگر آپ کی روشنی چراغ کی روشنی پرغالب آگئی ۔ابن سبع نے کہا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور تھے۔ آپ جب دھوپ اورچاندنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نمودار نہ ہوتا کیونکہ نور کا سایہ نہیں ہوتا ، اس کے غیر نے کہا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دعائیہ کلمات اس کے شاہد ہیں جب آپ نے اللہ تعالٰی سے سوال کیا کہ وہ آپ کے تمام اعضاء اورجہات کو نور بنادے ، اورآخر میں یوں کہا اے اللہ ! مجھے نور بنادے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا۔  اسی کے ساتھ استدلال تام ہوا۔ (ت)

(۱؂شرح الزرقانی المواھب اللدنیۃ المقصد الثالث الفصل الاول دارالمعرفۃ بیروت ۴ /۲۲۰)

علامہ حسین بن محمد دیار بکری کتاب الخمیس فی احوال انفس نفیس ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )النوع الرابع ما اختص صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بہ من الکرامات

میں فرماتے ہیں  :لم یقع ظلہ علی الارض ولارئی لہ ظل فی شمس ولا قمر۲؂ ۔

حضور کا سایہ زمین پر نہ پڑتا ، نہ دھوپ میں نہ چاندنی میں نظر آتا۔

 (۲؂تاریخ الخمیس القسم الثانی النوع الرابع مؤسسۃ الشعبان بیروت ۱ /۲۱۹)

بعینہٖ اسی طرح کتاب”نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی الاطہار ”میں ہے ۔

اما م نسفی تفسیر مدارک شریف میں زیرقولہٖ تعالٰی :لو لا اذ سمعتموہ ظن المؤمنون والمؤمنٰت بانفسھم خیرا۳؂۔(کیوں نہ ہوا جب تم نے اسے سنا تھا کہ مسلمان مردوں اورمسلمان عورتوں نے اپنوں پر نیک گمان کیاہوتا۔ت)

 (۳؂القرآن الکریم ۲۴ /۱۲)

فرماتے ہیں :قال عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ ان اللہ مااوقع ظلک علی الارض لئلایضع انسان قدمہ علی ذٰلک الظل۱؂ ۔

امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی بے شک اللہ تعالٰی نے حضور کا سایہ زمین پر نہ ڈالا کہ کوئی شخص اس پر پاؤں نہ رکھ دے ۔”

 (۱؂مدارک التنزیل (تفسیر النسفی)تحت الآیۃ  ۲۴ /۱۲ دارالکتاب العربی بیروت    ۳ /۱۳۵)

 

امام ابن حجرمکی افضل القرٰی میں زیر قول ماتن قدس سرہ، : ؎لم یساووک فی علاک وقدحا

ل سنا منک دونھم وسناء۲؂

انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام فضائل میں حضور کے برابر نہ ہوئے حضور کی چمک اوررفعت حضور تک ان کے پہنچنے سے مانع ہوئی ۔

 (۲؂ام القرٰی فی مدح خیر الورٰی الفصل الاول حزب القادریۃ لاہور ص۶)

فرماتے ہیں:ھذا مقتبس من تسمیتہ تعالٰی لنبیہ نورا فی نحو”قدجاء کم من اللہ نور وکتب مبین ”وکان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یکثر الدعا بان اللہ تعالٰی یجعل کلا من حواسہ واعضائہ وبدنہ نوراً اظہار الوقوع ذٰلک وتفضل اللہ تعالٰی علیہ بہ لیز داد شکرہ وشکر امتہ علی ذٰلک کما امرنا بالدعاء الذی فی اٰخر سورۃ البقرۃ مع وقوعہ وتفضل اللہ تعالٰی بہ لذٰلک ومما یؤیدانہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صارنورا انہ کان اذا مشٰی فی الشمس اوالقمر لم یظھر لہ ظل لانہ لایظھر الالکثیف وھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قد خلصہ اللہ من سائر الکثائف الجسمانیۃ وصیرہ نورا صرفا لایظھر لہ ظل اصلا ۱؂۔

یعنی یہ معنٰی اس سے لئے گئے ہیں کہ اللہ عزوجل نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام نور رکھا مثلاً اس آیت میں کہ بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور تشریف لائے اورروشن کتاب ۔ اورحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بکثرت یہ دعا فرماتے کہ الہٰی !میرے تمام حواس واعضاء سارے بدن کو نور کردے ۔ اوراس دعاسے یہ مقصود نہ تھا کہ نور ہونا ابھی حاصل نہ تھا اس کا حصول مانگتے تھے بلکہ یہ دعا اس امر کے ظاہر فرمانے کے لئے تھی کہ واقع میں حضور کا تمام جسم پاک نور ہے اوریہ فضل اللہ عزوجل نے حضور پر کردیا تاکہ آپ اورآپ کی امت اس پر اللہ تعالٰی کا زیادہ شکر ادا کریں ۔جیسے ہمیں حکم ہوا کہ سورہ بقرشریف کے آخر کی دعا عرض کریں وہ بھی اسی اظہار وقوع وحصول فضل الہٰی کے لئے اورحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور محض ہوجانے کی تائید  اس سے ہے کہ دھوپ یا چاندنی میں حضور کا سایہ نہ پیدا ہوتا اس لئے کہ سایہ تو کثیف کا ہوتاہے اورحضو راللہ تعالٰی نے تمام جسمانی کثافتوں سے خالص کر کے نرانور کردیا لہذا حضور کے لئے سایہ اصلاً نہ تھا۔

 (۱؂افضل القرٰی لقراء ام القرٰی (شرح ام القرٰی) شرح شعر ۲        المجمع الثقانی ابوظبی    ۱ /۱۲۸و۱۲۹)

علامہ سلیمان جمل فتوحات احمدیہ شرح ہمزیہ میں فرماتے ہیں :لم یکن لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل یظھر فی شمس ولا قمر۲؂ ۔

نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ دھوپ میں ظاہر ہوتا نہ چاندنی میں ۔

(۲؂ الفتوحات الاحمدیۃ علی متن الہمزیۃ سلیمان جم المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر ص۵)

فاضل محمد بن فہمیہ کی”اسعاف الراغبین فی سیرۃ المصطفٰی واھل بیتہ الطاھرین ”میں ذکر خصائص نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں ہے :وانہ لافیئ لہ۳؂۔حضور کا ایک خاصہ یہ ہے کہ حضور کے لئے سایہ نہ تھا۔

 (۳؂اسعاف الراغبین فی سیرۃ المصطفٰی والہ بیتہ الطاہرین علی ہامش الابصار دارالفکر بیروت ص۷۹)

مجمع البحار میں برمزش یعنی زبدہ شرح شفاء شریف میں ہے :من اسمائہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قیل من خصائصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انہ اذا مشٰی فی الشمس والقمر لایظھر لہ ظل۴؂۔

حضور کا ایک نام مبارک ”نور”ہے ، حضور کے خصائص سے شمار کیا گیا کہ دھوپ اورچاندنی میں چلتے تو سایہ نہ پیداہوتا۔

 (۴؂مجمع بحار الانوار باب نون تحت لفظ ”النور”مکتبہ دارالایمان مدینۃ المنورۃ   ۴ /۸۲۰)

شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ العزیز مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں :ونبودمرآنحضرت را صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سایہ نہ در آفتاب ونہ در قمر رواہ الحکیم الترمذی عن ذکوان فی نوادر الاصول وعجب است ایں بزرگان کہ کہ ذکر نکر دند چراغ راونور یکے از اسمائے آنحضرت است صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ونور راسایہ نمی باشد انتہٰی۱؂۔

سرکاردوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ سورج اورچاند کی روشنی میں نہ تھا ۔ بروایت حکیم ترمذی از ذکوان ، اورتعجب یہ ہے ان بزرگوں نے اس ضمن میں چراغ کا ذکر نہیں کیا اور ”نور”حضور کے اسماء مبارکہ میں سے ہے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا۔ (ت)

(۱؂مدارج النبوۃ باب اول بیان سایہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۱ /۲۱)

جناب شیخ مجدد جلد سوم مکتوبات ، مکتوبات صدم میں فرماتے ہیں :او را صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سایہ نبود درعالم شہادت سایہ ہرشخص از شخص لطیف تر است وچوں لطیف ترے ازوے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم درعالم نباشد اورا سایہ چہ صورت دارد ۲؂

آں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا، عالم شہادت میں ہر شخص کا سایہ اس سے بہت لطیف ہوتاہے ، اورچونکہ جہان بھر میں آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کوئی چیز لطیف نہیں ہے لہذا آپ کا سایہ کیونکر ہوسکتاہے!(ت)

(۲؂مکتوبات امام ربانی مکتوب صدم نولکشور لکھنؤ ۳ /۱۸۷)

نیز اسی کے آخر مکتوب ۱۲۲میں فرماتے ہیں :واجب راتعالٰی چراظل بود کہ ظل موہم تولید بہ مثل است ومنبی از شائبہ عدم کمال لطافت اصل ، ہرگاہ محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم را از لطافت ظل نبود خدائے محمدراچگونہ ظل باشد۳؂۔

اللہ تعالٰی کا سایہ کیونکر ہو، سایہ تو وہم پیدا کرتاہے کہ اس کی کوئی مثل ہے اور یہ کہ اللہ تعالٰی میں کمال لطافت نہیں ہے ، دیکھئے محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا لطافت کی وجہ سے سایہ نہ تھا تو محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ کیونکر ممکن ہے۔(ت)

 (۳؂مکتوبات امام ربانی مکتوب ۱۲۲    نولکشورلکھنؤ ۳ /۲۳۷)

مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب تفسیر عزیزی سورہ والضحٰی میں لکھتے ہیں :سایہ ایشاں برزمیں نمی افتاد۱؂۔

آپ کا سایہ زمین پر نہ پڑا۔

 (۱؂فتح القدیر (تفسیر عزیزی)پ عم سورۃ الضحٰی مسلم بک ڈپو، لا ل کنواں ، دہلی ص۳۱۲)

فقیر کہتاہے غفراللہ لہ، استدلال ابن سبع کا حضور کے سراپا نور ہونے سے جس پر بعض علماء نےحدیث واجعلنی نورا (مجھے نور بنادے ۔ ت) سے استشہاد اورعلمائے لاحقین نے اسے اپنے کلمات میں بنظر احتجاج یاد کیا۔

ہمارے مدعا پر دلالتِ واضحہ یہ ہے ، دلیل شکل اول بدیہی الانتاج دو مقدموں سے مرکب ، صغرٰی یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور ہیں ، اورکبرٰی یہ کہ نور کے لئے سایہ نہیں ، جوان دونوں مقدموں کو تسلیم کرے گا نتیجہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سایہ نہ تھا ، آپ ہی پائے گا: مگر دونوں مقدموں میں کوئی مقدمہ ایسا نہیں جس میں مسلمان ذی عقل کو گنجائش گفتگو ہو، کبرٰی توہرعاقل کے نزدیک بدیہی اورمشاہد ہ بصروشہادت بصیرت سے ثابت، سایہ اس جس کا پڑے گا جو کثیف ہو اور انوار کو اپنے ماوراء سے حاجب ، نور کا سایہ پرے تو تنویر کون کرے۔ اس لئے دیکھو آفتاب کے لئے سایہ نہیں ، اور صغرٰی یعنی حضور والا کا نورہونا مسلمان کا تو ایمان ہے ، حاجت بیان حجت نہیں مگر تبکیت معاندین کے لئے اس قدر اشارہ ضرور کہ حضرت حق سبحانہ، وتعالٰی فرماتاہے :یآیھا النبی انا ارسلنٰک شاھداً ومبشرا ونذیر اوداعیاً الی اللہ باذنہ وسراجاً منیراً۲؂۔اے نبی  ! ہم نے تمہیں بھیجاگواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا اور خدا کی طرف بلانے والا اور چراغ چمکتا۔

 (۲؂القرآن الکریم ۳۳ /۴۵)

یہاں سراج سے مراد چراغ ہے یا ماہ یا مہر ، سب صورتیں ممکن ہیں ، اور خود قرآن عظیم میں آفتاب کو سراج فرمایا :وجعل القمر فیھن نورا وجعل الشمس سراجا ۳؂۔اوربنایا پروردگار نےچاند کو نور آسمانوں میں اوربنایا سورج کو چراغ۔(ت)

(۳؂القرآن الکریم    ۷۱ /۱۶)

اورفرماتاہے :قدجاء کم من اللہ نور وکتاب مبین ۱؂۔بتحقیق آیا تمہارے پاس خدا کی طرف سے ایک نور اورکتاب روشن ۔

 (۱؂القرآن الکریم    ۵ /۱۵)

علماء فرماتے ہیں : نور سے مراد محمدمصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں۔

اسی طرح آیہ کریمہوالنجم اذا ھوٰی۲؂۔ (اس پیارے چمکتے تارے محمد کی قسم جب یہ معراج سے اترے۔ ت)میں امام جعفر صادق اورآیہ کریمہوما ادرٰک ما الطارق النجم الثاقب۳؂۔(اورکچھ تم نے جانا وہ رات کو آنے والا کیاہے ، چمکتا تارا۔ت) میں بعض مفسرین نجم اور نجم الثاقب سے ذات پاک سید لولاک مراد لیتے ہیں ۴؂صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 (۲؂القرآن الکریم   ۵۳ /۱)

(۳؂القرآن الکریم ۸۶/ ۲و۳)

(۴؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی الفصل الرابع دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۳۰)

بخاری ومسلم وغیرہما کی احادیث میں بروایت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما حضور سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ایک دعا منقول جس کا خلاصہ یہ ہے  :اللھم اجعل فی قلبی نور اوفی بصری نوراً وفی سمعی نوراً وفی عصبی نور اوفی لحمی نورًا وفی دمی نورا وفی شعری نورا وفی بشری نورا وعن یمینی نور ا وعن شمالی نورا وامان می نورا وخلفی نور ا وفوقی نورا وتختی نورا واجعلنی نوراً۵؂۔

الہٰی!میرے دل اور میری جان اورمیر ی آنکھ اورمیرے کان اورمیرے گوشت وپوست وخون واستخوان اورمیرے زیر وبالا وپس وپیش وچپ وراست اورہرعضو میں نور اورخود مجھے نور کردے ۔

 (۵؂صحیح البخاری کتاب الدعوات باب الدعاء قدیمی کتب خانہ کراچی      ۲ /۹۳۵)

( صحیح مسلم کتاب صلٰوۃ المسافرین باب صلٰوۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱ /۲۶۱)

(جامع الترمذی ابواب الدعوات باب منہ امین کمپنی دہلی          ۲ /۱۷۸)

جب وہ یہ دعا فرماتے اوران کے سننے والے نے انہیں ضیائے تابندہ ومہر درخشندہ ونور الٰہی کہا پھر اس جناب کے نور ہونے میں مسلمان کو کیا شبہ رہا ، حدیث ابن عباس میں ہے کہ ان کا نور چراغ وخوشید پر غالب آتا ۔ اب خدا جانے غالب آنے سے یہ مراد کہ ان کی روشنیاں اس کے حضور پھیکی پڑ جائیں جیسے چراغ پیش مہتاب یا یکسر ناپدید وکالعدم ہوجاتیں جیسے ستارے حضور آفتاب۔

ابن عباس کی حدیث میں ہے :واذاتکلم رئی کالنور یخرج من بین ثنایاہ ۱؂۔

جب کلام فرماتے دانتوں سے نور چھنتا نظر آتا۔

 (۱؂تاریخ دمشق الکبیر باب ماروی فی فصاحۃ لسانہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۸ ،۹)

( الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی الباب الثانی فصل وان قلت اکرمک اللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۴۶)

( شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم امین کمپنی دہلی ص۳)

وصاف کی حدیث میں وارد ہے :یتلأ لؤ وجھہ تلألؤالقمر لیلا البدراقنی العرنین لہ نوریعلوہ یحسبہ من لم یتأملہ اشم انور المتجرد۲؂۔

یعنی حضور کا چہر ہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ، بلند بینی تھی اوراس پر ایک نور کا بُکّامتجلی رہتاکہ آدمی خیال نہ کرے تو ناک ماس روشن نور کے سبب بہت اونچی معلوم ہو، کپڑوں سے باہر جو بدن تھا یعنی چہر ہ اورہتھیلیاں وغیرہ، نہایت روشن وتابندہ تھا۔صلی ا للہ تعالٰی علٰی کل عضو من جسمہ الانوار الاعطر وبارک وسلم (اللہ تعالٰی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم انور معطر کے ہر عضو پر درود وسلام اوربرکت نازل فرمائے ۔ ت)

 (۲؂شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم امین کمپنی دہلی ص۲)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں :کان الشمس تجری فی وجھہ۳؂۔

گویاآفتاب ان کے چہرے میں رواں تھا۔

 (۳؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی الباب الثانی فصل ان قلت اکرمک اللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت     ۱ /۴۶)

اورفرماتے ہیں :واذاضحک یتلألؤفی الجدر ۴؂۔

جب حضور ہنستے دیواریں روشن ہوجاتیں۔

 (۴؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی الباب الثانی فصل ان قلت اکرمک اللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۴۶)

ربیع بنت معوذ فرماتی ہیں :لورأیت لقلت الشمس طالعۃ۱؂۔اگر تو انہیں دیکھتا ، کہتا آفتاب طلوع کر رہا ہے ۔

 (۱؂المواھب اللدنیۃ عن ربیع بنت معوذ المقصد الثالث الفصل الاول المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۲۲۳)

ابو قرصافہ کی ماں اور خالہ فرماتی ہیں :رأینا کان النور یخرج من فیہ۲؂۔

ہم نے نور سانکلے دیکھا ان کےدہان پاک سے۔

 (۲؂مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی کتاب علامات النبوۃ    باب صفۃ صلی اللہ علیہ وسلم    دارالکتاب بیروت ۸ /۲۸۰)

احادیث کثیرہ مشہورہ میں وارد، جب حضور پیداہوئے ان کی روشنی سے بصرہ اورروم وشام کے محل روشن ہوگئے ۔

چند روایتوں میں ہے :اضاء لہ ما بین المشرق والمغرب ۳؂

آپ کے لئے شرق سے غرب تک منور ہوگیا۔

 (۳؂المواھب اللدنیۃ المقصد الاول احادیث اخری فی المولد المکتب الاسلامی بیروت    ۱ /۱۳۰)

اوربعض میں ہے :امتلأت الدنیاکلھانوراً۴؂۔

تمام دنیا نور سے بھر گئی ۔

 (۴؂الخصائص الکبرٰی باب ماظہر فی لیلۃ مولدہ صلی اللہ علیہ وسلم من المعجزات الخ مرکز اہلسنت گجرات ہند ۱ /۴۷)

آمنہ حضور کی والدہ فرماتی ہیں :رأیت نور اساطعا من رأسہ قد بلغ السماء ۵؂۔

میں نے ان کے سر سے ایک نور بلند ہوتا دیکھا کہ آسمان تک پہنچا۔

 (۵؂الخصائص الکبرٰی باب ماظہر فی لیلۃ مولدہ صلی اللہ علیہ وسلم من المعجزات الخ     مرکز اہلسنت گجرات ہند ۱ /۴۹)

ابن عساکر نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی : ”میں سیتی تھی ، سوئی گر پڑی ، تلاش کی ، نہ ملی ، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تشریف لائے ، حضور کے نور رُخ کی شعاع سے سوئی ظاہر ہوگئی ۶؂۔”

 (۶؂ الخصائص الکبرٰی بحوالہ ابن عساکر باب الآیۃ فی وجہہ الشریف صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مرکز اہلسنت گجرات ہند۱/۶۲و۶۳)

علامہ فاسی مطالع المسرات میں ابن سبع سے نقل کرتے ہیں :کان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یضیئ البیت المظلم من نورہ۱؂

 نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے خانہ تاریک روشن ہوجاتا۔

(۱؂مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ص۳۹۳)

اب نہیں معلوم کہ حجور کے لئے سایہ ثابت نہ ہونے میں کلام کرنے والا آپ کے نور ہونے سے انکار کرے گا یا انوار کے لئے بھی سایہ مانے گا یا مختصر طور پر یوں کہئے کہ یہ تو بالیقین معلوم کہ سایہ جسم کثیف کا پڑتا ہے نہ جسم لطیف کا ، اب مخالف سے پوچھنا چاہئے تیرا ایمان گواہی دیتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جسم اقدس لطیف نہ تھا عیاذاً باللہ ، کثیف تھا اور جو اس سے تحاشی کرے تو پھر عدم سایہ کا کیوں انکار کرتاہے؟

بالجملہ جبکہ حدیثیں اوراتنے اکابر ائمہ کی تصریحیں موجود کہ اگر مخالف اپنے کسی دعوے میں ان میں سے ایک کا قول پائے ، کس خوشی سے معرض استدعلال میں لائے ، جاہلانہ انکار، مکاربرہ وکج بحثی ہے ، زبان ہر ایک کی اس کے اختیار میں ہے چاہے دن کو رات کہہ دے یا شمس کو ظلمات ، آخر کار مخالف جو سایہ ثابت کرتاہے اس کے پاس بھی کوئی دلیل ہے یا فقط اپنے منہ سے کہہ دیا جیسے ہم حدیثیں پیش کرتے ہیں اس کے پاس ہوں وہ بھی دکھائے ، ہم ارشادات علماء سند میں لاتے ہیں وہ بھی ایسے ہی ائمہ کے اقوال سنائے ، یا نہ کوئی دلیل ہے نہ کوئی سند ، گھر بیٹھے اسے الہام ہوا کہ حضور کا سایہ تھا۔

مجرد ماوشما پر قیاس تو ایمان کے خلاف ہے ع

چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک

(مٹی کو عالم پاک سے کیا نسبت ۔ت)

وہ بشر ہیں مگر عالم علوی سے لاکھ درجہ اشرف اورجسم انسانی رکھتے ہیں مگر ارواح وملائکہ سے ہزارجگہ الطف ۔ وہ خود فرماتے ہیں:

لست کمثلکم۲؂

میں تم جیسا نہیں ۔

 (۲؂المصنف لعبدالرزاق کتاب الصیام باب الوصال حدیث ۷۷۵۲المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۲۶۷)

(صحیح البخاری      کتاب الصوم    باب الوصال    قدیمی کتب خانہ کراچی      ۱ /۲۶۳)

(صحیح مسلم کتاب الصیام     باب النہی عن الوصال        قدیمی کتب خانہ کراچی      ۱ /۳۵۱و۳۵۲)

ویروٰی لست کھیئتکم ۳؂

میں تمہاری ہیئت پر نہیں۔

 (۳؂صحیح مسلم کتاب الصیام باب النہی عن الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی      ۱ /۳۵۱و۳۵۲)

( صحیح بخاری       کتاب الصوم      باب الوصال        قدیمی کتب خانہ کراچی         ۱ /۲۶۳و۲۶۴)

ویروٰی ، ایکم مثلی۱؂

تم میں کون ہے مجھ جیسا۔

 (۱؂صحیح مسلم کتاب الصیام باب النہی عن الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۵۱)

(صحیح البخاری کتاب الصوم باب الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶۳)

آخر علامہ خفاجی کا ارشاد نہ سنا کہ :  ”حضور کا بشر ہونا نور رخشندہ ہونے کے منافی نہیں کہ اگر تو سمجھے تو وہ نور علی نور ہیں۲؂۔

(۲؂نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض فصل ومن ذالک ماظہر من الآیات الخ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند     ۳ /۲۸۲)

پھر صرف اس قیاس فاسد پرکہ ہم سب کا سایہ ہوتاہے ان کے بھی ہوگا ، ثبوت سایہ ماننا یااس کی نفی میں کلام کرنا عقل وادب سے کس قدر دور پڑتا ہے ؎

الا ان محمد ابشرلاکالبشر

بل ھو یاقوت بین الحجر۳؂

(خبردار !محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بشرہیں مگر کسی بشر کی مثل نہیں ، بلکہ وہ ایسے ہیں جیسے پتھروں کے درمیان یاقوت ۔ ت)( صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلٰی اٰلہ واصحابہ اجمعین وبارک وسلم )

 (۳؂افضل الصلٰوۃ علی سید السادات فضائل درود مکتبہ نبویہ ، لاہور ص۱۵۰)

فقیر کو حیرت ہے ان بزرگواروں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے معجزات ثابتہ وخصائص صحیحہ کے انکار میں اپنا کیا فائدہ دینی ودنیاوی تصور کیا ہے ، ایمان بے محبت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حاصل نہیں ہوتا ۔ وہ خود فرماتے ہیں:لایؤمن احد کم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولد والناس اجمعین۴؂ ۔تم میں سے کوئی مسلمان نہیں ہوگاجب تک میں اسے اس کے ماں باپ ،اولاد اورسب آدمیوں سے زیادہ پیارا نہ ہوں۔

 (۴؂صحیح البخاری کتاب الایمان باب حب الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۷)

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب وجوب محبۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۹)

اورآفتاب نیم روز کی طرح روشن کہ آدمی ہمہ تن اپنے محبوب کے نشر فضائل وتکثیر مدائح میں مشغول رہتاہے ،  سچی فضیلتوں کا مٹانا اورشام وسحر نفی محاسن کی فکر میںہونا کام دشمن کا ہے نہ کہ دوست کا۔

جان برادر!تو نے کبھی سنا ہے کہ تیرامحب تیرے مٹانے کی فکر میں رہے ، اورپھر محبوب بھی کیسا،جان ایمان وکان احسان ، جسے اس کے مالک نے تمام جہان کے لئے رحمت بھیجا اوراس نے تمام عالم کا بارتن نازک پر اٹھالیا ۔

تمہارے غم میں دن کاکھانا ، رات کا سونا ترک کردیا۔ تم رات دن لہو ولعب اور ان کی نافرمانیوں میں مشغول ، اوروہ شب وروز تمہاری بخشش کے لئے گریاں وملول۔

جب وہ جان رحمت وکان رأفت پیداہوا بارگاہ الٰہی میں سجدہ کیاارب ھب لی امتی۔  (یا اللہ !میری امت کو بخش دے ۔ ت)

جب قبر شریف میں اتار الب جاں بخش کو جنبش تھی ، بعض صحابہ نے کان لگا کر سنا ،آہستہ آہستہامتی ۔ (میری امت۔ت) فرماتے تھے ،

قیامت میں بھی انہیں کے دامن میں پناہ ملے گی، تمام انبیاء علیہم السلام سےنفسی نفسی اذھبواالی غیری۳؂ (آج مجھے اپنی فکر ہے کسی اور کے پا س چلے جاؤ ۔ ت) سنو گے اوراس غمخوار امت کے لب پریارب امتی۴؂ (اے رب !میری امت کو بخش دے۔ ت)کا شورہوگا۔

 (۳؂صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۱)

(۴؂صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۱)

بعض روایات میں ہے کہ حضور ارشاد فرماتے ہیں : جب انتقال کروں گا صور پھونکنے تک قبر میں امتی امتی پکاروں گا۔ کان بجنے کا یہی سبب ہے کہ وہ آواز جانگداز اس معصوم عاصی نواز کی جو ہروقت بلند ہے ، گاہے ہم سے کسی غافل ومدہوش کے گوش تک پہنچتی ہے ، روح اسے ادراک کرتی ہے ، اسی باعث اس وقت درود پڑھنا مستحب ہوا کہ جو محبوب ہرآن ہماری یا دمیں ہے ، کچھ دیر ہم ہجراں نصیب بھی اس کی یاد میں صَرف کریں۔

وائے بے انصافی !ایسے غمخوار پیارے کے نام پر جاں نثارکرنا اوراس کی مدح وستائش ونشر فضائل سے آنکھوں کی روشنی ، دل کو ٹھنڈک دینا واجب یا یہ کہ حتی الوسع چاند پر خاک ڈالے اوربے سبب ان کی روشن خوبیوں میں انکار نکالے۔

اے عزیز!چشم خرد بین میں سرمہ انصاف لگااورگوش قبول سے پنبہ اعتساف نکال، پھر یہ تمام اہل اسلام بلکہ ہر مذہب وملت کے عقلاء سے پوچھنا ، پھر اگر ایک منصف ذی عقل بھی تجھ سے کہہ دے کہ نشر محاسن وتکثیر مدائح نہ دوستی کا مقتضٰی نہ رد فضائل ونفی کمالات غلامی کے خلاف، تو تجھے اختیار ہے ورنہ خدا ورسول سے شرمااوراس حرکت بے جا سے باز آ ، یقین جان لے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خوبیاں تیرے مٹائے نہ مٹیں گی۔

جان برادر! اپنے ایمان پر رحم کر ، سمجھ ، دیکھ کر خداسے کسی کا کیا بس چلے گا، اورجس کی شان وہ بڑھائے اسے کوئی گھٹا سکتاہے ، آئندہ تجھے اختیار ہے ، ہدایت کا فضل الٰہی پر مدار ہے ۔

ہم پر بلا غ مبین تھا ، اس سے بحمداللہ فراغت پائی ،ا ور جواب بھی تیرے دل میں کوئی شک وشبہ یاہمارے کسی دعوے پردلیل یا کسی اجمال کی تفصیل درکاہوتو فقیر کا رسالہ مسمّٰی بہ”قمر التمام فی نفی الظل عن سید الانام”علیہ وعلٰی اٰلہ الصلٰوۃ والسلام ، جسے فقیر نے بعد وروداس سوال کے تالیف کیا،مطالعہ کرے ، ان شاء اللہ تعالٰی بیان شافی پائے گا اورمرشد کافی ، ہم نے اس رسالہ میں اس مسئلہ کی غایت تحقیق ذکر کی ہے اورنہایت نفیس دلائل سے ثابت کردیا ہے کہ حضورسراپا نور تابندہ درخشندہ ذی شعاع واضاء ت بلکہ معدن انواروافضل مضیئات بلکہ درحقیقت بعد جناب الٰہی نام”نور”انہیں کو زیبا، اوران کے ماوراء کو اگر نور کہہ سکتے ہیں توانہیں کی جناب سے ایک علاقہ وانتساب کے سبب ، اوریہ بھی ثابت کیا ہے کہ ثبوت معجزات صرف اسی پر موقوف نہیں کہ حدیث یا قرآن میں بالتصریح ان کا ذکر ہوبلکہ ان کے لئے تین طریقے ہیں ، اوریہ بھی بیان کردیا ہے پیشوایان دین کا داب ان معاملات میں ہمیشہ قبول وتسلیم رہاہے ۔ اگرکہیں قرآن وحدیث سے ثبوت نہ ملا تو اپنی نظر کا قصور سمجھا ، نہ یہ کہ باوجود ایسے ثبوت کافی کے کہ حدیثیں اورائمہ کی تصریحیں اورکافی دلیلیں ، سب کچھ موجود ،پھر بھی اپنی ہی کہے جاؤ ، انکار کے سواکچھ زبان پر نہ لاؤ ، اور اس کے سوا اور فوائد شریفہ وابحاث لطیفہ ہیں، جو دیکھے گا ان شاء اللہ تعالٰی لطف جانفزا پائے گا ،ولا حول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم وصلی اللہ تعالٰی علٰی سیدنا ومولٰنا محمد واٰلہ واصحابہ واصھارہٖ وانصارہٖ واتباعہ اجمعین الٰی یوم الدین اٰمین والحمدللہ رب العٰلمین ۔

 

سیّد کی محبت و تعظیم

 

صحیح حدیث میں ہے :ستّۃ لعنتھم لعنھم اﷲ وکل نبی مجاب الزائد فی کتاب اﷲ والمکذب بقدراﷲ والمستحل من عترتی ماحرم اﷲ الحدیث۲؎۔

 چھ شخص ہیں جن پرمیں نے لعنت کی  اﷲ اُن پرلعنت کرے، اور نبی کی دعاقبول ہے ازانجملہ ایک وہ جوکتاب اﷲ میں اپنی طرف سے کچھ بڑھائے اور وہ جوخیروشر سب کچھ اﷲ کی تقدیر سے ہونے کاانکار کرے اور وہ جومیری اولاد سے اس چیز کو حلال رکھے جو اﷲ نے حرام کیا۔

(۲؎سنن الترمذی   کتاب القدر حدیث ۲۱۶۱دارالفکر بیروت    ۴ /۶۱)

 اور ایک حدیث میں کہ ارشاد فرماتے ہیں صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم :من لم یعرف حق عترتی فلاحدی ثلث امّا منافق وامّا ولدزانیۃ  واما حملتہ امّہ علٰی غیر طھر ۱؎۔جومیری اولاد کاحق نہ پہچانے وہ تین
باتوں میں سے ایک سے خالی نہیں، یا تومنافق ہے یاحرام یاحیضی بچہ۔

 (۱؎ کنزالعمال     حدیث ۳۴۱۹۹    مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۲ /۱۰۴)

 مجمع الانہرمیں ہے :من قال لعالم عویلم اولعلوی علیوی استخفافا فقد کفر۲؎۔جو کسی عالم کو مولویا یاسید کومیرو اس کی تحقیر کے لئے کہے وہ کافرہے۔

 (۲؎ مجمع الانہرشرح ملتقی الابحرباب المرتدثم ان الفاظ الکفرانواع     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۲۹۵)

 

اور اس میں شک نہیں جوسید کی تحقیربوجہ سیادت کرے وہ مطلقاً کافرہے اس کے پیچھے نماز محض باطل ہے ورنہ مکروہ، اور جوسید مشہورہو اگرچہ واقعیت معلوم نہ ہو اسے بلادلیل شرعی کہہ دینا کہ یہ صحیح النسب نہیں اگرشرائط قذف کاجامع ہے توصاف کبیرہ ہے اور ایساکہنے والا اسّی کوڑوں کاسزاوار، اور اس کے بعد اس کی گواہی ہمیشہ کو مردود، اور اگر شرط قذف نہ ہو توکم ازکم بلاوجہ شرعی ایذائے مسلم ہے اور بلاوجہ شرعی ایذائے مسلم حرام،
قال اﷲ تعالٰی :
والذین یؤذون المؤمنین والمؤمنٰت بغیرما اکتسبوا فقداحتملوا بھتانا واثما مبینا۳؎۔

جولوگ ایماندار مردوں اورایماندارعورتوں بغیراس کے کہ انہوں نے (کوئی معیوب کام) کیاہو ان کادل دکھاتے ہیں توبیشک انہوں نے اپنے سرپربہتان باندھنے اور صریح گناہ کابوجھ اٹھالیا(ت)

 (۳؎ القرآن الکریم     ۳۳ /۵۸)

 

یہ فقیر ذلیل بحمدہ تعالٰی حضرات ساداتِ کرام کا ادنٰی غلام وخاکپاہے۔ ان کی محبت و عظمت ذریعہ نجات وشفاعت جانتا ہے،اپنی کتابوں میں چھاپ چکا ہے کہ سیّد اگربدمذہب بھی ہوجائے تو اس کی تعظیم نہیں جاتی جب تک
بدمذہب حدِ کفر تک نہ پہنچے ،ہاں بعدِکفر سیادت ہی نہیں رہتی،پھر اس کی تعظیم حرام ہوجاتی ہے۔ اور یہ بھی فقیر بار ہا فتوٰی دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید
جاننا ضروری نہیں،جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے،  ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں،  نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے۔ اور خوا ہی نخواہی سند دکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں
تو بُرا کہنا مطعون کرنا ہرگز جائے نہیں۔

 

  الناس امنأعلی انسابھم(لوگ اپنے نسب پرامین ہیں)،ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہوکہ یہ سیّد نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کریں گے نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہوگا کہ ناواقفوں کو اس
کے فریب سے مطلع کردیا جائے۔

میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پر میرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سیّد سے الجھا،  انہوں نے فرمایا میں سیّد ہوں کہا۔کیا سند ہے تمہارے سیّد ہونے کی۔ رات کو زیارتِ اقدسﷺ سے مشرف ہوا کہ معرکہ حشر ہے یہ
شفاعت خواہ ہوا،اعراض فرمایا : اس نے عرض کی: میں بھی حضور کا امتی ہوں۔ فرمایا : کیاسند ہے تیرے امتی ہونے کی۔

 امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ۔ فتاوی رضویہ

درگاہ حسین آبادمیں عید میلادالنبی ﷺ

درگاہ حسین آبادمیں عید میلادالنبی ﷺ

بارہ ربیع الاول کی مناسبت سےقمبر شریف میں متعدد پروگرام منعقد ہوتے ہیں جس میں بہت بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوئے۔ اس سال حضرت کے ساتھ

اس پرنور موقع پر اس دن کو منانے کا موقع نصیب ہوا بہت ہی پُر کیف نظارے تھے۔ صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ حضرت کے پوتے سیّد نصر اللہ شاہ دامت برکاتہم

اپنی قیادت میں جلوس لے کر قمبر شہر نکلیں گے اورواپسی پر حضور مرشد کریم دعا فرمائیں گے جس میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی ۔ ایسا پُرکیف منظر تھا

جسے الفاظوں میں بیان کرنا نہایت مشکل ہے ہرطرف عاشقانِ مصطفی ﷺ اپنی عقیدت کا اظہار کرتے نظر آتے۔ جلوس کی درگاہ واپسی پر حضرت نے دعا فرمائی

اور پھر اعلان ہوا کہ قمبر شہر کے وسطی بازار میں جلسہ ہے جہاں نعت خوانی ہوگی اور آپ مرشد کریم تقریر فرمائیں ۔ لنگر عام کے بعد تمام لوگ حضرت کی

سربراہی میں ایک ریلی کی شکل میں وہاں پہنچے جس میں ہزاروں لوگ آپ کے استقبال میں منتظر تھے۔ اس جلسے میں خوب محفل نعت ہوئی اور پھر آپ

کا عالیشان بیان مبارک ہوا اور واپسی پر دعاء ہوئی۔ مغرب کے بعدشہداد کوٹ میں آ پکا جلسہ تھا جس میں ہم سب حضرت سائیں کے ساتھ روانہ ہوئے اور وہاں

بھی خوب آب وتاب تھی ہرطرف فقراء کا جمےغفیر تھا ۔ اس جلسے کے بعد ایک مقامی ڈاکٹر صاحب نے اپنے گھر پر محفل نعت و تعام کا اہتمام کیا تھا جس میں

بہت لطف آیا۔ اس طرح بارہ ربیع الاول کو ایک عالیشان انداز دن گزارنے کا موقع نصیب ہوا۔ الحمدللہ حضرت سائیں نے خوب اپنی قربت کا موقع عطاء فرمایا 

اور اپنی محبت کا اظہار کیا۔ ماشاء اللہ۔ 

فقیر سید زاہد حسین شاہ بخاری (حسینی)

 

 

 

سیّد السادات حضرت قبلہ سائیں سید غلام حسین شاہ بخاری دامت برکاتہم عالی

آپ حضرت پیر مٹھا سائیں کے منظورِ نظر خلیفہ ہیں۔ ضلع قمبر شہداد کوٹ کے شہر قمبر شریف میں آپ کی درگاہ عالیہ حسین آباد مرجع خلائق ہے  ۔ جہاں شاہانِ وقت سے لیکر عوام و خواص اکتساب فیض کر رہے ہیں۔ بڑی مخلوق آپ سے مستفیض ہو رہی ہے ۔ جمہ شریف کے دن آپ کی درگاہ عالیہ پر میلے کا سماں ہوتا ہے ۔ آپ مستجاب الدعوات ہیں ۔آپ آلِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم و اولاد علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اللہ کریم آپ کو شاد آباد رکھے۔

اللہ تعالٰی نے سے سب سے اونچا مقام  آپ کو عطاء فرمایا ۔ اور آپ کے نورانی چہرے کی کیا شان بیان کی جائے جسے دیکھتے ہی زبان سے اللہ کا زکر بے اختیار جاری ہوجاتا ہے۔