Archive for the ‘فہرست بیانات’ Category

سوانح حیات حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ

logo

الحمدللہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علٰی اشرف الانبیاءِ والمرسلین
وعلٰی آلہِ وصحبہِ اجمعین وبعد

 

پیرطریقت ، آفتابِ ولایت، قطبِ عالم غوث زمان سیدی و مرشدی حضرت خواجہ محمد عبدالغفار عرف پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کی نورانی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ عالم، عابد و زاہد ، متقی تھے۔آپ نہ صرف عاشقِ خدا اور صوفی با صفا تھے بلکہ جید عالمِ دین، مفسر ، محدث اور فقیہ بھی تھے۔
آپ علمبردارِ عشقِ رسول ﷺ تھے۔ قافلہ عُشاق کے سالارتھے۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے تاجدار تھے۔ ظاہری و باطنی علوم کے مجمع البحار تھے۔ اپنی نورانی نگاہوں سے لاکھوں دلوں کو زکرِ الٰہی سے سرشار کیا۔ لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا۔ سندھ کی فضاء اللہ اللہ کی ضربوں سے گونج اٹھی۔

خانوادہ پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ
قطب ِ عالم حضرت پیر مٹھا سائیں رحمتہ اللہ علیہ کا تعلق برصغیر کے معزز و محترم گھرانے چنڑ قبیلہ سے تھا۔آپ کا نسب سولہ واسطوں سے قطب الاولیاء حضرت مخدوم عماد الدین عرف چنن پیر یا چنڑ پیر رحمۃ اللہ علیہ کے بھائی محمد اُویس رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے ، جن کی مزار صوبہ پنجاب کے شہر بھاولپور کے جنوب مشرق میں چالیس کلومیٹر کے فاصلہ پر ریگستانی علاقہ میں ریت کے ایک ٹیلے پر واقع ہے ۔ آپ پنجاب کے بھٹائی تھے کیوں کہ آپ کا مزار ایک بھٹ پر واقع ہے ۔ آپ بڑے پایہ کے ولی تھے۔
حضرت مخدوم چنڑ پیر کے خانوادہ میں سے کچھ افراد بستی لنگر میں آکر قیام پزیر ہوئے جو ضلع ملتان کے تحصیل جلالپور پیر والا کے قریب واقع ہے۔ ماضی میں یہ علاقہ دو دریاؤں چناب اور سُتلج کے درمیان ہونے کی وجہ سے دھلی اور ایران کی آبی گزر گاہ تھی ۔ یہ علاقہ اپنی تہزیب تمدن کے اعتبار سے بڑی قدیم اور سلجھی ہوئی تہذیببوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس علاقہ کو سرائیکی وسیب بھی کہتے ہیں۔ یہاں کے لوگ طبعاً سخی فیاض مہمان نواز ہیں ان کی زبان سرائیکی ہے ۔ یہاں کی زمینیں بڑی سرسبز و شاداب ہیں۔

ابوالعلماء حضرت مولانا یار محمد رحمۃ اللہ علیہ۔
علم و معرفت فقر و درویشی حضرت چنن پیر رحمۃاللہ علیہ کے اس خاندان کا علمی ورثہ تھا۔ آپ کی پندرھویں پشت میں ایک خوشنصیب فرد پیدا ہوا جسکا نام یار محمد تھا۔ رب قدیر نے انکو علمی و روحانی دولت سے مزین فرمایا تھا۔ آپ کتب کثیرہ کے مصنف اور موئلف بھی تھے۔ معراج نامہ ، رسالہ نصیحت ، چھل حدیث ، قصص الانبیاء وغیرہ انکی قلمی کاوش تھی۔
حضرت مولانا یارمحمد رحمۃ اللہ علیہ کی شادی اپنے ہی خاندان کی ایک عابدہ زاہدہ بی بی من بھانونی سے ہوئی جن کے بطن مبارک سے انہیں چار فرزند پیدا ہوئے۔ جو کہ چاروں عالم و فاضل تھے۔
۔۱ مولانا اشرف
۔۲ مولانا عبدلرحمن
۔۳ مولانا حضرت پیر عبدالغفار عرف پیر مٹھا سائیں
۔۴ مولانا عبدالستار

ولادت باسعادت
حضرت قبلہ عبدالغفار رحمۃ اللہ علیہ آج سے کوئی ایک سو بیس سال قبل لنگر شریف میں ولادت ہوئی ۔ آپ کے پہلے استاد آپ کے والد گرامی حضرت مولانا یار محمد رحمۃ اللہ علیہ تھے جو بڑے پایہ کے عالم تھے۔ بڑے خوشخو و خوش مزاج تھے۔ کچھ عرصے بڑے بھائی مولانا اشرف کے زیرِ تعلیم رہے ۔
دورۂ حدیث آپ نے شیخ الاسلام مفتی ٔ ہند علامہ عاقل محمد رحمۃاللہ علیہ (ولادت :1813 وفات :1923) کے پاس مکمل کیا، جن کا سلسلہ نسب اکیسویں پشت میں حضرت غوث بہاوالحق ملتانی رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے، جو عرب کے مشہور عالم حضرت شیخ احمد زینی و دھلان کے شاگرد تھے۔ علامہ دھلان حضرت مولانا احمد رضافاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور خواجہ محمد حسن جان سرہندی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے بھی استاز تھے۔ اس نسبت سے اعلٰی حضرت اور حضرت پیر مٹھا سائیں ایک ہی استاز کے فیضِ علم سے بہرور ہوئے ۔ آپ دھلان کے شاگرد کے شاگرد تھے۔

علم طریقت کا حصول
حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ ظاہری علوم سے فراغت کے بعد حضرت حافظ فتح محمد قادری رحمۃاللہ علیہ (ولادت:1835 وفات :1917) کے صحبتوں میں جایا کرتے تھے جو آپ کے خاندان کے پیر و مرشد تھے۔ حضرت حافظ صاحب مستجاب دعوات ، عالم با عمل متّقی متوکل بزرگ تھے۔
حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ ابھی علم سلوک میں تشنۂ تکمیل تھے کہ حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا۔ پھر آپ روحانیت کے متلاشی ہی تھے کہ مولانا الٰہی بخش بیٹ کیچ والے کی زبانی حضرت پیر فضل علی قریشی رحمۃاللہ علیہ (ولادت:1270ھ وفات :1354ھ) کی تعریف سُنی اور انکے روحانی تصرفات کے چرچے سنے، جو اُن دنوں سیکڑوں گاؤں میں قیام پزیر تھے۔ روحانی کشش آپ کو کشاں کشاں حضرت قریشی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں لائی۔ جوں ہی آکر ذکر قلبی حاصل کیا تو دل میں ذکر الٰہی جاری ہوگیا۔ رگ و پے میں اللہ اللہ کی آوازیں آنے لگیں محض قلبی ذکر کرنے سے سلطان الاذکار بھی جاری ہوگیا۔ آپ کے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا۔ آنکھوں کی نیند اڑگئی اورایک عشق و مستی کی کیفیت ہر وقت طاری ہونے لگیں۔ اس طرح تین سال تک یہی کیفیات ِ عشق و محبت جاری رہیں۔

آپ کو اپنے پیر و مرشد سے والہانہ محبت تھی۔ اکثر اوقات آپ کی صحبتوں میں رہتے تھے۔ دیس و پردیس آپ کے رفیق و یار غار رہتے اور اکتساب فیوضاتِ روحانی کرتے رہتے تاآنکہ حضرت قریشی کریم نے آپ کو خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا۔ حضرت قریشی کے خلفاء تو بہت تھے مگر جو مقام حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کو ملا وہ کسی کو نہیں مل سکا۔آپ نے اپنی مورثی زمین زرعی ایراضی اپنے مرشد کو ھبہ کردی۔ اپنی بیٹی اپنے پیر کے حبالہ ء نکاح میں دے دی ۔ ہر وقت خدمت گزار رہتے۔ قریشی کریم کے لنگر خانہ اور مہمانوں کی خدمت مین ھمہ تن گوش مصروف رہتے۔
آپ نے ایک جگہ سکونت اختیار نہیں کی۔ جہاں جہالت کا اندھیرا دیکھا وہاں مسکن بنالیا ۔ پورا علاقہ آپ کے روحانی فیوضات سے مستفیذ ہوا۔ تبلیغی مقاصد مکمل ہوئے تو پھر کسی اور مقام کا انتخاب فرمایا۔ اس طرح آپ نے سندھ ، پنجاب اور بلوچستان میں سترا (17) جگہوں پر قیام فرمایا۔
گو خلافت و اجازت کے بعد تبلیغ کے سلسلہ میں آپ بکثرت سندھ میں تشریف لاتے تھے ، لیکن عاشق آباد نامی مستقل مرکز پنجاب ہی میں بنایا تھا، جہاں حضرت قریشی بھی تشریف فرماہوئے تھے۔ اس دوران سندھ کے بہت سارے فقراء سندھ اور پنجاب کے تبلیغی سفر میں ساتھ ہوتے اور مرکز عاشق آباد کی تعمیر میں عملی طور پر شامل رہے۔

لیکن ان کے دل کی خواہش یہی تھی کہ کسی صورت حضرت پیر مٹھا سندھ میں مستقل قیام فرمائیں چناچہ جب فقراء کی دعوت پر چند مرتبہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے مقیم مسکین فقراء کے یہاں تشریف فرماہوئے ، جو مختلف بستیوں سے نقل مکانی کرکے محض زکرو فکر اور شریعت پر عمل کرنے کی خاطر چھوٹی سی بستی بناکررہ رہے تھے۔ فقراء کی محبت ، شریعت مطہرہ پر عمل و استقامت دیکھ کر آپ بہت خوش ہوئے اور انکی گزارش پر خود بھی پنچاب سے نقل مکانی کرکے وہاں آکر آباد ہوئے اور اس بستی کا نام دین پور تجویز کیا گیا۔

رحمت پور شریف کا قیام
اُنڑ پور قیام کے بعد جیسے ہی آپ دین پور جانے کے لئے رادھن اسٹیشن پر پہنچے ، دریائی سیلاب کی وجہ سے دین پور جانے کا راستہ بند ہوچکا تھا۔ کچھ دن رادھن اسٹیشن پر قیام فرمانے کے بعد لاڑکانہ کے فقراء کی دعوت پر لاڑکانہ تشریف لے گئے۔ جتنے دن لاڑکانہ میں قیام فرمایا،دُور و نزدیک کے فقراء مسلسل آتے رہے، تبلیغ دین کا کام بھی خوب ہوا۔ مقامی فقراء نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مستقل طور پر لاڑکانہ میں رہنے کی خواہش کی کہ یہ بڑا شہر ہے ۔ آمدورفت کی تمام سہولتیں موجود ہیں، اس لیئے دین پور سے بڑھ کر یہاں دین کا کام ہوسکتا ہے ۔ ان کی یہ تجویز چونکہ للّٰہیت پر مبنی تھی اور آپ کی زندگی ویسے بھی دین کی اشاعت و خدمت کے لیئے وقف تھی، آپ نے حامی بھر لی اور اس طرح درگاہ رحمت پور کا قیام عمل میں آیا۔

درگاہ رحمت پور شریف کے قیام کے دوران آپ نے شریعت و طریقت کی ترویج و اشاعت کے لیئے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ اندرونِ ملک کے علاوہ بنگال اور ایران تک آپ کا پیغام پہنچا۔ لاکھوں کی تعداد میں دین سے دور ، نفس و شیطان کے پھندوں میں جکڑے ہوئے افراد کی اصلاح ہوئی۔ نہ معلوم کتنے چور، ڈاکو ، شرابی تائب ہوکر متقی و پرہیزگار بنے۔ نیز آپ کے خلفاء کرام جن کی تعداد 140 بتائی جاتی ہے ۔ سندھ ، پنجاب، سرحد و بلوچستان میں تبلیغی خدمات انجام دیتے رہے اور ہر جگہ غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوتی رہی۔ آپ کو امّت محمدیہ ﷺ کی اصلاح کا اس قدر فکر دامن گیر رہتا تھا کہ مسلسل کئی کئی گھنٹے خطاف کرنا آپ کے معمولات میں شامل تھا۔

اکثر و بیشتر روزانہ نمازِ فجر کے بعد ذکر اللہ کا حلقہ مراقبہ کرانے کے بعد جیسے ہی وعظ شروع فرماتے ، گیارہ بجے تک مسلسل خطاب جاری رہتا تھا۔ اس دوران یکے بعد دیگر ے سامعین ضروریات کے لیئے اٹھتے تھے لیکن آپ پر تبلیغی محویت کا یہ عالم ہوتا تھا کہ بعض اوقات ظہر کی نماز تک یہ سلسلہ جاری رہتا اور آپ نماز ظہر اد ا فرما کر حویلی مبارک میں تشریف لیے جاتے تھے۔ بعض اوقات فرماتے تھے کہ مجھے مجلس ذکر سے اٹھنے کے لئے صرف دو چیزیں مجبور کرتی ہیں (1) نماز (2) سامعین کی تھکاوٹ کا احساس ، سبحان اللہ۔ ظہر سے عصر تک گھر تشریف فرمارہنے کے بعد نماز عصر کے لیئے مسجد تشریف لاتے اور عصر کے بعد سے مغرب تک وعظ فرماتےتھے۔

عمر رسیدہ ہونے کے باوجود آپ کے ان معمولات میں نہ فقط یہ کہ فرق نہیں آیا بلکہ مزید اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات نمازِ عشاء کے وقت تک کھڑے کھڑے کئی گھنٹہ خطاب فرمایا۔ مرض الموت میں جامع مسجد رحمت پور شریف میں بروزِ جمعہ مسلسل چھ گھنٹے خطاب فرمایا۔ حالانکہ نقاہت اور کمزوری کا یہ عالم تھا کہ چلنے پھرنے کی سکت مطلقاً نہ تھی ۔ نماز کے لیئے پہیوں والی کرسی (وہیل چیئر) پر لائے گئے تھے۔ پھر بھی نمازِ باجماعت اور تبلیغ دین میں فرق آنے نہیں دیا۔

اوصاف حمیدہ
توکّل، تقویٰ، صبر و شکر ، خدمتِ خلق و دیگر اوصافِ حمیدہ آپ کے پاکیزہ خمیر میں شامل تھی۔ چناچہ عام بازار کی بنی ہوئ چیزوں مثلاً مٹھائی، گُڑ ، ہوٹل کے کھانے اور مارکیٹ کے گوشت سے مکمل پرہیز کرتے تھے۔ گو یہ چیزیں حلال ہیں لیکن عام طور پر ان میں ضروری پاکیزگی اور صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا، اس لیئے یہ مشتبہ کے زمرہ میں آتی ہیں، جن سے بچنے کے لیئے خود رسول اللہ ﷺ نے تاکید فرمائی ہے۔ آپ کے اس تقویٰ کا جماعت پر بھی نمایاں اثر پایا جاتا تھا۔ خلفاء کرام سفر میں جاتے وقت ستو، میٹھی روٹی (جوکہ کئی دن تک استعمال کی جاسکتی ہے ) اور نمک مرچ اپنے پاس رکھتے جسے بطور سالن استعمال کرتے تھے لیکن کھانے کا سوال کسی سے نہیں کرتے تھے۔

توکّل: حضرت پیر مٹھا کمال درجہ کے متوکّل تھے ۔ فقراء کی آمد مسلسل رہتی تھی۔ سو ، دو سو مسافر روزانہ ہوتے تھے، گیارہویں شریف کے جلسے میں ہزاروں کی تعداد میں اہل ذکر ہوتے تھے۔ کوئی دو دن رہتاکوئی ایک ہفتہ ، لیکن تمام مہمانوں کے لیے ایک ہی قسم کا لنگر ہوتا۔ کسی سے سوال کرنا تو کچا ، خود جلسوں کے موقع پر عموماً یہ اعلان فرماتے تھے کہ آپ بکثرت تشریف لائیں ، مل کر اللہ اللہ کریں ، آپ بے فکر رہیں ، قیامت تک آپ سے سوال نہیں کیا جائے گا۔ زکوٰۃ ، صدقات، خیرات بھی اپنے پڑوس والوں اور رشتہ داروں کو دیں، دربار شریف پر جس قدر زیادہ جماعت آتی، آپ اسی قدر زیادہ خوش ہوتے تھے۔ کوئی کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہوتا ، آپ کے نزدیک اس کی حیثیت ایک سیدھے سادھے مسکین سے زیادہ نہیں ہوتی تھی بلکہ غریبوں مسکینوں سے آپ کو اور زیادہ محبت ہوتی تھی۔ مستغنی اس قدر کہ لاڑکانہ کے بڑے بڑے رئیس دعاء کے لئے حاضر ہوتے تو آپ صاف صاف الفاظ میں نماز ، داڑھی ، خوفِ خدا ، غریبوں سے ہمدردی کی تلقین فرماکر دعا کرتے لیکن کبھی ان سے ایک پیسے کا بھی دنیا وی فائدہ حاصل نہیں کیا۔ آپ اپنے متعلقین و احباب کو توکّل و استغنا کا امر کرتے اور کسی سے سوال ، چندہ کرنے سے سختی سے منع فرماتے تھے۔ چناچہ آپ کے ملفوظات (جو کہ مولانا مفتی عبدالرحمن صاحب نے جمع کئے) میں ہے کہ ایک مرتبہ دوران خطاب ارشاد فرمایا: مجھے مکانات بنانے اور عمدہ مکانات میں رہنے کی رغبت نہیں اور سوال کرنے سے سخت بیزار اور اس کا مخالف ہوں۔ گھر میں اہلخانہ کو قرآن مجید پر ہاتھ رکھوا کر عہد لیا کہ کسی سے سوال نہیں کریں گے۔ اگر کسی قسم کا کام ہوتو مجھے بتادیں۔ اگر مناسب ہوگا تو میں خود انتظام کردوں گا ورنہ نہیں۔ باقی خلفاء یا کسی فقیر کو درگاہ شریف کے کام کے سلسلے میں (بھی) نہیں کہیں۔

اتباعِ سنت: بلاشبہ آپ سر تا پا سنتِ رسول ﷺ کے عملی نمونہ تھے۔ اور یہی آپ کی سب سے بڑی کرامت تھی۔
درگاہ رحمت پور شریف میں تو آپ نے عملی طور پر نظامِ مصطفٰی ﷺ؀ نافذ کرکھا تھا۔ لیکن بیرون درگاہ رہنے والے اہل ذکر فقراء بھی داڑھی ، نماز باجماعت ، مسواک ، عمامہ کے پابند تھے اور خلافِ شرع رسم و رواج سے پرہیز کرتے اور اہل ذکر خواتین ، شرعی پردہ کا اس قدر اہتمام کرتیں کہ بہت سے علماء بھی یہ دیکھ کر دنگ رہ جاتے ۔ نیز یہ حقیقت اور بھی زیادہ اہم اور قابل قدر ہے کہ آپ کی جماعت میں آکر ، خواتین و حضرات یکساں مستفیذ ہوئے، جب کہ مردوں کی اصلاح کے لیئے تو الحمدللہ پہلے بھی بہت سے علماء اور پیروں نے اصلاحی کوششیں کی تھیں،لیکن خواتین کی اصلاح اور ان میں نیکی، تقویٰ کا شوق ، شریعت مطہرہ کے عین مطابق شرعی پردہ کا اہتمام جو آپ کی جماعت میں پایا جاتا تھا اور آج تک پایا جاتا ہے ، کم از کم آج تک کہیں اور نظر نہیں آیا۔ شریعت مطہر ہ کی پابندی اور آپ کے خلوص و للّٰہیت کا عمدہ ثمر تھا کہ بڑے بڑے با اثر افراد کی مخالفت اور تمام تر توانائیاں صرف کرنے کے باوجود آپ کی خداداد مقبولیت میں زرّہ بھر کمی نہ ہوئی بلکہ اسمیں برابر اضافہ ہوتا رہا اور آج تک بالواسطہ آپ کے فیوض و برکات اندرون و بیرون ملک پھیلتے ہی جا رہے ہیں۔ فَال حَمدُ لِللہِ عَلیٰ ذالِک

انتقال پر ملال
عمر مبارک کے آخری ایام میں آپ اکثر و بیشتر یہ قطعہ پڑھا کرتے تھے
سرتے پھلاں کھاری، کوئی ونجن والا ہووے سجنا میں ونجاں واری
آخری ایام میں جوں جسمانی عوارضات نے گھیرا تو آپ کا جوش تبلیغ بڑھتا گیا۔ مسلسل چار پانچ گھنٹے تبلیغ کرتے رہتے۔ بالآخر شعبان المعظم 1384ھ رات کو ساڑھے گیارہ بجے لاکھوں عشاق کو داغ مفارقت دیکر اللہ سے جاملے۔ اِنَّا لِللہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون۔

آپ کی دختر مخدومہ کے بقول جو آخری الفاظ آپ کی زبان ِ مبارک سے ادا ہوئے وہ یہ تھے۔
رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا

قطعہ تاریخ
مولانا نورالدین “انور” فضل آبادی نے حروف ابجد میں یہ قطعہ لکھا ہے:
“فیاض، عارف ، طبیب ، احسن ” عجیب عامل قرآن تھا-1384ھ
“غفار ، عاشق ، امین ، سالک” خطیب کامل بیان تھا -1964ء
آپ کی نماز جنازہ آپ کے فرزند دلبند خواجہ محمد خلیل الرحمن رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھائی اور آپ کا جسد عنبرین آپ کی مسجد غفاری کے جنوب میں دفنایا گیا۔ جہاں آپ کی مزار پرانوار دربار رحمت پور لاڑکانہ میں آج بھی زیارت گاہ عام و خواص ہے۔

اولاد
ایک بیٹا : خواجہ محمد خلیل الرحمن رحمۃ اللہ علیہ
تین بیٹیاں
۔۱ بی بی آسیہ               (زوجہ خواجہ فضل علی قریشی رحمۃاللہ علیہ)۔
۔۲ بی بی غلامِ بتول      (زوجہ مولانا محمد سعید)۔
۔۳ بی بی آمتہ الکریم   (والدہ محترمہ جناب دیدہ دل )۔

مزکورہ معلومات کتاب دیوانِ غفاریہ سے لی گئی ہے جسے حضرت دیدۂ دل نواسلہ پیر مٹھا رحمۃ اللہ نے مرتب کیا ہے۔

 

 

محبوب خدا صلی للہ علیہ وسلم کی عرش تک رسائی اوردیدار الہٰی کےبارےمیں مطلوب سےخبردار کرنیوالا

محبوب خدا صلی للہ علیہ وسلم کی عرش تک رسائی اوردیدار الہٰی کےبارےمیں مطلوب سےخبردار کرنیوالا

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

مسئلہ: کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ شب معراج نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اپنے رب کو دیکھنا کس حدیث سے ثابت ہے ؟

الجواب

  الاحادیث المرفوعہ (مرفوع حدیثیں)

امام احمد اپنی مسند میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی :قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رأیت ربی عزوجل۱؂ ۔ یعنی  رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔

 (۱؂مسند احمد بن حنبل عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۸۵)

 امام جلال الدین سیوطی خصائص کبرٰی اورعلامہ عبدالرؤف مناوی تیسیرشرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں :

یہ حدیث بسند صحیح ہے

۱؂۔   (۱؂ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث رأیت ربی مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۲ /۲۵)

(الخصائص الکبرٰی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۱۶۱)

 ابن عساکر حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :لان اللہ اعطی موسی الکلام واعطانی الرؤیۃ لوجہہ وفضلنی بالمقام المحمود والحوض المورود۲؂۔   بیشک اللہ تعالٰی نے موسٰی کو دولت کلام بخشی اورمجھے اپنا دیدار عطافرمایا مجھ کو شفاعت کبرٰی وحوض کوثر سے فضیلت بخشی ۔

 (۲؂کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر عن جابر حدیث ۳۹۲۰۶مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۴ /۴۴۷ )

 وہی محدث حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی :قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال لی ربی نخلت ابرٰھیم خلتی وکلمت موسٰی تکلیما واعطیتک یا محمد کفاحا۳؂۔

 

یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے میرے رب عزوجل نے فرمایا میں نے ابراہیم کو اپنی دوستی دی اورموسٰی سے کلام فرمایا اورتمہیں اے محمد!مواجہ
بخشا کہ بے پردہ وحجاب تم نے میرا جمال پاک دیکھا ۔

 (۳؂تاریخ دمشق الکبیر باب ذکر عروجہ الی السماء واجتماعہ بجماعۃ من الانبیاء داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۲۹۶ )

 فی مجمع البحار کفاحا ای مواجھۃً لیس بینھما حجاب ولارسول۴؂ ۔

 مجمع البحار میں ہے کہ کفاح کا معنٰی بالمشافہ دیدار ہے جبکہ درمیان میں کوئی پردہ اورقاصد نہ ہو۔ (ت)

 (۴؂مجمع بحار الانوار باب کف ع تحت اللفظ کفح مکتبہ دارالایمان مدینہ منورہ ۴ /۴۲۴)

ابن مردویہ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی :سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وھو یصف سدرۃ المنتہٰی (وذکر الحدیث الی ان قالت ) قلت یارسول اللہ مارأیت عندھا ؟قال أیتہ عندھا یعنی ربہ ۱؂۔   یعنی میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سدرالمنتہٰی کا وصف بیان فرماتے تھے میں نے عرض کی یارسول اللہ !حضو ر نے اس کے پاس کیا دیکھا ؟فرمایا : مجھے اس کے پاس دیدار ہوایعنی رب  کا۔

(۱؂الدرالمنثور  فی التفسیر بالماثور بحوالہ ابن مردویہ تحت آیۃ ۱۷/۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۱۹۴)

 

اٰثار الصحابہ

 

ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی:اما نحن بنوھا شام فنقول ان محمدا رای ربہ مرتین ۲؂۔

ہم بنی ہاشم اہلبیت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دوبار دیکھا۔

 (۲؂جامع الترمذی ابو اب التفسیر سورئہ نجم امین کمپنی اردو بازا ر دہلی ۲ /۱۶۱) )
الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل وامارؤیۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ
۱/ ۱۵۹)

 ابن اسحٰق عبداللہ بن ابی سلمہ سے راوی :ان ابن عمر ارسل الٰی ابن عباس یسألہ ھل راٰی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ربہ ،فقال نعم۳؂۔

 یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے دریافت کرابھیجا : کیا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو
دیکھا ؟ا نہوں نے جواب دیا: ہاں ۔

 (۳؂الدرالمنثور بحوالہ ابن اسحٰق تحت آیۃ ۵۳ /۱۸داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۵۷۰)

جامع ترمذی ومعجم طبرانی میں عکرمہ سے مروی :واللفظ للطبرانی عن ابن عباس قال نظر محمد الی ربہ قال عکرمۃ فقلت لابن باس نظر محمد الی ربہ قال
نعم جعل الکلام لموسٰی والخلۃ لابرٰھیم والنظر لمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
۱؂(زاد الترمذی )فقد رای ربہ مرتین۲؂۔

 

یعنی طبرانی کے الفاظ ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا : محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا۔ عکرمہ ان کے شاگردکہتے ہیں : میں نے عرض کی : کیا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا؟فرمایا : ہاں اللہ تعالٰی نے موسٰی کے لئے کلام رکھا اورابراہیم کے لئے دوستی اورمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے دیدار۔ (اورامام ترمذی نے یہ زیادہ کیا کہ ) بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی کو دوبار دیکھا۔

 (۱؂المعجم الاوسط حدیث ۹۳۹۲مکتبۃ المعارف ریاض ۱۰ /۱۸۱)  (۲؂جامع الترمذی ابواب التفسیر سورۃ نجم امین کمپنی اردوبازار دہلی ۲/ ۱۶۰)

 

امام ترمذی فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے ۔   امام نسائی اورامام خزینہ وحاکم وبیہقی کی روایت میں ہے  :واللفظ للبیہقی أتعجبون ان تکون الخلۃ لابراھیم
والکلام لموسٰی والرؤیۃ لمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

کیاابراہیم کے لئے دوستی اورموسٰی کے لئے کلام اورمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے دیدار ہونے میں تمہیں کچھ اچنبا ہے ۔ یہ الفاظ بیہقی کے ہیں۔ حاکم۳؂ نے
کہا: یہ حدیث صحیح ہے ۔ امام قسطلانی وزرقانی نے فرمایا : اس کی سند جید ہے
۴؂۔

 (۳؂المواہب اللدنیۃ بحوالہ النسائی والحاکم المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)

(الدرالمنثور بحوالہ النسائی والحاکم تحت الآیۃ ۵۳ /۱۸داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۵۶۹)

(المستدرک علی الصحیحین کتاب الایمان راٰی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ربہ دارالفکر بیروت ۱ /۶۵)

(السنن الکبری للنسائی حدیث ۱۱۵۳۹دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶ /۴۷۲)

(۴؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۱۱۷)

 

طبرانی معجم اوسط میں راوی :عن عبداللہ بن عباس انہ کان یقول ان محمدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راٰی ربہ مرتین مرۃ ببصرہ ومرۃ بفوادہ۵؂۔   یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرمایا کرتے بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دوبار اپنے رب کو دیکھا ایک بار اس آنکھ سے
اورایک بار دل کی آنکھ سے ۔

 (۵؂المواہب اللدنیۃ بحوالہ الطبرانی فی الاوسط المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)

(المعجم الاوسط حدیث ۵۷۵۷مکتبۃ المعارف ریاض ۶ /۳۵۶)

 امام سیوطی وامام قسطلانی وعلامہ شامی علامہ زرقانی فرماتے ہیں : اس حدیث کی سند صحیح ہے ۱؂۔

 (۱؂ المواہب اللدنیۃ     المقصد الخامسالمکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)

(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامسدارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۷)

 امام الائمہ ابن خزیمہ وامام بزار حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی :ان محمد ا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راٰی ربہ عزوجل۲؂ ۔

 بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔

 (۲؂ المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)

 امام احمد قسطلانی وعبدالباقی زرقانی فرماتے ہیں : اس کی سند قوی ہے۳؂ ۔

 (۳؂المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)

(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامسدارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۸)

 

محمد بن اسحٰق کی حدیث میں ہے :ان مروان سأل ابا ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ھل راٰی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ربہ فقال نعم۴؂۔

 یعنی مروان نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا : کیا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے ر ب کو دیکھا؟فرمایا : ہاں

 (۴؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن اسحٰق دارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۶)

(الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ ابن اسحٰق فصل وما رؤیۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱ /۱۵۹)

 

 

اخبار التابعین

 

مصنف عبدالرزاق میں ہے :عن معمر عن الحسن البصری انہ کان یحلف باللہ لقد راٰ ی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۵؂۔

یعنی امام حسن بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ قسم کھاکر فرمایا کرتے بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا۔

 (۵؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ عبدالرزاق عن معمر عن الحسن البصری فصل واما رویۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱ /۱۵۹)

 اسی طرح امام ابن خزیمہ حضرت عروہ بن زیبر سے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی کے بیٹے اورصدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نواسے  ہیں راوی کہ وہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو شب معراج دیدار الہٰی ہونا مانتے  :وانہ یشتد علیہ انکارھا ۱؂ اھ ملتقطا۔

اوران پر اس کا انکار سخت گراں گزرتا ۔

 (۱؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۱/۱۱۶)

 

یوں ہی کعب احبار عالم کتب سابقہ وامام ابن شہاب زہری قرشی وامام مجاہد مخزومی مکی وامام عکرمہ بن عبداللہ مدنہ ہاشمی وامام عطا بن رباح قرشی مکی ۔ استاد امام ابو حنیفہ
وامام مسلم بن صبیح ابوالضحی کو فی وغیرہم جمیع تلامذہ عالم قرآن حبر الامہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم کا بھی یہی مذہب ہے ۔

 امام قسطلانی مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں : اخرج ابن خزیمۃ عن عروہ بن الزبیر اثباتھا وبہ قال سائر اصحاب ابن عباس وجزم بہ کعب الاحبار والزھری ۲؂الخ۔

 ابن خزیمہ نے عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہاسے اس کا اثبات روایت کیاہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے تمام شاگردوں کا یہی قول ہے ۔ کعب احبار
اورزہری نے اس پر جزم فرمایا ہے ۔ الخ۔(ت)

 (۲؂ المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)

 

اقوال من بعدھم من ائمّۃ الدین

 

امام خلّال کتاب السن میں اسحٰق بن مروزی سے راوی ، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی رؤیت کو ثابت مانتے اوراس کی دلیل فرماتے:قول النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رأیت ربی ۳؂اھ مختصراً۔

نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے میں نے اپنے رب کو دیکھا۔

 (۳؂المواہب اللدنیۃ بحوالہ الخلال فی کتاب السن المقصد الخامس المتکب الاسلامی بیرو ت۳ /۱۰۷)

 نقاش اپنی تفسیر میں اس امام سند الانام رحمہ اللہ تعالٰی سےراوی : انہ قال اقول بحدیث ابن عباس بعینہ راٰی ربہ راٰہ راٰہ راٰہ حتی انقطع نفسہ۔۴؂

یعنی انہوں نے فرمایا میں حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کا معتقد ہوں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو اسی آنکھ سے دیکھا دیکھا دکھا ، یہاں
تک فرماتے رہے کہ سانس ٹوٹ گئی ۔

 (۴؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ النقاش عن احمد وامام رؤیۃ لربہ المکتبۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱ /۱۵۹)

 امام ابن الخطیب مصری مواہب شریف میں فرماتے ہیں : جزم بہ معمر واٰخرون وھوقول الاشعری وغالب اتباعہ۱؂۔  یعنی امام معمر بن راشد بصری اوران کے  سوا اورعلماء نے اس پر جزم کیا ، اوریہی مذہب ہے امام اہلسنت امام ابوالحسن اشعری اوران کے غالب پَیروؤں کا۔

(۱؂المواہب اللدنیہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)

علامہ شہاب خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض میں  فرماتے ہیں :الاصح الراجح انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رای ربہ بعین راسہ حین اسری بہ کما ذھب الیہ اکثر الصحابۃ۲؂۔  مذہب اصح وراجح یہی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے شب اسرا اپنے رب کو بچشم سردیکھا جیسا کہ جمہور صحابہئ کرام کا یہی مذہب ہے۔

 (۲؂نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض فصل واما رؤیۃ لربہ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۲ /۳۰۳)

 امام نووی شرح صحیح مسلم میں پھر علامہ محمدبن عبدالباقی شرح مواہب میں فرماتے ہیں :الراجح عند اکثر العلماء انہ طرای ربہ بعین راسہ لیلۃ المعراج۳؂۔

 

جمہور علماء کے نزدیک راجح یہی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے شب معراج اپنے رب کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا۔

 (۳؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۱۱۶)

ائمہ متاخرین کے جدا جدااقوال کی حاجت نہیں کہ وہ حد شمار سے خارج ہیں اورلفظ اکثر العلماء کہ منہاج میں فرمایا کافی ومعنی ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔

 مسئلہ۳۷ :از کانپور محلہ بنگالی محل مرسلہ حدم علی خاں وکاطم حسین ۱۱محرم الحرام ۱۳۲۰ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا شبِ معراج مبارک عرش عظیم تک تشریف لے جانا علمائے کرام وائمہ اعلام نے تحریر فرمایا ہے یا نہیں ؟زید کہتاہے یہ محض جھوٹ ہے ، اس کا یہ کہنا کیسا ہے ؟بینوا توجروا(بیان فرماؤ اجردئے جاؤ گے ۔ت)

الجواب : بیشک علمائے کرام ائمہ دین عدول ثقات معتمدین نے اپنی تصنیف جلیلہ میں اس کی اور اس سے زائد کی تصریحات جلیلہ فرمائی ہیں ، اوریہ سب احادیث ہیں، اگرچہ احادیث مرسل یا ایک اصطلاح پر معضل ہیں،اورحدیث مرسل ومعضل باب فضائل میں بالاجماع مقبول ہے خصوصاً جبکہ ناقلین ثقات عدول ہیں اوریہ امر ایسا نہیں  جس میں رائے کو دخل ہوتو ضرور ثبوت سند پر محمول ، اورمثبت نافی پر مقدم، اورعدم اطلاع اطلاع عدم نہیں تو جھوٹ کہنے والا محض جھوٹا مجازف فی الدین ہے ۔

امام اجل سید ی محمد بوصیری قدس سرہ، قصیدہ بردہ شریف میں فرماتے ہیں : عسریت من حرم لیلا الی حرم  کما سری البدر فی داج من الظلم وبت ترقی الی ان نلت منزلۃ من قاب قوسین لم تدرک ولم ترم خفضت کل مقام بالاضافۃ اذ نودیت بالرفع مثل المفرد العلم فخرت کل فخار غیر مشترک وجزت کل مقام غیر مزدحم۱؂   یعنی یارسول اللہ!حضور رات کے ایک تھوڑے سے حصے میں حرم مکہ معظمہ سے بیت الاقصٰی کی طرف تشریف فرماہوئے جیسے اندھیری رات میں چودھویں کا چاند چلے ، اورحضور اس شب میں ترقی فرماتے رہے یہاں تک کہ قاب قوسین کی منزل پہنچے جو نہ کسی نے پائی نہ کسی کو اس کی ہمت ہوئی ۔ حضور نے اپنی  نسبت سے تمام مقامات کو پست فرمادیا، جب حضور رفع کےلئے مفرد علم کی طرح ندافرمائے گئے حضور نے ہر ایسا فخر جمع فرمالیا جو قابل شرکت نہ تھا اور حضور ہر اس
مقام سے گزرگئے جس میں اوروں کا ہجوم نہ تھا یا یہ کہ حضور نے سب فخر بلا شرکت جمع فرمالئے اورحضور تمام مقامات سے بے مزاحم گزرگئے ۔

 (۱؂ الکواکب الدریۃ فی مدح خیر البریۃ (قصیدہ بردہ )الفصل السابع مرکز اہلسنت گجرات ہند ص۴۴تا۴۶)

یعنی عالم امکان میں جتنے مقام ہیں حضور سب سے تنہا گزر گئے کہ دوسرے کو یہ امر نصیب نہ ہوا ۔   علامہ علی قاری اس کی شرح میں فرماتے ہیں :ای انت دخلت
الباب وقطعت الحجاب الی ان لم تترک غایۃ للساع الی السبق من کمال القرب المطلق الی جناب الحق ولا ترکت موضع رقی وصعود وقیام وقعود لطالب رفعۃ فی عالم الوجود بل تجاوزت ذٰلک الٰی مقام قاب قوسین اوادنٰی فاوحٰی الیک ربک ما اوحٰی
۱؂۔

یعنی حجور دروازہ میں داخل ہوئے اورآپنے یہاں تک حجاب طےفرمائے کہ حضر ت عزت کی جناب میں قرب مطلق کامل کے سبب کسی ایسے کے لئے جو سبقت کی طرف دوڑے کوئی نہایت نہ چھوڑی اورتما م عالم وجود میں کسی طالب بندلی کے لئے کوئی جگہ عروج وترقی یا اٹھنے بیٹھنے کی باقی نہ رکھی بلکہ حضور عالم مکان سے تجاوز فرما کر
مقام قاب وقوسین اوادنٰی تک پہنچے تو حضور کے رب نے حضور کو وحی فرمائی جو وحی فرمائی ۔

 (۱؂الزبدۃ العمدۃ فی شرح القصیدۃ البردۃ الفصل السابع جمعیت علماءسکندریہ خیر پور سندھ ص۹۶)

 نیز امام ہمام ابو عبداللہ شرف الدین محمد قدس سرہ، ام القرٰی میں فرماتے ہیں :وترقی بہ الٰی قاب قوسین  وتلک السیادۃ القعسا رتب تسقط الاما فی حسرٰی دونھا ماوراھن وراء۲؂  حضور کو قاب قوسین تک ترقی ہوئی اوریہ سرداری لازوال ہے یہ وہ مقامات ہیں کہ آرزوئیں ان سے تھک کرگرجاتی ہیں ان کے اس طرف کوئی مقام ہی نہیں ۔

 (۲؂ام القرٰی فی مدح خیر الورٰی الفصل الرابع حز ب القادریۃ لاہور ص۱۳)

 امام ابن حجر مکی قدس سرہ الملکی اس کی شرح افضل القرٰی میں فرماتے ہیں :قال بعض الائمۃ والماریج لیلۃ الاسراء عشرۃ ، سبعۃ فی السمٰوٰت والثامن الی سدرۃ المنتھٰی والتاسع الی المستوی والعاشر الی العرش۳؂الخ ۔

 

بعض ائمہ نے فرمایا شب اسراء دس معراجیں تھیں ، سات ساتوں آسمانوں میں ، اورآٹھویں سدرۃ المنتہٰی ، نویں مستوٰی ، دسویں عرش تک۔

 (۳؂افضل القرٰی لقراء ام القری تھت شعر۷۳ المجعم الثقافی ابو ظبی ۱/ ۴۰۴)

 سید علامہ عارف باللہ عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی نے حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں اسے نقل فرما کر مقرر رکھا :قال الشھاب المکی فی شرح ھمزیۃ لامام  وصیری عن بعض الائمۃ ان المعاریج عشرۃ الٰی قولہ والعاشر الی العرش والرؤیۃ۴؂ ۔   فرمایا ، امام شہاب مکی نے شرح ہمزیہ امام بوصیرہ میں کہا بعض آئمہ سے منقول ہے کہ معراجین دس ہیں،

 (۴؂ الحدیقۃ الندیہ شرح الطریقۃ المحمدیہ بحوالہ شرح قصیدہ ہمزیہ المکتبۃ النوریۃ الرضویہ لائلپور ۱ /۲۷۲)

 دسویں عرش ودیدار تک ۔

نیز شرح ہمزیہ امام مکی میں ہے :لما اعطی سلیمٰن علیہ الصلٰوۃ والسلام الریح التی غدوھا شھر ورواحھا شھر اعطی نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  البراق فحملہ من الفرش الی العرش فی لحظۃ واحدۃ واقل مسافۃ فی ذٰلک سبعۃ اٰلاف سنۃ ۔ وما فوق العرش الی المستوی والرفرف لایعلمہ الا اللہ تعالٰی ۱؂ ۔

جب سلیمان علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ہوادی گئی کہ صبح شام ایک ایک مہینے کی راہ پر لے جاتی ۔ ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو براق عطا ہوا کہ حضور کو فرش سے  عرش تک ایک لمحہ میں لے گیا اوراس مین ادنٰی مسافت (یعنی آسمان ہفتم سے زمین تک ) سات ہزار برس کی راہ ہے ۔اوروہ جو فوق العرش سے مستوٰی اورفرف تک رہی اسے توخدا ہی جانے ۔

 (۱؂افضل القرٰی لقرء ام القرٰی)

اسی میں ہے :لمااعطی موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام الکلام اعطی نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  مثلہ لیلۃ الاسراء وزیادۃ الدنو والرویۃ بعین البصر  وشتان مابین جبل الطور الذی نوجی بہ موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام موما فوق العرش الذی نوجی بہ نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۲؂۔

 جب موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دولت کلام عطاہوئی ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ویسی ہی شب اسراملی اورزیادت قرب اورچشم سر سے دیدارالٰہی اس کے علاوہ ۔ اوربھلاکہاں کو ہ طور جس پر موسٰی علیہ الصلوۃ والسلام سے مناجات ہوئی اورکہاں مافوق العرش جہاںہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کلام ہوا۔

 (۲؂افضل القرٰی لقرء ام القرٰی)

اسی میں ہے : رقیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ببدنہ یقظۃ بمکۃ  لیلۃ ولاسراء الی السماء ثم الی سدرۃ المنتھٰی ثم الی المستوی الی العرش والرفرف  والرویۃ۳؂ ۔

نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے جسم پاک کے ساتھ بیداری میں شب اسراآسمانوں تک ترقی فرمائی ، پھر سدرۃ لمنتہٰی ، پھر مقام مستوٰی ، پھر عرش ورفرف ودیدار تک۔

 (۳؂افضل القرٰی لقراء ام القرٰی    تحت شعرا  ۱المجمع الثقافی ابوظبی ۱/ ۱۱۶و۱۱۷)

 علامہ احمد بن محمد صاوی مالکی خلوتی رحمۃ اللہ تعالٰی تعلیقاتِ افضل القرٰی میں فرماتے ہیں :الاسراء بہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی یقظۃ بالجسد والروح من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی ثم عرج بہ الی السمٰوٰت العلی ثم الی سدرۃ المنتہٰی ثم الی المستوی ثم الی العرش والرفرف۱؂۔   نبی صلی اللہ تعالٰی  علیہ وسلم کو معراج بیداری میں بدن ورُوح کے ساتھ مسجد حرامِ سے مسجدِ اقصٰی تک ہوئی ،پھر آسمانوں ، پھر سدرہ ، پھر مستوٰی ، پھرعرش ورفرف تک۔

 (۱؂ تعلیقات علی ام القرٰی للعلامۃ احمد بن محمد الصاوی علی ھامش الفتوحات الاحمدیۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبری مصرص۳)

 فتوحات احمدیہ شرح الہمزیہ للشیخ سلیمان الجمل میں ہے : رقیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لیلۃ الاسراء من بیت المقدس الی السمٰوٰت السبع الی حیث شاء اللہ تعالٰی لکنہ لم یجاوز العرش علی الراجح۲؂۔   حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ترقی شب اسراء بیت المقدس سے ساتوں آسمانوں اوروہاں سے اس مقام تک ہے جہاں تک اللہ عزوجل نے چاہا مگر راجح یہ ہے کہ عرش سے آگے تجاوز نہ فرمایا ۔

 (۲؂ الفتوحات الاحمدیۃ بالمنح المحمدیۃ شرح الھمزیۃالمکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی قاہرہ مصر    ص۳)

اسی میں ہے :المعاریج لیلۃ الاسراء عشرۃ سبعۃ فی السمٰوٰت والثامن الی سدرۃ المنتھٰی والتاسع الی المستوٰی والعاشر الی العرش لکن لم یجاوز العرش کما ھو التحقیق عند اھل المعاریج۳؂۔   معراجیں شب اسراء دس ہوئیں، سات آسمانوں میں ،اورآٹھویں سدرہ، نویں مستوٰی ، دسویں عرش تک۔ مگر راویان معراج کے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ عرش سے اوپرتجاوز نہ فرمایا ۔

 (۳؂الفتوحات الاحمدیۃ بالمنح المحدیۃ شرح الھمزیۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی قاہرہ مصرص۳۰)

 

اسی میں ہے :بعد ان جاوز السماء السابعۃ رفعت لہ سدرۃ المنتھٰی ثم جاو زھا  الی مستوٰی ثم زج بہ فی النور فخرق سبعین الف حجاب من نور  مسیرۃ کل حجاب خمسائۃ عام ثم دلی لہ رفرف اخضر فارتقی بہ حتی وصل الی العرش ولم یجاوزہ فکان من ربہ قاب قوسین او ادنٰی۱؂۔

جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم آسمان  ہفتم سے گزرے سدرہ حضور کے سامنے بلند کی گئی اس سے گزر کر مقام مستوٰی پر پہنچے ، پھر حضور عالم نور میں ڈالے گئے وہاں ستر ہزار  پردے نور کے طے فرمائے ، ہر پردے کی مسافت پانسو برس کی راہ۔ پھر ایک سبز بچھونا حضور کے لئے لٹکایا گیا ، حضور اقدس اس پر ترقی فرماکر عرش   تک پہنچے ، اورعرش سے ادھر گزر نہ فرمایا وہاں اپنے رب سے قاب قوسین اوادنٰی پایا۔

 (۱؂ الفتوحات الاحمدیۃ بالمنح المحدیۃ شرح الھمزیۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی قاہرہ مصرص۳۱)

 اقول (میں کہتاہوں۔ت) شیخ سلیمٰن نے عرش سے اوپر تجاوز نہ فرمانے کوترجیح دی، اورامام ابن حجر مکی وغیرہ کی عبارت ماضیہ وآتیہ وغیرہا میں فوق العرش ولامکان کی تصریح ہے ، لامکان یقینا فوق العرش ہے اورحقیقۃً دونوں قولوں میں کچھ اختلاف نہیں ، عرش تک منتہائے مکان ہے ، اس سے آگے لامکان ہے ، اورجسم نہ ہوگا مگر  مکان میں ، تو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جسم مبارک سے منتہائے عرش تک تشریف لے گئے اورروح اقدس نے وراء الوراء تک ترقی فرمائی جسے ان کا رب  جانے جو لے گیا،  پھر وہ جانیں جو تشریف لے گئے ، اسی طرف کلام امام شیخ  اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ میں اشارہ عنقریب آتاہے کہ ان پاؤں سے سیر کا منتہٰی عرش ہے  ، تو سیر قدم عرش پر ختم ہوئی ، نہ اس لئے کہ سیر اقدس میں معاذاللہ کوئی کمی رہی ، بلکہ اس لئے کہ تمام اماکن کا احاطہ فرمالیا،اوپرکوئی مکان ہی نہیں جسے کہئے کہ قدم پاک وہاں نہ پہنچا اوسیر قلب انور کی انتہاء قاب قوسین ، اگر وسوسہ گزرے کہ عرش سے وراء کیا ہوگا کہ حضور نے اس سے تجاوز فرمایاتو امام اجل سید علی وفا رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ارشاد سنئے جسے امام عبدالوہاب شعرانی نے کتاب الیواقیت والجواہر فی عقائد الاکابر میں نقل فرمایا کہ فرماتے ہیں :لیس  الرجل من یقیدہ العرش وما حواہ من الافلاک والجنۃ والنار وانما الرجل من نفذ بصرہ الی خارج ھٰذا الوجود کلہ وھناک یعرف قدرعظمۃ موجدہ سبحٰنہ وتعالٰی ۲؂۔

مَرد وہ نہیں جسے عرش اورجو کچھ اس کے احاطہ میں ہے افلاک وجنت ونار یہی چیزیں محدود ومقید کرلیں، مرد وہ ہے جس کی نگاہ اس تمام عالم کے پار گزر جائے وہاں  اسے موجد عالم جل جلالہ کی عظمت کی قدر کھلے گی۔

 (۲؂الیواقیت والجواہرالمبحث الرابع والثلاثوںداراحیاء التراث العربی بیروت      ۲ /۳۷۰)

 امام علامہ احمد قسطلانی مواہب لدنیہ ومنح محمدیہ میں اور علامہ محمد زرقانی اس کی شرح میں فرماتے ہیں :(ومنہا انہ راٰی اللہ تعالٰی بعینیہ) یقظۃ علی الراجح (وکلمہ اللہ تعالٰی فی الرفیع الا علی) علی سائر الامکنۃ وقدروی ابن عساکر عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ مرفوعا لما اسری لی قربنی ربی حتی کان
بینی وبینہ قاب قوسین اوادنی
۱؂۔

نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خصائص سے ہے کہ حضور نے اللہ عزوجل کو اپنی آنکھوں سے بیداری میں دیکھا، یہی مذہب راجح ہے ، اوراللہ عزوجل نے حضور سے اس بلند وبالا تر مقام میں کلام فرمایا جو تمام امکنہ سے اعلٰی تھا اوربیشک ابن عساکر نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : شب اسراء مجھے میرے رب نے اتنا نزدیک کیا کہ مجھ میں اوراس میں دوکمانوں بلکہ اس سے کم کا فاصلہ رہ گیا۔

( ۱؂ المواہب اللدنیۃ المقصد الرابع الفصل الثانی المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۶۳۴) (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الرابع الفصل الثانی دارالمعرفۃ بیروت     ۵ /۲۵۱و۲۵۲)

 

اسی  میں ہے : قد اختلف العلماء فی الاسراء ھل ھوا اسراء واحد او اثنین مرۃ بروحہ وبدنہ یقظۃ ومرۃ مناما او یقظۃ بروحہ وجسدہ من المسجدالحرام الی المسجد الاقصی ثم منا ما من المسجدالاقصٰی الی العرش۲؂۔

علماء کو اختلاف ہوا کہ معراج ایک ہے یا دو، ایک بار روح وبدن اقدس کے ساتھ بیداری میں اورایک بارخواب میں یا بیداری میں روح وبدن مبارک کے ساتھ مسجد  الحرام سے مسجد اقصٰی تک، پھر خواب میں وہاں سے عرش تک ۔

 

 (۲؂ المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۷)

فالحق انہ اسراء واحد بروحہ وجسدہ یقظۃ فی القصۃ کلھا والی ھذا ذھب الجمہور من علماء المحدثین والفقہاء والمتکلمین ۳؂۔

 اورحق یہ ہے کہ وہ ایک اسراء ہے اورسارے قصے میں یعنی مسجد الحرام سے عرش اعلٰی تک بیداری میں روح وبدن اطہر ہی کے ساتھ ہے ۔ جمہور علماء ومحدثین وفقہاء
ومتکلمین سب کا یہی مذہب ہے ۔

 (۳؂المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۷)

(المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۲)

 اسی میں ہے :المعاریج عشرۃ (الٰی قولہ )العاشر الی العرش ۱؂۔معراجیں دس ہوئیں ، دسویں عرش تک۔

 (۱؂المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس مراحل المعراج المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۷)

 اسی میں ہے : قدروردفی الصحیح عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ قال لما عرج بی جبریل الی سدرۃ المنتہٰی ودنا الجبار رب العزۃ فتدلی فکان قاب
قوسین او ادنٰی
۲؂ وتدلیہ علی ما فی حدیث شریک کان فوق العرش ۳؂۔

 

صحیح بخاری شریف میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : میرے ساتھ جبریل نے سدرۃ المنتہٰی تک عروج کیا اور جبار  رب العزۃ جل وعلانے دنو وتدلیّ فرمائی تو فاصلہ دو کمانوںبلکہ ان سے کم کا رہا، یہ تدلی بالائے عرش تھی ، جیسا کہ حدیث شریک ہے ۔

 (۲؂المواہب اللدنیۃ المقصد الخاس ثم دنٰی فتدلٰی المتکب الاسلامی بیروت ۳ /۸۸

(المواہب اللدنیۃ المقصد الخاس ثم دنٰی فتدلٰی المتکب الاسلامی بیروت ۳ /۹۰)

علامہ شہاب خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے قاضی عیاض میں  فرماتے ہیں : وردفی المعراج انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لما بلغ سدرۃ المنتہٰی جاء ہ  بالرفرف جبریل علیہ الصلٰوۃ والسلام فتناولہ فطاربہ الی العرش۴؂۔

حدیث معراج میں وارد ہوا کہ جب حضو راقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سدرۃ المنتہٰی پہنچے جبریل امین علیہ الصلٰوۃ والتسلیم رفرف حاضر لائے وہ حضو کر لے کر عرش
تک اڑگیا۔

 (۴؂نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض فصل واماما ورد فی حدیث الاسراء مرکز اہلسنت گجرات ہند ۲ /۳۱۰)

 

اسی میں ہے :علیہ یدل صحیح الاحادیث الاحاد الدالۃ علی دخولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الجنۃ ووصولہ الی العرش اوطرف العالم کما سیأتی کل  ذٰلک بجسدہ یقظہ ۱؂۔

صحیح احادیثیں دلالت کرتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم شب اسراء جنت میں تشریف لے گئے اورعرش تک پہنچے یا علم کے اس کنارے تک کہ آگے  لامکان ہے اوریہ سب بیداری میں مع جسم مبارک تھا۔

 (۱؂نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض فصل ثم اختلف السلف والعلماء مرکز اہلسنت گجرات ہند ۲ /۲۶۹،۲۷۰)

حضرت سیدی شیخ اکبرامام محی الدین ابن عربی رضی اللہ تعالٰی عنہ فتوحاتِ مکیہ شریف باب ۳۱۶میں فرماتے ہیں :اعلم ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لما  کان خلقہ القراٰن وتخلق بالاسماء وکان اللہ سبحٰنہ وتعالٰی ذکر فی کتاب العزیز انہ تعلاٰی استوی علی العرش علی طریق التمدح والثناء علی نفسہ اذ  کان العرش اعظم الاجسام فجعل لنبیہ علیہ الصلٰوۃ والسلام من ھذا الاستواء نسبۃ علی طریق التمدح والثناء علیہ بہ حیث کان اعلی مقام ینتہی الیہ  من اسری بہ من الرسل علیھم الصلٰوۃ والسلام وذٰلک یدل علی انہ اسری بہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بجسمہ ولو کان الاسراء بہ رؤیا لما کان الاسراء ولا الوصلو الی ھذا المقام تمدحا ولا وقع من الاعرافی حقہ انکار علی ذٰلک۲؂۔

تو جان لے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا خلق عظیم قرآن تھا اورحضور اسماء الٰہیہ کی خووخصلت رکھتے تھے اوراللہ سبحٰنہ وتعالٰی قرآن کریم میں اپنی صفات  مدح سے عرش پر استواء بیان فرمایا تو اس نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بھی اس سفت استواعلی العرش کے پر تو سے مدح ومنقبت بخشی کہ عرش وہ اعلٰی  مقام ہے جس تک رسولوں کا اسراء منتہی ہو ، اوراس سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اسراء مع جسم مبارک تھا کہ اگر خواب ہوتا تو اسرااوراس مقام استواء علی العرش تک پہنچنا مدح نہ ہوتا نہ گنواراس پر انکار کرتے ۔

(۲؂ الفتوحات المکیۃ الباب السادس داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۶۱)

امام علامہ عارف باللہ سید ی عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی کتاب الیواقیت والجواہر میں حضرت موصوف سے ناقل :انما قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی  سبیل التمدح حتی ظھرت لمستوی اشارۃ لما قلنا من ان متھی السیر بالقدم المحسوس للعرش ۱؂۔

نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا بطور مدح ارشاد فرمانا کہ یہاں تکہ کہ میں مستوی پر بلند ہوا اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ قدم جسم سے سیر کا منتہٰی عرش ہے ۔

 (۱؂ الیواقیت والجواہر   المبحث الرابع والثلاثونداراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۳۷۰)

 مدارج النبوۃ شریف میں ہے :فرمود صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پس گسترانیدہ شد برائے من رفرف سبز کہ غالب بود نور او پر نور نورآفتاب پس درخشید بآن نور بصر من ونہادہ شدم  من برآں رفرف وبرداشتہ شدم تابرسید بعرش۲؂۔

نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میرے لئے سبز بچھونا بچھایا گیا جس کا نور آفتاب کے نور پر غالب تھا چنانچہ اس نور کے سبب میری آنکھوں کا نور چمک  اٹھا ، پھر مجھے رفرف پر سوار کر کے بلندی کی طرف اٹھایا گیا یہاں تک کہ میں عرش پر پہنچا۔(ت)

(۲؂مدارج النبوۃ باب پنجم وصل دررؤیت الٰہی مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۱/۱۶۹)

 اسی میں ہے  : آوردہ اند کہ چوں رسید آں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بعرش دست زد بدامان اجلال وے ۳؂۔   منقول ہے کہ جب آنحضرت  صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عرش پر پہنچے تو عرش آپ کا دامن اجلال تھام لیا۔(ت)

 (۳؂مدارج النبوۃ باب پنجم وصل دررؤیت الٰہی مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۱ /۱۷۰)

اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ شریف میں ہے :جز حضرت پیغمبرما صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بالاترازاں ہیچ کس نہ رفتہ وآنحضرت بجائے رفت کہ آنجاجانیست ؎

ہمارے نبی اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علاوہ عرش سے اوپر کوئی نہیں گیا، آپ اس جگہ پہنچے جہاں جگہ نہیں۔برداشت از طبیعت امکاں قدم کہ آں  اسرٰی بعبدہٖ است من المسجد الحرام تاعرصہ وجوب کہ اقتضائے عالم ست کابخانہ جاست ونے جہت ونے نشاں نہ نام۱؂

طبیعت امکان سے قدم مبارک اٹھالئے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے خاص بندے کو سیرکرائی مسجد حرام سے صحرائے وجوب تک جو عالم کا آخری کنارہ ہے کہ وہاں نہ مکان ہے  نہ جہت، نہ نشان اورنہ نام ۔(ت)

 (۱؂اشعۃ اللمعات باب المعراج مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۴ /۵۳۸)

نیز اسی کے باب رؤیۃ اللہ تعالٰی فصل سوم زیر حدیث قد راٰی ربہ مرتین (تحقیق آپ نے اپنے رب کو دوبارہ یکھا۔ت) ارشاد فرمایا :بتحقیق دیدآنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پروردگارخود را جل وعلا  دوبار، یکے چوں نزدیک سدرۃ المنتہٰی بود،دوم چوں بالائے عرش برآمد۲؂۔

تحقیق آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے پروردگارجل وعلاکو دوباردیکھا ، ایک بار جب آپ سدرہ کے قریب تھے ، اوردوسری بار جب آپ عرش پرجلوہ گرہوئے  ۔(ت)

(۲؂اشعۃ اللمعات کتاب الفتن باب رؤیۃ اللہ تعالٰی الفصل الثالث مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۴ /۴۴۲تا۴۲۹ )

 مکتوبات حضرت شیخ مجدد الف ثانی جلد اول ، مکتوب ۲۸۳میں ہے : آں سرورعلیہ الصلٰوۃ والسلام دراں شب چوں از دائرہ مکان وزمان بریون جست وازتنگی امکان برآمد ازل وابدراں آں واحد یافت وبدایت ونہایت رادریک نطقہ متحد دید۳؂۔   اس رات سرکار دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مکان وزمان  کے دائرہ سے باہر ہوگئے ،اور تنگی امکان سے نکل کر آپ نے ازل وابد کو ایک پایا اورابتداء کو انتہا کو ایک نقطہ میں متحد دیکھا۔(ت)

(۳؂مکتوبات امام ربانی مکتوب ۲۸۳نولکشورلکھنؤ        ۱/ ۳۶۶)

نیز مکتوب ۲۷۲میں ہے : محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ محبوب رب العالمین ست وبہترین موجودات اولین وآخرین باوجودآنکہ بدولت معراج بدنی مشرف شد واز عرش وکرسی درگزشت وازامکان وزمان بالارفت۴؂۔

محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جو کہ رب العالمین کے محبوب ہیں اور تمام موجودات اولین وآخرین سے افضل ہیں ، جسمانی معراج سے مشرف ہوئے اورعرش  وکرسی سے آگے گزر گئے اورمکان وزمان سے اوپر چلے گئے ۔ (ت)

( ۴؂ مکتوبات امامربانی مکتوب ۲۷۲نولکشورلکھنؤ     ۱ /۳۴۸)

امام ابن الصلاح کتاب معرفۃ انواع علم الحدیث میں فرماتے ہیں :قول المصنفین من الفقہاء  وغیرہم ”قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کذا وکذا”ونحو  ذٰلک کلہ من قبیل المعضل وسماہ الخطیب ابوبکر الحافظ فی بعض وکلامہ مرسلا وذٰلک علی مذھب من یسمی کل مالایتصل مرسلاً۱؂۔

فقہاء وغیرہ ومصنفین کا قول کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایسا ایسا فرمایا ہے یا اس کی مثل کوئی کلمہ یہ سب معضل کے قبیل سے ہے ۔ خطیب ابو بکر حافظ نے اس کا نام مرسل رکھا ہے اوریہ اس کے مذہب کے مطابق ہے جو ہر غیر متصل کا نام مرسل رکھتاہے ۔(ت)

 (۱؂معرفۃ انواع علم الحدیث النوع الحادی عشردارالکتب العلمیۃ بیروت ص۱۳۸)

 تلویح وغیرہ میں ہے :ان لم یذکر الواسطۃ اصلا فمرسل۲؂۔   اگر واسطہ بالکل مذکور نہ ہوتو وہ مرسل ہے ۔(ت)

 (۲؂التوضیح والتلویح الرکن الثانی فی السنۃ فصل فی الانقطاع نورانی کتب خانہ پشاور ص۴۷۴)

 

مسلم الثبوت میں ہے : المرسل قول العدل قال علیہ الصلٰوۃ والسلام کذا۳؂۔   مرسل یہ ہے عادل کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یوں فرمایا۔(ت)

(۳؂مسلم الثبوت مسئلہ تعریف المرسل مطبع انصاری دہلی ص۲۰۱)

فواتح الرحموت میں ہے :الکل داخل فی المرسل عند اھل الاصول۴؂۔   اصولیوں کے نزدیک سب مرسل میں داخل ہیں۔(ت)

 (۴؂فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذیل المستصفی مسئلہ فی الکلام علی المرسل منشورات الشریف الرضی قم ۲ /۱۷۴)

انہیں میں ہے :المرسل ان کان من صحابی یقبل مطلقا اتفاقا وان کان من غیرہ فالاکثر ومنھم الامام ابوحنیفۃ والامام مالک والامام احمد رضی اللہ تعالٰی عنہم قالو یقبل مطلقا اذا کان الراوی ثقۃ ۵؂الخ۔

مرسل اگر صحابی سے ہو مطلقاً مقبول ہے اوراگر غیر صحابی سے ہو تو اکثرائمہ بشمول امام اعظم،امام مالک اورامام احمد رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ مطلقامقبول ہے بشرطیکہ راوی ثقہ ہو الخ۔ (ت)

 (۵؂فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذیل المستصفی مسئلہ فی الکلام علی المرسل منشورات الشریف الرضی قم ۲ /۱۷۴)

 

مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے : لایضرذٰلک فی الاستدلال بہ ھٰھنا لان المقطع یعمل بہ فی الفضائل اجماعا۱؂۔   اس سے استدلال کرنا یہاں مضر نہیں کیونکہ  فضائل میں منقطع بالاجماع قابل عمل ہے ۔(ت)

  (۱؂ مرقاۃ المفاتیح باب الرکوع الفصل الثانی تحت الحدیث ۸۸۰المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۲ /۶۰۲)

 شفائے امام قاضی عیاض میں ہے :اخبر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لقتل علی وانہ قسیم النار۲؂۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قتل کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ بیشک وہ قسیم النار ہیں۔(ت)

   (۲؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل ومن ذلک مااطلع علیہ من الغیوب المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱ /۲۸۴)

 نسیم الریاض میں فرمایا :ظاھر ھذان ھذا مما اخبربہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الا انھم قالوا لم یروہ احدمن المحدثین الا ان ابن الاثیر قال فی النہایۃ الا ان علیا رضی اللہ تعالٰی عنہ قال انا قسیم النار قلت ابن الاثیر ثقۃ وما ذکرہ علی لایقال من قبل الرائ فھو فی حکم المرفوع ۳؂ اھ ملخصاً۔  ظاہر اس کا یہ ہےکہ بیشک یہ ان امور میں سے ہے جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خبر دی مگر انہوں نےکہاکہ اس کو محدثین میں سے کسی نے  روایت نہیں کیا مگر ابن اثیر نے نہایہ میں کہا: بیشک حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ میں قسیم نار ہوں ۔ میں کہتاہوں کہ ابن اثیر ثقہ ہے اورجو کچھ سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ذکر فرمایا وہ قیاس سے نہیں کہا جاسکتا لہذ ا وہ مرفوع کے حکم میں ہے اھ تلخیص(ت)

 (۳؂نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض ومن ذلک ما اطلع علیہ من الغیوب مرکز اہلسنت گجرات الہند ۳ /۱۶۳)

 امام ابن الہمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں :عدم النقل لاینفی الوجود۱؂۔   عدم نقل وجود کی نفی نہیں کرتا۔ (ت)واللہ تعالٰی اعلم

( ۱؂  فتح القدیر      کتاب الطہارت        مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر       ۱ /۲۰)

 

 

 

 

آذان میں اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سنکر انگوٹھے چومنا

سوال ۔ اہل سنت اذان و اقامت میں نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اسم گرامی سن کر انگوٹھے چومتے ہیں ، اس کی کیا دلیل ہے ؟ بعض لوگ اس مسئلے میں بھی شدید مخالفت کرتے ہیں ۔

جواب ۔ اذان میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی سن کر اپنے دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگانا جائز و مستحب اور باعث خیر و برکت ہے۔ اس کے جواز پر متعدد احادیث اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف (منیر العین فی حکم تقبیل الابہامین) میں نقل فرمائی ہیں جبکہ اس سے ممانعت پو کوئی دلیل نہیں ہے۔
علامہ اسماعیل حقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، (اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال کو حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں میں مثل آئینہ ظاہر فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں پر پھیرا ، پس یہ سنت ان کی اولاد میں جاری ہوئی)۔ (تفسیر روح البیان جلد ۴ ص ۶۴۹)
امام ابو طالب محمد بن علی مکی رحمہ اللہ اپنی کتاب قوت القلوب میں ابن عینیہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے دس محرم کو مسجد میں تشریف لائے اور ستون کے قریب بیٹھ گئے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اذان میں آپ کا نام سن پر اپنے انگوٹھوں کے ناخنوں کو اپنی آنکھوں پر پھیرا ، اور کہا ، (قرہ عینی بک یا رسول اللہ) ۔ (یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آ پ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں) ۔

جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان سے فارغ ہوئے تو آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے ابو بکر ! جو تمہاری طرح میرا نام سن کر انگوٹھے آنکھوں پر پھیرے اور جو تم نے کہا وہ کہے، اللہ تعالی اس کے تمام نئے پرانے، ظاہر و باطن گناہوں سے درگزر فرمائے گا۔ (ایضا ، صفحہ ۶۴۸)

امام سخاوی ، امام دیلمی کے حوالے سے فرماتے ہیں، (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب موذن سے (اشھد ان محمدا رسول اللہ) سنا تو یہی جواب میں کہا اور اپنی شہادت کی انگلیاں زیریں جانب سے چوم کر آنکھوں سے لگائیں۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو میرے اس پیارے دوست کی طرح کرے اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوگئی۔
(المقاصد الحسنہ)

امام سخاوی، امام محمد بن صالح مدنی کی تاریخ سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے امام مجد دمصری کو یہ فرماتے سنا کہ جو شخص آذان میں آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک سن کر درود پڑھے اور اپنی شہادت کی انگلیاں اور انگوٹھے ملا کر انکو بوسہ دے اور آنکھوں پر پھیرے ، اس کی آنکھیں کبھی نہ دکھیں گی۔ (ایضا)

فقہ کی مشہور کتاب رد المختار جلد اول صفحہ ۳۷۰ پر ہے ، ( مستحب ہے کہ اذان میں پہلی بار شہادت سن کر ( صلی اللہ علیک یارسول اللہ ) اور دوسری بار شہادت سن کر ( قرہ عینی بک یا رسول اللہ ) کہے ، پھر اپنے انگوٹھے چوم کر اپنی آنکھوں پر پھیرے اور یہ کہے ، ( اللھم متعنی بالسمع والبصر ) تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے ۔ ایسا ہی کنز العباد امام قہستانی میں اور اسی کی مثل فتاوی صوفیہ میں ہے)۔

اسی طرح کتاب الفردوس ، شرح نقایہ ، طحطاوی اور بحر الرئق کے ہواشی رملی میں ہے اور حاشیہ تفسیر جلالین میں یوں ہے کہ (ہم نے اس مسئلے پر اس لیے طویل گفتگو کی کیونکہ بعض لوگ جہالت کی وجہ سے اس مسئلے میں اختلاف کرتے ہیں) ۔ حنفی علماء کے علاوہ شافعی علماء اور مالکی علماء نے بھی انگوٹھے چومنے کو مستحب قرار دیا ہے۔

بعض لوگ یہ اعتراض کر تے ہیں کہ اس بارے میں کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں ہے، سب احادیث ضعیف ہیں۔ لہذا ضعیف حدیث شرعی دلیل نہیں بن سکتی۔ یہ اعتراض فن حدیث سے جہالت پر مبنی ہے۔ محدثین کا یہ فرمانا کہ(یہ احادیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع ہو کر صحیح نہیں) یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ احادیث موقوف صحیح نہ ہونے سے ضعیف ہونا لازم نہیں آتا۔ ان کے علا و ہ بھی احادیث کے کئی درجے ہیں جن میں بد تر درجہ موضوع ہے جبکہ (فضائل اعمال میں ضعیف حدیث بالا جماع مقبول ہے)۔ (مرقاہ ، اشعتہ اللمعات)

انگوٹھے چومنے سے متعلق حدیث موقوف صحیح ہے چنانچہ محدث علی قادری رحمہ اللہ فرماتے ہیں، (میں کہتا ہوں جب اس حدیث کا رفع حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تک ثابت ہے تو عمل کے لیے کافی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، میں تم پر لازم کرتا ہوں اپنی سنت ار و اپنے خلفاء راشدین کی سنت)۔ (موضوعات کبیر ص ۶۴)

عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ولی کامل ، اعلی حضرت بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ،
لب پا آجاتا ہے جب نام جناب ، منہ میں گھل جاتا ہے شہد نایاب
وجد میں ہو کے ہم اے جان بیتاب ، اپنے لب چوم لیا کرتے ہیں

رسالہ
(۱۳۰۱) منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین (۱۳۰۱) فتاوی رضویہ

مرشد حسین حق مھنجا سائیں۔۲

مرشد حسین حق مھنجا سائیں۔۲

مرشد حسین حق مھنجا سائیں۔۱

مرشد حسین حق مھنجا سائیں۔۱

تشہد ’’التحیات‘‘ کے سلسلے میں ایک مغالطے کا تحقیقی جائزہ


تشہد ’’التحیات‘‘ کے سلسلے میں ایک مغالطے کا تحقیقی جائزہ


علامہ اُسید الحق قادری بدایونی دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب تحقیق و تفہیم سے ھدیہء قارئین ہے۔


نماز میں قعدہ کی حالت میں کچھ مخصوص الفاظ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے جن کو اصطلاح میں تشہد اور عام زبان میں ’’التحیات‘‘کہتے ہیں،اس میں پہلے اللہ کی حمدوثنا ہے،پھر نبی کریم ﷺپر سلام ہے ،اس کے بعد اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہے،اور پھر توحید ورسالت کی گواہی پریہ دعا ختم ہوتی ہے-صحیح احادیث میں اس کے مختلف الفاظ آئے ہیں،ترتیب اور مفہوم کم وبیش سب کا یہی ہے جو مذکور ہوا البتہ روایتوں کے اختلاف کی وجہ سے الفاظ میں تھوڑا بہت تفاوت ہے- مثال کے طور پرصحیح بخار ی اور صحیح مسلم میں حـضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ الفاظ مروی ہیں:
التحیات للّٰہ و الصلوت والطیبات السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا و علی عباداللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد انّ محمدا عبدہ ورسولہ- (۱)
یہ تشہد ابن مسعود کہلاتا ہے -اس کے علاوہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی تشہد کی روایتیں منقول ہیں-
تشہد ابن عباس یہ ہے : التحیات المبارکات الصلوات الطیبات للّٰہ السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا وعلٰی عباد اللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ-
تشہد ابن عمر یہ ہے : التحیات للّٰہ الزاکیات للّٰہ الطیبات الصلوات للّٰہ السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا وعلٰی عباد اللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ
احناف کا عمل تشہد ابن مسعود پر ہے اور امام احمد بن حنبل کے مسلک میں بھی اسی پر عمل ہے ،اکثر شافعیہ نے تشہدابن عباس کو اختیار فرمایا ہے،امام لیث بن سعد نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے،جب کہ امام مالک نے تشہد ابن عمر کو اختیار فرمایا ہے-
ان تمام روایتوں میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں نبی کریم ﷺ کو سلام کے لیے ندا اور خطاب کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے یعنی السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ(اے نبی آپ پر سلام ہو اوراللہ کی رحمتیں اور برکتیں (نازل )ہوں)کچھ حضرات کے لیے نبی کریم ﷺ کو اس طرح مخاطب کرکے سلام کرناتشویش کا باعث ہوتا ہے لہٰذا یہ حضرات اپنی’’ تشویش ‘‘کو مختلف تاویلات کے ذریعہ دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں،حالانکہ اگر تحقیقی نظر سے دیکھا جائے توان تاویلات کی حیثیت مغالطے سے زیادہ کچھ نہیں ہے -اس سلسلہ میں عام طور پر دو باتیں کہی جاتی ہیں:
(۱)تشہد کے یہ الفاظ اس وقت تک پڑھے جاتے رہے جب تک نبی کریم ﷺظاہری طور پر صحابہ کے درمیان موجود رہے،مگر جب آپ نے پردہ فرمایاتو بجائے السلام علیک ایھا النبی(اے نبی آپ پر سلام ہو)کے السلام علی النبی(نبیﷺ پر سلام ہو)پڑھا جانے لگا،اس کے لیے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک روایت کا حوالہ دیا جاتا ہے جو صحیح بخاری اور مسند ابی عوانہ میں مروی ہے-امام ابی عوانہ یعقوب بن اسحاق الاسفرائنی (م:۳۱۶ھ)اپنی مسند میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: وھو بین ظھر انینا فلما قبض قلنا السلام علی النبی- (۲)
ترجمہ : ابن مسعود نے فرمایا کہ وہ (یعنی السلام علیک ایھاالنبی) حضور ﷺ کی حیات ظاہری میں تھا، جب حضور نے پردہ فرما لیا تو ہم یہ کہنے لگے ’’السلام علی النبی‘‘ یعنی نبی پر سلامتی ہو- یہی روایت الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ صحیح بخاری میں بھی وارد ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے-
(۲)دوسرا مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ یہ الفاظ یعنی السلام علیک ایھاالنبییہ تشہد میں آئے ہیں اور تشہد معراج کی رات اللہ اور اس کے رسول کے درمیان ہونے والی گفتگوکی حکایت ہے ،اس سے انشاے مصلی مقصود نہیں ہے یعنی نمازی سلام کا قصد و ارادہ نہیں کرتا بلکہ وہ صرف ان الفاظ کی نقل و حکایت کرتا ہے ،جس طرح کہ قرآن کریم میں بے شمار جگہ لفظ ’’یا‘‘(اے فلاں)کے ذریعے مختلف اقوال کی حکایت موجود ہے جب نمازی ان آیات کو نماز میں تلاوت کرتا ہے تواس کا ارادہ ان مذکورہ اشخاص کو پکارنا یا ندا کرنا نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ محض اس واقعے کی نقل وحکایت کے طور پر ان الفاظ کو ادا کرتا ہے ،اسی طرح تشہد میں بھی نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرکے سلام کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف اس گفتگو کی نقل وحکایت ہے –
ذیل میں ہم ان دونوں دلیل نما مغالطوں کا تنقیدی جائزہ لیں گے-لیکن آگے بڑھنے سے پہلے تشہد ابن مسعود کے سلسلے میں محدثین کی راے دیکھتے چلیں-امام ترمذی اپنی جامع میں حضرت ابن مسعود کی مذکورہ روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
حدیث ابن مسعود قد روی عنہ من غیروجہ، وھو اصح حدیث روی عن النبی ﷺفی التشھد والعمل علیہ عند اکثر اھل العلم من اصحاب النبی ﷺ ومن بعدھم من التابعین،وہو قول سفیان الثوری،وابن مبارک،واحمد واسحاق(۳)
ترجمہ : ابن مسعود کی حدیث ایک سے زیادہ طریقوں سے مروی ہے اور وہ تشہد کے سلسلہ میں نبی کریم ﷺ سے مروی حدیثوں میں سب سے اصح حدیث ہے ، صحابہ اور ان کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے،یہی سفیان ثوری،ابن مبارک،احمدبن حنبل اوراسحاق کا قول بھی ہے-
حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں فرماتے ہیں:
قال البزار لما سئل عن اصح حدیث فی التشھد قال ھو عندی حدیث ابن مسعود روی عن نیف و عشرین طریقا ثم سرد اکثرھا وقال لا اعلم فی التشھد اثبت منہ ولا اصح اسانید ولا اشھررجالا(۴)
ترجمہ:جب بزار سے تشہد کی صحیح ترین حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا میرے نزدیک وہ حدیث ابن مسعود ہے- یہ بیس سے زائد صحابہ سے مروی ہے، پھر بزار نے ان میں سے اکثر طریقوں کو ذکر کیا ہے، پھر کہا کہ اور مجھے علم نہیں ہے کہ تشہد کے متعلق اس سے زیادہ اثبت واصح کوئی حدیث ہو جس کے رجال اس سے زیادہ مشہور و معروف ہوں-
اب ہم تشہد کے سلسلے میں پہلے مغالطے کی طرف آتے ہیں- ہم نے اوپرعرض کیا تھاکہ تشہد کے الفاظ اگر چہ مختلف واقع ہوئے ہیں (جیسا کہ تشہد ابن مسعود، تشہد ابن عباس اور تشہد ابن عمرمیں آپ نے دیکھا) مگر تمام روایتوں میں حضور ﷺ پر سلام کے لیے ندا اور خطاب کا صیغہ ہی وارد ہوا ہے- حضور ﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ اور بعد وصال صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا عمل اسی طرح رہا، اس سلسلہ میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، سیدہ عائشہ، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت ابن عمر اور حضرت ابو سعید خدری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے صحیح روایات موجود ہیں، امام مالک مؤطا میں فرماتے ہیں :
عن عروۃ بن زبیر عن عبدالرحمن بن عبدالقاری انہ سمع عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ وھو علی المنبر یعلم الناس التشھد یقول ثم قولوا التحیات للّٰہ الزاکیات للّٰہ الطیبات للّٰہ الصلوات للّٰہ، السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہ ورسولہ-(۵)
ترجمہ : حضرت عروۃ بن زبیر حضرت عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عمر بن خطاب کو سنا کہ وہ منبر پر لوگوں کو تشہد سکھا رہے ہیں، آپ فرما رہے تھے کہ پھر اس کے بعد یہ کہو: التحیات للّٰہ الزاکیات للّٰہ الطیبات للّٰہ الصلوات للّٰہ، السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہالسلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہ ورسولہ-
اس روایت میں واضح ہے کہ حضرت عمر نے اپنے زمانۂ خلافت میں منبر پر کھڑے ہوکر لوگوں کو جو تشہد تعلیم فرمایا اس میں السلام علی النبی (نبی پر سلام) نہیں ہے بلکہ السلام علیک ایھا النبی (اے نبی آپ پر سلام ہو) ہے-
امام مالک نے حضرت عبداللہ ابن عمر اور حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی روایات تشہد ذکر کیں ہیں، ان میں بھی سلام بصیغۂ خطاب و نداہی ہے (۶) تشہد میں صیغۂ خطاب پر تمام ائمہ مجتہدین کا اجماع ہے-ابن حزم ظاہری لکھتے ہیں : اجماع اھل الاسلام المتیقن علی ان المصلی یقول فی صلاتہ السلام علیک ایھا النبی- (۷) ترجمہ : تمام اہل اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز میں نمازی یہ کہے السلام علیک ایھا النبی-
حضرت ابن مسعود کی متذکرہ روایت کے علاوہ کسی صحابی سے کوئی ایسی روایت نہیں ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ حضور اکرم ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد صحابہ نے تشہد کے الفاظ میں تبدیلی کر لی ہو-یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر ’’السلام علیک ایھاالنبی‘‘ کہنے سے اس لیے اعراض ہے کہ حضور ﷺ اب سامنے نہیں، لہٰذا ان کو صیغۂ خطاب سے سلام نہیں کیا جا سکتا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب صحابہ کرام سفر پر جاتے تھے اور مدینہ منورہ سے دور دیگر شہروں میں ہوتے تھے تو تشہد کیسا پڑھتے تھے؟ اس دلیل کی رو سے تو سفر وغیرہ میں (جہاں حضور ﷺ سامنے موجود نہ ہوں) صحابۂ کرام کو ’’السلام علی النبی‘‘ کہنا چاہیے تھا مگر اس سلسلہ میں صحیح تو کیا کوئی ضعیف روایت بھی پیش نہیں کی جا سکتی- صحابۂ کرام حضور ﷺ کے سامنے ہوں یا آپ کے غائبانہ میں، مدینہ میں ہوں یا مدینہ سے سیکڑوں میل دور ہر حال میں تشہد پڑھتے وقت ’’السلام علیک ایھاالنبی‘‘ ہی کہا کرتے تھے اور یہی تشہد دور دراز کے شہروں میں رہنے والے اہل اسلام کو سکھایا جاتا تھا- مصر کے بلند پایہ عالم اور محقق علامہ محمود صبیح فرماتے ہیں :
قد کان الصحابۃ یقولون وھم فی اسفارھم بعیدین باجسادھم عن رسول اللّٰہ ﷺ : السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ویعلمون ذلک لاصحابھم وھذا نداء بالغیب لبعدالمکان-(۸)
ترجمہ : صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اپنے سفر کے دوران جب کہ وہ جسم کے اعتبار سے حضور ﷺ سے دور ہوتے تھے تو بھی السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ہی کہا کرتے تھے اور ایسا ہی اپنے احباب کو سکھایا کرتے تھے، حالانکہ دور ہونے کی وجہ سے یہ بھی ندا بالغیب ہی ہے-
اب آیے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کا جائزہ لیا جائے جس کو دلیل میں پیش کیا جاتا ہے- مسند ابی عوانہ کے حوالے سے ہم نے گزشتہ صفحات میں اس کو نقل کیا ہے ،مسند ابی عوانہ کی اس روایت پر کلام کرتے ہوئے امام ابوالمحاسن الحنفی فرماتے ہیں:
من قولہ ’’بین ظھر انینا‘‘ الی’’ علی النبی‘‘ منکر لا یصح لانہ یوجب ان یکون التشھد بعد موتہ علیہ الصلوۃ والسلام علی خلاف ماکان فی حیاتہ و ذلک مخالف لما علیہ العامۃ ولما فی الاٰثار المرویۃ الصحیحۃ، وقد کان ابوبکر و عمر یعلمان الناس التشھد فی خلافتھما علی ماکان فی حیاتہ ﷺ من قولھم السلام علیک ایھاالنبی وانّما جاء الغلط من مجاھد وامثالہ وقد قال ابو عبید ان مما اجل اللّٰہ بہ رسولہ ان یسلم علیہ بعد وفاتہ کما کان یسلم علیہ فی حیاتہ وھذا من جملۃ خصائصہ ﷺ-(۹)
ترجمہ : بین ظہرانیناسے لے کر علی النبی تک یہ قول منکر ہے، صحیح نہیں ہے- اس لیے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ حضور ﷺ کی وفات کے بعد تشہد اس کے برخلاف ہو جو آپ کی حیات میں تھا اور یہ عامہ علما کے عمل اور آثار صحیحہ کے مخالف ہے، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اپنی خلافت کے دور میں لوگوں کو وہ تشہد سکھاتے تھے جیسا حضور ﷺ کی حیات میں تھا یعنی ’’السلام علیک ایھا النبی‘‘ یہ غلطی مجاہد اور ان کے امثال کی طرف سے آئی ہے، ابو عبید نے کہا کہ یہ ان باتوں میں سے ہے جن سے اللہ نے اپنے رسول کو بزرگی عطا فرمائی ہے کہ ان پر ان کی وفات کے بعد بھی ویسا ہی سلام بھیجا جائے گا جیسا ان کی وفات سے پہلے بھیجا جاتا تھا اور یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے-
مسند ابی عوانہ کی جو روایت ابھی ہم نے ذکر کی اس کو امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں درج کیا ہے، امام بخاری نے تشہد ابن مسعود والی حدیث کو صحیح بخاری میں سات مقامات پر روایت کیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
(۱) کتاب الاذان،باب التشہد فی الآخرۃ
(۲) کتاب الاذان،باب ما یتخیر من الدعاء بعد التشہد ولیس بواجب
(۳) کتاب العمل فی الصلاۃ،باب من سمیٰ قوما او سلم فی الصلاۃ علیٰ غیرہ وہو لا یعلم
(۴) کتاب الاستئذان،باب السلام اسم من اسماء اللہ تعالیٰ
(۵) کتاب الاستئذان،باب الاخذ بالیدین
(۶) کتاب الدعوات،باب الدعاء فی الصلاۃ
(۷) کتاب التوحید،باب قول اللہ تعرالیٰ السلام المؤمن
آپ کو حیرت ہوگی کہ ان سات روایتوں میں صرف ایک روایت ایسی ہے جس میں زیر بحث الفاظ آئے ہیں ،باقی چھ روایتوں میں یہ الفاظ نہیں ہیں،صرف روایت نمبر ۵ میں یہ الفاظ موجود ہیں:’’وہو بین ظہرانینا فلما قبض قلنا السلام یعنی علی النبی‘‘یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ صرف اسی روایت کی سند میں حضرت مجاہد کا نام آتا ہے ،حضرت مجاہد عبداللہ بن سخبرۃ سے روایت کرتے ہیں اور انہوں نے حضرت ابن مسعود سے روایت کی ہے ،اسی لیے امام ابو المحاسن نے معتصر المختصر میں فرمایا ہے(جس کا حوالہ پیچھے مذکور ہوا) کہ ’’یہ غلطی مجاہد اور ان کے امثال کی طرف سے آئی ہے‘‘-دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ شارحین حدیث نے وضاحت کی ہے کہ حضرت ابن مسعود کا قول صرف یہاں تک ہے ’’قلنا السلام‘‘اس کے بعد ’’یعنی علی النبی‘‘امام بخاری کا قول ہے ،مسند ابو عوانہ میں جو روایت ہے اس میں راوی کو وہم ہوا اور اس نے اس کو بھی حضرت ابن مسعود کا قول سمجھ لیا ،علامہ علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
واما قول ابن مسعود کنا نقول فی حیاۃ رسول اللّٰہ ﷺ السلام علیک ایھا النبی فلما قبض علیہ السلام قلنا السلام علی النبی فھو روایۃ ابی عوانۃ وروایۃ البخاری الاصح منھا بینت ان ذلک لیس من قول ابن مسعود بل من فھم الراوی عنہ ولفظھا فلما قبض قلنا السلام یعنی علی النبی فقولہ قلنا السلام یحتمل انہ اراد بہ استمررنا بہ علی ما کنا علیہ فی حیاتہ ویحتمل انہ اراد عرضنا عن الخطاب واذا احتمل اللفظ لم یبق فیہ دلالۃ کذا ذکرہ ابن حجر-(۷)
ترجمہ : ابن مسعود کایہ فرمانا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ میں السلام علیک ایھا النبی کہا کرتے تھے، جب حضور کا وصال ہو گیا تو ہم نے کہا السلام علی النبییہ ابو عوانہ کی روایت ہے- اس سلسلہ میں بخاری کی روایت اصح ہے اور اس روایت سے ظاہر ہے کہ السلام علی النبی ابن مسعود کا قول نہیں ہے بلکہ راوی نے ایسا سمجھ لیا ہے، اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں ’’فلما قبض قلنا السلام یعنی علی النبی‘‘ قلنا السلام- یہ احتمال رکھتا ہے کہ جیسا سلام آپ کی حیات میں پڑھا کرتے تھے ویسا ہی بعد میں بھی جاری رہا اور یہ بھی احتمال رکھتا ہے کہ ان کی مراد یہ ہو کہ ہم نے خطاب سے اعراض کر لیا اور جب لفظ میں احتمال پیدا ہو گیا تو دلالت باقی نہیں رہی، اسی طرح ابن حجر عسقلانی نے بھی ذکر کیا ہے-
اس بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی تمام صحابہ اور ان کے بعد تابعین اور ائمہ مجتہدین بھی السلام علیک ایھا النبی ہی پڑھتے رہے اور اسی کی تعلیم فرماتے رہے ،اور جو روایت حضرت ابن مسعود کے نام سے پیش کی جاتی ہے ،اولاً تو وہ پورا حضرت ابن مسعود کا قول نہیں،دوسرے یہ کہ اس روایت میں حضرت مجاہد منفرد ہیں،تیسرے یہ کہ اس میں چند احتمالات پیدا ہورہے ہیں اور جس قول میں چند احتمالات پیدا ہورہے ہوں اصول فقہ کے قاعدے کی رو سے ایسی روایت سے دلیل لانا درست نہیں ہوتا اور چوتھی اور آخری بات یہ کہ اگر ان سب باتوں سے قطع نظر کرکے اس کو بالکل صحیح بھی تسلیم کرلیا جاے تب بھی جمہور صحابہ اور تابعین کے عمل کے مخالف ہونے کی وجہ سے اس کو رد کردیا جائے گا-ہم پیچھے عرض کر چکے ہیں کہ حضرت ابن مسعود کے اس قول کے علاوہ کوئی صحیح روایت ایسی نہیں دکھائی جا سکتی جس میں یہ ہو کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ نے تشہد کے الفاظ میں تبدیلی کر لی تھی-
تشہد کے سلسلے میں دوسرا مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ اس سے سلام مقصود نہیں ہوتا بلکہ یہ واقعہ معراج میں ہونے والی گفتگو کی حکایت ہے -اس مغالطے کے جواب میں سیدنا شاہ فضل رسول بدایونی نے اپنی کتاب ’’احقاق حق‘‘(فارسی)میں تحقیقی گفتگو فرمائی ہے ، قدرے اختصار اور تلخیص کے ساتھ اسی کی روشنی میں ہم اس مغالطے کا تنقیدی جائزہ لیں گے-
یہ مغالطہ دراصل پوری حدیث کو غور سے نہ پڑھنے کے نتیجے میں پیدا ہوگیا ہے ،صحیح بخاری میں پوری حدیث اس طرح ہے:
قال عبداللہ کنا اذا صلینا خلف النبی ﷺ قلنا السلام علی جبریل و میکائیل السلام علی فلان و فلان فالتفت الینا رسول اللّٰہ ﷺ فقال انّ اللّٰہ ھوا لسلام فاذا صلی احدکم فلیقل التحیات للّٰہ و الصلوت والطیبات السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا و علی عباداللّٰہ الصالحین فانکم اذا قلتموھا اصابت کل عبداللّٰہ صالح فی السماء والارض، اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد انّ محمدا عبدہ ورسولہ- (۱۱)
ترجمہ : حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ جب ہم نبی کریم ﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کرتے تھے تو کہتے تھے جبریل پر سلام ہو، میکائیل پر سلام ہو، فلاں پر سلام ہو، رسول اللہ ﷺ ہماری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا بیشک اللہ خود سلام ہے جب تم میں سے کوئی نماز ادا کرے تو یہ کہے تمام قولی، جانی و مالی عبادات خالص اللہ کے لیے ہیں- اے نبی آپ پر اللہ کی سلامتی، رحمت اور برکات نازل ہوں، ہمارے اوپر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو، جب تم یہ کہوگے تو زمین و آسمان میں اللہ کے ہر نیک بندے کو یہ سلام پہنچے گا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ معبود برحق صرف اللہ عز و جل ہے اور محمد مصطفی ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں-
امام بخاری ایک دوسری روایت میں ارشاد فرماتے ہیں:
عن عبداللّٰہ قال کنا اذا کنا مع النبی ﷺ فی الصلاۃ قلنا السلام علی اللّٰہ من عبادہ السلام علیٰ فلان وفلان فقال النبی ﷺ لا تقولوا السلام علی اللّٰہ فان اللّٰہ ہوالسلام ولٰکن قولوا التحیات للّٰہ الخ (۱۲)
ترجمہ: حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ جب ہم نماز میں نبی کریم کے ساتھ ہوا کرتے تھے تو کہتے تھے کہ اللہ کے بندوں کی جانب سے اللہ پر سلام ہو،فلاں اور فلاں پر سلام ہو تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ نہ کہا کرو کہ اللہ پر سلام ہو کیوںکہ اللہ تو خود سلام ہے ،بلکہ یہ کہا کروالتحیات للّٰہ الخ
حدیث کے شروع میں ہے کہ ہم کہا کرتے تھے خدا پر سلام ہو، جبریل پر سلام ہو، میکائیل پر سلام ہو، فلاں پر سلام ہو، آنحضرت ﷺ نے خدا پر سلام بھیجنے سے منع فرمایا اور اس کی جگہ خود پر سلام بھیجنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوا کہ یہ صرف واقعۂ معراج کی حکایت نہیں ہے،بلکہ اس میں خود سلام بھیجنا مقصود ہے-
دو سری بات یہاں یہ قابل غورہے کہ حدیث کے آخری حصہ میں ارشاد فرمایا:
السلام علینا و علی عباداللّٰہ الصالحین فانکم اذا قلتموھا اصابت کل عبداللّٰہ صالح فی السماء والارض
ترجمہ: ہمارے اوپر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو، جب تم یہ کہوگے تو زمین و آسمان میں اللہ کے ہر نیک بندے کو یہ سلام پہنچے گا-
یہاں پر بھی اگرسلام کا ارادہ اور انشا مقصود نہ ہوتا اور صرف واقعۂ معراج میں وارد الفاظ کی نقل و حکایت مقصود ہوتی تو پھر ہر بندہ کو سلام پہنچنے کا کیا معنی ہوا-
امام غزالی فرماتے ہیں :
واحضر فی قلبک النبی ﷺ وشخصہ الکریم وقل السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ولیصدق املک فی انہ یبلغہٗ ویرد علیک اوفٰی منہ-(۱۳)
ترجمہ : (اے نمازی) تو اپنے دل میں نبی کریم ﷺ اور آپ کی مقدس شخصیت کو حاضر کر، پھر السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہکہہ، یقینا تیری امید بر آئے گی، بایں طور کہ سلام حضور کی بارگا ہ میں پہنچے گا اور آپ ﷺ اس سے بہتر سلام کے ذریعہ جواب عطا فرمائیں گے-
ملا علی قاری فرماتے ہیں :
وجواز الخطاب من خصوصیاتہ علیہ السلام اذ لو قیل لغیرہ حاضرا اوغائبا السلام علیک بطلت صلاتہ (۱۴)
ترجمہ : نماز میں صیغۂ خطاب صرف آنحضرت ﷺ کے لیے جائز و روا ہے اور یہ آپ کے خصائص و فضائل سے ہے حضور کے علاوہ نماز میں کسی سے خطاب خواہ وہ حاضر ہو یا غائب نماز کو باطل کر دیتا ہے-
دراصل بعض حضرات کو اس بات سے غلط فہمی ہوئی کہ انھوں نے صرف یہ دیکھا کہ یہ الفاظ قصۂ معراج میں بھی ہیں اور تشہد میں بھی لہٰذا انھوں نے حدیث کے اول و آخر پر غور نہیں کیا اور یہ کہہ دیا کہ یہ واقعہ معراج کی حکایت ہے-
صحیح حدیث میں اس بات کی ایک اور قوی دلیل موجود ہے کہ تشہد میں جو السلام علیک ایھا النبی ہے وہ واقعۂ معراج کی حکایت نہیں ہے بلکہ اس سے خود سلام مقصود ہے- سنن نسائی میں ہے :
عن عبدالرحمن ابن ابی لیلٰی قال لقینی کعب بن عجرۃ فقال الا اھدی لک ھدیۃ سمعتھا من النبی ﷺ فقلت بلی فاھدھا لی فقال سألنا رسول اللّٰہ ﷺ فقلنا یا رسول اللّٰہ! کیف الصلوٰۃ علیکم اہل البیت فان اللّٰہ تعالٰی قد علمنا کیف نسلم علیک قال قولوا اللّٰہم صل علی محمد- الخ (۱۵)
ترجمہ : عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ مجھ سے کعب بن عجرہ کی ملاقات ہوئی، انھوں نے کہا کیا میں تمہیں وہ تحفہ نہ دوں جس کو میں نے نبی اکرم ﷺ سے حاصل کیا ہے؟ میں نے کہا کیوں نہیں، وہ تحفہ مجھے دو، تو کعب بن عجرہ نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ پر درود کس طرح بھیجیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو تعلیم فرما دیا کہ ہم کس طرح آپ پر سلام بھیجیں ، حضور ﷺ نے فرمایا تم اس طرح کہو : اللّٰھم صلِّ علی محمدالخ
شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لکھا ہے :
بتحقیق دانانید مارا کیفیت سلام فرستادن برتوکہ در التحیات تعلیم کردی و آن را تعلیم الٰہی گفتند زیرا کہ تعلیم آن حضرت تعلیم الٰہی است زیرا کہ وی نطق نمی کند در احکام مگر بوحی(۱۶)
ترجمہ : حضور پر سلام بھیجنے کی کیفیت و طریقہ التحیات میں ہمیں بتا دیا گیا اور صحابہ نے جو یہ کہا کہ اللہ نے سلام پڑھنے کا طریقہ ہمیں تعلیم کیا ہے، اس لیے کہ حضور ﷺ کا تعلیم فرمانا در حقیقت تعلیم الٰہی ہے کیونکہ حضور جو کچھ احکام شریعت میں فرماتے ہیں وہ وحی کے ذریعہ فرماتے ہیں-
ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں:
فان اللّٰہ قد علمنا ای فی التحیات بواسطۃ لسانک کیف نسلم علیک ای بان نقول السلام علیک ایھا النبی کذا قیل وحاصلہ انّ اللّٰہ قد امرنا بالصلوٰۃ والسلام علیک وقد علمنا کیف السلام علیک والاظہر انہ علیہ السلام امرھم بالصلوٰۃ علیہ وعلٰی اہل بیتہ ولما لم یعرفوا کیفیتھا سألوہ عنھا مقرونا بالایماء الی انہ مستحق للسلام ایضا الا انہ معلوم عندھم بتعلیم ایاھم بلسانہ فارادوا تعلیم الصلوٰۃ ایضا علی لسانہ بان ثواب الوارد افضل و اکمل- (۱۷)
ترجمہ : خدا نے ہمیں تشہد میں آپ کی زبان مبارک کے توسط سے سلام کرنے کی کیفیت تعلیم کی ہے کہ ہم ایسے سلام پڑھیں السلام علیک ایھا النبی الخ اور اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ کی ذات گرامی پر درود اور سلام دونوں بھیجنے کا حکم فرمایا ہے اور ہمیں سلام کی کیفیت بھی تعلیم کر دی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ حضور نے خود پر اور اپنے اہل بیت پر درود بھیجنے کا حکم فرمایا ہوگا- اب چونکہ صحابہ درود بھیجنے کا طریقہ نہیں جانتے تھے لہٰذا انھوں نے آپ سے دریافت کیا کہ درود بھیجنے کا طریقہ کیا ہے اس سوال میں یہ اشارہ بھی ہے کہ آپ سلام کے بھی مستحق ہیں مگر اس کا طریقہ تو حضور کی زبان مبارک سے ان کو معلوم ہو گیا ہے، اب درود کا طریقہ بھی وہ حضور ہی کی زبان سے سیکھنا چاہتے ہیں، اس لیے کہ جو چیز حضور کی زبان مبارک سے وارد ہوگی اس کا ثواب زیادہ افضل و اکمل ہوگا –
ملا علی قاری مرقاۃ میں مزید فرماتے ہیں :
قال ابن حجر وفیہ روایۃ للشیخین الااھدی لک ھدیۃً ان النبی ﷺ خرج علینا فقلنا یا رسول اللّٰہ قد علمنا کیف نسلم علیک فکیف نصلی علیک-وفی روایۃ سندھا جید لما نزلت ھذہ الاٰیۃ ’’انّ اللّٰہ وملائکتہ یصلون علی النبی یا ایھاالذین اٰمنواصلوا علیہ وسلموا تسلیماً‘‘ جاء رجل الی النبی ﷺ فقال یا رسول اللّٰہ ھذا السلام علیک قد عرفناہ فکیف الصلوۃ علیک قال ’’قولو اللّٰہم صل علی محمد ‘‘ الحدیث -وفی روایۃ المسلم وغیرہ امرنا اللّٰہ ان نصلی علیک فکیف نصلی علیک فسکت علیہ السلام حتی تمنینا انہ لم یسئل ثم قال قولوا اللّٰہم صل علی محمدٍ الخ وفی آخرہ والسلام کما علمتم- (۱۸)
ترجمہ : ابن حجر نے کہا کہ اس سلسلہ میں شیخین سے مروی ہے کہ’’ میں تمہیں ایک تحفہ نہ دوں؟ایک مرتبہ حضور ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے ہم نے کہا یا رسول اللہ ہم سلام کی کیفیت تو جانتے ہیں یہ بتائیے کہ درود کس طرح بھیجیں؟ ‘‘ایک اور روایت میں آیا ہے جس کی سند جید ہے کہ جب آیت کریمہ انّ اللّٰہ و ملائکتہ یصلون علی النبی الخ نازل ہوئی تو ایک شخص نے آ کر عرض کیا’’ یا رسول اللہ ﷺ ہم جان گئے کہ آپ پر سلام کس طرح بھیجیں اب آپ فرمائیں کہ ہم آپ پر درود کس طرح بھیجیں؟‘‘آپ نے فرمایا کہو اللّٰھم صل علی محمد الخ ایک دوسری روایت میں آیا ہے جو صحیح مسلم کی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے تو ہم کیسے درود بھیجیں ؟‘‘ حضور نے تھوڑا سا سکوت فرمایا تو ہمارے دل میں یہ خیال گزرا کاش حضور سے یہ سوال نہیں پوچھا جاتا، پھر حضور ﷺ نے فرمایا اس طرح کہو :اللّٰھم صل علی محمد ‘‘الخ اس حدیث کے آخر میں فرمایا کہ’’ رہا سلام تو ویسا ہی جیسا تم نے سیکھ لیا‘‘-
ان تمام روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جس سلام کا حکم آیت کریمہ وسلموا تسلیمامیں دیا گیا ہے وہ تو تشہد میں معلوم ہو گیااب آپ درود پڑھنے کا طریقہ تعلیم فرمائیں-اور تشہد میں سلام کا جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ وہی ہے جو پیچھے مذکور ہوا’’ السلام علیک ایہاالنبی‘‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ تشہد میں السلام علیک ایھاالنبی بطور نقل و حکایت نہیں ہے بلکہ اس سے خود سلام مقصود ہے-
(جامِ نور مارچ ۲۰۰۹ئ)
qqq
حواشی
(۱) الف: صحیح بخاری: بطریق شقیق بن سلمہ : عن ابن مسعود ،کتاب الاذان: باب التشہد فی الآخرۃ
ب:صحیح مسلم : بطریق ابی وائل عن ابن مسعود، کتاب الصلوٰۃ: باب التشہد فی الصلوٰۃ
(۲) مسند ابی عوانہ : ج ۱، ص: ۵۴۱، دارالمعرفہ بیروت
(۳) جامع ترمذی:کتاب الصلاۃ،باب ما جاء فی التشہد
(۴) فتح الباری : ج: ۲، ص: ۳۱۵، دارالمعرفۃ بیروت
(۵) مؤطا امام مالک: ج ۱، ص: ۹۰، باب التشہد فی الصلوٰۃ، داراحیاء التراث العربی ، قاہرہ
(۶) مرجع سابق
(۷) المحلی: ج ۴، ص: ۷۰۶، دارالآفاق الجدیدہ، بیروت
(۸) علامہ محمود صبیح: اخطأ ابن تیمیہ فی حق رسول اللہ: ص: ۳۹۵، دار جوامع الکلم، قاہرہ
(۹) معتصر المختصر : ج ۱، ص: ۵۳، ۵۴، مکتبہ المتنبی، القاہرہ
(۱۰) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ج ۲، ص: ۵۸۱، کتاب الصلوٰۃ، باب التشہد، فیصل پریس، دیوبند ۲۰۰۵ء
(۱۱) صحیح بخاری: بطریق شقیق بن سلمہ : عن ابن مسعود ،کتاب الاذان: باب التشہد فی الآخرۃ
(۱۲) کتاب الاذان،باب ما یتخیر من الدعاء بعد التشہد ولیس بواجب
(۱۳) احیاء علوم الدین : امام غزالی، ج:۱/ص: ۱۷۵
(۱۴) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ج ۲، ص: ۵۸۶، کتاب الصلوٰۃ باب التشہد، فیصل پریس، دیوبند ۲۰۰۵ء
(۱۵) سنن نسائی : باب کیف الصلوٰۃ علی النبی ، ج:۳/ص: ۴۸، مکتبۃ المطبوعات، حلب ۱۹۸۶ء
(۱۶) اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ : ج ۱، ص: ۳۶۱، کتاب الصلوٰۃ : باب الصلوٰۃ علی النبی ﷺ وفضلھا، مطبع نول کشور ۱۲۹۰ھ
(۱۷) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ : ج ۳، ص: ۴، کتاب الصلوٰۃ : باب الصلوٰۃ علی النبی ﷺ وفضلھا
(۱۸) مرجع سابق
(۱۹) ترجمہ باختصاروتلخیص :احقاق حق :مولانافضل رسول بدایونی،ازص۴۳تاص۴۹،تاج الفحول اکیڈمی بدایوں۲۰۰۷ء

اولیاء اللہ کا مقام

اولیاء اللہ کا مقام۔ ۔ ۔ قرآن کی نظر میں
قرآنِ مجید کا انداز اور اُسلوبِ بیان اپنے اندر حِکمت و موعظت کا پیرایہ لئے ہوئے ہے۔ اِسی موعظت بھرے انداز میں بعض اَوقات آیاتِ قرآنی کے براہِ راست مخاطب حضور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہوتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے پوری اُمت کو حکم دینا ہوتا مقصود ہے۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزّت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِرشاد فرمایا :
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلاَ تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًاO
(الکفَ، 18 : 28)
(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں، اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں، تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں اُن سے نہ ہٹیں۔ کیا تو (اُن فقیروں سے دِھیان ہٹا کر) دُنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے؟ اور تو اُس شخص کی اِطاعت بھی نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اُس کا حال حد سے گزر گیا ہےo
اِس اِرشادِ ربانی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے اُمتِ مسلمہ کے عام افراد کو یہ حکم دِیا جارہا ہے کہ وہ اُن لوگوں کی معیت اور صحبت اِختیار کریں اوراُن کی حلقہ بگوشی میں دِلجمعی کے ساتھ بیٹھے رہا کریں، جو صبح و شام اللہ کے ذِکر میں سرمست رہتے ہیں اور جن کی ہر گھڑی یادِالٰہی میں بسر ہوتی ہے۔ اُنہیں اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے کسی اور چیز کی طلب نہیں ہوتی، وہ ہر وقت اللہ کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔ یہ بندگانِ خدا مست صرف اپنے مولا کی آرزو رکھتے ہیں اور اُسی کی آرزو میں جیتے ہیں اور اپنی جان جاںآفریں کے حوالے کردیتے ہیں۔ اﷲ کے ولیوں کی یہ شان ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے ہونا چاہتے ہیں اُنہیں چاہئیے کہ سب سے پہلے وہ ان اولیاء اﷲ کی صحبت اِختیار کریں۔ چونکہ وہ خود اﷲ کے قریب ہیں اور اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے عامۃ المسلمین کو اُن کے ساتھ جڑ جانے کا حکم فرمایا ہے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے یہی قرآنی نکتہ اپنے اِس خوبصورت شعر میں یوں بیان کیا ہے :
ہر کہ خواہی ہمنشینی با خدا
اُو نشیند صحبتے با اولیاء
ترجمہ : جو کوئی اللہ تعالی کی قربت چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کرے۔
غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حضر ت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ رکن عالم رحمۃ اللہ علیہ اور حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے خود کو اللہ کے قریب کرلیا تھا۔ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ایسے ہی لوگوں کی صحبت اِختیار کرنے اور اُن سے اِکتسابِ فیض کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ کے ولی کی مجلس میں بیٹھے گا اُسے اللہ کی قربت اور مجلس نصیب ہوگی۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نہ جنت کا لالچ ہے اور نہ ولایت کا، نہ کرامت کا شوق ہے اور نہ شہرت کی طلب، یہ نہ حوروں کے متمنی ہیں نہ قصور کے۔ اِن کا واحد مقصد اللہ کا دیدار ہیاور یہ فقط اللہ کے مکھڑے کے طالب ہیں۔ لہٰذا عام لوگوں کو تعلیم دی گئی کہ جو لوگ میرے (اللہ کے) مکھڑے کے طالب ہیں اُنہیں بھی اُن کا مکھڑا تکنا چاہیئے اور اپنی نظریں اُن کے چہروں پر جمائے رکھنا چاہیئں۔ جبکہ دُوسری طرف اللہ کی یاد سے غافل لوگوں سے دُور رہنے کا حکم دیا گیا :
وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا.
(الکهف، 18 : 28)
اور تو اُس شخص کی اِطاعت نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے۔
اِسی طرح سورۂ انعام میں اِرشاد ربانی ہوا :
فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَo
(انعام، 6 : 68)
پس تم یاد آنے کے بعد (کبھی بھی) ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھا کروo
اِن آیاتِ مبارکہ میں یہ بات بالصراحت واضح ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ سے دُور ہٹانے والوں کے ساتھ نشست و برخاست سے بھی اِجتناب کیا جائے۔ اُس کی محبت اور توجہ کے حصول کے لئے طالبانِ حرص و ہوس اور بندگانِ دُنیا کی صحبت کو کلیتاً ترک کرنا اور اولیاء اﷲکی نسبت اور سنگت کو دِلجمعی کے ساتھ اِختیار کرنا نہایت ضروری ہے۔ بقولِ شاعر :
صحبتِ صالح تُرا صالح کند
صحبتِ طالع تُرا طالع کند
اولیا ء اللہ کی معیت کس لئے؟
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کی بجائے اولیاء اللہ کی سنگت اور ہم نشینی اِختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کے سلسلے میں آنے، بیعت کرنے اور نسبت قائم کرنے کی شریعت میں کیا اہمیت ہے؟ چاہیئے تو یہ تھا کہ سارا معاملہ براہِ راست اللہ سے اُستوار کرلیا جاتا اور سیدھا اُسی سے تعلق اور ناطہ جوڑنے کی کوشش کی جاتی۔ آخر بندوں کو درمیان میں لانے اور اُنہیں تقرّب اِلیٰ اللہ کے لئے واسطہ بنانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ مقصودِ کل تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کی ذات ہے؟
یہ سوال آج کے دور میں دو وُجوہات کی بناء پر اِنتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک اِس لئے کہ جوں جوں زمانہ آگے گزرتا جارہا ہے رُوحانیت اور رُوحانی فکر مٹتا چلا جا رہا ہے۔ مادّیت اور مادّی فکر دُنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیمات پر بھی غالب آتا جا رہا ہے اور اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ دِین اور مذہب کو بھی مادّی پیمانوں پر پرکھنے لگے ہیں۔ اِس سوال کی پیدائش کا دُوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ آج کا دور بے عملی کے ساتھ ساتھ بدعقیدگی کا دور بھی ہے۔ مذہبی اور دِینی حلقوں میں نام نہاد خالص توحید پرست طبقے اولیاء اللہ کی عظمت کے صاف مُنکر ہیں اور اُن سے منسوب تعلیمات کو شرک و بدعا ت کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک اِسلام کے رُوحانی نظام کی نہ تو شرعی اہمیت ہے اور نہ اِس کی کوئی تاریخی حیثیت ہی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ راہِ راست سے بھٹک کر اولیائے کرام کی تعلیمات اوراُن کے عظیم سلسلوں اور نسبتوں سے دُور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس طرح کی باتیں آج کل بڑی شدّت سے زور پکڑ رہی ہیں اور یہ سوال ذِہنوں کو مسلسل پراگندہ (Confuse) کر رہے ہیں کہ اولیاء و صوفیاء کو اﷲ اور بندے کے مابین واسطہ ماننے کا از روئے شریعت کیا جواز ہے! جب ہم اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید سے پوچھتے ہیں تو وہ ہمیں صراحتاً بتاتا ہے کہ بندوں اور خدا کے درمیان اولیاء اللہ کو خود اللہ ربّ العزّت نے ہادی و رہبر کے طور پر ڈالا ہے۔ کسی اِنسان کی اِتنی مجال کہاں کہ وہ ایسی جسارت کرسکے! اِس بارے میں قرآن مجید کے الفاظ : ’’وَ اصْبِرْ نَفْسَکَ‘‘ اِس حکم کی نشاندہی کرتے ہیںکہ اولیاء اللہ کو ہدایت الیٰ اﷲ کے لئے درمیانی واسطہ بنائے بغیر اور کوئی چارہ نہیں اور اﷲ تعالیٰ تک رسائی کی یہی صورت ہے کہ اُس کے دوستوں سے لو لگائی جائے۔ جب اُن سے یاری ہو جائے گی تو وہ خود اﷲ ربّ العزّت کی بارگاہ کا راستہ دِکھائیں گے۔


ازل سے سنتِ الٰہی یہی ہے
اللہ ربّ العزّت نے اپنی توحید کا پیغام اپنے بندوں تک پہنچانے کے لئے انبیاء علیہ السلام کو بھیجا، جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ہر دور میں اُس فریضۂ نبوت کو بطریقِ اَحسن سراِنجام دیتے رہے۔ اِبتدائے آفرینش سے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ مخلوقاتِ عالم تک اپنا پیغا م انبیاء علیہ السلام کی وساطت سے پہنچاتا رہا ہے۔ انبیاء علیہ السلام کی ظاہری حیات کے دور میں اُن کو اپنے اور بندوں کے درمیان رکھا اور اب جبکہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا ہے تواِ سی کام کے لئے اولیاء اللہ کو مامور کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ تا قیامِ قیامت ابدالاباد تک جاری و ساری رہے گا۔
یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ اپنی توحید کا پیغام اپنے بندوں کو دینا چاہتا ہے تو ’’ قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ‘‘ فرماتا ہے۔ یعنی اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ اپنی زبان سے کہہ دیں کہ اللہ ایک ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اے اللہ! تو خود اپنی توحید کا اِعلان کیوں نہیں کرتا؟۔ ۔ ۔ تو خود ہی فرمادے کہ میں ایک ہوں! اللہ تعالی جواب دیتا ہے کہ نہیں یہ میری شان نہیں کہ بندوں سے از خود کلام کروں اور نہ ہی کسی بشر کی مجال ہے کہ وہ اللہ سے براہِ راست کلام کرے۔ اﷲ ربّ العزّت نے فرمایا :
وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُکَلِّمَهُ اﷲُ إلاَّ وَحْياً أَوْ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلاً فَيُوْحِیَ بِإذْنِه مَا يَشَآءُط إنَّه‘ عَلِیٌّ حَکِيْمٌo
(شوریٰ، 42 : 51)
اور کسی آدمی کی یہ طاقت نہیں کہ اﷲ سے (براہِ راست) بات کرے مگر ہاں (اِس کی تین صورتیں ہیں یا تو) وحی (کے ذریعے) یا پردے کے پیچھے سے یا (اﷲ) کسی فرشتے کو بھیج دے کہ اس کے حکم سے جو اﷲ چاہے وحی کرے، بے شک وہ بڑے مرتبہ والا، حکمت والا ہے۔


اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان اِس امر پر دلالت کرتاہے کہ وہٰ یہ کام اپنے منتخب مکرم بندوں سے کراتا ہے، جنہیں منصبِ رسالت پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے کہ میں اپنے اُس نبی اور رسول ہی سے کلام کرتا ہوں جسے منصبِ نبوت و رسالت سے سرفراز فرماتا ہوں اور اپنے اُس محبوب کو اپنا ہمراز بناتا ہوں اور اُسے اپنی خبر دیتا ہوں۔ اِسی لئے فرمایا : اے محبوب! تجھے میں نے اپنا رسول بنایا ہے، تو ہی میرے بندوں کے پاس جا اور اُنہیں میری یکتائی کی خبر دے اور جو کلام میں نے تجھ سے کیا ہے وہ اُن تک پہنچادے۔
آیتِ مبارکہ : قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ میں لفظِ ’’قُلْ‘‘ رسالت ہے، جبکہ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ ’’وہ اللہ ایک ہے‘‘۔ ۔ ۔ یہ الفاظ اﷲ ربّ العزّت کی توحید پر دلالت کرتے ہیں۔ اِس آیتِ کریمہ سے یہ پتہ چلا کہ توحید کے مضمون کا عنوان بھی رسالت ہے تاکہ لوگوں کو اِس امر سے مطلع کردیا جائے کہ اللہ ایک ہے اور وہی سب کا ربّ ہے۔
اِس سے یہ نکتہ کھلا کہ اللہ کی سنت یہی ہے کہ وہ کسی سے براہِ راست کلام نہیں کرتا اور اگر وہ کسی سے کلام کرنا چاہتا ہے تو درمیان میں واسطۂ رسالت ضرور لاتا ہے۔ اب کس کی یہ مجال ہے کہ وہ رسول کے واسطے کے بغیر اُس سے ہمکلام ہونے کی کوشش کرے! آیۂ توحید سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اللہ ربّ العزّت اپنے بندوں سے ہم کلام ہونے کے لئے اپنے رسول کا واسطہ درمیان میں لاتا ہے۔ ۔ ۔ تو جب وہ خدا ہو کر اپنے بندوں سے ہمکلام ہوتے وقت رسول کا واسطہ درمیان میں لانے سے اِجتناب نہیں کرتا تو ہم بندے ہو کر اُس کے رسول کا واسطہ لائے بغیر اُس سے ربط و تعلق کیونکر برقرار رکھ سکتے ہیں! یہ اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے اور ہم اُس کے حکم کے پابند ہیں، اُس سے رُوگرانی نہیں کرسکتے۔

بخدا خدا کا یہی ہے در
ربّ ذوالجلال نے یہ بنیادی نکتہ، کلیہ اور اصل الاصول بیان فرمادیا کہ میری اِطاعت کا راستہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کے راستے سے ہو کر گزرتا ہے۔ کلامِ مجید میں اِرشاد ہوا :
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اﷲَ.
(النساء، 4 : 80)
جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کرتا ہے تحقیق اُس نے اللہ کی اِطاعت کی۔
اِس آیتِ کریمہ میں اﷲ ربّ العزّت دوٹوک اِعلان فرما رہا ہے کہ ’’اے میرے بندو! یہ بات ہمیشہ کے لئے اپنے پلے باندھ لو کہ تم میں سے جو کوئی میری اِطاعت کا خواہشمند ہو اُسے چاہیئے کہ پہلے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کو اپنے اُوپر لازم کرے۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت ہی میری اِطاعت ہے۔ خبردار! میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت بجا لائے بغیر میری اِطاعت کا تصور بھی نہ کرنا‘‘۔
قرآن مجید نے اِس نکتے کو یہ کہہ کر مزید واضح فرمادیا :
قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ.
(آل عمران، 3 : 31)
(اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !) فرما دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اِتباع میں آجاؤ، اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔
گویا اﷲ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دِیا کہ اے محبوب! آپ فرمادیجئے کہ اگر تم میں سے کوئی اللہ کی محبت اور غلامی کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ پہلے میری محبت اور غلامی کا قلاّدہ اپنے گلے میں ڈال لے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اُسے اللہ کی محبت نصیب ہوجائے گی۔


اِس آیتِ کریمہ سے یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ اللہ کے نزدیک وہ محبت اور اِطاعت ہرگز معتبر اور قابلِ قبول نہیں جو اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دَم بھرے اور اُس کی اِطاعت بجالائے بغیر ہو۔ اُس نے اپنے رسول کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان واسطہ بنادیا اور یہ بات طے کردی کہ اِس واسطہ کو درمیان سے نکال کر اِطاعت و محبتِ اِلٰہی کا دعویٰکسی طور پر بھی مبنی بر حقیقت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مزید ارشاد فرمایا :
وَ إذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَإنِّیْ قَرِيْبٌط
(البقرة، 2 : 186)
اور (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں (تو فرمادیں) پس میں قریب ہوں۔
یعنی اے میرے محبوب! جب میرے متلاشی بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو آپ اُنہیں کہہ دیجئے کہ میں اُن کے بہت قریب ہوں۔ اِس آیتِ مبارکہ میں کہا جارہا ہے کہ میں اُن بندوں کے قریب ہوں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بندے کون ہیں جنہیں قربِ الٰہی کا مژدۂ جانفزا سنایا جارہا ہے! ذرا غور کریں تو یہ نکتہ کھل جائے گا کہ میرے بندے وہ ہیں جو پہلے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در کے سوالی بنیں۔ جو اُن کے در کا سوالی ہوگا، وُہی میرا بندہ ہوگا۔ اور جو اُس در کا سوالی نہ ہوگا، وہ میرے در کا سوالی نہیں اور وہ کبھی شانِ بندگی کا حامل نہیں ہوسکتا۔ اِسی سیاق میں اِمام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے کیاخوب کہا ہے :
بخدا خدا کا یہی ہے دَر، نہیں اور کوئی مفرّ مقرّ
جو وہاں سے ہو، یہیں آکے ہو، جو یہاںنہیں، تو وہاں نہیں


خدا کی بندگی کے لئے واسطۂ رِسالت کی ناگزیریت
اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے درمیان رِسالت ایک ایسا واسطہ ہے جس سے اِطاعت و محبتِ الٰہی کے باب میں صرفِ نظر نہیں کیاجاسکتا۔ اِس لئے جب منافقین نے از رُوئے بغض و عناد درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سرِ تسلیم خم کرنے سے اِنکار کردیا تو اللہ ربّ العزّت نے یہ اِرشاد فرما کر اُن کی قلعی کھول دی :
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًاo
(النساء، 4 : 61)
اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور رسول کی طرف تو آپ دیکھیں گے کہ منافق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں۔
ملاحظہ ہو کہ یہ منافق لوگ اللہ کی طرف آنے سے پس و پیش نہیں کریں گے اور انہیں کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور گھبراہٹ نہ ہوگی، مگر جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اپنا چہرہ یہ کہہ کر پھیرلیتے ہیں کہ جب بالآخر اللہ ہی کی طرف جانا ہے تو سیدھے اُسی کی طرف کیوں نہ جائیں۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کیوں جائیں؟ اﷲتعالیٰ نے اُن لوگوں کے بارے میں جن کے دلوں کے اندر چور ہے دو ٹوک اِعلان کر دیا کہ وہ میرے بندے نہیں بلکہ منافق ہیں۔ میرا اُن سے نسبتِ بندگی کے ناطے کوئی تعلق نہیں۔
یہ بات محوّلہ بالا اِرشادِ ربانی سے طے ہوگئی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ پر چلے بغیر کوئی اپنی منزل کو نہیں پاسکتا۔ وہ لاکھ ٹکریں مارتا رہے، اُس کی بندگی کو بارگاہِ خداوندی میں سندِ قبولیت نہیں مل سکتی۔ بقول سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ :
خلافِ پیغمبر کسے رَہ گزید
ہرگز نخواہد بمنزل رسید
اللہ ربّ العزّت چاہتا تو اپنا پیغام براہِ راست اپنے بندوں تک پہنچانے کا انتظام کر سکتا لیکن اُس کے باوجود اُس نے اپنے اور بندوں کے درمیان رِسالت کا واسطہ رکھا۔ اُس کی قدرتِ کاملہ کے سامنے کوئی چیز محال نہیں، وہ اپنے فرشتوں سے یہ کام لے سکتا تھا۔ عین ممکن تھا کہ ہر شخص جب صبح بیدار ہوتاتو اُس کے سرہانے ایک سیپارہ پڑا ہوتا جس پر درج ہدایتِ ربانی اُس کے دل میں اُترجاتی۔ وہ کلام جو اُس نے اپنے چنیدہ و برگزیدہ انبیاء و رُسل کے ساتھ کیا، وہ اپنے ہر بندے کے ساتھ بھی کرسکتا تھا، اِس طرح ہر بندے کا تعلق براہِ راست اُس سے قائم ہوجاتا۔ لیکن اپنی بے پایاں حکمتوں کے پیشِ نظر اﷲ تعالیٰ نے اِس بات کا فیصلہ کردیا کہ میری ہدایت میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے کے بغیر ممکن نہیں اور میری معرفت کو وہی پاسکتا ہے جسے میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت حاصل ہوجائے۔


مہرِ انگشتریئِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ناموں کی ترتیب
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک انگوٹھی تھی، جس پر ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ‘‘ کے الفاظ کندہ تھے۔ آپ اُس سے مُہر لگایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، 1 : 15) حکمرانانِ وقت کو خطوط بھجواتے وقت اُن پر یہ مہر لگوائی جاتی تھی۔ آجکل یہ خطوط چھپ چکے ہیں اور اُنہیں ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔
عربی ہمیشہ دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے۔ مگر یہ بات غور طلب ہے کہ انگوٹھی مبارک کی مہر میں یہ ترتیب نیچے سے اوپر کی طرف چلی گئی ہے اور وہ یوں کہ ’’محمد‘‘ نیچے، ’’رسول‘‘ درمیان میں اور ’’اﷲ‘‘ سب سے اُوپر لکھا گیا ہے۔ یہ ترتیب محض کوئی اِتفاقی امر نہیں بلکہ اِس کا مقصد لوگوں کو یہ سمجھانا تھا کہ اگر تم اللہ کا قرب حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہو تو اُس کا راستہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور اِتباع میں مضمر ہے۔ یہ ترتیبِ صعودی اِس بات کی مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز پر سرِتسلیم خم کرنا لازمی ولابدّی امر ہے۔ ہمارے سفر کی اِنتہا تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات تک رسائی ہے، باقی رہا اللہ سے ملانا تو یہ اُن کا کام ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :
تیری معراج کہ تو لوح و قلم تک پہنچا
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا


درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تقسیمِ فیوضاتِ الٰہیہ
یہ بات طے ہوگئی کہ بارگاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شرفِ حضوری حاصل کرنے والے کو ہی فیضانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہوگا۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ فیضانِ رسالت ہی معرفتِ الٰہی کے حصول کا پیش خیمہ ہے۔ واسطۂ رِسالت ہی وہ زِینہ ہے جو سیدھا عرشِ اِلٰہی تک جاتا ہے۔ اگر کوئی اِس واسطے کو درمیان سے ہٹانا چاہے تو اُس کا یہ عمل اللہ کے نظام کو منسوخ کرنے کی سعیء موہوم کے مترادف ہوگا۔ اِس حقیقت پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اِرشادِ مبارک دلالت کرتا ہے :
اِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَ اﷲُ يُعْطِیْ.
(صحيح البخاری، کتاب العلم، 1 : 16)
(الصحيح لمسلم، کتاب الزکوٰة، 1 : 333)
(مسند احمد بن حنبل، 2 : 234)
(المعجم الکبير، 19 : 284، رقم : 755)
(شرح السنة، 1 : 284، رقم : 131)
میں (نعمتوں کی) تقسیم کرنے والا ہوں اور عطا کرنے والا اﷲ ہے۔
اِس حدیثِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطائے نِعم کے مالک اﷲ ربّ العزّت کا ذکر بعد میں اور اُن نعمتوں کی تقسیم کے حوالے سے اپنا ذِکر پہلے کیا ہے۔ گویا یوں فرمایا کہ : ’’اے لوگو! کہاں بھٹکے جارہے ہو! قاسم میں ہی ہوں۔ اگر تمہیں خیرات و فیوضاتِ الٰہیہ چاہئیں تو تمہیں میرے دروازے پر آنا ہوگا۔ اگر مجھ سے گریزاں ہو گے تو دربدر کی ٹھوکریں کھانا تمہارانصیب ہوگا اور تمہیں ذِلت و رُسوائی کی خاک پھانکنے کے سِوا اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ فیوضاتِ الٰہیہ کی خیرات صرف اِسی در سے مل سکتی ہے، اِس لئے آؤ اور میری دہلیز پر جھک جاؤ‘‘۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :
محمدِ عربی کہ آبروئے ہر دو سرا ست
کسے کہ خاکِ درش نیست خاک بر سر اُو


سلسلۂ اولیاء کا اِجراء
بابِ نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہو جانے کے بعد فیوضاتِ الٰہیہ کی ترسیل و اِجراء کے نظام کو جاری و ساری رکھنے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور مقرّب اولیائے کرام کا سلسلہ جاری فرما دیا۔ یہ اولیائے کرام درِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیرات عامۃالناس میں تقسیم کرنے اور اُنہیں اﷲ کی بارگاہ کا راستہ دِکھانے پر متعین ہیں۔ اُن سے فیض حاصل کرنا حکمِ ربانی کی تعمیل ہے۔ قرآنِ مجید میں حکمِ ربانی ہے :
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَ الْعَشِیِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَه‘ط وَ لَا تَعْدُ عَيْنَاکَ عَنْهُمْ.
(الکهف، 18 : 28)
(اے میرے بندے) تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں، اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں (اُس کی دِید کے متمنی اور اُس کا مکھڑا تکنے کے آرزومند رہتے ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں اُن سے نہ ہٹیں۔
اِس آیتِ مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنی بارگاہ تک رسائی کا طریقہ بتاتے ہوئے فرمایا : ’’اے لوگو! تم میرے اُن بندوں سے اپنا ناطہ جوڑ لو جو صبح و شام میری یاد میں سرمست رہتے ہیں اور جو میرے چمنستانِ الست سے جام پر جام لنڈھاتے ہیں اور میرے ذِکر میں اُن کے شب و روز عالمِ سرشاری میں بسر ہوتے ہیں‘‘۔
اب جنہیں میری قربت درکار ہو اُن کے لئے ضروری ہے کہ میرے اِن خدا مست بندوں کی صحبت اور سنگت اِختیار کرلیں اور اُن بادہ کشوں کی میئ سرمدی کی محفل میں آجائیں تاکہ اُنہیں بھی اُس سرور و نشاط آگیںشراب کے چند گھونٹ میسر آجائیں۔ اگر وہ نہیں تو فقط اس کی خوشبو سے جو سرشاری نصیب ہوگی وہ بھی کم نہیں۔
گردِ مستاں گرد، گر مے کم رسد بوئے رسد
بوئے اُو گر کم رسد، رؤیتِ اِیشاں بس است
پھر اِرشاد فرمایا : ’’وَ لَا تَعْدُ عَيْنَاکَ عَنْهُمْ‘‘ یعنی اے پندارِ دُنیوی میں مست رہنے والے لوگو! میرے اِن بندوں سے اپنی نگاہیں نہ ہٹانا اور اُنہیں کبھی بنظرِ تحقیر نہ دیکھنا ورنہ اللہ تم سے اپنی نگاہیں ہٹالے گا اور تمہارا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا۔ پھر فرمایا : ’’تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا‘‘ کیا تم اِس چند روزہ دنیا کی زیب و زِینت کے اسیر رہنا چاہتے ہو اور آخرت کی نعمتوں کی طلب سے بیگانہ رہ کر زندگی گزارنے کے تمنائی ہو؟ خبردار! اگر اُخروی نعمتوں کے طلبگار ہو تو میرے بندوں کو اپنا مرکزِ نگاہ بنالو۔ اگر تم عارضی متاعِ حیات سے صرفِ نظر کر کے اُن کے خوشہ چیں بن جاؤگے تو وہ تمہیں طالبانِ مولا اور طالبانِ آخرت بنادیں گے اور اگر اُنہیں تکنا چھوڑ دوگے اور اُن سے نظریں ہٹا لو گے تو پھر مکروہاتِ دُنیا میں غرق ہوکر رہ جاؤگے اور دُنیا کی محبت تمہیں ذِکرِ الٰہی اور یادِ آخرت سے بیگانہ کردے گی۔ پھر اِرشاد ہوا :
وَ لَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِکْرِنَا.
(الکهف، 18 : 28)
اور تو اُس شخص کی اِطاعت بھی نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنے ذِکر سے غافل کر دِیا ہے۔
خبردار! اُن لوگوں کی اِطاعت نہ کرنا جن کے دلوں کو ہم نے اپنے ذِکر سے غافل کردیا ہے، اگر تم اُن کا کہنا مانوگے اور اُن کے پیچھے چلوگے تو ہم سے دُور ہوکر خُسْرَانٌ فِی الدُّنْيَا وَ الْأَخِرَة یعنی دُنیا و آخرت کی ہلاکت کے مستحق بن جاؤگے۔
اِس آیت کریمہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ معرفت و قربِ اِلٰہی اور وصال باللہ کے لئے اللہ کا حکم ہے کہ اُس کے اُن نیک بندوں سے یک گو نہ قلبی تعلق، صحبت اور معیت اِختیار کی جائے جو فیوضاتِ نبوت حاصل کرنے کا وسیلہ ہیں۔ پس متذکرہ بالا بحث سے یہ ثابت ہوا کہ جس طرح نبی کی ذات اُلوہی فیوضات حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے، اُسی طرح گروہِ اولیاء بھی فیوضاتِ نبوت حاصل کرنے کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔


رُوحانی کائنات کا مِقناطیسی نظام
رُوحانیت کی حقیقت کو نہ سمجھ پانے والے مادّیت زدہ لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کا ایک ولی ہزاروں میل کی مسافت سے اپنے مرید کو اپنی توجہ سے فیضاب کردے؟ اِتنی دور سے ایسا کیونکر ممکن ہے؟ کم علمی کے باعث پیدا ہونے والے اِن شکوک و شبہات کا جواب بالکل سادہ ہے کہ وہ قدیر و علیم ذات جس نے زمین اور مشتری جیسے سیارگانِ فلک کو وہ مقناطیسی قوّت عطا کر رکھی ہے، جو ہزاروں لاکھوں میلوں کے فاصلے پر خلاء میں اُڑتے ہوئے کسی شہابیئے (Meteorite) پر اثر انداز ہو کر اُسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے اپنے اُوپر گرنے پر مجبور کر سکتی ہے، کیا وہ قادرِ مطلق ذات مادّی حقیقتوں کو رُوحانی حقیقتوں سے بدلنے پر قادِر نہیں؟ اِس حقیقت کا اِدراک وُہی کرسکتا ہے جس کا دِل بصیرتِ قلبی اور نورِ باطنی سے بہرہ ور ہو۔
ہر صاحبِ علم پر یہ حقیقت مُنکشف ہے کہ زمین جو ایک بڑا مقناطیس ہے، اُس کی مقناطیسی قوّت اُس کے قطبین (Poles) سے پیدا ہوتی ہے، جو شمالی اور جنوبی پول (North & South Poles) کہلاتے ہیں۔ کششِ ثقل کے اِن اثرات کو قطب نما (Compass) کی مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ اُسے جونہی زمین پر رکھا جاتا ہے، اُس کی سوئیوں کا رُخ شمالاً جنوباً گھوم جاتا ہے۔ جب Compass کے مقابلے میں عام سوئیاں زمین پر رکھیں تو وہ جوں کی توں پڑی رہتی ہیں اور اُن کا رُخ شمالاً جنوباً نہیں پھرتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ Compass کی سوئی کو شمالاً جنوباً کس قوّت نے پھیرا؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ وہ مقناطیسی سوئی جس کی نسبت زمینی قطب (Pole) کے ساتھ ہوگئی وہ عام سوئی نہیں رہی بلکہ قطب نما بن گئی۔ اِسی نسبت کے اثر نے اُس کی سمت قطبین کی طرف پھیر دی۔
رُوحانی قطب نمائے اعظم۔ ۔ ۔ مکینِ گنبدِ خضرا ء
مادّیت زدہ لوگوں کو جان لینا چاہئے کہ اُن کے دِل عام سوئی کی طرح ہیں جو کسی رُوحانی قطب سے منسلک نہ ہونے کے باعث اُس ایزد اَفروز نور سے محروم ہیں، جس کے بارے میں قرآن نے : لَا شَرَقِيَّةَ وَ لَا غَرَبِيَّةَ کہا، کیونکہ اُس کے نور کی حدیں شرق و غرب سے ماوراء ہیں۔ رُوحانی کائنات کا قطبِ اعظم صرف ایک ہے اور وہ گنبدِ خضرا میں مقیم ہے۔ زمین کے شمالی اور جنوبی دو پول ہیں، جن کی نسبت سے قطب نما کی سوئی شمالاً و جنوباً رُخ اِختیار کرلیتی ہے، جبکہ فرش سے عرش تک رُوحانی کائنات کا قطب گنبدِ خضرا کا مکین ہے۔ جس طرح عام سوئیوں کی نسبت زمین کے قطبین سے ہوجائے تو وہ عام سوئیاں نہیں رہتیں بلکہ خاص ہوجاتی ہیں، جو ظاہری واسطہ کے بغیر جہاں بھی ہوں خود بخود اپنی سمتیں شمالاً جنوباً درُست کرلیتی ہیں، بالکل اِسی طرح ایک مؤمن کا دِل بھی ہر آن مکینِ گنبدِ خضراء کی توجہاتِ کرم کی طرف مائل رہتا ہے۔ جن دلوں کی نسبت گنبدِ خضراء سے ہوجائے وہ عام نہیں رہتے بلکہ خاص دل بن جاتے ہیں۔ پھر وہ کسی ظاہری واسطے کے بغیر بغداد ہو یا اجمیر، لاہور ہو یا ملتان، جب اُن کی نسبتِ وُجود مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو جاتی ہے تو سمت خود بخود متعین ہوجاتی ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ سلسلۂ فیض منقطع ہوگیا تو اِس کا مطلب ہے کہ ہمارے دِل کی سوئی خراب ہے اور اُس کا رابطہ اپنے رُوحانی قطب سے کٹ گیا ہے، کیونکہ یہ فیضان تو ہمیشہ جاری رہنے والا ہے۔ اِس وسیع و عریض مادّی کائنات میں اپنے اپنے مداروں میں تیرنے والے تمام تر سیاروں اور ستاروں کے ہمیشہ دو دو پول ہوتے ہیں، جن سے اُ ن کی مِقناطیسی لہریں نکل کر اُن کی فضا میں بکھرتی اور بیرونی عناصرکے لئے اپنی طرف کشش پیدا کرتی ہیں جبکہ تحت الثریٰ سے اوجِ ثریا تک پھیلی ہوئی اِس ساری رُوحانی کائنات کا پول فقط ایک ہی ہے اور وہ ہماری ہی زمین پر واقع سرزمینِ مدینہ منورہ میں ہے۔ یہ نظامِ وحدت کی کارفرمائی ہے کہ جس دِل کی سوئی مدینہ کے پول سے مربوط ہوگئی وہ کبھی بھی بے سمت و بے ربط نہ رہے گا۔ آج بھی تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقناطیسی توجہ ہر صاحبِ ایمان کو اُسی طرح سمت (Direction) دے رہی ہے جیسے زمینی مقناطیس کے دونوں پول کسی قطب نما کی سوئی کو شمال و جنوب کی مخصوص سمت دیتے ہیں۔


مِقناطیس کیسے بنتے ہیں؟۔ ۔ ۔ شیخ اور مرید میں فرق
مِقناطیس بنانے کے دو طریقے ہیں، جن سے عام طور پر لوہے کو مِقنایا جاتا ہے :
1۔ مِقناطیس بنانے کا پہلا اور دیرپا طریقہ الیکٹرک چارج میتھڈ (Electric Charge Method) کہلاتا ہے۔ اِس طریقے کی رُو سے لوہے کے ایک ٹکڑے میں سے برقی رَو (Electric Current) گزاری جاتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں جو مقناطیس بنتے ہیں اُنہیں Electric Charged Magnets یعنی برقی چارج کئے گئے مقناطیس کہتے ہیں۔
یہ مقناطیس اس آیۂ کریمہ کا مِصداق ہیں جس میں اللہ تعالی کا اِرشاد ہے :
الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَه‘.
(الکهف، 18 : 28)
جو لوگ صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں اور اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے اُن بندوں کی یہ کیفیت بیان فرمائی ہے کہ وہ صبح و شام اپنے مولا کی یاد میں مست رہتے ہیں۔ اُن میں محنت، مجاہدہ اور تزکیہ کی بجلی گزاری جاتی ہے تو رُوحانی طور پر چارج ہوجاتے ہیں۔ اس پروسس سے جو مقناطیس (Magnet) تیار ہوتے ہیں اُن میں سے کسی کو داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ بنا کر لاہور میں، کسی کو غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ بنا کر بغداد شریف میں، کسی کو خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ بنا کر اجمیر شریف میں اور کسی کو بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ بنا کر ملتان میں فیض رسانی کو جاری و ساری رکھنے کے لئے مامور کر دیا جاتا ہے۔
2۔ مِقناطیس بنانے کا دُوسرا طریقہ سٹروک میتھڈ (Stroke Method) کہلاتا ہے۔ اِس کے مطابق لوہے کے ٹکڑے کو کسی مقناطیس کے ساتھ رگڑا جاتا ہے تو اُس میں مقناطیسیت (Magnetism) منتقل ہوجاتی ہے اور لوہے کا وہ ٹکڑا بھی اِس رگڑ اور معیت سے مِقناطیس بن کر لوہے کی عام اشیاء کو اپنی طرف کھینچنے لگ جاتا ہے۔
رُوحانی مقناطیسیت کی دُنیا میں دُوسرے طریقے کے ضمن میں وہ لوگ آتے ہیں جو مجاہدۂ نفس، محنت اور تزکیہ و تصفیہ کے اِعتبار سے کمزور ہوتے ہیں اور وہ اِس قدر ریاضت نہیں کرسکتے مگر اُن کے اندر یہ تڑپ ضرور ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے قلب و باطن کو کثافت اور رذائل سے پاک و صاف کر کے رضائے الٰہی سے ہمکنار ہوں۔
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ. . .
(الکهف، 18 : 28)
تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھ۔ ۔ ۔
اِس آیتِ مبارکہ میں اُن طالبانِ حق کا ذِکر کیا گیا ہے جو اللہ والوں کی محبت اور معیت اختیار کر کے اپنے اندر للہیت، حق پرستی اور خدا پرستی کا جوہر پیدا کرلیتے ہیں۔ سٹروک میتھڈ والے ’’وَاصْبِرْ نَفْسَکَ‘‘ کے مِصداق ہوتے ہیں۔ مُرید دوسرے طریقے (Stroke Method) سے رُوحانی مقناطیسیت لیتا ہے اور شیخ پہلے طریقے (Electric Charge Method) سے مقناطیس بنتا ہے۔


اِیصالِ حرارت اور اِیصالِ رُوحانیت
سٹروک میتھڈ کی مثال اِیصالِ مقناطیسیت کے ضمن میں اِیصالِ حرارت کی سی ہے۔ جیسے کسی مُوصِل شے کو آگ میں تپایا جائے تو وہ خود بھی گرم ہو جاتی ہے اور اپنی حرارت کو آگے بھی منتقل کرتی ہے۔ مثال کے طور پر لوہا ایک اچھا مُوصِل ہونے کے ناطے حرارت کے اِیصال کی خاصیّت رکھتا ہے جبکہ لکڑی غیرمُوصِل ہے جو آگ میں جل کر راکھ تو ہوجاتی ہے مگر اِیصالِ حرارت کی صفت ہے محروم ہے۔
جس طرح لوہا مُوصِل ہونے کے ناطے حرارت منتقل کرنے کی خاصیت سے بہرہ ور ہے اور جب تک اُسے حرارت ملتی رہے اِیصال کا عمل جاری رکھتا ہے، بالکل اُسی طرح وہ اَولیائے کرام جو فیضانِ نبوت سے بہرہ یاب ہوتے ہیں، وہ اِس فیضان کو آگے عامۃ الناس تک منتقل کرتے رہتے ہیں۔ فیضانِ نبوت کے منتقل کرنے والے اِس طریقِ کار کو رُوحانی دنیا میں سلسلہ کہتے ہیں اور یہ سلسلہ اُن اَولیائے کرام سے چلتا ہے جو گنبدِ خضراء کے مکیں سے رُوحانیت کا Magnetism لیتے اور آگے تقسیم کرتے رہتے ہیں اور اُن سے جاری ہونے والا چشمۂ فیض کبھی خشک نہیں ہوتا۔


جدید سائنسی دریافت اور نظام برقیات سے ایک تمثیل
موجودہ سائنسی دنیا میں بہت سی چیزیں سپر الیکٹرو میتھڈ(Super Electro Method) کے نظام کے تحت چل رہی ہیں، جس کے تحت ایک کوائل (Coil) پر اِتنی توجہ اور محنت کی جاتی ہے کہ ہر ممکنہ حد تک اُس کی ساری برقی مزاحمت (Electrical Resistance) ختم کردی جاتی ہے۔ صوفیاء کی زبان میں اِسے تزکیہ کہتے ہیں۔ جس کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا :
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰيo
(الاعلیٰ، 87 : 14)
بے شک وہی بامُراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہوں کی آلودگیوں سے) پاک ہو گیاo
تزکیہ کیا ہے؟
برقیات کی اِصطلاح میں :
یہ بجلی چارج کرنے کے خلاف تمام تر ممکنہ مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔


صوفیاء کی اِصطلاح میں :
یہ نفس کی کدُورتوں، رذائل اور اُس مزاحمت کو دور کرنا ہے جو قربِ الٰہی کی راہ میں حائل ہوتی ہے۔
برقیات کے حوالے سے ہونے والی جدید سائنسی پیش رفت میں کسی بھی کوائل (Coil) کو اِس قدر ٹھنڈا کیا جاتا ہے کہ اُس کا درجۂ حرارت 269o سینٹی گریڈ پر چلا جاتا ہے۔ اِس طرح جو الیکٹرومیگنٹ (Electro Magnet) حاصل ہوتا ہے، وہ زیادہ سے زیادہ کرنٹ اپنے اندر سما سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہماری زمین کا اَوسط درجۂ حرارت محض 15o سینٹی گریڈ جبکہ پوری کائنات کا درجۂ حرارت 270o سینٹی گریڈ ہے۔
اِسی تمثیل پر صوفیائے کرام مجاہدہ و محاسبۂ نفس کے ذریعے اپنے اندر سے غصہ، حسد، بغض، غرور، تکبر اور نفس کی دیگر جملہ کثافتوں کو جو حصولِ فیض کی راہ میں مانع ہوتی ہیں، اپنے نفس کو خوب ٹھنڈا کر کے بالکل نکال دیتے ہیں تآنکہ وہ سراپا یوں نظر آنے لگتے ہیں :
وَ الْکَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَ الْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اﷲُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَo
(آل عمران، 3 : 134)
اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (اُن کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں اور اﷲ اِحسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہےo
جس طرح Super Electro Magnet مادّ ی کثافتوں کے دُور ہونے سے چارج ہوتا ہے اور اُس سے مادّی دُنیا میں کرامتیں صادِر ہونے لگتی ہیں، بالکل اِسی طرح اولیاء کا نفس کثافتوں اور رذائل و کدُورت سے پاک ہوکر فیضانِ اُلوہیت اور فیضانِ رسالت کو اپنے اندر جذب کرلینے کے قابل بن جاتا ہے اور پھر وہ جدھر نگاہ اُٹھاتے ہیں کرامات کا ظہور ہونے لگتا ہے۔ اِس قلبِ ماہیت سے اولیاء کے دل مُوصِل مِقناطیس (Conducting Magnet) بن جاتے ہیں۔
جب اُس الیکٹرومیگنٹ (Electro Magnet) کو ایک خاص پروسیس سے گزارا جاتا ہے تو وہ Super Conducting Magnet بن جاتا ہے۔ اِسے این ایم آر یعنی Nuclear Magnetic Resonant کے پروسیس سے گزارتے ہیں۔ مریض کو جب اُس کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے تو اُس کے بدن کے اندر کی تمام چیزوں سے پردے اُٹھ جاتے ہیں۔ گویا جسم کا پردہ تو قائم رہتا ہے مگر مِقناطیسیت کی وجہ سے Scanner کے ذریعے وہ چیزیں جو ننگی آنکھ نہیں دیکھ سکتی سب آشکار کردی جاتی ہیں۔
سو وہ لوگ جنہوں نے تزکیہ و تصفیہ کی راہ اِختیار کی، اُن پر سے بصورتِ کشف پردے اُٹھا دیئے جاتے ہیں۔ وہ کشف سے توجہ کرتے ہیں تو ہزارہا میل تک اُن کی نگاہ کام کرتی ہے اور وہ چیزیں جو مغیبات میں سے ہیں اور عام طور پر ننگی آنکھ پہ ظاہر نہیں ہوتیں، اُن پر آشکار کردی جاتی ہیں۔


رُوحانی مِقناطیسیت کے کمالات

یہ تزکیہ و تصفیہ کے طریق سے حاصل ہونے والی اُسی رُوحانی مِقناطیسیت کا کمال تھا کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبتِ جلیلہ میں تربیت پانے والے صحابۂ کرام مادّی ذرائع اِختیار کئے بغیر ہزاروں میل کی مسافت پر موجود سپہ سالارِ لشکرِ اِسلام کو ہدایات دینے پر قادِر تھے۔ سیدنا ساریہ بن جبل رضی اللہ عنہ کی زیرقیادت اِسلامی لشکر دُشمنانِ اِسلام کے خلاف صف آراء تھا۔ دُشمن نے ایسا پینترا بدلا کہ اِسلامی اَفواج بُری طرح سے اُس کے نِرغے میں آ گئیں۔ اُس وقت مسلمانوں کے دُوسرے خلیفہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں بر سرِ منبر خطبۂ جمعہ اِرشاد فرما رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی رُوحانی توجہ کی بدولت میدانِ جنگ کا نقشہ آپ کی نظروں کے سامنے تھا۔ دورانِ خطبہ بآوازِ بلند پکارے :
يَا سَارِیَ الْجَبَل.
(مشکوٰة المصابيح : 546)
اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لے۔
یہ اِرشاد فرما کر آپ دوبارہ اُسی طرح خطبہ میں مشغول ہو گئے۔ نہ آپ کے پاس راڈار تھا اور نہ ہی ٹی وی کا کوئی ڈائریکٹ چینل، ہزاروں میل کی دُوری پر واقع مسجدِ نبوی میں خطبۂ جمعہ بھی دے رہے ہیں اور اپنے سپہ سالار کو میدانِ جنگ میں براہِ راست ہدایات بھی جاری فرما رہے ہیں۔ نہ اُن کے پاس وائرلیس سیٹ تھا، نہ موبائل فون۔ ۔ ۔ کہ جس سے میدانِ جنگ کے حالات سے فوری آگہی ممکن ہوتی۔ یہ رُوحانی مِقناطیسی قوّت تھی، اندر کی آنکھ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ حضرت ساریہ بن جبل رضی اللہ عنہ نے سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا پیغام موصول کیا اور اُس پر عمل درآمد کرتے ہوئے پہاڑ کی اوٹ لے کر فتح پائی۔ دُشمن کا حملہ ناکام رہا اور عساکرِ اِسلام کے جوابی حملے سے فتح نے اُن کے قدم چومے۔
فیضانِ نبوی اور فیضانِ صحابہ ہی کی خوشہ چینی کی بدولت اولیاء اللہ عبادت، زُہد و ورع، اِتباعِ سنت، تقویٰ و طہارت، پابندئ شریعت، اَحکامِ طریقت کی پیروی اور اللہ تعالیٰ کے امر کی تعمیل کے ذریعے اپنے قلب و باطن کا تزکیہ و تصفیہ کر کے زِندگی سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت اور اِتباع میں گزار کر اپنے اندر ’’رُوحانی مقناطیسیت‘‘ پیدا کرلیتے ہیں۔
مادّی ترقی کی اِس سائنسی دُنیا میں جہاں گلوبل ویلج کا اِنسانی تصوّر حقیقت کا رُوپ دھار رہا ہے، کمپیوٹر کی دُنیا میں فاصلے سمٹ کر رہ گئے ہیں، اِنٹرنیٹ نے پوری دُنیا کو رائی کے دانے میں سمیٹ لیا ہے۔ آج سائنسی ترقی کا یہ عالم ہے کہ موجودہ دَور کا عام آدمی بھی اپنی ہتھیلی پر موجود رائی کے دانے کی طرح تمام دُنیا کا مشاہدہ کرنے پر قادِر ہے۔ یہ مادّی ترقی کا اعزاز ہے، جس نے ہمیں آلات کی مدد سے اِس اَوجِ ثریا تک لا پہنچایا ہے، لیکن قربان جائیں سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کے تصرّفات پر جو فقط اپنی رُوحانی ترقی اور کمالات کی بدولت اِس منزل کو پا چکے تھے۔ سرکارِ غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
نَظَرْتُ إلٰی بِلَادِ اﷲِ جَمْعًا
کَخَرْدَلَةٍ عَلٰی حُکْمِ التَّصَالِیْ
ترجمہ : میں اﷲ کے تمام ملکوں کو ایک ساتھ اِس طرح دیکھتا ہوں جیسے میری ہتھیلی پر رائی کا ایک معمولی دانہ (میری نظر میں ہوتا ہے)۔


تزکیہ و ریاضت سے حیات بخشی تک
مزید برآں مِقناطیس (Magnet) ایک پروسیس کے ذریعے اِس قابل بن جاتے ہیں کہ اُن سے بجلی پیدا ہونے لگتی ہے، جو حرارت اور روشنی پیدا کرنے کا مُوجب ہے۔ اور جب یہ بجلی حرکی توانائی (Mechanical Energy) میں منتقل ہوتی ہے تو چیزوں کی ہیئت بدلنے لگتی ہے اور مُردہ جسم حرکت کرنے لگتے ہیں۔ اِس کی سادہ سی مثال پلاسٹک کی گڑیا ہے، جس کو بیٹری سے چارج کیا جائے تو وہ متحرّک ہوجاتی ہے اور مختلف ریکارڈ شدہ آوازیں بھی نکالتی ہے۔ ایسا کھلونا اُس وقت تک متحرّک رہتا ہے جب تک اُسے بیٹری سیل سے چارج ملتا رہتا ہے اور یوں مادّی کائنات میں بیٹری سیل کا نظام مُردہ اَجسام کو زندگی اور حرکت دیتا ہے۔ اِسی طرح رُوحانی دُنیا میں بھی جب اولیائے کرام کی رُوحانیت اپنے تکمیلی پروسیس سے گزرتی ہے تو جس مُردہ دِل پر اُن کی نظر پڑتی ہے وہ زِندہ ہو جاتا ہے۔ وہ مُردہ لوگ جو صحبتِ اولیاء سے فیضیاب ہو کر زِندہ ہوجاتے ہیں، اُن کے دل اور روحیں حیاتِ نو سے مستفیض ہوجاتی ہیں۔ اِس کی تصدیق قرآنِ مجید میں بیان کردہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کے حوالے سے ہوتی ہے۔ جب ایک مقام ’’مجمع البحرین‘‘ پر۔ ۔ ۔ جو حضرت خضرعلیہ السلام کی قیام گاہ تھی۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ناشتہ دان میں سے مُردہ مچھلی زِندہ ہوکر پانی میں کود جاتی ہے۔ یہ واقعہ اِس اَمر کا مظہر ہے کہ وہ مقام جو حضرت خضر علیہ السلام کا مسکن تھا، اُس کی آب و ہوا میں یہ تاثیر تھی کہ مُردہ اَجسام کو اُس سے حیاتِ نو ملتی تھی۔ قرآنِ مجید میں اِس واقعہ کا ذِکر یوں آیا ہے :
فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنَهُمَا نَسِيَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيْلَه‘ فِی الْبَحْرِ سَرَباًo
(الکهف، 18 : 61)
سو جب وہ دونوں دو دریاؤں کے سنگم کی جگہ پہنچے تو وہ دونوں اپنی مچھلی (وہیں) بھول گئے، پس وہ (تلی ہوئی مچھلی زِندہ ہو کر) دریا میں سرنگ کی طرح اپنا راستہ بناتے ہوئے نکل گئی۔
یوں اَولیاء اللہ کا وُجودِ مسعود حیات بخشی کا مظہر ہوتا ہے اور وہ مُردوں میں زِندگیاں بانٹنے پر مامور ہوتے ہیں۔ جیسا کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے لئے فرمایا :
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما


بجلی کا نظام ترسیل اور اَولیاء اللہ کے سلاسل
اولیاء اﷲ کے سلاسل دُنیا بھر میں موجود بجلی کے نظامِ ترسیل ہی کی مِثل ہوتے ہیں۔ اَب یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے کہ کوئی کس حد تک فیض لے سکتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ میں بجلی ڈائریکٹ تربیلا ڈیم سے لوں گا تو کیا ایسا ممکن ہے! تربیلا ڈیم سے کنکشن کسے مل سکتا ہے! دُنیا میں بجلی کی ترسیل کا ایک نظام ہے، اُس کے لئے اپنے سلاسل ہیں جن کی پابندی ضروری ہے۔ ایک طے شدہ نظام کے مطابق بجلی تربیلا ڈیم سے پاور ہاؤس تک، پاور ہاؤس سے پاورسٹیشن اور ٹرانسفارمر تک اور وہاں سے مقررہ اندازے کے مطابق گھر میں آتی ہے۔ ٹرانسفارمر سے کنکشن لینے کے بعد ہم گھروں میں سٹیبلائزر (Stabliser) اور فیوز (Fuse) بھی لگاتے ہیں تاکہ ہمارے گھریلو حساس برقی آلات کہیں جل نہ جائیں۔ ایسا اِس لئے کرتے ہیں کہ ہمارے گھروں کا برقی سسٹم اِتنا مضبوط اور مستحکم نہیں ہوتا کہ زیادہ وولٹیج کا متحمل ہوسکے۔ اِسی نظام کو سلسلہ کہتے ہیں۔
اِس مادّی عالم کی طرح عالمِ رُوحانیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرش سے عرش تک اِس ارضی و سماوی کائنات میں ایک واحد رُوحانی ڈیم بنایا ہے، جس سے رحمت کا فیض ساری کائنات میں مختلف سلاسل کے نظام کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ رحمت و رُوحانیت کا وہ ڈیم آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے اور اُس فیضانِ رسالت کو تقسیم کرنے کے لئے اولیاء اللہ کے وسیع و عریض سلاسل ہیں، جنہیں Power Distribution Systems یعنی رُوحانی بجلی کی ترسیل و تقسیم کے نظام کہتے ہیں۔ یہی اولیائے کرام مخلوقِ خداوندی میں بقدرِ ظرف فیض تقسیم کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور یہ سلسلہ تا قیامِ قیامت یونہی جاری و ساری رہے گا۔
اولیائے کرام نے چونکہ سخت محنت، ریاضت اور مجاہدے سے نسبتِ محمدی کو مضبوط سے مضبوط تر بنا لیا ہے اِس لئے وہ براہِ راست وہیں سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ ہر شخص کا ظرف اِس قابل نہیں ہوتا کہ وہ ڈائریکٹ اُس ڈیم سے فیض حاصل کر سکے۔ عام افرادِ دُنیا کے لئے وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنََ کا درس ہے کہ وہ اُن اللہ والوں کی سنگت اِختیار کر لیں اور اپنے آپ کو اُن سے پیوستہ اور وابستہ رکھیں تو اُنہیں بھی فیض نصیب ہوجائے گا۔
سلاسلِ طریقت کا یہ نظام مِن جانبِ اللہ قائم ہے۔ یہ ایک سلسلۂ نور ہے، جو تمام عالمِ اِنسانیت کو ربّ لا یزال کی رحمت سے سیراب کر رہا ہے۔ اِس سے اِنکار، عقل کا اِنکار، شعور کا اِنکار اور ربّ کائنات کے نظامِ ربوبیت کا اِنکار ہے۔


چاند کی تسخیر اور اپالو مِشن
رُوحانی تعلق کی ضرورت کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ خلائی تحقیقات کے امریکی اِدارے National Aeronautic Space Agency – NASA کی طرف سے تسخیرِ ماہتاب کے لئے شروع کئے گئے دس سالہ اپالو مِشن کا پروب Apolo-10 چاند کی تسخیر کے لئے محوِ سفر تھا تو امریکی ریاست فلوریڈا میں قائم زمینی مرکز Kennedy Space Center – KSC میں موجود سائنسدان اُسے براہِ راست ہدایات دے رہے تھے۔ ایسے میں دورانِ سفر حادثاتی طور پراُس کا رابطہ اپنے زمینی کنٹرول رُوم سے منقطع ہوگیا، جس کے نتیجے میں نہ صرف وہ اپنی منزلِ مقصود تک نہ پہنچ سکا بلکہ آج تک اُس کا سُراغ بھی نہ مِل سکا۔ اِس عظیم حادثے کے کچھ ہی عرصے بعد جولائی 1969ء میں اپالو مِشن کا اگلا پروب Apolo-11 چاند کی طرف بھیجا گیا۔ دورانِ سفر چونکہ اُس کا رابطہ اپنے زمینی مرکز سے بحال رہا اِس لئے وہ چاند تک پہنچنے اور دو دِن بعد بحفاظت واپس لوٹنے میں کامیاب رہا۔ سو جس طرح وہ اپالو مہم جس کا رابطہ زمین پر واقع اپنے خلائی تحقیقاتی مرکز سے کھو گیا تھا، وہ ناکام اور تباہ و برباد ہوگئی، اوردُوسری طرف وہ مہم جس کا رابطہ بحال رہا، کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ ۔ ۔ بالکل اِسی طرح یہ بات ذِہن نشین رہنی چاہیئے کہ اِس مادّی دنیا کی طرح ربّ ذوالجلال نے رُشد و ہدایت کے ایک طے شدہ نظام کے ذریعے کامیابی اور نجات کی منزل تک پہنچنے کے لئے رُوحانی مرکزِ نجات حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو بنایا ہے۔ سو ہم میں سے جس کا رابطہ اس مرکزِ مصطفوی سے قائم رہا وہ منزلِ مقصود تک پہنچ جائے گا اور جو اپنا رابطہ بحال نہ رکھ سکا وہ نیست و نابود ہو کر رہ جائے گا اور اپالو 10 جیسی تباہی اور ہلاکت اُس کا مقدّر ہو گی۔
قلبی سکرین اور روحانی ٹی وی چینل
آج کے اِس دورِ فتن میں ہمارے دِلوں پر غفلت کے دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں اور اُن پر فیضانِ اُلوہیت اور فیضانِ رِسالت کا نزول بند ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم مطلقاً وُجودِ فیض ہی کا اِنکار کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل کو ایک ٹی وی سکرین کی مثل بنایا ہے، جس پر رُوحانی چینل سے نشریات کا آنا بند ہوگیا ہے اور ہم غفلت میں کہتے پھرتے ہیں کہ چینل نے کام کرنا بند کردیا ہے۔ نہیں! چینل پر نشریات تو اُسی طرح جاری ہیں جبکہ ہمارے ٹی وی سیٹ میں کوئی خرابی آگئی ہے اور جب تک اِس خرابی کو دُور نہیں کیا جائے گا، نشریات سنائی اور دِکھائی نہیں دیں گی۔ جس طرح ٹی وی کے لئے اسٹیشن سے رابطہ بحال ہو تو سکرین پر تصویر بھی دِکھائی دیتی ہے اور آواز بھی سنائی دیتی ہے اور اگر یہ رابطہ کسی وجہ سے ٹوٹ جائے تو پھر آواز سنائی دیتی ہے اور نہ تصویر دِکھائی دیتی ہے۔ اِسی طرح سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمۃ للعالمینی اور فیضانِ نبوت کا سلسلہ بلا اِنقطاع جاری و ساری ہے، یہ ہمارے قلب کی سوئی ہے جو رابطہ بحال نہ ہونے کے باعث اُس اسٹیشن کو نہیں پارہی جہاں سے رُوحانی نشریات دِن رات نشر ہو رہی ہیں۔ آج بھی یہ رابطہ بحال ہوجائے تو یہ فیضان ہم تک بلا روک پہنچ سکتا ہے۔
اولیائے کرام کا تعلق اپنے آقا و مولا ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبھی نہیں ٹوٹتا اور اُن کی قلبی سکرین ہمہ وقت گنبدِ خضراء کی نشریات سے بہرہ یاب رہتی ہے۔ حضرت ابو العباس مرصی رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے ولی اللہ گزرے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں :
لو حجب عنی رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم طرفة عين ما عددتُ نفسی من المُسلمين.
(رُوح المعانی، 22 : 36)
اگر ایک لمحہ کے لیے بھی چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے سامنے نہ رہے تو میں اس لمحے خود کو مسلمان نہیں سمجھتا۔
اللہ کے بندوں کے قلب کی سوئی گنبدِ خضراء کے چینل (Channel) پر لگی رہتی ہے اور اُن کا رابطہ کسی لمحہ بھی اپنے آقا و مولا کی بارگاہ سے نہیں ٹوٹتا، اِس لئے وہ تکتے بھی رہتے ہیں اور سنتے بھی رہتے ہیں۔


اَصحابِ کہف پر خاص رحمتِ الٰہی
قرآن فہمی کے باب میں ربط بین الآیات بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اِس حوالے سے جب ہم سورۂ کہف کا مطالعہ کرتے ہوئے آیاتِ قرآنی کا ربط دیکھتے ہیں تو وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ سے اِس سورۂ مبارکہ میں بیان کردہ واقعۂ اصحابِ کہف اپنی پوری معنویت کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ یہ پہلی اُمت کے وہ اَولیاء اللہ تھے جو اللہ کے دِین اور اُس کی رضا کے لئے دُشمنانِ دین کے ظلم و سِتم سے بچنے کے لئے اپنے گھروں سے ہجرت کر گئے اور ایک غار میں پناہ حاصل کرلی اور وہاں بحضورِ خداوندی دعاگو ہوئے :
رَبَّنَا اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَةً وَّ هَيِّئ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًاo
(الکهف، 18 : 10)
اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنی بارگاہ سے خصوصی رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں راہ یابی (کے اَسباب) مہیا فرماo
اُن کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے باری تعالیٰ نے اُنہیں اِس مُژدۂ جانفزا سے نوازا کہ تمہارا ربّ ضرور اپنی رحمت تم تک پھیلا دے گا۔ اَب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ خاص رحمت جس کا ذکر قرآن کریم میں مذکور ہے، کیا تھی؟ یہاں قرآنِ مجید کے سیاق و سباق کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو اصحابِ کہف کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ غار میں 309 سال تک آرام فرما رہے۔ کھانے پینے سے بالکل بے نیاز قبر کی سی حالت میں 309 سال تک اُن جسموں کو گردشِ لیل و نہار سے پیدا ہونے والے اَثرات سے محفوظ رکھا گیا۔ سورج رحمتِ خداوندی کے خصوصی مظہر کے طور پر اُن کی خاطر اپنا راستہ بدلتا رہا تاکہ اُن کے جسم موسمی تغیرات سے محفوظ و مامون اور صحیح و سالم رہیں۔ 309 قمری سال 300 شمسی سالوں کے مساوِی ہوتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ کرۂ ارضی کے 300 موسم اُن پر گزر گئے مگر اُن کے اجسام تروتازہ رہے۔ اور تین صدیوں پر محیط زمانہ اُن پر اِنتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گزر گیا۔ قرآنِ مجید فرماتا ہے :
وَ تَرَی الشَّمْسَ إذَا طَلَعَتْ تَّزٰوُرَ عَنْ کَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ وَ إذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ هُمْ فِیْ فَجْوَةٍ مِنْه‘ط
(الکهف، 18 : 17)
اور آپ دیکھتے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اُن کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو اُن سے بائیں جانب کتراجاتا ہے اور وہ اُس کشادہ میدان میں (لیٹے) ہیں۔
اللہ کی خاص نشانی یہی ہے کہ اس نے اپنے ولیوں کے لئے 309 قمری سال تک سورج کے طلوع و غروب کے اُصول تک بدل دیئے اور ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ کی رُو سے ایک معین نظامِ فلکیات کو سورج کے گرد زمین کی تین سو مکمل گردشوں تک کے طویل عرصے کے لئے صرف اِس لئے تبدیل کردیا گیا اور فطری ضابطوں کو بدل کر رکھ دیا گیا تاکہ اُن ولیوں کو کوئی گزند نہ پہنچے۔
اﷲ ربّ العزّت نے اِس پورے واقعے کو بیان کر کے اِسی تناظر میں یہ اِرشاد فرمایا : ’’اگر لوگ میرا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میرے اِن مقرّب بندوں کے حلقہ بگوش ہو جائیں اور وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنََ کو حرزِ جاں بنالیں‘‘۔ پھر آگے چل کر اِرشادِ ربانی ہوا :
مَنْ يَهْدِ اﷲُ فَهُوَ الْمُهْتَدُ وَ مَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَه‘ وَلِيًّا مُرْشِدًا.
(الکهف، 18 : 17)
اﷲ جسے ہدایت دیتا ہے وہی راہِ ہدایت پر ہے اور جس کو وہ گمراہ کردے تو آپ کسی کو اُس کا دوست نہیں پائیں گے۔
خدائے رحمان و رحیم نے اپنی خصوصی رحمت سے اصحابِ کہف کو تھپکی دے کر پُرکیف نیند سلادیا اور اُن پر عجیب سرشاری کی کیفیت طاری کر دی۔ پھر اُنہیں ایک ایسے مشاہدۂ حق میں مگن کر دیا کہ صدیاں ساعتوں میں تبدیل ہوتی محسوس ہوئیں۔ جیسا کہ قیامت کا دِن جو پچاس ہزار سال کا ہوگا، وہ اللہ کے نیک بندوں پر عصر کی چار رَکعتوں کی اَدائیگی جتنے وقت میں گزر جائے گا۔ جبکہ دیگر لوگوں پر وہ طویل دِن ناقابلِ بیان کرب و اَذیت کا حامل ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ مشاہدۂ حق کے اِستغراق میں وقت سمٹ جاتا ہے اور صدیاں لمحوں میں بدل جاتی ہیں۔
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جُدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
روزِ قیامت اللہ تعالیٰ ملائکہ کو حکم دے گا کہ اُن طالبانِ مولا کو۔ ۔ ۔ جن کے پہلو فقط میری رضا کی خاطر نرم و گداز بستروں سے دُور رہتے تھے اور اُن کی راتیں مصلّے پر رکوع و سجود میں بسر ہوتی تھیں۔ ۔ ۔ میرے دِیدار سے شرفیاب کیا جائے اور اُن پر سے سب حجابات اُٹھا دیئے جائیں۔ پس وہ قیامت کے دِن نور کے ٹیلوں پر رَونق اَفروز ہوں گے اور صدیوں پر محیط وہ طویل وقت اُن پر عصر کے ہنگام کی طرح گزر جائے گا جب کہ دوسروں کے لئے یہ عرصۂ قیامت پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔


اَولیاء اﷲ کی بعد از وفات زِندگی
اصحابِ کہف کے حوالے سے قرآنِ مجید کہتا ہے کہ جب اُن پر صدیوں کا عرصہ چند ساعتوں میں گزر گیا اور بیدار ہونے پر انہوں نے ایک دوسرے پوچھا کہ ابھی کتنا عرصہ گزرا ہوگا، تو اُن میں سے ایک نے کہا : يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ’’ایک دن یا دن کا کچھ حصہ‘‘۔ قرآنِ کریم کی اِس بات سے کیسے اِنکا رہوسکتا ہے کہ اُن پر صدیاں گزر گئی تھیں، مگر اُن کے کپڑے بوسیدہ نہ ہوئے تھے اور جسموں میں کوئی کمزوری اور نقاہت کے آثار نہ تھے بلکہ یک گو نہ تازگی اور بشاشت تھی جیسے وہ چند گھٹنے نیند کر کے تازہ دَم اُٹھے ہوں۔
پھر اُنہوں نے اپنے میں سے ایک ساتھی کو کچھ سکے دے کر کہا کہ جاؤ اِس رقم سے کھانے کی کچھ چیزیں خرید لاؤ۔ جب وہ سودا سلف خریدنے بازار گیا تو دُکاندار اُن سکوں کو حیرت اور بے یقینی سے تکنے لگا کہ یہ شخص صدیوں پرانے سکے کہاں سے لے کر آگیا! وہ اُنہیں قبول کرنے سے اِنکاری تھا کہ اِتنی صدیوں پرانے سکے اَب نہیں چلتے۔ وہ (اصحابِ کہف کا فرد) کہنے لگا : ’’بھئی یہ سکے ابھی ہم کل ہی تو اپنے ساتھ لے کر گئے تھے‘‘۔ دکاندارنے کہا : ’’کیا بات کرتے ہو یہ صدیوں پرانے سکے جانے تم کہاں سے لے کے آگئے ہو‘‘! پھر جب اصحابِ کہف کے اُس فرد نے اپنے گردو پیش توجہ کی اور غور سے دیکھا تو اُس ماحول کی ہرچیز کو بدلا ہوا پایا۔
یہ اہل اللہ وہ اہلِ مشاہدہ ہوتے ہیں کہ جن پر غاروں میں ہزاروں برس بھی بیت جائیں، مگر اُن کی جسمانی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوگی۔ اِسی طرح وہ اہلِ مشاہدہ جو قبر میں برزخی زندگی گزار رہے ہیں، ہزاروں سال اُن پر اِس طرح بیت جائیں گے جیسے دو لمحے ہوں۔ یہ کوئی من گھڑت قصہ نہیں، قرآنِ حکیم کا بیان کردہ واقعہ ہے، جس کی صداقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اولیائے کرام کا یہ عالم ہے کہ وِصال کے بعد بھی مشاہدۂ حق کی زِندگی گزار رہے ہیں۔ پھر اُس پیغمبرِ حق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذِکر ہی کیا جو آئے ہی مُردہ اِنسانوں میں زِندگیاں بانٹنے کے لئے تھے اور جو آج تک زندگیاں بانٹ رہے ہیں۔


اولیاء اﷲ کا خدمت گزار کتا بھی سلامت رہا
اصحابِ کہف کے ساتھ اُن کا ایک خدمت گزار کتا بھی تھا۔ 309 سال تک وہ کتا بھی غار کے دہانے پر پاؤں پھیلائے اُن کی حفاظت پر مامور رہا۔ اُن کی نسبت سے قرآنِ مجید میں اُس کتے کا ذِکر بھی آیا ہے :
وَ کَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيْدِ.
(الکهف، 18 : 18)
اور اُن کا کتا (اُن کی) چوکھٹ پر اپنے دونوں بازو پھیلائے (بیٹھا) ہے۔
کتے کو یہ مقام اُن غار نشین اولیائے حق کی بدولت ملا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ جب وقفے وقفے سے اصحابِ کہف دائیں بائیں کروٹ لیتے تو وہ کتا بھی کروٹ لیتا تھا۔ یہ اُسی صحبت نشینی کا اثر تھا جس کا ذکر وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ میں ہوا۔ بعض رِوایات میں ہے کہ اصحابِ کہف نے اِس خدشے کے پیشِ نظر کہ کتے کے بھونکنے سے کہیں ظالم بادشاہ کے کارندے اُن تک نہ آن پہنچیں، بہت کوشش کی کہ کتا غار سے چلا جائے۔ وہ اُسے دُھتکارتے لیکن وہ اُن کی چوکھٹ پر جم گیا اور تین صدیوں تک فیضِ رحمت سے بہریاب ہوتا رہا۔


ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ ۔ ۔ منبعِ فیوضیاتِ اِلٰہیہ
آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی رحمۃ للعالمینی کی بناء پر اِس کائناتِ آب و گل کے مقناطیسِ اعظم ہیں، جنہیں بارگاہِ اُلوہیت سے ’’الیکٹرک چارج میتھڈ‘‘ اور ’’سٹروک میتھڈ‘‘ دونوں ذرائع سے فیض ملا ہے۔ بقول اقبال :
دَر شبستانِ حرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید
غارِ حراء کی خلوتوں نے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پوری نسلِ اِنسانی کا محسن و ہادئ اعظم بنا دیا۔ جن کے دم قدم سے دنیائے شرق و غرب ایک قوم، ایک قرآن اور ایک حکومتِ الٰہیہ کے نظم میں پرو دی گئی۔ اُس فیضانِ اُلوہیت کا ذِکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک رات مجھے اﷲ تعالیٰ نے اپنی شان کے مطابق دیدار عطا کیا اور اپنا دستِ قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا۔ اُس کی بدولت میں نے اپنے سینے میں ٹھنڈک محسوس کی، پھر اِس کے بعد میرے سامنے سے سارے پردے اُٹھا دیئے گئے اور آسمان و زمین کی ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی۔ فیضِ اُلوہیت کا یہ عالم تو زمین پر تھا، اُس فیض کا عالم کیا ہوگا جو ’’قَابَ قَوْسَيْن‘‘ کے مقا م پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجات کی بلندی کا باعث بنا اور پھر آپ کو ’’أَوْ أَدْنٰی‘‘ کا قربِ اُلوہیت عطا ہوا۔ جس کے بعد زمان و مکاں اور لا مکاں کے تمام فاصلے مٹ گئے اور محب و محبوب میں دو کمانوں سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنٰی کے الفاظ سے مخلوق کو یہ بتلانا مقصود تھا کہ دیکھو اپنا عقیدہ درست رکھنا۔ اللہ تعالی کی خالقیت اور معبودیت اپنی جگہ برحق ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِتنا قریب ہوکر بھی عبدیت کے مقام پر فائز ہیں۔ یہ فرق روا رکھنا لازم ہے۔
فیضِ اُلوہیت کی ساری حدیں اور اِنتہائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تمام ہوئیں۔ جب تمام فیض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کردیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ رَأَنِیْ فَقَدْ رَاءَ الْحَق.
(صحيح البخاری، 2 : 1036)
(مسند احمد بن حنبل، 3 : 55)
جس نے مجھے دیکھ لیا تحقیق اُس نے اﷲ ربّ العزّت کو دیکھ لیا۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ حق میں دیدارکی اِلتجاء کی تھی، جس کا جواب اُنہیں جبلِ طور پر تجلیاتِ الٰہیہ کو برداشت نہ کر پانے کی صورت میں ملا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیدارِ الٰہی کی اِلتجا کئی بار کی تھی مگر اُن کی یہ دعا اُس وقت تک مؤخر کردی گئی جب تک کہ اُمتِ مسلمہ کو شبِ معراج پچاس نمازیں دی گئیں اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بار بار بارگاہِ اُلوہیت میں پلٹ جانے کے لئے عرض کرتے رہے، حتی کہ پانچ نماز رہ گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبوبِ حقیقی کے جلوؤں کا مظہرِ اتم ہوکر لوٹتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ فرحت آثار سے شادکام ہوتے۔ یہ عالمِ لاہوتی کا فیض تھا، جبکہ عالمِ ناسوتی کے فیض کا یہ عالم تھا کہ ارض و سماء کے سب خزانوں کی کنجیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تھما دی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام فیوضاتِ الٰہیہ کے قاسم بن گئے۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیضانِ اُلوہیت کے قاسم ہیں اُسی طرح اولیاء اﷲ فیضانِ رسالت کے قاسم ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اِرشاد ہوتا ہے :
أَوَ مَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ.
(الانعام، 6 : 122)
بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اُسے (ہدایت کی بدولت) زِندہ کیا اور ہم نے اُس کے لئے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لئے) چلتا ہے۔
مُراد یہ کہ کچھ وہ لوگ ہیں جن کے دِل مُردہ تھے، ہم نے اُن مُردہ دِلوں کو زِندہ کر کے نورِ نبوت سے سرفراز فرمایا۔ پھر جیسے اُنہیں نورِ نبوت سے زندگی ملی وہ اُس نور کو لوگوں میں بھی بانٹتے ہیں۔ اب یہ اُسی ’’يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ‘‘ کا کرشمہ تھا کہ کسی کو غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی صورت میں بغداد میں یہ ذمہ داری دی، کسی کو داتا گنج بخش ہجویری رحمۃ اللہ علیہ بنا کر لاہور میں کسی کو خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بنا کر اجمیر میں اور کسی کو غوث بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ بنا کر ملتان میں نور بانٹنے پر لگا دیا اور کوئی اِس نور کو سرہند میں تقسیم کرنے پر مامور ہوا۔ وہ دل جو مُردہ تھے سب اِس نور نے زِندہ کر دیئے اَب موت کی کیا مجال کہ اُنہیں مار سکے۔ موت تو صرف ایک ذائقہ ہے اور بقول اِقبال :
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہے

 

السیف الجلی علٰی منکر ولایۃ علی رضی اللہ عنہ


السیف الجلی علٰی منکر ولایۃ علی رضی اللہ عنہ

مؤلف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری


حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع سے مدینہ طیّبہ واپسی کے دوران غدیرِ خُم کے مقام پر قیام فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہجوم میں سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجھہ الکریم کا ہاتھ اُٹھا کر اعلان فرمایا :
مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ.
’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
یہ اعلانِ ولایتِ علی رضی اللہ عنہ تھا، جس کا اطلاق قیامت تک جملہ اہلِ ایمان پر ہوتا ہے اور جس سے یہ امر قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ جو ولایتِ علی رضی اللہ عنہ کا منکر ہے وہ ولایتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ہے۔ اِس عاجز نے محسوس کیا کہ اس مسئلہ پر بعض لوگ بوجہِ جہالت متردّد رہتے ہیں اور بعض لوگ بوجہِ عناد و تعصّب۔ سو یہ تردّد اور انکار اُمّت میں تفرقہ و انتشار میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ اندریں حالات میں نے ضروری سمجھا کہ مسئلۂ وِلایت و اِمامت پر دو رِسالے تالیف کروں : ایک بعنوان ’السَّیفُ الجَلِی عَلٰی مُنکِرِ وِلایۃِ عَلیّ رضی اللہ عنہ‘ اور دوسرا بعنوان ’القولُ المُعتَبَر فِی الامام المُنتَظَر‘۔ پہلے رسالہ کے ذریعے فاتحِ ولایت حضرت امام علی علیہ السلام کے مقام کو واضح کروں اور دوسرے کے ذریعے خاتمِ ولایت حضرت امام مہدی علیہ السلام کا بیان کروں تاکہ جملہ شبہات کا اِزالہ ہو اور یہ حقیقت خواص و عوام سب تک پہنچ سکے کہ ولایتِ علی علیہ السلام اور ولایتِ مہدی علیہ السلام اہلِ سنت و جماعت کی معتبر کتبِ حدیث میں روایاتِ متواترہ سے ثابت ہے۔ میں نے پہلے رسالہ میں حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکیاون (51) روایات پوری تحقیق و تخریج کے ساتھ درج کی ہیں۔ اِس عدد کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اِمسال اپنی عمر کے 51 برس مکمل کئے ہیں، اس لئے حصولِ برکت اور اِکتساب خیر کے لئے عاجزانہ طور پر عددی نسبت کا وسیلہ اختیار کیا ہے تاکہ بارگاہِ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ میں اِس حقیر کا نذرانہ شرفِ قبولیت پاسکے۔ (آمین)
اَب اِس مقدّمہ میں یہ نکتہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدّسہ سے تین طرح کی وراثتیں جاری ہوئیں :
• خلافتِ باطنی کی روحانی وراثت
• خلافتِ ظاہری کی سیاسی وراثت
• خلافتِ دینی کی عمومی وراثت
• خلافتِ باطنی کی روحانی وراثت اہلِ بیتِ اطہار کے نفوس طیّبہ کو عطا ہوئی۔
• خلافتِ ظاہری کی سیاسی وراثت خلفاء راشدین کی ذوات مقدّسہ کو عطا ہوئی۔
• خلافتِ دینی کی عمومی وراثت بقیہ صحابہ و تابعین کو عطا ہوئی۔
خلافتِ باطنی نیابتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ سرچشمہ ہے جس سے نہ صرف دینِ اسلام کے روحانی کمالات اور باطنی فیوضات کی حفاظت ہوئی بلکہ اس سے اُمّت میں ولایت و قطبیت اور مُصلحیت و مجدّدیت کے چشمے پھوٹے اور اُمّت اِسی واسطے سے روحانیتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیضاب ہوئی۔ خلافتِ ظاہری نیابتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ سرچشمہ ہے جس سے غلبۂ دین حق اور نفاذِ اسلام کی عملی صورت وجود میں آئی اور دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمکّن اور زمینی اقتدار کا سلسلہ قائم ہوا۔ اِسی واسطے سے تاریخِ اِسلام میں مختلف ریاستیں اور سلطنتیں قائم ہوئیں اور شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظامِ عالم کے طور پر دُنیا میں عملاً متعارف ہوئی۔
خلافتِ عمومی نیابتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ سرچشمہ ہے جس سے اُمّت میں تعلیماتِ اسلام کا فروغ اور اعمالِ صالحہ کا تحقّق وجود میں آیا۔ اِس واسطے سے افرادِ اُمّت میں نہ صرف علم و تقویٰ کی حفاظت ہوئی بلکہ اخلاقِ اِسلامی کی عمومی ترویج و اشاعت جاری رہی، گویا :
پہلی قسم : خلافتِ ولایت قرارپائی
دوسری قسم : خلافتِ سلطنت قرار پائی
تیسری قسم : خلافتِ ہدایت قرار پائی
اس تقسیمِ وراثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مضمون کو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اِن الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا ہے :
پس وراث آنحضرت هم بسه قسم منقسم اند فوراثه الذين أخذوا الحکمة والعصمة والقطبية الباطينة، هم أهل بيته و خاصته و وراثه الذين أخذوا الحفظ و التلقين و القطبية الظاهرة الإرشادية، هم أصحابه الکبار کالخلفاء الأربعة و سائر العشرة، و وراثه الذين أخذوا العنايات الجزئية و التقوي و العلم، هم أصحابه الذين لحقوا بإحسان کأنس و أبي هريرة و غيرهم من المتأخرين، فهذه ثلاثة مراتب متفرعة من کمال خاتم الرسل صلی الله عليه وآله وسلم.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وراثت کے حاملین تین طرح کے ہیں : ایک وہ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حکمت و عصمت اور قطبیتِ باطنی کا فیض حاصل کیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت اور خواص ہیں۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حفظ و تلقین اور رشد و ہدایت سے متصف قطبیت ظاہری کا فیض حاصل کیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کبار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جیسے خلفائے اربعہ اور عشرہ مبشرہ ہیں۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جنہوں نے انفرادی عنایات اور علم و تقویٰ کا فیض حاصل کیا، یہ وہ اصحاب ہیں جو احسان کے وصف سے متصف ہوئے، جیسے حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ان کے علاوہ دیگر متاخرین۔ یہ تینوں مدارج حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال ختمِ رسالت سے جاری ہوئے۔‘‘
شاه ولي الله محدث دهلوي، التفهيمات الالهٰيه، 2 : 8
واضح رہے کہ یہ تقسیم غلبۂ حال اور خصوصی امتیاز کی نشاندہی کے لئے ہے، ورنہ ہر سہ اقسام میں سے کوئی بھی دوسری قسم کے خواص و کمالات سے کلیتاً خالی نہیں ہے، اُن میں سے ہر ایک کو دوسری قسم کے ساتھ کوئی نہ کوئی نسبت یا اشتراک حاصل ہے :
• سلطنت میں سیدنا صدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ بلا فصل یعنی براہِ راست نائب ہوئے۔
• ولایت میں سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ بلا فصل یعنی براہِ راست نائب ہوئے۔
• ہدایت میں جملہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء بلا فصل یعنی براہِ راست نائب ہوئے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ختمِ نبوت کے بعد فیضانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائمی تسلسل کے لئے تین مستقل مطالع قائم ہو گئے :
• ایک مطلع سیاسی وراثت کے لئے
• دوسرا مطلع روحانی وراثت کے لئے
• تیسرا مطلع علمی و عملی وراثت کے لئے
• حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی وراثت، خلافتِ راشدہ کے نام سے موسوم ہوئی۔
• حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی وراثت، ولایت و امامت کے نام سے موسوم ہوئی۔
• حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علمی و عملی وراثت، ہدایت و دیانت کے نام سے موسوم ہوئی۔
لہٰذا سیاسی وراثت کے فردِ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوئے، روحانی وراثت کے فردِ اوّل حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہوئے اور علمی و عملی وراثت کے اوّلیں حاملین جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہوئے۔ سو یہ سب وارثین و حاملین اپنے اپنے دائرہ میں بلا فصل خلفاء ہوئے، ایک کا دوسرے کے ساتھ کوئی تضاد یا تعارض نہیں ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان مناصب کی حقیقت بھی ایک دوسرے سے کئی اُمور میں مختلف ہے :
1۔ خلافتِ ظاہری دین اسلام کا سیاسی منصب ہے۔
خلافتِ باطنی خالصتاً روحانی منصب ہے۔
2۔ خلافتِ ظاہری انتخابی و شورائی امر ہے۔
خلافتِ باطنی محض وہبی و اجتبائی امر ہے۔
3۔ خلیفۂ ظاہری کا تقرّر عوام کے چناؤ سے عمل میں آتا ہے۔
خلیفۂ باطنی کا تقرّر خدا کے چناؤ سے عمل میں آتا ہے۔
4۔ خلیفۂ ظاہری منتخب ہوتا ہے۔
خلیفۂ باطنی منتجب ہوتا ہے۔
5۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے خلیفۂ راشد سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا انتخاب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تجویز اور رائے عامہ کی اکثریتی تائید سے عمل میں آیا، مگر پہلے امامِ ولایت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے انتخاب میں کسی کی تجویز مطلوب ہوئی نہ کسی کی تائید۔
6۔ خلافت میں ’جمہوریت‘ مطلوب تھی، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا اعلان نہیں فرمایا۔ ولایت میں ’ماموریت‘ مقصود تھی، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وادی غدیر خُم کے مقام پر اس کا اعلان فرما دیا۔
7۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمّت کے لئے خلیفہ کا انتخاب عوام کی مرضی پر چھوڑ دیا، مگر ولی کا انتخاب اللہ کی مرضی سے خود فرما دیا۔
8۔ خلافت زمینی نظام کے سنوارنے کیلئے قائم ہوتی ہے۔
ولایت اُسے آسمانی نظام کے حسن سے نکھارنے کیلئے قائم ہوتی ہے۔
9۔ خلافت افراد کو عادل بناتی ہے۔
ولایت افراد کو کامل بناتی ہے۔
10۔ خلافت کا دائرہ فرش تک ہے۔
ولایت کا دائرہ عرش تک ہے۔
11۔ خلافت تخت نشینی کے بغیر مؤثر نہیں ہوتی۔
ولایت تخت و سلطنت کے بغیر بھی مؤثر ہے۔
12۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ خلافت اُمّت کے سپرد ہوئی۔
ولایت عترت کے سپرد ہوئی۔
لہٰذا اب خلافت سے مَفرّ ہے نہ وِلایت سے، کیونکہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافتِ بلافصل اِجماعِ صحابہ سے منعقد ہوئی اور تاریخ کی شہادتِ قطعی سے ثابت ہوئی اور حضرت مولا علی المرتضیٰص کی وِلایتِ بلافصل خود فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منعقد ہوئی اور احادیثِ متواترہ کی شہادتِ قطعی سے ثابت ہوئی۔ خلافت کا ثبوت اِجماعِ صحابہ ہے اور وِلایت کا ثبوت فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ جو خلافت کا اِنکار کرتا ہے وہ تاریخ اور اِجماع کا اِنکار کرتا ہے اور جو اِمامت و وِلایت کا اِنکار کرتا ہے وہ اِعلانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں institutions کی حقیقت کو سمجھ کر اُن میں تطبیق پیدا کی جائے نہ کہ تفریق۔
جان لینا چاہئے کہ جس طرح خلافتِ ظاہری، خلفاء راشدین سے شروع ہوئی اور اِس کا فیض حسبِ حال اُمت کے صالح حکام اور عادل امراء کو منتقل ہوتا چلا گیا، اُسی طرح خلافتِ باطنی بھی سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے شروع ہوئی اور اس کا فیض حسبِ حال اَئمہ اَطہارِ اہل بیت اور اُمت کے اولیاء کاملین کو منتقل ہوتا چلاگیا۔ حضور فاتح و خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے۔ ۔ ۔ مَن کنتُ مولاہُ فہٰذا علیٌّ مولاہُ (جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہے)۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ علیٌّ ولیّکم مِن بَعدِی (میرے بعد تمہارا ولی علی ہے)۔ ۔ ۔ کے اعلانِ عام کے ذریعے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اُمت میں ولایت کا فاتحِ اَوّل قرار دے دیا۔
بابِ وِلایت میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں :
1۔ و فاتحِ اوّل ازین اُمت مرحومہ حضرت علی مرتضی است کرم اﷲ تعالیٰ وجھہ۔
(شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، التفہیمات الالہٰیہ، 1 : 103)
’’اس اُمتِ مرحومہ میں (فاتح اَوّل) ولایت کا دروازہ سب سے پہلے کھولنے والے فرد حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ ہیں۔
2۔ و سرِ حضرت امیر کرم اﷲ وجھہ در اولادِ کرام ایشان رضی اللہ عنہم سرایت کرد۔
(شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، التفہیمات الالہٰیہ، 1 : 103)
’’حضرت امیر رضی اللہ عنہ کا رازِ ولایت آپ کی اولاد کرام رضی اللہ عنہم میں سرایت کرگیا۔‘‘
3۔ چنانکہ کسی از اولیاء امت نیست الا بخاندانِ حضرت مرتضیٰ رضی اللہ عنہ مرتبط است بوجہی از وجوہ۔
( شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، التفہیمات الالہٰیہ، 1 : 104)
’’چنانچہَ اولیائے اُمت میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خاندانِ اِمامت سے (اکستابِ ولایت کے لئے) وابستہ نہ ہو۔‘‘
4۔ و از اُمتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوّل کسیکہ فاتحِ بابِ جذب شدہ است، و دراں جا قدم نہادہ است حضرت امیر المؤمنین علی کرم اﷲ وجھہ، و لہٰذا سلاسلِ طُرُق بداں جانب راجع میشوند۔
(شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، ہمعات : 60)
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت میں پہلا فرد جو ولایت کے (سب سے اعلیٰ و اقویٰ طریق) بابِ جذب کا فاتح بنا اور جس نے اِس مقامِ بلند پر (پہلا ) قدم رکھا وہ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی ہے، اِسی وجہ سے روحانیت و ولایت کے مختلف طریقوں کے سلاسِل آپ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔‘‘
5۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
’’اب اُمت میں جسے بھی بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیضِ وِلایت نصیب ہوتا ہے وہ یا تو نسبتِ علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے نصیب ہوتا ہے یا نسبتِ غوث الاعظم جیلانی رضی اللہ عنہ سے، اس کے بغیر کوئی شخص مرتبۂ ولایت پر فائز نہیں ہوسکتا۔‘‘
(شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، ہمعات : 62)
واضح رہے کہ نسبتِ غوث الاعظم جیلانی رضی اللہ عنہ بھی نسبتِ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہی کا ایک باب اور اِسی شمع کی ایک کرن ہے۔
6۔ اِس نکتہ کو شاہ اسماعیل دہلوی نے بھی بصراحت یوں لکھا ہے :
’’حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے لئے شیخین رضی اﷲ عنہما پر بھی ایک گو نہ فضیلت ثابت ہے اور وہ فضیلت آپ کے فرمانبرداروں کا زیادہ ہونا اور مقاماتِ وِلایت بلکہ قطبیت اور غوثیت اور ابدالیت اور انہی جیسے باقی خدمات ’’آپ کے زمانہ سے لیکر دُنیا کے ختم ہونے تک‘‘ آپ ہی کی وساطت سے ہونا ہے اور بادشاہوں کی بادشاہت اور امیروں کی امارت میں آپ کو وہ دخل ہے جو عالمِ ملکوت کی سیر کرنے والوں پر مخفی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ اہلِ وِلایت کے اکثر سلسلے بھی جنابِ مرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہی کی طرف منسوب ہیں، پس قیامت کے دن بہت فرمانبرداروں کی وجہ سے جن میں اکثر بڑی بڑی شانوں والے اور عمدہ مرتبے والے ہونگے، حضرتِ مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا لشکر اِس رونق اور بزرگی سے دکھائی دے گا کہ اس مقام کا تماشہ دیکھنے والوں کے لئے یہ امر نہایت ہی تعجب کا باعث ہو گا۔‘‘
(شاہ اسماعیل دہلوی، صراطِ مستقیم : 67)
یہ فیضِ وِلایت کہ اُمتِ محمدی میں جس کے منبع و سرچشمہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے اس میں سیدۂ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنھا اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنھما بھی آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک کئے گئے ہیں، اور پھر اُن کی وساطت سے یہ سلسلۂ وِلایتِ کبریٰ اور غوثیتِ عظمیٰ اُن بارہ اَ ئمۂ اہلِ بیت میں ترتیب سے چلایا گیا جن کے آخری فرد سیدنا امام محمد مہدی علیہ السلام ہیں۔ جس طرح سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فاتحِ ولایت کے درجہ پر فائز ہوئے، اُسی طرح سیدنا امام مہدی علیہ السلام اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خاتمِ ولایت کے درجہ پر فائز ہونگے۔
7۔ اس موضوع پر حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں :
و راہی است کہ بقربِ ولایت تعلق دارد : اقطاب و اوتاد و بدلا و نجباء و عامۂ اولیاء اﷲ، بہمین راہ واصل اندراہ سلوک عبارت ازین راہ است بلکہ جذبۂ متعارفہ، نیز داخل ہمین است و توسط و حیلولت درین راہ کائن است و پیشوای، و اصلان این راہ و سرگروہ اینھا و منبع فیض این بزرگواران : حضرت علی مرتضی است کرم اﷲ تعالے وجھہ الکریم، و این منصب عظیم الشان بایشان تعلق دارد درینمقام گوئیا ہر دو قدم مبارک آنسرور علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام برفرق مبارک اوست کرم اﷲ تعالی وجھہ حضرت فاطمہ و حضرات حسنین رضی اللہ عنہم درینمقام با ایشان شریکند، انکارم کہ حضرت امیر قبل از نشاء ہ عنصرے نیز ملاذ این مقام بودہ اند، چنانچہ بعد از نشاءہ عنصرے و ہرکرا فیض و ہدایت ازین راہ میر سید بتوسط ایشان میر سید چہ ایشان نزد ن۔ قطہ منتھائے این راہ و مرکز این مقام بایشان تعلق دارد، و چون دورہ حضرت امیر تمام شُد این منصب عظیم القدر بحضرات حسنین ترتیبا مفوض و مسلم گشت، و بعد از ایشان بہریکے از ائمہ اثنا عشر علے الترتیب و التفصیل قرار گرفت و در اعصاراین بزرگواران و ہمچنیں بعد از ارتحال ایشان ہر کرا فیض و ہدایت میرسید بتوسط این بزرگواران بودہ و بحیلولۃ ایشانان ہرچند اقطاب و نجبای وقت بودہ باشند و ملاذ وملجاء ہمہ ایشان بودہ اند چہ اطراف را غیر از لحوق بمرکز چارہ نیست۔
(امام ربانی مجدّد الف ثانی، مکتوبات، 3 : 251، 252، مکتوب نمبر : 123)
’’اور ایک راہ وہ ہے جو قربِ وِلایت سے تعلق رکھتی ہے : اقطاب و اوتاد اور بدلا اور نجباء اور عام اولیاء اﷲ اِسی راہ سے واصل ہیں، اور راہِ سلوک اِسی راہ سے عبارت ہے، بلکہ متعارف جذبہ بھی اسی میں داخل ہے، اور اس راہ میں توسط ثابت ہے اور اس راہ کے واصلین کے پیشوا اور اُن کے سردار اور اُن کے بزرگوں کے منبعِ فیض حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم ہیں، اور یہ عظیم الشان منصب اُن سے تعلق رکھتا ہے۔ اس راہ میں گویا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوںقدم مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مبارک سر پر ہیں اور حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اِس مقام میں اُن کے ساتھ شریک ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ اپنی جسدی پیدائش سے پہلے بھی اس مقام کے ملجا و ماویٰ تھے، جیسا کہ آپ رضی اللہ عنہ جسدی پیدائش کے بعد ہیں اور جسے بھی فیض و ہدایت اس راہ سے پہنچی ان کے ذریعے سے پہنچی، کیونکہ وہ اس راہ کے آخری نقطہ کے نزدیک ہیں اور اس مقام کا مرکز ان سے تعلق رکھتا ہے، اور جب حضرت امیر رضی اللہ عنہ کا دور ختم ہوا تو یہ عظیم القدر منصب ترتیب وار حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کو سپرد ہوا اور ان کے بعد وہی منصب ائمہ اثنا عشرہ میں سے ہر ایک کو ترتیب وار اور تفصیل سے تفویض ہوا، اور ان بزرگوں کے زمانہ میں اور اِسی طرح ان کے انتقال کے بعد جس کسی کو بھی فیض اور ہدایت پہنچی ہے انہی بزرگوں کے ذریعہ پہنچی ہے، اگرچہ اقطاب و نجبائے وقت ہی کیوں نہ ہوں اور سب کے ملجا و ماویٰ یہی بزرگ ہیں کیونکہ اطراف کو اپنے مرکز کے ساتھ الحاق کئے بغیرچارہ نہیں ہے۔‘‘
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام بھی کارِ ولایت میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک ہوں گے۔
(امام ربانی مجدّد الف ثانی، مکتوبات، 3 : 251، 252، مکتوب نمبر : 123)
خلاصۂِ کلام یہ ہوا کہ مقام غدیرِ خُم پر ولایت علی رضی اللہ عنہ کے مضمون پر مشتمل اعلانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حقیقت کو ابد الآباد تک کیلئے ثابت و ظاہر کردیا کہ ولایتِ علی رضی اللہ عنہ درحقیقت ولایتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے۔ بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت و رسالت کا باب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کردیا گیا، لہٰذا تا قیامت فیضِ نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجراء و تسلسل کیلئے باری تعالیٰ نے امت میں نئے دروازے اور راستے کھول دیئے جن میں کچھ کو مرتبۂ ظاہر سے نوازا گیا اور کچھ کو مرتبۂ باطن سے۔ مرتبۂ باطن کا حامل راستہ ’ولایت‘ قرار پایا، اور امتِ محمدی میں ولایت عظمیٰ کے حامل سب سے پہلے امامِ برحق۔ ۔ ۔ مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے۔ پھر ولایت کا سلسلۃ الذہب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہلِ بیت اور آلِ اَطہار میں ائمہ اِثنا عشر (بارہ اِماموں) میں جاری کیا گیا۔ ہر چند اِن کے علاوہ بھی ہزارہا نفوسِ قدسیہ ہر زمانہ میں مرتبۂ ولایت سے بہرہ یاب ہوتے رہے، قطبیت و غوثیت کے اعلیٰ و ارفع مقامات پر فائز ہوتے رہے، اہل جہاں کو انوارِ ولایت سے منور کرتے رہے اور کروڑوں انسانوں کو ہر صدی میں ظلمت و ضلالت سے نکال کر نورِ باطن سے ہمکنار کرتے رہے، مگر ان سب کا فیض سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی بارگاہِ ولایت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ماخوذ و مستفاد تھا۔ ولایت علی رضی اللہ عنہ سے کوئی بھی بے نیاز اور آزاد نہ تھا۔ یہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا تاآنکہ امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آخری امامِ برحق اور مرکزِ ولایت کا ظہور ہوگا۔ یہ سیدنا امام محمد مہدی علیہ السلام ہوں گے جو بارہویں امام بھی ہوں گے اور آخری خلیفہ بھی۔ اُن کی ذاتِ اَقدس میں ظاہر و باطن کے دونوں راستے جو پہلے جدا تھے مجتمع کر دیئے جائیں گے۔ یہ حاملِ وِلایت بھی ہوں گے اور وارثِ خلافت بھی، ولایت اور خلافت کے دونوں مرتبے اُن پر ختم کر دیئے جائیں گے۔ سو جو امام مہدی علیہ السلام کا منکر ہو گا وہ دین کی ظاہری اور باطنی دونوں خلافتوں کا منکر ہو گا۔
یہ مظہریتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انتہاء ہو گی، اس لئے اُن کا نام بھی ’محمد‘ ہو گا اور اُن کا ’خلق‘ بھی محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو گا، تاکہ دُنیا کو معلوم ہو جائے کہ یہ ’امام‘ فیضانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہر و باطن دونوں وراثتوں کا امین ہے۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو امام مہدی علیہ السلام کی تکذیب کرے گا وہ کافر ہو جائے گا۔‘‘
اُس وقت روئے زمین کے تمام اولیاء کا مرجع آپ علیہ السلام ہوں گے اور اُمتِ محمدی کا اِمام ہونے کے باعث سیدنا عیسیٰ علیہ السلام بھی آپ علیہ السلام کی اقتداء میں نماز ادا فرمائیں گے اور اس طرح اہلِ جہاں میں آپ علیہ السلام کی اِمامت کا اعلان فرمائیں گے۔
سو ہم سب کو جان لینا چاہئے کہ حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت مہدی الارض و السمائں۔ ۔ ۔ باپ اور بیٹا دونوں۔ ۔ ۔ اللہ کے ولی اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی ہیں۔ انہیں تسلیم کرنا ہر صاحب ایمان پر واجب ہے۔
باری تعالیٰ ہمیں اِن عظیم منابعِ وِلایت سے اِکتسابِ فیض کی توفیق مرحمت فرمائے۔
(آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
حدیث نمبر : 1
عن شعبة، عن سلمة بن کهيل، قال : سمعتُ أبا الطفيل يحدّث عن أبي سريحة. . . أو زيد بن أرقم، (شک شعبة). . . عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم، قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.
(قال : ) و قد روي شعبة هذا الحديث عن ميمون أبي عبد اﷲ عن زيد بن أرقم عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
شعبہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ۔ ۔ ۔ یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما۔ ۔ ۔ سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
1. ترمذی، الجامع الصحيح، 6 : 79، ابواب المناقب، رقم : 3713
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 569، رقم : 959
3. محاملي، امالي : 85
4. ابن ابي عاصم، السنه : 603، 604، رقم : 1361، 1363، 1364، 1367، 1370
5. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 195، 204، رقم : 5071، 5096
6. نووي، تهذيب الاسماء و اللغات، 1 : 347
7. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 163، 164
8. ابن اثير، اسد الغابه، 6 : 132
9. ابن اثير، النهايه في غريب الحديث والاثر، 5 : 228
10. ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 463
11. ابن حجر عسقلاني، تعجيل المنفعه : 464، رقم : 1222
ترمذی نے اسے حسن صحیح غریب کہا ہے، اور شعبہ نے یہ حدیث میمون ابوعبد اللہ کے طریق سے زید بن ارقم سے بھی روایت کی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے یہ حدیث اِن کتب میں مروی ہے :
1. حاکم، المستدرک، 3 : 134، رقم : 4652
2. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 78، رقم : 12593
3. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 12 : 343
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 77، 144
5. ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 451
6. هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 108
یہ حدیث حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما سے مندرجہ ذیل کتب میں مروی ہے :
1. ابن ابي عاصم، السنه : 602، رقم : 1355
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 366، رقم : 32072
یہ حدیث حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے بھی درج ذیل کتب میں منقول ہے :
1. ابن ابی عاصم، السنه : 602، رقم : 1354
2. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 173، رقم : 4052
3. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 229، رقم : 348
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مندرجہ ذیل کتب میں روایت کی گئی ہے :
1. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 88، رقم : 80
2. ابن ابي عاصم، السنه : 602، 605، رقم : 1358، 1375
3. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 3 : 139، رقم : 937
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 20 : 114
یہ حدیث حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مندرجہ ذیل کتب میں روایت کی گئی ہے :
1. عبدالرزاق، المصنف، 11 : 225، رقم : 20388
2. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 71
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 143
4۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 143)‘ میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ بھی روایت کی ہے۔
یہ حدیث ابن بریدہ رضی اللہ عنہ سے مندرجہ ذیل کتب میں منقول ہے :
1. ابن ابي عاصم، السنه : 601، رقم : 1353
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 146
3. ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 457
4. حسام الدين هندي، کنز العمال، 11 : 602، رقم : 32904
یہ حدیث حُبشیٰ بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے اِن کتب میں مروی ہے :
1. ابن ابی عاصم، السنه : 602، رقم : 1359
2. حسام الدبن هندی، کنزالعمال، 11 : 608، رقم : 32946
یہ حدیث حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے اِن کتب میں مروی ہے :
1. طبرانی، المعجم الکبير، 19 : 252، رقم : 646
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177
3. هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 106
طبرانی نے یہ حدیث ’المعجم الکبیر (3 : 179، رقم : 3049)‘ میں حذیفہ بن اُسید غفاری رضی اللہ عنہ سے بھی نقل کی ہے۔
ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 176، 177، 178)‘ میں یہ حدیث حضرت ابوہریرہ، حضرت عمر بن خطاب، حضرت انس بن مالک اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم سے بالترتیب روایت کی ہے۔
ابن عساکر نے یہ حدیث حسن بن حسن رضی اللہ عنہما سے بھی ’تاریخ دمشق الکبیر (15 : 60، 61)‘ میں روایت کی ہے۔
ابن اثیر نے ’اسد الغابہ (3 : 412)‘ میں عبداللہ بن یامیل سے یہ روایت نقل کی ہے۔
ہیثمی نے ’موارد الظمآن (ص : 544، رقم : 2204)‘ میں ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی ہے۔
ابن حجر عسقلانی نے ’فتح الباری (7 : 74)‘ میں کہا ہے : ’’ترمذی اور نسائی نے یہ حدیث روایت کی ہے اور اس کی اسانید کثیر ہیں۔‘‘
البانی نے ’سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (4 : 331، رقم : 1750)‘ میں اس حدیث کوامام بخاری اور امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 2
عن عمران بن حصين رضي الله عنه، قال، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ما تريدون مِن علي؟ ما تريدون مِن علي؟ ما تريدون مِن علي؟ إنّ علياً مِني و أنا منه، و هو ولي کل مؤمن من بعدي.
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟‘‘ پھر فرمایا : ’’بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مؤمن کا ولی ہے‘‘۔
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 78، ابواب المناقب، رقم : 3712
2. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 77، 92، رقم : 65، 86
3. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 132، رقم : 8484
4۔ احمد بن حنبل کی ’المسند (4 : 437، 438)‘ میں بیان کردہ روایت کے آخری الفاظ یہ ہیں : و قد تغیر وجہہ، فقال : دعوا علیا، دعوا علیا، ان علی منی و انا منہ، وھو ولی کل مؤمن بعدی (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ مبارک متغیر ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی (کی مخالفت کرنا) چھوڑ دو، علی (کی مخالفت کرنا) چھوڑ دو، بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کا ولی ہے)۔
5۔ ابن کثیر نے امام احمد کی روایت ’البدایہ والنہایہ (5 : 458)‘ میں نقل کی ہے۔
6. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 620، رقم : 1060
7. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 80، رقم : 12170
8۔ حاکم نے ’المستدرک (3 : 110، 111، رقم : 4579)‘ میں اس روایت کو مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے، جبکہ ذہبی نے اس پر خاموشی اختیار کی ہے۔
9۔ ابن حبان نے ’الصحیح (15 : 373، 374، رقم : 6929)‘ میں یہ حدیث قوی سند سے روایت کی ہے۔
10۔ ابو یعلی نے ’المسند (1 : 293، رقم : 355)‘ میں اسے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے رجال صحیح ہیں، جبکہ ابن حبان نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
11۔ طیالسی کی ’المسند (ص : 111، رقم : 829)‘ میں بیان کردہ روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ما لھم و لعلیّ (اُنہیں علی کے بارے میں اِتنی تشویش کیوں ہے)؟
12. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 6 : 294
13. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 129
14. هيثمي، موارد الظمآن، 543، رقم : 2203
15. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 142، رقم : 36444
نسائی کی بیان کردہ دونوں روایات کی اسناد صحیح ہیں۔
حدیث نمبر : 3
عن سعد بن أبي وقاص، قال : سمعتُ رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه، و سمعتُه يقول : أنت مني بمنزلة هارون من موسي، إلا أنه لا نبي بعدي، و سمعتُه يقول : لأعطينّ الرأية اليوم رجلا يحب اﷲ و رسوله.
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے۔‘‘ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (حضرت علی رضی اللہ عنہ کو) یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’تم میری جگہ پر اسی طرح ہو جیسے ہارون، موسیٰ کی جگہ پر تھے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (غزوۂ خیبر کے موقع پر) یہ بھی فرماتے ہوئے سنا : ’’میں آج اس شخص کو علم عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘
1۔ ابن ماجہ نے يہ صحيح حديث ’السنن (1 : 90، المقدمہ، رقم : 121)‘ ميں روايت کي ہے۔
2۔ نسائي نے يہ حديث ’خصائص اميرالمؤمنين علي بن ابي طالب رضي اللہ عنہ (ص : 32، 33، رقم : 91)‘ میں ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے۔
3. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 608، رقم : 1386
4. مزي، تحفة الاشراف بمعرفة الأطراف، 3 : 302، رقم : 3901
حديث نمبر : 4
4. عن البراء بن عازب، قال : أقبلنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في حجته التي حج، فنزل في بعض الطريق، فأمر الصلاة جامعة، فأخذ بيد علي رضي الله عنه، فقال : ألستُ أولي بالمؤمنين من أنفسهم؟ قالوا : بلي، قال : ألستُ أولي بکل مؤمن من نفسه؟ قالوا : بلي، قال : فهذا ولي من أنا مولاه، اللهم! والِ من والاه، اللهم! عاد من عاداه.
براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج ادا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستے میں ایک جگہ قیام فرمایا اور نماز باجماعت (قائم کرنے) کا حکم دیا، اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’کیا میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا میں ہر مومن کی جان سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’پس یہ اُس کا ولی ہے جس کا میں مولا ہوں۔ اے اللہ! جو اسے دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ (اور) جو اس سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ۔‘‘
1. ابن ماجه، السنن، 1 : 88، المقدمه، رقم : 116
2۔ ابن ابی عاصم نے ’کتاب السنہ (ص : 603، رقم : 1362)‘ میں مختصراً ذکر کی ہے۔
3. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 168
4. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 11 : 602، رقم : 32904
5. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 167، 168
يہ حدیث صحیح ہے۔
حدیث نمبر : 5
عن البراء بن عازب رضي الله عنه، قال : کنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في سفر، فنزلنا بغدير خم فنودي فينا الصلاة جامعة و کسح لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم تحت شجرتين فصلي الظهر و أخذ بيد علیّ، فقال : ألستم تعلمون أني أولي بالمؤمنين من أنفسهم؟ قالوا : بلي، قال : ألستم تعلمون أني أولي بکل مؤمن من نفسه؟ قالوا : بلي، قال : فأخذ بيد علیّ، فقال : من کنتُ مولاه فعلیّ مولاه، اللّٰهم! والِ من والاه و عادِ من عاداه. قال : فلقيه عمر رضی الله عنه بعد ذٰلک، فقال له : هنيئاً يا ابن أبي طالب! أصبحتَ و أمسيتَ مولي کل مؤمنٍ و مُؤمنة.
براء بن عازب سے روایت ہے ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے، (راستے میں) ہم نے غدیر خم میں قیام کیا۔ وہاں ندا دی گئی کہ نماز کھڑی ہو گئی ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دو درختوں کے نیچے صفائی کی گئی، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ ظہر ادا کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں مومنوں کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں ہر مومن کی جان سے بھی قریب تر ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا : کیوں نہیں! راوی کہتا ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ! اُسے تو دوست رکھ جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اور اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور اُن سے کہا : ’’اے ابن ابی طالب! مبارک ہو، آپ صبح و شام (یعنی ہمیشہ کے لئے) ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے۔‘‘
1۔ احمد بن حنبل نے ’المسند (4 : 281)‘ ميں حضرت براء بن عازب رضي اللہ عنہ سے يہ حديث دو مختلف اسناد سے بيان کي ہے۔
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 78، رقم : 12167
3. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 125
4. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 126، 127
5۔ مناوی نے ’فیض القدیر (6 : 217)‘ میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول ’من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ‘ سنا تو (حضرت علی رضی اللہ عنہ سے) کہا : ’’اے ابوطالب کے بیٹے! آپ صبح و شام (یعنی ہمیشہ کے لئے) ہر مؤمن اور مؤمنہ کے مولا قرار پائے۔‘‘
6. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 133، 134، رقم : 36420
7. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 167، 168
8۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی کتاب ’فضائل الصحابہ (2 : 610، رقم : 1042)‘ میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : و عاد من عاداہ و انصر من نصرہ، و احب من احبہ۔ قال شعبۃ : او قال : و ابغض من ابغضہ ( (اے اللہ!) جو (علی) سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ جو (علی) کی مدد کرے اُس کی تو مدد فرما، جو اِس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر۔ شعبہ کا کہنا ہے کہ اِس کی جگہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو (علی) سے بغض رکھے تو (بھی) اُس سے بغض رکھ)۔
9. ابن اثير، اسد الغابه، 4 : 103
10۔ ذہبی نے ’سیر اعلام النبلاء (2 : 623، 624)‘ میں کہا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ’ھنیئاً لک یا علیّ‘ (اے علی! آپ کو مبارک ہو)‘ کے الفاظ کہے۔
11. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 169
12. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 464
حدیث نمبر : 6
عن ابن بريدة عن أبيه، قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : مَن کنتُ وليه فعلیّ وليه.
حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں ولی ہوں، اُس کا علی ولی ہے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 361
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 563، رقم : 947
3. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 601، 603، رقم : 1351، 1366
4. حاکم، المستدرک، 2 : 131، رقم : 2589
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 57، رقم : 12114
6. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 166، رقم : 4968
7. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 100، 101، رقم : 2204
8. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 108
9. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 143
10۔ ابن عساکر نے یہ حدیث ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 142)‘ میں سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہما سے بھی روایت کی ہے۔
11. حسام الدين هندي، کنز العمال، 11 : 602، رقم : 32905
12۔ یہی حدیث ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ حسام الدین ہندی نے ’کنز العمال (15 : 168، 169، رقم : 36511)‘ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے اور کہا ہے کہ اسے ابن راہویہ اور ابن جریر نے روایت کیا ہے۔
حدیث نمبر : 7
عن زيد بن أرقم رضی الله عنه قال : لمّا رجع رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم مِن حجة الوداع و نزل غدير خم، أمر بدوحات، فقمن، فقال : کأنّي قد دعيتُ فأجبتُ، إني قد ترکتُ فيکم الثقلين، أحدهما أکبر من الآخر : کتاب اﷲ تعالٰي، و عترتي، فانظروا کيف تخلفوني فيهما، فإنّهما لن يتفرقا حتي يردا علي الحوض. ثم قال : إن اﷲ عزوجل مولاي و أنا مولي کلِ مؤمن. ثم أخذ بيد علیّ، فقال : مَن کنتُ مولاه فهذا وليه، اللّٰهم! والِ من والاه و عادِ من عاداه.
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے تو غدیر خم پر قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا اور وہ لگا دیئے گئے پھر فرمایا : ’’مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے، جسے میں قبول کر لوں گا۔ تحقیق میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں : ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری آل۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو اور وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ (کوثر) پر میرے سامنے آئیں گی۔‘‘ پھر فرمایا : ’’بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مؤمن کا مولا ہوں۔‘‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 3 : 109، رقم : 4576
2. نسائي، السنن الکبري، 5 : 45، 130، رقم : 8148، 8464
3۔ ابن ابی عاصم نے ’السنہ (ص : 644، رقم : 1555)‘ میں اسے مختصراً ذکر کیا ہے۔
4. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 166، رقم : 4969
5۔ نسائی نے ’خصائص امیر المؤمنین علی بن ابی طالب (ص : 84، 85، رقم : 76)‘ میں یہ حدیث صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے۔
6۔ ابومحاسن نے ’المعتصر من المختصر من مشکل الآثار (2 : 301)‘ میں نقل کی ہے۔
حدیث نمبر : 8
عن ابن واثلة أنه سمع زيد بن أرقم، يقول : نزل رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بين مکة و المدينة عند شجرات خمس دوحات عظام، فکنس الناسُ ما تحت الشجرات، ثم راح رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عيشة، فصلي، ثم قام خطيباً فحمد اﷲ و أثني عليه و ذکر و وعظ، فقال ما شاء اﷲ أن يقول : ثم قال : أيها الناس! إني تارکٌ فيکم أمرين، لن تضلوا إن اتبعتموهما، و هما کتابَ اﷲ و أهلَ بيتي عترتي، ثم قال : أتعلمون إني أولي بالمؤمنين مِن أنفسهم؟ ثلاث مرّاتٍ، قالوا : نعم، فقال رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.
ابن واثلہ سے روایت کہ اُنہوں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے درمیان پانچ بڑے گھنے درختوں کے قریب پڑاؤ کیا اور لوگوں نے درختوں کے نیچے صفائی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ دیر آرام فرمایا۔ نماز ادا فرمائی، پھر خطاب فرمانے کیلئے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور وعظ و نصیحت فرمائی، پھر جو اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم ان کی پیروی کرو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ (دو چیزیں) اللہ کی کتاب اور میرے اہلِ بیت / اولاد ہیں۔‘‘ اس کے بعد فرمایا : ’’کیا تمہیں علم نہیں کہ میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر ہوں؟‘‘ ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ سب نے کہا : ہاں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 3 : 109، 110، رقم : 4577
2. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 168
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 164
4. حسام الدين هندي، کنز العمال، 1 : 381، رقم : 1657
حدیث نمبر : 9
عن زيد بن أرقم رضي الله عنه، قال : خرجنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حتي انتهينا إلي غدير خم، فأمر بروحٍ فکسح في يوم ما أتي علينا يوم کان أشدّ حراً منه، فحمد اﷲ و أثني عليه، و قال : يا أيها الناس! أنّه لم يبعث نبیٌ قط إلا ما عاش نصف ما عاش الذي کان قبله و إني أوشک أن أدعي فأجيب، و إني تارک فيکم ما لن تضلوا بعده کتاب اﷲ عزوجل. ثم قام و أخذ بيد علي رضي الله عنه، فقال : يا أيها الناس! مَن أولي بکم من أنفسکم؟ قالوا : اﷲ و رسوله أعلم، ألستُ أولي بکم من أنفسکم؟ قالوا : بلي، قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ غدیر خم پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دن تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے اور وہ دن بہت گرم تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا : ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے جتنے نبی بھیجے ہر نبی نے اپنے سے پہلے نبی سے نصف زندگی پائی، اور مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے جسے میں قبول کر لوں گا۔ میں تمہارے اندر وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اُس کے ہوتے ہوئے تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، وہ کتاب اﷲ ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام لیا اور فرمایا : ’’اے لوگو! کون ہے جو تمہاری جانوں سے زیادہ قریب ہے؟‘‘ سب نے کہا : اللہ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ (پھر) فرمایا : ’’کیا میں تمہاری جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 3 : 533، رقم : 6272
2. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 171، 172، رقم : 4986
3. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 11 : 602، رقم : 32904
یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے اور اِمام ذہبی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 10
عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه، قال : لقد سمعتُ رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول في علیّ ثلاث خصال، لأن يکون لي واحدة منهن أحبّ إلیّ من حمر النعم. سمعتُه يقول : إنه بمنزلة هارون من موسي، إلا أنه لا نبي بعدي، و سمعته يقول : لأ عطينّ الرأية غداً رجلاً يحبّ اﷲ و رسوله، و يحبّه اﷲ و رسوله و سمعتُه يقول : مَن کنتُ مولاه، فعلیّ مولاه.
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تین خصلتیں ایسی بتائی ہیں کہ اگر میں اُن میں سے ایک کا بھی حامل ہوتا تو وہ مجھے سُرخ اُونٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ایک موقع پر) ارشاد فرمایا : ’’علی میری جگہ پر اسی طرح ہیں جیسے ہارون موسیٰ کی جگہ پر تھے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اور فرمایا : ’’میں آج اس شخص کو علم عطا کروں گا جو اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ (راوی کہتے ہیں کہ) میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (اس موقع پر) یہ فرماتے ہوئے بھی سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. نسائي، خصائص امير المومنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 33، 34، 88، رقم : 10، 80
2۔ شاشی نے ’المسند (1 : 165، 166، رقم : 106)‘ میں یہ روایت عامر بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے لی ہے۔
3۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 88)‘ میں عامر بن سعد اور سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہما سے مروی احادیث بیان کی ہیں۔
4۔ حسام الدین ہندی نے ’کنز العمال (15 : 163، رقم : 36496)‘ میں عامر بن سعد رضی اللہ عنہ سے یہ روایت چند الفاظ کے اضافے کے ساتھ ذکر کی۔
اِس حدیث کی اسناد صحیح ہیں۔
حدیث نمبر : 11
أخرج سفيان بن عيينة عن سعد بن أبي وقاص (في مناقب علیّ) رضي الله عنهم، إن له لمناقب أربع : لأن يکون لي واحدة منهن أحب إلیّ مِن کذا و کذا، ذکر حمر النعم قولها : لأعطينّ الراية، و قولها : بمنزلة هارون من موسیٰ، و قولها : من کنتُ مولاه، و نسي سفيان الرابعة.
سفیان بن عیینہ (مناقبِ علی رضی اللہ عنہ کے ضمن میں) سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چار خوبیاں ایسی ہیں کہ اگر میں ان میں سے کسی ایک کا بھی حامل ہوتا تو اسے فلاں فلاں چیز حتی کہ سرخ اُونٹوں سے زیادہ محبوب رکھتا۔ وہ چار خوبیاں یہ تھیں : (پہلی خوبی اُنہیں غزوۂ خیبر کے موقع پر) جھنڈے کا عطا ہونا ہے۔ (دُوسری خوبی) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُن کے متعلق یہ فرمانا کہ (تیرا اور میرا تعلق ایسے ہے) جیسے ہارون اور موسیٰ کا (تعلق ہے)۔ (تیسری خوبی) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُن کے متعلق یہ فرمانا کہ جس کا میں مولا ہوں (اُس کا علی مولا ہے)۔ (راویء حدیث) سفیان بن عیینہ کو چوتھی خوبی بھول گئی۔
1. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 607، رقم : 1385
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 643، رقم : 1093
3. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 3 : 151، رقم : 948
4۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 89۔ 91)‘ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں چاروں خوبیاں بالتفصیل لکھی ہیں۔
احمد بن حنبل کی بیان کردہ روایت کی اِسناد حسن ہیں۔
حدیث نمبر : 12
عن عبد الرحمن بن سابط (في مناقب علیّ)، قال : قال سعد : سمعتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول في علیّ ثلاث خصال، لأن يکون لي واحدة منهنّ أحب إلیّ مِن الدنیا و ما فیها، سمعتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه، و أنت منّي بمنزلة هارون مِن موسیٰ، و لأعطينّ الرأية.
عبدالرحمن بن سابط (مناقبِ علی کے ضمن میں) روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تین ایسی خصلتیں بیان فرماتے ہوئے سنا کہ اگر اُن میں سے ایک بھی مجھے عطا ہو تو وہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہوتی۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں (اُس کا علی مولا ہے)، اور علی میری جگہ ایسا ہے جیسے موسیٰ کی جگہ ہارون، اور میں اُسے علم عطا کروں گا (جو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حبیب ہے اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے حبیب ہیں)۔‘‘
1. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 608، رقم : 1386
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 61، رقم : 12127
3. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 3 : 207، رقم : 1008
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 88، 89
ضیاء مقدسی نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 13
عن رفاعة بن إياس الضبي، عن أبيه، عن جده، قال : کنّا مع علیّ رضي الله عنه يوم الجمل، فبعث إلي طلحة بن عبيد اﷲ أن القني، فأتاه طلحة، فقال : نشدک اﷲ، هل سمعتَ رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه، اللّٰهم والِ من والاه و عادِ من عاداه؟ قال : نعم، قال : فَلِمَ تقاتلنی؟ قال : لم أذکرْ، قال : فانصرف طلحةُ.
رفاعہ بن ایاس ضبی اپنے والد سے اور وہ اس کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ہم جمل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے طلحہ بن عبید اللہ رضی اﷲ عنہما کی طرف ملاقات کا پیغام بھیجا۔ پس طلحہ اُن کے پاس آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جواُس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ؟‘‘ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’تو پھر میرے ساتھ کیوں جنگ کرتے ہو؟‘‘ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : مجھے یہ بات یاد نہیں تھی۔ راوی نے کہا : (اُس کے بعد) طلحہ رضی اللہ عنہ واپس لوٹ گئے۔
1. حاکم، المستدرک، 3 : 371، رقم : 5594
2. بيهقي، الاعتقاد : 373
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 27 : 76
4۔ ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 107)‘ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث بزار نے نذیر سے روایت کی ہے۔
5۔ حسام الدین ہندي، کنز العمال، 11 : 332، رقم : 31662
حدیث نمبر : 14
عن بريدة، قال : غزوتُ مع علیّ اليمن فرأيتُ منه جفوة، فلما قدمتُ علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ذکرتُ عليا، فتنقصته، فرأيتُ وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يتغيّر، فقال : يا بريدة! ألستُ أولي بالمؤمنين مِن أنفسهم؟ قلتُ : بلي، يا رسولَ اﷲ! قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کے غزوہ میں شرکت کی جس میں مجھے آپ سے کچھ شکوہ ہوا۔ جب میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس (جنگ سے) واپس آیا تو میں نے اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر نامناسب انداز سے کیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ مبارک متغیر ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے بریدہ! کیا میں مومنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ تو میں نے کہا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 347
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 584، 585، رقم : 989
3. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 130، رقم : 8465
4. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 86، رقم : 78
5. حاکم، المستدرک، 3 : 110، رقم : 4578
6. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 84، رقم : 12181
7. ابن ابي عاصم، الآحاد والمثاني، 4 : 325، 326
8. شاشي، المسند، 1 : 127
9. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 229، رقم : 348
10. مبارکپوري، تحفة الاحوذي، 10 : 147
11. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 4 : 23
12. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 142، 146. 148
13. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 128
14۔ ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (4 : 168؛ 5 : 457)‘ میں کہا ہے کہ نسائی کی بیان کردہ روایت کی اسناد جید قوی ہیں اور اس کے تمام رجال ثقہ ہیں۔
15. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 134، رقم : 36422
حدیث نمبر : 15
عن ميمون أبي عبد اﷲ، قال : قال زيد بن أرقم رضی الله عنه و أنا أسمع : نزلنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بواد يقال له وادي خم، فأمر بالصلاة، فصلاها بهجير، قال : فخطبنا و ظلل لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بثوب علي شجرة سمرة من الشمس، فقال : ألستم تعلمون أو لستم تشهدون أني أولٰي بکل مؤمن من نفسه؟ قالوا : بلي، قال : فمن کنتُ مولاه فإن عليا مولاه، اللّٰهم! عادِ من عاداه و والِ من والاه.
حضرت میمون ابو عبد اﷲ بیان کرتے ہیں کہ میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : ہم رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک وادی۔ ۔ ۔ جسے وادئ خم کہا جاتا تھا۔ ۔ ۔ میں اُترے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کا حکم دیا اور سخت گرمی میں جماعت کروائی۔ پھر ہمیں خطبہ دیا درآنحالیکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سورج کی گرمی سے بچانے کے لئے درخت پر کپڑا لٹکا کر سایہ کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا تم نہیں جانتے یا (اس بات کی) گواہی نہیں دیتے کہ میں ہر مؤمن کی جان سے قریب تر ہوں؟‘‘ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’پس جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ ! تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے اور اُسے دوست رکھ جواِسے دوست رکھے۔
1. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 372
2. بيهقي، السنن الکبریٰ، 5 : 131
3۔ طبرانی نے یہ حدیث ’المعجم الکبیر (5 : 195، رقم : 5068)‘ میں ایک اور سند سے روایت کی ہے۔
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 104
5. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 157، رقم : 36485
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 166
7۔ ابن کثیر نے ’البدایہ و النہایہ، (4 : 172)‘ میں اِس روایت کی سند کو جید اور رِجال کو ثقہ قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 16
عن عطية العوفي، قال : سألت زيد بن أرقم، فقلتُ له : أنّ ختناً لي حدثني عنک بحديث في شأن علي رضي الله عنه يوم غدير خم، فأنا أحب أن أسمعه منک، فقال : إنکم معشر أهل العراق فيکم ما فيکم، فقلت له : ليس عليک مني بأس، فقال : نعم، کنا بالجحفة، فخرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إلينا ظهراً و هو أخذ بعضدِ علي رضي الله عنه فقال : يا أيها الناس! ألستم تعلمون أني أولي بالمؤمنين من أنفسم؟ قالوا : بلٰي، قال : فمن کنتُ مولاه فعلي مولاه، قال : فقلتُ له : هل قال : اللهم! وال من والاه و عاد من عاداه؟ فقال : إنما أخبرک کما سمعتُ.
عطیہ عوفی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے زید بن ارقم سے پوچھا : میرا ایک داماد ہے جو غدیر خم کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں آپ کی روایت سے حدیث بیان کرتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے آپ سے (براہِ راست) سنوں۔ زید بن ارقم نے کہا : آپ اہلِ عراق ہیں تمہاری عادتیں تمہیں سلامت رہیں۔ پس میں نے کہا کہ میری طرف سے تمہیں کوئی اذیت نہیں پہنچے گی۔ (اس پر) انہوں نے کہا : ہم جحفہ کے مقام پر تھے کہ ظہر کے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بازو تھامے ہوئے باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے لوگو! کیا تمہیں علم نہیں کہ میں مؤمنین کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟‘‘ تو انہوں نے کہا : کیوں نہیں! تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔‘‘ عطیہ نے کہا : میں نے مزید پوچھا : کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا : ’’اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس (علی) سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ؟‘‘ زید بن ارقم نے کہا : میں نے جو کچھ سنا تھا وہ تمہیں بیان کر دیا ہے۔
1. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 368
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 586، رقم : 992
3۔ نسائی نے یہ حدیث حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے ’خصائص امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (ص : 97، رقم : 92)‘ میں الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ روایت کی ہے۔ اس کے بارے میں ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 107)‘ میں کہا ہے کہ اسے بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
4. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 195، رقم : 5070
5. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 165
6. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 105، رقم : 36343
7۔ میمون ابو عبد اﷲ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے یہ حدیث مبارکہ بیان کی۔ حسام الدین ہندی نے یہ حدیث ’کنزالعمال (13 : 104، 105، رقم : 36342)‘ میں بیان کی ہے۔
حدیث نمبر : 17
عن جابر بن عبد اﷲ رضي اﷲ عنهما قال : کنا بالجحفة بغدير خم إذ خرج علينا رسول اﷲا، فأخذ بيد علي رضي الله عنه فقال : من کنت مولاه فعلیّ مولاه.
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ ہم حجفہ میں غدیر خم کے مقام پر تھے، جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 59، رقم : 12121
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 169، 170، 172
3۔ ذہبی نے ’سیر اعلام النبلاء (7 : 570، 571)‘ میں اسے عبداﷲ بن محمد بن عاقل سے روایت کرتے ہوئے متن حدیث کو متواتر قرار دیا ہے۔ روایت میں ہے کہ علی بن حسین، محمد بن حنیفہ، ابوجعفر اور عبداﷲ بن محمد بن عاقل رضی اللہ عنھم حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے گھر پر تھے۔
4۔ ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (4 : 173)‘ میں لکھا ہے کہ ہمارے شیخ ذہبی نے اِس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔
5. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 137، رقم : 32433
حدیث نمبر : 18
عن علي رضي الله عنه، أن النبيا قام بحفرة الشجرة بخم، و هو آخذ بيد علي رضي الله عنه فقال : أيها الناس! ألستم تشهدون أن اﷲ ربکم؟ قالوا : بلی، قال : ألستم تشهدون أن اﷲ و رسوله أولي بکم من أنفسکم. قالوا : بلي، و أن اﷲ و رسوله مولاکم؟ قالوا : بلي، قال : فمن کنتُ مولاه فإن هذا مولاه.
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ خم پر ایک درخت کے نیچے کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کاہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے لوگو! کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ تمہارا رب ہے؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ اور اس کا رسول تمہاری جانوں سے بھی قریب تر ہیں؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔‘‘
1. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 603، رقم : 1360
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 161، 162
3۔ حسام الدین ہندی نے یہ حدیث ’کنزالعمال (13 : 140، رقم : 36441)‘ میں نقل کی ہے اور کہا ہے کہ اسے ابن راہویہ، ابن جریر، ابن ابی عاصم اور محاملی نے ’امالی‘ میں روایت کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 19
عن حذيفة بن أسيد الغفاري . . . فقال : يا أيها الناس إني قد نبأني اللطيف الخبير أنه لن يعمر نبي إلا نصف عمر الذي يليه من قبله، و إني لأظن أني يوشک أن أدعي فأجيب، و إني مسؤول، و إنکم مسؤولون، فماذا أنتم قائلون؟ قالوا : نشهد أنک قد بلغتَ و جهدتَ و نصحتَ، فجزاک اﷲ خيراً، فقال : أليس تشهدون أن لا إله إلا اﷲ، و أن محمداً عبده و رسوله، و أن جنته حقٌ و ناره حقٌ، و أن الموت حقٌ، و أن البعث بعد الموت حقٌ، و أن الساعة آتية لا ريب فيها و أن اﷲ يبعث من في القبور؟ قالوا : بلي، نشهد بذالک، قال : اللهم! اشهد، ثم قال : يا أيها الناس! إن اﷲ مولاي و أنا مولي المؤمنين و أنا أولي بهم من أنفسهم، فمن کنتُ مولاه فهذا مولاه يعني علياً رضي الله عنه . . . اللهم! وال من والاه، و عاد من عاداه. ثم قال : يا أيها الناس إني فرطکم و إنکم واردون علي الحوض، حوضٌ أعرض ما بين بصري و صنعاء، فيه عدد النجوم قد حانٌ من فضة، و إني سائلکم حين تردون عليّ عن الثقلين، فانظروا کيف تخلفوني فيهما، الثقل الأکبر کتاب اﷲ عزوجل سببٌ طرفه بيد اﷲ و طرفه بأيديکم فاستمسکوا به لا تضلوا و لا تبدلوا، و عترتي أهل بيتي، فإنه قد نبأني اللطيف الخبير أنما لن ينقضيا حتي يردا عليّ الحوض.
حضرت حذیفہ بن اُسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! مجھے لطیف و خبیر ذات نے خبر دی ہے کہ اللہ نے ہر نبی کو اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر عطا فرمائی اور مجھے گمان ہے مجھے (عنقریب) بلاوا آئے گا اور میں اُسے قبول کر لوں گا، اور مجھ سے (میری ذمہ داریوں کے متعلق) پوچھا جائے گا اور تم سے بھی (میرے متعلق) پوچھا جائے گا، (اس بابت) تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے ہمیں انتہائی جدوجہد کے ساتھ دین پہنچایا اور بھلائی کی باتیں ارشاد فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، جنت و دوزخ حق ہیں اور موت اور موت کے بعد کی زندگی حق ہے، اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں، اور اللہ تعالیٰ اہل قبور کو دوبارہ اٹھائے گا؟ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں! ہم ان سب کی گواہی دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! تو گواہ بن جا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! بیشک اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں تمام مؤمنین کا مولا ہوں اور میں ان کی جانوں سے قریب تر ہوں۔ جس کا میں مولا ہوں یہ اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔ اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ ’’اے لوگو! میں تم سے پہلے جانے والا ہوں اور تم مجھے حوض پر ملو گے، یہ حوض بصرہ اور صنعاء کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ چوڑا ہے۔ اس میں ستاروں کے برابر چاندی کے پیالے ہیں، جب تم میرے پاس آؤ گے میں تم سے دو انتہائی اہم چیزوں کے متعلق پوچھوں گا، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ تم میرے پیچھے ان دونوں سے کیا سلوک کرتے ہو! پہلی اہم چیز اللہ کی کتاب ہے، جو ایک حیثیت سے اللہ سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری حیثیت سے بندوں سے تعلق رکھتی ہے۔ تم اسے مضبوطی سے تھام لو تو گمراہ ہو گے نہ (حق سے) منحرف، اور (دوسری اہم چیز) میری عترت یعنی اہلِ بیت ہیں (اُن کا دامن تھام لینا)۔ مجھے لطیف و خبیر ذات نے خبر دی ہے کہ بیشک یہ دونوں حق سے نہیں ہٹیں گی یہاں تک کہ مجھے حوض پر ملیں گی۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 180، 181، رقم : 3052
2. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 67، رقم : 2683
3. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 166، 167، رقم : 4971
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 164، 165
5. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 1 : 188، 189، رقم : 957، 958
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 166، 167
7۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 169)‘ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے بھی روایت لی ہے۔
8. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 463
حدیث نمبر : 20
عن جرير قال : شهدنا الموسم في حجة مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، و هي حجة الوداع، فبلغنا مکاناً يقال له غدير خم، فنادي : الصلاة جامعة، فاجتمعنا المهاجرون والأنصار، فقام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وسطنا، فقال : أيها الناس! بم تشهدون؟ قالوا : نشهد أن لا إله إلا اﷲ؟ قال : ثم مه؟ قالوا : و أن محمداً عبده و رسوله، قال : فمَن وليکم؟ قالوا : اﷲ و رسوله مولانا، قال : من وليکم؟ ثم ضرب بيده إلي عضد علي رضي الله عنه، فأقامه فنزع عضده فأخذ بذراعيه، فقال : من يکن اﷲ و رسوله مولياه فإن هذا مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه، اللهم! من أحبه من الناس فکن له حبيباً، ومن أبغضه فکن له مُبغضا.
حضرت جریر سے روایت ہے کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جسے غدیر خم کہتے ہیں۔ نماز باجماعت ہونے کی ندا آئی تو سارے مہاجرین و انصار جمع ہو گئے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطاب فرمایا : اے لوگو! تم کس چیز کی گواہی دیتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر کس کی؟ انہوں نے کہا : بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا ولی کون ہے؟ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر فرمایا : تمہارا ولی اور کون ہے؟ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا اور (حضرت علی رضی اللہ عنہ کے) دونوں بازو تھام کر فرمایا : ’’اللہ اور اُس کا رسول جس کے مولا ہیں اُس کا یہ (علی) مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ (اور) جو اِس (علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، اے اللہ! جو اِسے محبوب رکھے تو اُسے محبوب رکھ اور جو اِس سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 357، رقم : 2505
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 106
3. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 138، 139، رقم : 36437
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 179
حدیث نمبر : 21
عن عمرو ذي مر و زيد بن أرقم قالا : خطب رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم، فقال : من کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه و عادِ من عاداه، و انصرْ من نصره و أعِنْ من أعانه.
عمرو ذی مر اور زید بن ارقم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر خطاب فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، اور جو اِس کی نصرت کرے اُس کی تو نصرت فرما، اور جو اِس کی اِعانت کرے تو اُس کی اِعانت فرما۔
1. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 192، رقم : 5059
2۔ نسائی نے ’خصائص امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (ص : 100، 101، رقم : 96)‘ میں عمرو ذی مر سے روایت لی ہے۔
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 104، 106
4. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 170
5. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 11 : 609، رقم : 32946
حدیث نمبر : 22
آيتِ کريمه ’اَلْيوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمَْ‘
(القرآن، المائده، 5 : 3)
۔ ۔ ۔ (آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا) ۔ ۔ ۔ کے شانِ نزول میں محدثین و مفسرین نے یہ حدیثِ مبارکہ بیان کی ہے :
عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال : مَن صام يوم ثمان عشرة مِن ذي الحجة کتب له صيام ستين شهراً، و هو يوم غدير خم لما أخذ النبيا بيد عليّ بن أبی طالب رضي الله عنه، فقال : ألست ولي المؤمنين؟ قالوا : بلي، يا رسول اﷲ! قال : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، فقال عمر بن الخطاب : بخ بخ لک يا ابن أبي طالب! أصبحتَ مولاي و مولي کل مسلم، فأنزل اﷲ (اَلْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ).
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے اٹھارہ ذی الحج کو روزہ رکھا اس کے لئے ساٹھ (60) مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا، اور یہ غدیر خم کا دن تھا جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا میں مؤمنین کا والی نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مبارک ہو! اے ابنِ ابی طالب! آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ٹھہرے۔ (اس موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ’’ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا۔‘‘
1. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 8 : 290
2. طبراني، المعجم الأوسط، 3 : 324
3. واحدي، اسباب النزول : 108
4. رازي، التفسير الکبير، 11 : 139
5. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 176، 177
6۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 179)‘ میں یہ راویت حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی لی ہے۔
7. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 464
8۔ سیوطی نے ’الدر المنثور فی التفسیر بالماثور (2 : 259)‘ میں آیت مذکورہ کی شان نزول کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے روز ’من کنت مولاہ فعليّ مولاہ‘ کے الفاظ فرمائے تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔
حدیث نمبر : 23
امام فخر الدين رازي ’يَا أيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَآ أنْزِلَ إِلَبْکَ مِن رَّبِّکَ‘،
(القرآن، المائده، 5 : 67)
۔ ۔ ۔ (اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجئے) ۔ ۔ ۔ کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
نزلت الآية في فضل عليّ بن أبي طالب عليه السلام، و لما نزلت هذه الآيةُ أخذ بيده و قال : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم والِ من والاه و عادِ من عاداه. فلقيه عمر رضي الله عنه، فقال : هنيئاً لک يا ابن أبي طالب، أصبحتَ مولاي و مولي کلِ مؤمنٍ و مؤمنة. و هو قول ابن عباس و البراء بن عازب و محمد بن علي.
یہ آیتِ مبارکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہے، جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : جس کا میں مولاہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے، اور اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔ اُس کے (فوراً ) بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور فرمایا : اے ابن ابی طالب! آپ کو مبارک ہو، اب آپ میرے اور ہر مؤمن اور مؤمنہ کے مولا قرار پائے ہیں۔
اِسے عبداللہ بن عباس، براء بن عازب اور محمد بن علی رضی اللہ عنھم نے روایت کیا ہے۔
1. رازي، التفسير الکبير، 12 : 49، 50
2. ابن ابی حاتم رازی نے ’تفسیر القرآن العظیم (4 : 1172، رقم : 6609)‘ میں عطیہ عوفی سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی کہ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر67 حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔
علاوہ ازیں درج ذیل نے بھی یہ روایت نقل کی ہے :
3. واحدي، اسباب النزول : 115
4. سيوطي، الدرالمنثور في التفسير بالماثور، 2 : 298
5. آلوسي، روح المعاني، 6 : 193
6. شوکاني، فتح القدير، 2 : 60
حدیث نمبر : 24
آيتِ کريمه ’’إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُه وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّکَاةَ وَ هُمْ رَاکِعُوْنَO‘‘
(القرآن، المائده، 5 : 55)
۔ ۔ ۔ (بے شک تمہارا (مدد گار) دوست اللہ اور اُس کا رسول ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اللہ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیںo) ۔ ۔ ۔ کے شانِ نزول میں بیشتر محدثین نے یہ حدیثِ مبارکہ بیان کی ہے :
عن عمار بن ياسر رضي الله عنه، يقول : وقف علي عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه سائل و هو راکع في تطوّع فنزع خاتمه فأعطاه السائل، فأتي رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فأعلمه ذلک، فنزلتْ علي النبي صلی الله عليه وآله وسلم هذا الآية : (إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُه وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّکَاةَ وَ هُمْ رَاکِعُوْنَ) فقرأها رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ثم قال : من کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه و عادِ من عاداه.
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سائل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کھڑا ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نماز میں حالتِ رکوع میں تھے۔ اُس نے آپ رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی کھینچی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے انگوٹھی سائل کو عطا فرما دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُس کی خبر دی۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی : (بے شک تمہارا (مدد گار) دوست اللہ اور اُس کا رسول ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اللہ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کو پڑھا اور فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔‘‘
1. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 129، 130، رقم : 6228
2. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 119
3. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 372
4. حاکم، المستدرک، 3 : 119، 371، رقم حديث : 4576، 5594
5. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 174، رقم : 4053
6. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 195، 203، 204، رقم : 5068، 5069، 5092، 5097
7. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 65
8. هيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 17
9. هيثمي، موارد الظمآن : 544، رقم : 2205
10. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 7 : 377
11۔ خطیب بغدادی نے یہ حدیثِ مبارکہ ’تاریخِ بغداد (12 : 343)‘ میں مَن کنتُ مولاہ فعليّ مولاہ کے الفاظ کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے بھی نقل کی ہے۔
12. ابن اثير، اسد الغابه، 2 : 362
13. ابن اثير، اسد الغابه، 3 : 487
14. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 106، 174، رقم : 480، 553
15. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 11 : 332، 333، رقم : 31662
16. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 104، 169، رقم : 36340،
17۔ حسام الدین ہندی نے ’کنز العمال(11 : 609، رقم : 32950)‘ میں لکھا ہے : طبرانی نے اس حدیث کو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور بارہ (12) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے روایت کیا ہے۔ اور امام احمد بن حنبل نے اسے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے روایت کیا ہے۔ حاکم نے ’المستدرک‘ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی ہے۔ امام احمد بن حنبل اور طبرانی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ اور تیس (30) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ ابونعیم نے کتاب ’فضائل الصحابہ‘ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے اور خطیب بغدادی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔
حدیث نمبر : 25
عن عمار بن ياسر رضي الله عنه، قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : أوصي من آمن بي و صدقني بولاية عليّ بن أبي طالب، مَن تولاه فقد تولاني و مَن تولاني فقد تولي اﷲ عزوجل و مَن أحبه فقد أحبني، و من أحبني فقد أحب اﷲ عزوجل و من أبغضه فقد أبغضني و من أبغضني فقد أبغض اﷲ عزوجل.
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی اُسے میں ولایتِ علی کی وصیت کرتا ہوں، جس نے اُسے ولی جانا اُس نے مجھے ولی جانا اور جس نے مجھے ولی جانا اُس نے اللہ کو ولی جانا، اور جس نے علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی اُس نے اللہ سے محبت کی، اور جس نے علی سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اُس نے اللہ سے بغض رکھا۔‘‘
1. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 108، 109
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 181، 182
3. حسام الدين هندي، کنز العمال، 11 : 611، رقم : 32958
ہيثمی نے اس حدیث کو طبرانی سے روایت کیا ہے اور اس کے رواۃ کو ثقہ قرار دیا ہے
حدیث نمبر : 26
عن علي عليه السلام أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال يوم غدير خم : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه.
(خود) حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1۔ احمد بن حنبل نے ’المسند (1 : 152)‘ میں یہ روایت صحیح اسناد کے ساتھ نقل کی ہے۔
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 705، رقم : 1206
3. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 604، رقم : 1369
4. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 448، رقم : 6878
5۔ ہیثمی نے اسے ’مجمع الزوائد (9 : 107)‘ میں نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 161، 162، 163
7. ابن کثير، البدايه و النهايه، 4 : 171
8. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 77، 168، رقم : 32950، 36511
حدیث نمبر : 27
عن عبد اﷲ بن بريدة الأسلمي، قال : قال النبيا : مَن کنتُ وليه فإنّ علياً وليه. و في رواية عنه : مَن کنتُ وليّه فعليّ وليّه.
عبد اﷲ بن بریدہ اسلمی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں ولی ہوں تحقیق اُس کا علی ولی ہے۔‘‘ اُنہی سے ایک اور روایت میں ہے (کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) ’’جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 2 : 129، رقم : 2589
2. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 350، 358، 361
3. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 85، 86، رقم : 77
4. عبدالرزاق، المصنف، 11 : 225، رقم : 20388
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 84، رقم : 12181
6۔ ابو نعیم نے ’حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء (4 : 23)‘ میں اسے مختصراً ’مَن کنتُ مولاہ فعليّ مولاہ‘ کے الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے۔
7. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 76
8۔ ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 108)‘ میں اسے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ بزار کی بیان کردہ روایت کے رجال صحیح ہیں۔
9۔حسام الدین ہندی نے ’کنزالعمال (11 : 602، رقم : 32905)‘ میں مختصراً ’مَن کنتُ مولاہ فعليّ مولاہ‘ کے الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے۔
10. مناوي، فيض القدير، 6 : 218
امام حاکم نے اس روایت کو شرطِ شیخین کے مطابق صحیح قرار دیا ہے، اور اس حدیث کو ابو عوانہ سے ایک دوسرے طریق سے سعد بن عبیدہ سے بھی بیان کیا ہے۔ اُنہوں نے ’المستدرک‘ میں بریدہ اسلمی سے ایک اور جگہ (3 : 110، رقم : 4578) بھی اِسی حدیث کو مختصراً بیان کیا ہے۔
حدیث نمبر : 28
متذکرہ بالا حدیث کو دوسرے مقام پر ابن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے الفاظ کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ما بال أقوام ينتقصون عليًّا، من ينتقص عليّاً فقد تنقصني، ومن فارق علياً فقد فارقني، إن عليّاً مني، وأنا منه، خُلق من طينتي و خُلقت من طينة إبراهيم، وأنا أفضل من إبراهيم، ذرية بعضها من بعض واﷲ سميع عليم، . . . و إنه وليکم من بعدي، فقلت : يا رسول اﷲ! بالصحبة ألا بسطت يدک حتي أبايعک علي الإسلام جديداً؟ قال : فما فارقته حتي بايعته علي الإسلام.
ان لوگوں کا کیا ہو گا جو علی کی شان میں گستاخی کرتے ہیں! (جان لو) جو علی کی گستاخی کرتا ہے وہ میری گستاخی کرتا ہے اور جو علی سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوگیا۔ بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں، اُس کی تخلیق میری مٹی سے ہوئی ہے اور میری تخلیق ابراہیم کی مٹی سے، اور میں ابراہیم سے افضل ہوں۔ ہم میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں، اللہ تعالیٰ یہ ساری باتیں سننے اور جاننے والا ہے۔۔ ۔ ۔ وہ میرے بعد تم سب کا ولی ہے۔ (بریدہ بیان کرتے ہیں کہ) میں نے کہا : یا رسول اللہ! کچھ وقت عنایت فرمائیں اور اپنا ہاتھ بڑھائیں، میں تجدیدِ اسلام کی بیعت کرنا چاہتا ہوں، (اور) میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا نہ ہوا یہاں تک کہ میں نے اسلام پر (دوبارہ) بیعت کر لی۔
1. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 49، 50، رقم : 6081
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 128
حدیث نمبر : 29
عن عَمرو بن ميمون، قال ابن عباس رضي الله عنهما : قال (رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم) : من کنتُ مولاه فإنّ مولاه عليّ.
عَمرو بن میمون حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں بے شک اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 331
2۔ ابن ابی عاصم کی ’ کتاب السنہ (ص : 600، 601، رقم : 1351)‘ میں اس روایت کے الفاظ ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَن کنتُ ولیّہ فعلی ولیہ (جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے)۔
3. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 44، 46، رقم : 23
4. حاکم، المستدرک، 3 : 132 – 134، رقم : 4652
5. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 77، 78، رقم : 12593
6. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 119، 120
7. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 174، 175
6. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 156 – 158
نسائی کی بیان کردہ حدیث کی اسناد صحیح ہیں۔
ہیثمی نے کہا ہے کہ اسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور ابو بلج فرازی کے سوا احمد کے تمام رجال صحیح ہیں، جبکہ وہ ثقہ ہے۔
حاکم کی بیان کردہ حدیث کو ذہبی نے صحیح کہا ہے۔
حدیث نمبر : 30
(قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ) ألا! إن اﷲ وليي و أنا ولي کل مؤمن، من کنتُ مولاه فعليّ مولاه.
(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) آگاہ رہو! بے شک اللہ میرا ولی ہے اور میں ہر مؤمن کا ولی ہوں، پس جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔
1۔ حسام الدین ہندی نے اسے ’کنزالعمال (11 : 608، رقم : 32945)‘ میں روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حدیث ابونعیم نے ’فضائل الصحابہ‘ میں زید بن ارقم اور براء بن عازب رضی اﷲ عنہما سے روایت کی ہے۔
2. ابن حجر عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 4 : 328
حدیث نمبر : 31
عن أبي يزيد الأودي عن أبيه، قال : دخل أبوهريرة المسجد فاجتمع إليه الناس، فقام إليه شاب، فقال : أنشدک باﷲ، أسمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعلي مولاه، اللهم! والِ من والاه. فقال : أشهد أن سمعتَ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! وال من والاه، و عاد من عاداه.
ابو یزید اودی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دفعہ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے اردگرد جمع ہو گئے۔ اُن میں سے ایک جوان نے کھڑے ہو کر کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ؟ اِس پر انہوں نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ۔
1. ابو يعلي، المسند، 11 : 307، رقم : 6423
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 68، رقم : 12141
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 175
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 105، 106
5. ابن کثير، البدايه و النهايه، 4 : 174
حدیث نمبر : 32
عن أبي إسحاق، قال : سمعت سعيد بن وهب، قال : نَشَدَ عليّ رضي الله عنه الناس فقام خمسة أو ستة من أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم فشهدوا أنّ رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه.
ابو اسحاق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن وہب کو یہ کہتے ہوئے سنا : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے قسم لی جس پر پانچ (5) یا چھ (6) صحابہ نے کھڑے ہو کر گواہی دی کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 366
2. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 90، رقم : 83
3. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 598، 599، رقم : 1021
4. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 105، رقم : 479
5. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 131
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 160
7. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 127
8. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 104
9۔ ابن کثیر نے ’البدیہ والنہایہ (4 : 170)‘ میں لکھا ہے کہ اس حدیث کی اسناد جید ہیں۔
10. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 462
امام نسائی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
ضیاء مقدسی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
امام ہیثمی نے احمد بن حنبل کے رجال کو صحیح قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 33
عن عميرة بن سعد رضي الله عنه، أنه سمع علياً رضي الله عنه و هو ينشد في الرحبة : مَن سمع رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه؟ فقام ستة نفر فشهدوا.
عمیرہ بن سعد سے روایت ہے کہ اُنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کھلے میدان میں قسم دیتے ہوئے سنا کہ کس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے؟ تو (اِس پر) چھ(6) افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔
1. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 89، 91، رقم : 82، 85
2. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 134، رقم : 2275
3۔ طبرانی کی ’المعجم الصغیر (1 : 64، 65)‘ میں بیان کردہ روایت میں ہے کہ گواہی دینے والے افراد بارہ (12) تھے، جن میں حضرت ابوہریرہ، ابو سعید اور انس بن مالک رضی اللہ عنھم بھی شامل تھے۔
ہيثمي نے يہ روايت ’مجمع الزوائد (9 : 108)‘ ميں نقل کي ہے۔
4. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 132
5۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 159)‘ میں جو روایت عمیرہ بن سعد لی ہے اس میں ہے کہ گواہی دینے والے افراد اٹھارہ (18) تھے۔
6. مزي، تهذيب الکمال، 22 : 397، 398
حدیث نمبر : 34
عن أبي الطفيل، عن زيد بن أرقم، قال : نَشَدَ عليّ الناس : من سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم : ألستم تعلمون أني أولي بالمؤمنين مِن أنفسهم؟ قالوا : بلٰي، قال : فمَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه. فقام أثنا عشر رجلاً فشهدوا بذلک.
ابو طفیل زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے حلفاً پوچھا کہ تم میں سے کون ہے جس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوغدیر خم کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا ہو : ’’کیا تم نہیں جانتے کہ میں مؤمنوں کی جانوں سے قریب تر ہوں؟ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو بھی اُسے دوست رکھ، اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔‘‘ (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس گفتگو پر) بارہ (12) آدمی کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے اس واقعہ کی شہادت دی۔
1. طبراني، المعجم الاوسط، 2 : 576، رقم : 1987
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 106
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 157، 158
4. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 127
5. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 157، رقم : 36485
6. شوکاني، در السحابه : 211
حدیث نمبر : 35
عن سعيد بن وهب و عن زيد بن يثيعث قال : نَشَدَ عليّ الناسَ في الرحبة مَن سمع رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم إلا قام. قال : فقام مِن قبل سعيد ستة و مِن قبل زيد ستة، فشهدوا أنهم سمعوا رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول لعلي رضي الله عنه يوم غدير خم : أليس اﷲ أولي بالمؤمنين؟ قالوا : بلٰي. قال : اللهم! من کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه و عادِ من عاداهُ.
سعید بن وہب اور زید بن یثیعث روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھلے میدان میں لوگوں کو قسم دی کہ جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن کچھ فرماتے ہوئے سنا ہو کھڑا ہو جائے۔ راوی کہتے ہیں : چھ (آدمی) سعید کی طرف سے اور چھ (6) زید کی طرف سے کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ اُنہوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’کیا اللہ مؤمنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے اللہ! جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 118
2. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب : 90، 100، رقم : 84، 95
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 67، رقم : 12140
4. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 69، 134، رقم : 2130، 2275
5. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 65
6. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 105، 106، رقم : 480
7. ابونعيم، حلية الأولياء و طبقات الاصفياء، 5 : 26
8. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 160
9. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 107، 108
10. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 157، رقم : 36485
نسائی کی بیان کردہ دونوں روایات کی اسناد صحیح ہے۔
ہیثمی نے طبرانی کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 36
عن عبد الرحمن بن أبي ليلٰي قال : شهدتُ علياً رضي الله عنه في الرحبة ينشد الناس : أنشد اﷲ مَن سمع رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه. لما قام فشهد، قال عبد الرحمن : فقام إثنا عشر بدرياً کأني أنظر إلي أحدهم، فقالوا : نشهد أنا سمعنا رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم : ألستُ أولي بالمؤمنين من أنفسهم و أزواجي أمهاتهم؟ فقلنا : بلي، يا رسول اﷲ، قال : فمن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه.
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وسیع میدان میں دیکھا، اُس وقت آپ لوگوں سے حلفاً پوچھ رہے تھے کہ جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن ۔ ۔ ۔ جس کامیں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ ۔ ۔ فرماتے ہوئے سنا ہو وہ کھڑا ہو کر گواہی دے۔ عبدالرحمن نے کہا : اس پر بارہ (12) بدری صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کھڑے ہوئے، گویا میں اُن میں سے ایک کی طرف دیکھ رہا ہوں۔ ان (بدری صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم) نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’کیا میں مؤمنوں کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں، اور میری بیویاں اُن کی مائیں نہیں ہیں؟‘ سب نے کہا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ! اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولاہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 119
2. ابو يعلي، المسند، 1 : 257، رقم : 563
3. طحاوي، مشکل الآثار، 2 : 308
4. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 80، 81، رقم : 458
5. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 14 : 236
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 156، 157
7۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 161)‘ میں اسے زیاد بن ابی زیاد سے بھی روایت کیا ہے۔
8۔ محب طبری نے بھی ’الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ (3 : 128)‘ میں زیاد بن ابی زیاد کی روایت نقل کی ہے۔
9. ابن اثير، اسد الغابه، 4 : 102، 103
10. ابن کثير، البدايه و النهايه، 4 : 170
11. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 461، 462
12. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 105، 106
13. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 170، رقم : 36515
14. شوکاني، در السحابه : 209
ہیثمی فرماتے ہیں کہ اسے ابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
حسام الدین ہندی فرماتے ہیں کہ اس روایت کو ابن جریر، سعید بن منصوراور ابن اثیر جزری نے بھی روایت کیا ہے۔
احمد بن حنبل نے یہ حدیثِ مبارکہ ’المسند(1 : 88)‘ میں زیاد بن ابی زیاد سے بھی روایت کی ہے۔ اُسے ہیثمی نے ’مجمع الزوائد(9 : 106)‘ میں نقل کیا ہے اور اُس کے رجال کو ثقہ قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 37
عن عَمرو بن ذي مُرٍ و سعيد بن وهب و عن زيد بن يثيع قالوا : سمعنا علياً يقول نشدت اﷲ رجلاً سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم، لما قام، فقام ثلاثة عشر رجلا فشهدوا أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : ألست أولي بالمؤمنين من أنفسهم؟ قالوا : بلي، يا رسول اﷲ! قال : فأخذ بيد علي، فقال : من کنت مولاه فهذا مولاه، اللهم! وال من والاه، و عاد من عاداه، و أحب من أحبه، و أبغض من يبغضه، و انصر من نصره، و اخذل من خذله.
عمرو بن ذی مر، سعید بن وہب اور زید بن یثیع سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں ہر اس آدمی سے حلفاً پوچھتا ہوں جس نے غدیر خم کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہو، اس پر تیرہ آدمی کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ! راوی کہتا ہے : تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس(علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس(علی) سے محبت کرے تو اُس سے محبت کر، جو اِس(علی) سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ، جو اِس (علی) کی نصرت کرے تو اُس کی نصرت فرما اور جو اِسے رسوا (کرنے کی کوشش) کرے تو اُسے رسوا کر۔‘‘
1۔ ہیثمی نے ’مجمع الزوائد(9 : 104، 105)‘ میں اسے بزار سے روایت کیا ہے اور اس کے رجال کو صحیح قرار دیا ہے، سوائے فطر بن خلیفہ کے اور وہ ثقہ ہے۔
2. بزار، المسند، 3 : 35، رقم : 786
3. طحاوي، مشکل الآثار، 2 : 308
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 159، 160
5. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 158، رقم : 36487
6. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 169، 5 : 462
حدیث نمبر : 38
عن زاذان بن عمر قال : سمعت علياً رضي الله عنه في الرحبة وهو ينشد الناس : من شهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم و هو يقول ما قال، فقام ثلاثة عشر رجلاً فشهدوا أنهم سمعوا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهو يقول : من کنت مولاه فعليّ مولاه.
زاذان بن عمرث سے روایت ہے، آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مجلس میں لوگوں سے حلفاً یہ پوچھتے ہوئے سنا : کس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ اس پر تیرہ (13) آدمی کھڑے ہوئے اور انہوں نے تصدیق کی کہ انہوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 84
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 585، رقم : 991
3. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 604، رقم : 1371
4. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 69، رقم : 2131
5. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 131
6. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 5 : 26
7. ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 313
8. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 107
9۔ ابنِ کثیر نے ’البدایہ و النہایہ (4 : 169)‘ میں زاذان ابی عمر سے نقل کردہ روایت میں کھڑے ہو کر گواہی دینے والے آدمیوں کی تعداد بارہ (12) لکھی ہے۔
10۔ ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (5 : 462)‘ میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے زاذان کی لی ہوئی روایت میں گواہی دینے والے افراد کی تعداد تیرہ (13) لکھی ہے۔
11. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 158، رقم : 36487
12. شوکاني، در السحابه : 211
حدیث نمبر : 39
عن عبد الرحمن بن أبي ليلٰي، قال : خطب علي رضي الله عنه فقال : أنشد اﷲ امرء نشدة الإسلام سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم أخذ بيدي، يقول : ألستُ أولي بکم يا معشرَ المسلمين مِن أنفسکم؟ قالوا : بلي، يا رسول اﷲ، قال : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه، وعادِ مَن عاداه، وانصُر مَن نصره، واخُذل مَن خذله، إلا قام فشهد، فقام بضعة عشر رجلاً فشهدوا، وکتم فما فنوا من الدنيا إلا عموا و برصوا.
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا : میں اس آدمی کو اللہ اور اسلام کی قسم دیتا ہوں، جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن میرا ہاتھ پکڑے ہوئے یہ فرماتے سنا ہو : ’’اے مسلمانو! کیا میں تمہاری جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس(علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس(علی) کی مدد کرے تو اُس کی مدد فرما، جو اِس کی رسوائی چاہے تو اُسے رسوا کر؟‘‘ اس پر تیرہ (13) سے زائد افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی اور جن لوگوں نے یہ باتیں چھپائیں وہ دُنیا میں اندھے ہو کر یا برص کی حالت میں مر گئے۔
1. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 131، رقم : 36417
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 158
3. ابن اثیر کی ’اسد الغابہ (3 : 487)‘ میں ابو اسحاق سے لی گئی روایت میں ہے : یزید بن ودیعہ اور عبدالرحمن بن مدلج گواہی چھپانے کے سبب بیماری میں مبتلا ہوئے۔
حدیث نمبر : 40
عن الأصبغ بن نباتة، قال : نَشَدَ علي رضي الله عنه الناسَ في الرحبة : مَن سمع النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم؟ ما قال إلا قام، ولا يقوم إلا مَن سمع رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول، فقام بضعة عشر رجلا فيهم : أبو أيوب الأنصاري، و أبو عمرة بن محصن، و أبو زينب، و سهل بن حنيف، و خزيمة بن ثابت، و عبد اﷲ بن ثابت الأنصاري، و حُبشي بن جنادة السلولي، و عبيد بن عازب الأنصاري، و النعمان بن عجلان الأنصاري، و ثابت بن وديعة الأنصاري، و أبو فضالة الأنصاري، و عبدالرحمن بن عبد رب الأنصاريث، فقالوا : نشهد أناّ سمِعنا رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : ألا! إنّ اﷲ وليي وأنا ولي المؤمنين، ألا! فمَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ مَن والاه، و عادِ مَن عاداه، و أحبّ مَن أحبه، و أبغض مَن أبغضه، و أعن مَن أعانه.
اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھلے میدان میں لوگوں کو قسم دی کہ جس نے غدیر خم کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہو، وہ کھڑا ہو جائے۔ اس پر تیرہ(13) سے زائد افراد کھڑے ہوئے جن میں ابوایوب انصاری، ابو عمرہ بن محصن، ابو زینب، سہل بن حنیف، خزیمہ بن ثابت، عبداللہ بن ثابت انصاری، حبشی بن جنادہ سلولی، عبید بن عازب انصاری، نعمان بن عجلان انصاری، ثابت بن ودیعہ انصاری، ابوفضالہ انصاری اور عبدالرحمن بن عبد رب انصاری رضی اللہ عنھم تھے۔ ان سب نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا : لوگو! آگاہ رہو! اللہ میرا ولی ہے اور میں مؤمنین کا ولی ہوں، خبردار! (آگاہ رہو!) جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس سے محبت کرے تو اُس سے محبت کر، جو اِس سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ اور جو اِس کی مدد کرے تو اُس کی مدد فرما۔
1. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 3 : 465
2. طحاوي، مشکل الآثار، 2 : 308
3۔ ابن اثیر نے ’اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (2 : 362)‘ میں یعلیٰ بن مرہ سے ایک روایت بیان کی ہے جس میں گواہان میں یزید یا زید بن شراحیل کا بھی ذکر ہے، جبکہ یعلیٰ بن مرہ سے ہی بیان کردہ ایک اور روایت (3 : 137) میں عامر بن لیلیٰ کا ذکر ہے، ایک اور مقام (5 : 282) پر گواہان میں ناجیہ بن عمرو کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
حدیث نمبر : 41
عن زيد بن أرقم، قال استشهد علي الناس، فقال : أنشد اﷲ رجلا سمع النبي صلي الله عليه وآله وسلم يقول : اللهم! من کنتُ مولاه، فعلي مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه، قال : فقام ستة عشر رجلاً، فشهدوا.
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے گواہی طلب کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’اے اللہ! جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ پس اس (موقع) پر سولہ (16) آدمیوں نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 370
2. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 171، رقم : 4985
3. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 125، 126
4. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 127
5. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 461
6. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 106
ہیثمی نے کہا ہے کہ جنہوں نے اس واقعہ کو چھپایا اُن کی بصارت چلی گئی۔
حدیث نمبر : 42
عن عمير بن سعد أن عليا جمع الناس في الرحبة و أنا شاهد، فقال : أنشد اﷲ رجلا سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : من کنت مولاه فعلي مولاه، فقام ثمانية عشر رجلا فشهدوا أنهم سمعوا نبي صلي الله عليه وآله وسلم يقول : ذالک.
عمیر بن سعد سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کھلے میدان میں یہ قسم دیتے ہوئے سنا کہ کس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس کا میں مولیٰ ہوں اُس کا علی مولا ہے؟ تو اٹھارہ (18) افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔
1۔ ہیثمی نے ’مجمع الزوائد(9 : 108)‘ میں یہ حدیث بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اُس کی اسناد حسن ہیں۔
2۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 158)‘ میں عمیر بن سعید رضی اللہ عنہ سے یہ روایت لی ہے جبکہ عمیر بن سعد رضي اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ گواہی دینے والے افراد بارہ (12) تھے۔
3۔ ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (4 : 171، 5 : 461)‘ میں عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ سے جو روایت لی ہے اس میں ہے کہ گواہی دینے والے بارہ (12) آدمی تھے جن میں حضرت ابوہریرہ، ابوسعد اور انس بن مالک رضی اللہ عنھم بھی شامل تھے۔
4. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 154، 155، رقم : 36480
5. شوکاني، در السحابه : 211
حدیث نمبر : 43
عن أبي الطفيل، قال : جمع علي رضي الله عنه الناس في الرحبة، ثم قال لهم : أنشد اﷲ کل امرئ مسلم سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم ما سمع لما قام، فقام ثلاثون من الناس، و قال أبو نعيم : فقام ناس کثير فشهدوا حين أخذه بيده، فقال للناس : أتعلمون أني أولي بالمؤمنين من أنفسهم؟ قالوا : نعم، يا رسول اﷲ! قال : من کنت مولاه فهذا مولاه، اللهم! والِ من والاه و عاد من عاداه، قال فخرجتُ و کأنّ في نفسي شياً فلقيتُ زيد بن أرقم فقلتُ له : إني سمعتُ عليا رضي الله عنه يقول کذا و کذا، قال فما تنکر قد سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول ذلک له.
ابوطفیل سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک کھلی جگہ (رحبہ) میں جمع کیا، پھر اُن سے فرمایا : میں ہر مسلمان کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیرخم کے دن (میرے متعلق) کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے وہ کھڑا ہو جائے۔ اس پر تیس (30) افراد کھڑے ہوئے جبکہ ابونعیم نے کہا کہ کثیر افراد کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ (ہمیں وہ وقت یاد ہے) جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے فرمایا : ’’کیا تمہیں اس کا علم ہے کہ میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر ہوں؟‘‘ سب نے کہا : ہاں، یا رسول اﷲ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا یہ (علی) مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ جب میں وہاں سے نکلا تو میرے دل میں کچھ شک تھا۔ اسی دوران میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ملا اور اُنہیں کہا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔ (اس پر) زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کہا : تو کیسے انکار کرتا ہے جبکہ میں نے خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسا ہی فرماتے ہوئے سنا ہے؟
1۔ احمد بن حنبل نے ’المسند (4 : 370)‘ میں اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 682، رقم : 1167
3. بزار، المسند، 2 : 133
4۔ ابن حبان کی ’الصحیح (15 : 376، رقم : 6931)‘ میں بیان کردہ روایت کی اسناد صحیح اور رجال ثقہ ہیں۔
5. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 603، رقم : 1366
6۔ حاکم نے ’المستدرک (3 : 109، رقم : 4576)‘ میں اسے شیخین کی شرط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔
7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 134
8۔ یہ حدیث مختصر الفاظ سے طبرانی نے ’المعجم الکبیر (5 : 195، رقم : 5071)‘ میں روایت کی ہے۔
9. محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشره، 3 : 127
10. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 156
11. ابن اثیر نے ’اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (6 : 246)‘ میں گواہی دینے والے افراد کی تعداد سترہ (17) ذکر کی ہے۔
12. ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (4 : 171)‘ میں لکھا ہے کہ رحبہ سے مراد کوفہ کی مسجد کی کھلی جگہ ہے۔
13. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 460، 461
14. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 104
15. ابومحاسن، المعتصرمن المختصرمن مشکل الآثار، 2 : 301
16۔ ہیتمی نے ’الصواعق المحرقہ (ص : 122)‘ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تیس صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے روایت کی ہے اور اس کے طرق کی کثیر تعداد صحیح یا حسن کے ذیل میں آتی ہے۔
17. شوکاني، در السحابه : 209
حدیث نمبر : 44
عن رياح بن الحرث قال : جاء رهط إلي علي رضي الله عنه بالرحبة فقالوا : السلام عليک يا مولانا! قال : کيف أکون مولاکم وأنتم قوم عرب؟ قالوا : سمعنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم يقول : من کنتُ مولاه فإن هذا مولاه، قال رياح : فلما مضوا تبعتهم فسألت من هؤلاء؟ قالوا : نفر من الأنصار فيهم أبو أيوب الأنصاري.
ریاح بن حرث سے روایت ہے کہ ایک وفد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور کہا : اے ہمارے مولا! آپ پر سلامتی ہو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا : میں کیسے آپ کا مولا ہوں حالانکہ آپ تو قومِ عرب ہیں (کسی کو جلدی قائد نہیں مانتے)۔ اُنہوں نے کہا : ہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غدیر خم کے دن سنا ہے : ’’جس کا میں مولا ہوں بے شک اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔‘‘ حضرت ریاح رضی اللہ عنہ نے کہا : جب وہ لوگ چلے گئے تو میں نے ان سے جا کر پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ انصار کا ایک وفد ہے، اُن میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 419
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 572، رقم : 967
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 60، رقم : 12122
4. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 173، 174، رقم : 4052، 4053
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 103، 104
6. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 2 : 169
7. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 126
8۔ ابن عساکر نے یہ روایت ’تاریخ دمشق الکبیر‘ میں زیاد بن حارث (45 : 161)، حسن بن حارث (45 : 162) اور ریاح بن حارث (45 : 163) سے لی ہے۔
9۔ ابن اثیر نے ’اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (1 : 672)‘ میں زِر بن حبیش سے روایت کیا ہے کہ بارہ صحابہ کرام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا مولا تسلیم کیا، جن میں قیس بن ثابت، ہشام بن عتبہ اور حبیب بن بدیل رضی اللہ عنھم شامل تھے۔
10. ابن کثير، البدايه و النهايه، 4 : 172
11. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 462
ہیثمی نے اس روایت کے رجال کو ثقہ قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 45
عن عمر رضي الله عنه : و قد نازعه رجل في مسألة، فقال : بيني و بينک هذا الجالس، و أشار إلي عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه ، فقال الرجل : هذا الأبطن! فنهض عمر رضي الله عنه عن مجلسه و أخذ بتلبيبه حتي شاله من الأرض، ثم قال : أتدري من صغرت، مولاي و مولي کل مسلم!
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آپ کے ساتھ کسی مسئلے میں جھگڑا کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے اور تیرے درمیان یہ بیٹھا ہوا آدمی فیصلہ کرے گا ۔ ۔ ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا ۔ ۔ ۔ تو اس آدمی نے کہا : یہ بڑے پیٹ والا (ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا)! حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی جگہ سے اٹھے، اسے گریبان سے پکڑا یہاں تک کہ اسے زمین سے اوپر اٹھا لیا، پھر فرمایا : کیا تو جانتا ہے کہ تو جسے حقیر گردانتا ہے وہ میرے اور ہر مسلمان کے مولیٰ ہیں۔
محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 128
محب طبری نے کہا ہے کہ ابن سمان نے اس کی تخریج کی ہے۔
حدیث نمبر : 46
و عن عمر رضي الله عنه و قد جاء ه أعرابيان يختصمان، فقال لعلي رضي الله عنه : إقض بينهما يا أبا الحسن! فقضي علي رضي الله عنه بينهما، فقال أحدهما : هذا يقضي بيننا! فَوَثَبَ إليه عمر رضي الله عنه و أخذ بتلبيبه، و قال : ويحک! ما تدري من هذا؟ هذا مولاي و مولي کل مؤمنٍ، و من لم يکن مولاه فليس بمؤمن.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس دو بدّو جھگڑا کرتے ہوئے آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے ابوالحسن! ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیں۔ پس آپ رضی اللہ عنہ نے اُن کے درمیان فیصلہ کر دیا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ (کیا) یہی ہمارے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے رہ گیا ہے؟ (اس پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی طرف بڑھے اور اس کا گریبان پکڑ کر فرمایا : تو ہلاک ہو! کیا تو جانتا ہے کہ یہ کون ہیں؟ یہ میرے اور ہر مؤمن کے مولا ہیں (اور) جو اِن کواپنا مولا نہ مانے وہ مؤمن نہیں۔
1۔ محب طبری نے یہ روایت ’ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی (ص : 126)‘ میں بیان کی ہے اور کہا ہے کہ اسے ابن سمان نے اپنی کتاب ’الموافقہ‘ میں ذکر کیا ہے۔
2. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 128
حدیث نمبر : 47
عن عمر أنه قال : عليّ مولي من کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم مولاه.
عن سالم قيل لعمر : إنک تصنع بعليّ شيئا ما تصنعه بأحد من أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، قال : إنه مولاي.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کے مولا ہیں علی رضی اللہ عنہ اس کے مولا ہیں۔
حضرت سالم سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا (امتیازی) برتاؤ کرتے ہیں جو آپ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے (عموماً) نہیں کرتے! (اس پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (جواباً) فرمایا : وہ (علی) تو میرے مولا (آقا) ہیں۔
1. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 128
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 178
حدیث نمبر : 48
عن يزيد بن عمر بن مورق قال : کنت بالشام و عمر بن عبد العزيز يعطي الناس، فتقدمتُ إليه فقال لي : ممن أنتَ؟ قلت : مِن قريش، قال : مِن أي قريش؟ قلتُ : مِن بني هاشم، قال : مِن أي بني هاشم؟ قال : فسکتُ. فقال : مِن أي بني هاشم؟ قلتُ : مولي عليّ، قال : مَن عليّ؟ فسکتُ، قال : فوضع يده علي صدري و قال : و أنا و اﷲِ مولي عليّ بن أبي طالب عليه السلام، ثم قال : حدثني عدة أنّهم سمعوا النبي صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، ثم قال : يا مزاحم! کم تعطي أمثاله؟ قال : مائة أو مائتي درهم، قال : إعطه خمسين ديناراً، وقال ابن أبي داؤد : ستين ديناراً لولايته عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه ، ثم قال : ألحق ببلدک فسيأتيک مثل ما يأتي نظراءک.
یزید بن عمر بن مورق روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر میں شام میں تھا جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ لوگوں کو نواز رہے تھے۔ پس میں ان کے پاس آیا، اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کس قبیلے سے ہیں؟ میں نے کہا : قریش سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ قریش کی کس (شاخ) سے ؟ میں نے کہا : بنی ہاشم سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ راوی کہتے ہیں کہ میں خاموش رہا۔ اُنہوں نے (پھر) پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ میں نے کہا : مولا علی (کے خاندان سے)۔ اُنہوں نے پوچھا کہ علی کون ہے؟ میں خاموش رہا۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہا : ’’بخدا! میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا غلام ہوں۔‘‘ اور پھر کہا کہ مجھے بے شمار لوگوں نے بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ پھر مزاحم سے پوچھا کہ اِس قبیل کے لوگوں کو کتنا دے رہے ہو؟ تو اُس نے جواب دیا : سو (100) یا دو سو (200) درہم۔ اِس پر اُنہوں نے کہا : ’’علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی قرابت کی وجہ سے اُسے پچاس (50) دینار دے دو، اور ابنِ ابی داؤد کی روایت کے مطابق ساٹھ (60) دینار دینے کی ہدایت کی، اور (اُن سے مخاطب ہو کر) فرمایا : آپ اپنے شہر تشریف لے جائیں، آپ کے پاس آپ کے قبیل کے لوگوں کے برابر حصہ پہنچ جائے گا۔
1. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 5 : 364
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 48 : 233
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 69 : 127
4. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 6 : 427، 428
حدیث نمبر : 49
عن الزهري قال : سمعت أباجنيدة جندع بن عَمرو بن مازن، قال : سمعت النبيا يقول : من کذب عليّ متعمداً فليتبوأ مقعده من النار، و سمعته و إلا صُمَّتا، يقول. و قد انصرف من حجة الوداع فلما نزل غدير خُمّ قام في الناس خطيباً وأخذ بيد علي رضي الله عنه، و قال : من کنت وليه فهذا وليه، اللهم! وال من والاه، وعاد من عاداه. قال عبيد اﷲ : فقلت للزهري : لا تحدّث بهذا بالشام، وأنت تسمع ملء أذنيک سب علي رضي الله عنه، فقال : و اﷲ! إن عندي من فضائل علي رضي الله عنه ما لو تحدثت بها لقُتلتُ.
زہری سے روایت ہے کہ ابوجنیدہ جندع بن عمرو بن مازن نے کہا : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔ (اور یہ فرمان) میں نے خود سنا ہے ورنہ میرے دونوں کان بہرے ہو جائیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس لوٹے اور غدیر خم کے مقام پر پہنچے، لوگوں کو خطاب فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام کر فرمایا : جس کا میں ولی ہوں یہ (علی) اُس کا ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ عبیداللہ نے کہا : میں نے زہری سے کہا : ایسی باتیں ملک شام میں بیان نہ کرنا ورنہ تو وہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں اتنی باتیں سنے گا کہ تیرے کان بھر جائیں گے۔ (اس کے جواب میں) اِمام زہری نے فرمایا : خدا کی قسم! حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اِتنے فضائل میرے پاس محفوظ ہیں کہ اگر میں اُنہیں بیان کروں تو مجھے قتل کر دیا جائے۔
ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 1 : 572، 573
حدیث نمبر : 50
عن عَمرو بن العاص رضي الله عنه، قال : سئله رجلٌ عن عليّ رضي الله عنه، قال : يا عَمرو! إنّ أشياخنا سمعوا رسولَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، فحق ذلک أم باطل؟ فقال عمرو : حق و أنا أزيدک : إنه ليس أحد من صحابة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم له مناقب مثل مناقب عليّ.
حضرت عَمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن سے کسی شخص نے پوچھا : اے عمرو! ہمارے بزرگوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ یہ بات درُست ہے یا غلط؟ عمرو نے کہا : درست ہے، اور میں آپ کو مزید بتاؤں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کسی کے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے مناقب نہیں ہیں۔
ابن قتيبه دينوري، الامامه والسياسه، 1 : 113
حدیث نمبر : 51
عن علي رضي الله عنه قال : عمّمني رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم بعمامة سدلها خلفي، ثم قال : إن اﷲ عزوجل أمدني يوم بدر و حنين بملائکة يعتمون هذه العمة، فقال : إنّ العمامةَ حاجزةٌ بين الکفر و الإيمان.
(خود) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن ایسے عمامے سے میری دستار بندی کروائی اس کا شملہ پیچھے لٹکا دیا پھر فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے بدر و حنین میں (جن) فرشتوں کے ذریعے میری مدد کی، اُنہوں نے اِسی ہیئت کے عمامے باندھ رکھے تھے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’بیشک عمامہ کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والا ہے۔‘‘
1. طيالسي، المسند : 23، رقم : 154
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 10 : 14
3. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 15 : 306، 482، رقم : 41141، 41909
حسام الدین ہندی نے کہا ہے کہ اِس حدیث کو طیالسی کے علاوہ بیہقی، طبرانی، ابن ابی شیبہ اور ابن منیع نے بھی روایت کیا ہے۔ حسام الدین ہندی نے ’انّ العمامۃَ حاجزۃٌ بین المسلمین و المشرکین‘ کے الفاظ کا اِضافہ کیا ہے۔
عبدالاعلیٰ بن عدی سے بھی یہ روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور اُن کی دستاربندی فرمائی اور دستار کا شملہ پیچھے لٹکا دیا۔ یہ حدیث درج ذیل کتب میں ہے :
1. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 3 : 170
2. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 194
3. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 6 : 272

 

    WordPress › Error

    There has been a critical error on this website.

    Learn more about troubleshooting WordPress.