Archive for the ‘تصوف و طریقت’ Category

حضرت سائیں کے مُرید کا وہابی کو آگ پر مباحلہ کا چیلنج (محمد پناہ ٹوٹانی)

panah

یہ کہانی ہے اُس سالکِ راہ خدا کی جو ایک معمولی سا ٹریکٹر چلانے والا ہےاور ذات کا ٹوٹانی ہے اور جو کسی بھی علم سے ناواقف تھا لیکن اس کا ایمان تھا کہ جو ہمارے مُرشد کریم فرماتے ہیں وہی حق ہے اور یہ واقعہ جو میں اب لکھنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں اس واقع کو میں ایک ویڈیو سے سُن کر لکھ رہا ہوں۔ یہ واقعہ 1998 میں لاڑکانہ کے قریب ایک گاؤں ‘وارا’ میں پیش آیاجہاں حضرت سائیں حسین شاہ دامت برکاتہم العالی کے ایک مُرید نے وہابی عقیدہ رکھنے والے ہارون کو مباحلہ کی دعوت دی اوراللہ تبارک و تعالٰی نے بے شمار لوگوں کے سامنے اس کو گستاخی رسولﷺکرنے پر اُسکی سزا (جو آخرت میں ان بدنصیبوں کا نصیب ہے) کی جھلک دکھلادی اور اللہ کے حبیب محمد ﷺ سے محبت کرنے کا نتیجہ بھی دکھلا دیا کہ محمد ﷺ کے غلاموں کا آگ بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ انشاء اللہ عزوجل۔

محمد پنا ہ ٹوٹانی فرماتے ہیں ۔۔۔۔ میرا نام محمد پناہ ہے ہمارے علاقے کا نام محمد ملوح ہے۔ میں ٹریکٹر کا ڈرائیور ہوں۔ شہر میں ۳ ، ۴ دن کام کرنے کے لیئے آیا تھا ٹرالی کے ساتھ مٹی بھرنے کے لیے ۔ وارا کے قریب ایک گاؤں میں میرا گزر ہوا تو وہاں ہارون نامی شخص موجود تھا اس کی داڑھی دیکھ کر مجھے گمان گزرا کہ یہ کوئی ہمارے مرشد کا مُرید ہوگا کیوں کہ ساری دنیا میں حضرت سائیں کے بے شمار مُرید ہوتے ہیں تو اس نے مجھے روکا اور کہا مجھے بھی آگے جانا ہے تو میں نے اس کو کہا کہ پیچھے والی ٹرالی میں بیٹھ جاؤ۔ ہارون بھی وہاں ٹرالی ہی کا کام کرتا تھا تو میری ٹرالی میں میرے ساتھی مزدورں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ جب اس کا اسٹاپ آیا تو اس نے اُترنے کو کہا تو میں نے ٹریکٹر روک دیا اور وہ اُتر کر جانے لگا۔ میرے ساتھی مزدوروں نے بتایا کہ یہ ہمارے مدینے والے سائیں ﷺ کے علم غیب و حاضر ناظر شان کا انکار کررہا تھا اور یہ منافق ہے تومیں نےکہا کہ یہ ہمارا کیا کرے گا۔ تو دوسروں نے کہا کہ کرے گا تو کچھ نہیں لیکن اس نے شان اقدس ﷺ کا انکار بھی کیا ہے اور ساتھ ساتھ بدتمیزی بھی کی ہے۔ تو میں نے کہا کہ ان جیسے منافقوں کا یہی کام ہوتا ہے لعنت بھیجو۔

یہ کہہ کر میں نے اپنے ٹریکٹر کا کلچ دبایا اور سلف دیا اور گیر لگایا تو جب کلچ چھوڑا تو میری گاڑی چل ہی نہیں رہی تھی بہت کوشش کی لیکن وہ چلنے کو تیار ہی نہ ہوئی تو میرے دل میں خیال ہوا کہ شاید قدرت چاہتی ہے کہ مجھے اس سے بات کرنی چاہیے ۔ یہ سوچ کر میں اُترا اور اس سے ملا تو کہنے لگا کہ تم ابھی تک گئے نہیں ؟۔ میں نے اس سے کہا کہ تم میری گاڑی میں بیٹھ کر کیا کہہ رہے تھے کہ مدینے والے سائیں ﷺ کو علمِ غیب بھی نہیں ہے اور تم نے ان کی شان میں بدتمیزی بھی کی ہے۔ وہ کہنے لگا کہ بدتمیزی کی بات نہیں کی لیکن مدینے والے سائیں کو علم غیب بھی نہیں ہے اور نہ ہی وہ حاضر ناظر ہیں ۔ ہارون نے دلیل کے طور پر قرآن کی آیتیں پڑھنی شروع کردیں ۔ میں کوئی عالم نہیں ہوں لیکن میرے مرشد کا دیا ہوا اس حلیہ سے لوگوں کو ظاہر ہوتا ہے کہ میں عالم ہوں۔ داڑھی اور امامہ جو تم دیکھ رہے ہو میرے پاس علم کوئی نہیں ہے یہ بس مرشد کی مہربانی ہے اور آقا علیہ صلوٰۃ والسلام کی محبت ہے ۔ میں نے خواب کےعالم میں مرشد سے کچھ آیتیں یاد کی تھیں جو کہ میرے مرشد کی کرامت ہے اور میں قرآن پاک زیادہ پڑھا نہیں ہوں ورنہ تجھے اس آیت کا جواب قرآن کی آیت میں دے دوں میں نے وہ آیتیں اس کو سنائیں ۔

میں نے اس سے کہا کہ تم مدینے والے سائیں ﷺکے علم ِ غیب کے بارے میں انکار کرتے ہو میں تجھے کیا کروں ۔ پھر وہ بہت سی آیتیں پڑھنے لگا علم غیب کے انکار میں ۔ میں نے اس سے کہا کہ قرآن الحمد سے والناس تک سارا کلامِ پاک شان ِ رسول ﷺ سے بھرا ہوا ہے۔ تم اس میں سے شان کے بارے میں پڑھ کر نہیں سُناتے ہو تو میں تمہارا کیا کروں۔ وہ کہنے لگا کہ تم مانتے نہیں ہو اور کہتے ہو کہ اُنکو علمِ غیب بھی ہے اور وہ حاضر ناظر بھی ہیں۔ بات یہ ہے کہ تم لوگ بدعتی ہو حالانکہ مدینے والے سائیں ﷺ کو دیوار کے پیچھے کی بھی کوئی خبر نہیں ۔  معاذ اللہ۔

حالات بدل گئے پتہ نہیں کیا ہوگیا تھا مجھے ۔ میرا سینا ایسا کھُل گیا تھا کہ میں نے اس سے کہا کہ تم کہہ رہے ہو کہ مدینے والے سائیں ﷺ کو علم غیب نہیں اور دیوار کے پیچھے کا علم نہیں ۔ بالکہ جو تُو نے پچھلے آٹھ 8 دن کے دوران جو کھانا کھایا ہے میں تجھے بتاؤں؟۔۔۔۔۔  میرے مُرشد کی مہربانی تھی میرا کچھ بھی نہیں بس ان کی نظر سے میرا سینا کھل گیا ۔ وہ کہنے لگا کہ تم جو کچھ بھی کہو لیکن قرآن پاک میں مدینے والے سائیں ﷺ علم کے بارے میں کچھ لکھا ہی نہیں ہے ایسا۔ میں نے دلیل کے طور پر کہا کہ اوّل تا آخر سارا علمِ قائنات قرآن پاک میں ہے اور سارا قرآن پاک میرے آقا ﷺ کے سینے پر ناز ل ہوا ہےقلب اطہر پر ۔ تو وہ سارا علم ِ غیب جو قرآن میں ہے وہ بھی اللہ پاک نے ہمارے آقا ﷺکو عطاء کیا ہے۔ میں نے کہا علم ِ غیب اللہ پاک نے نبی ﷺکو دیا ہے تو وہ کہنے لگا کہ قرآن پاک میں ایسا لکھا ہی نہیں ہے۔ میں نے کہا میں بھی مسلمان ہوں تم بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو ۔ ایسا کرتے ہیں کہ آگ لگاتے ہیں دونوں اس میں جاتے ہیں جو سچا ہوگا وہ صحیح سلامت نکلے گا اور جھوٹا ہوگا وہ جل کر نکلے گا۔ وہ کہنے لگا کہ آگ میں مومن نہیں جاتا کافر جاتے ہیں ۔

میں نے کہا کہ تم کہہ رہے ہو کہ تم مومن ہو تو تمہیں آگ کچھ نہیں کہے گی اور میں کہہ رہا ہوں کہ میں مومن ہوں تو آگ مجھے کچھ نہیں کہے گی۔ تم کہتے ہو میں بدعتی ہوں اور میں کہہ رہا ہوں کہ تم بدعتی ہو پتا کیسے چلے کا کہ کون اصل میں بدعتی ہے ۔ جس ٹریکٹر پر وہ ہارون کام کرتا تھا اچانک وہ ٹریکٹر بھی وہاں آگیا جس میں ہاروں کے اپنے چچا ، ماسڑا اور بقیہ کچھ رشتے دار بیٹھے تھے وہ یہ سمجھے کہ یہ لوگ ہمارے بندے سے لڑائی کر رہے ہیں وہ دوڑ کر پہنچے اور پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے تو میں نے اُن کو بتایا کہ یہ آپ کا بندہ مدینے والے سائیں ﷺ کے علم غیب اور حاضر و ناظر کا انکار کرتا ہے ۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کے پاس ماچس ہے تو اُس نے کہا ہاں ہے تو میں نے کہا آگ پرمباحلہ کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگا کہ یہ نہ کرو آپ آگ کو چھوڑو ۔ میرے سامنے بھی ہاتھ جوڑے اور ہارون کے سامنے بھی ہاتھ جوڑے کہ خدا کے لیے ایسا نہ کرو۔ پھر وہ ہارون کو لے کر اپنی گاڑی پر سوار ہوئے اور چل دیئے۔

جب وہ جانے لگے تو ہم نے نارا حیدری لگایا وہ لوگ رُک گئے اور ہمارے پاس آ کر کہنے لگے کہ ہاں اب تم بدعتی ہوگئے۔ تم نے علی کے نارے لگائے ہیں تم تو بدعتی مشرک ہوگئے آؤ اب میں تمہیں آگ میں جلاتا ہوں۔ میں نے کہا آگ میں جاتے ہیں اور خدا کی قسم مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آگ میں جانے سے پہلے کیا پڑھتے ہیں مجھے تو صرف یہی معلوم تھا کہ صلوٰۃ ولسّلام پڑھ کر آگ میں جاؤں گا۔ ہارون نے اپنا رومال سر سے اُتار کر اپنے گردن میں باندھا اور قرآن کی آیتیں اور نوافل پڑھےلگا میں بیٹھ کر اُسی کو دیکھتا رہا۔ میں کہنے لگا کہ یہ کیا کررہا ہے تو میں بھی اُٹھا اور اس کو دیکھ کر نماز پڑھنے شروع ہوگیا۔ میں نے بھی دو نفل پڑھے۔ پھر سوچا کہ نمازپڑھ کر کیا کروں گا نماز تو قبول ہی اُس وقت ہوتی ہے جب رسول اللہ ﷺ کی محبت ہوگی۔

اس کو کیا دیکھوں۔ میں نے دل میں سوچا کہ میں وہ کام کیوں نہ کروں جو اللہ تعالٰی اور اسکے ملائکہ بھی کر رہے ہیں۔ میں نے صلوٰۃ والسلام پڑھنا شروع کردیا۔ پھر اپنے پروردگار سے دعاء کی یا اللہ میں کچھ بھی نہیں ہوں میں تو ایک ناپاک نطفے کا قطرہ ہوں میں کچھ بھی نہیں۔ میں تو ایک گناہگار ہوں یااللہ مجھ پر کرم کیجئے نہ مجھ میں کوئی علم ہے نہ ہی مجھ میں کوئی اہلیت ہے۔ مدینے والے سائیں ﷺ کو پُکارا یا رسول اللہ ﷺ اُنظر حالنا—-يا حبيب الله اسمع قالنا—- انني في بحر هم مغرق —-خذ يدي سهل لنا اشكالنا ۔۔ پھر میں نے کہا یارسول اللہ ﷺ اگر آپ حاضر و ناظر ہیں تو آئیے مجھے بچائیے۔ آئیے مجھے بچائیے۔

پھر سامنے میں نے دیکھا کہ میرے سامنے گنبد خضرا تھا ۔ یہ تصّور بالکل سامنے آیا میں سامنے دیکھتا رہا۔ روضہ رسول ﷺ کو دیکھ رہا تھا اور جب آسمان پر دیکھا تو اس کا رنگ ایسا تھا جیسے سبز رنگ کا ہو۔ میرا ایمان اور بھی مضبوط ہوا ۔ میں نے خوشی میں کہا کہ حضور ﷺ آگئے ہیں اور پھر میں نے اپنے مرشد کو پکارا مرشد حسین ، رہبر حسین آئیے اور میری مدد کیجئے ، مرشد کامل میں نے آپ کا دامن پکڑا ہے آپ میری مدد کیجئے۔ تو میں نے دیکھا سامنے میرے مرشد بھی آگئے ۔ آگ جلائی گئی اور وہ ہارون نفل اور قرآن پڑھ کر اپنے آپ پر دم کرنے لگا۔ جب وہ اُٹھا تو میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تو اُس نے کہا کہ پہلے تم جاؤ گے تو میں کہا کہ دونوں اکھٹے جاتے ہیں۔ تو کہنے لگا کہ تم پہلے جاؤ۔

اتنے میں میرے کانوں میرے مُرشد کی آواز آئی کہ بیٹا آپ گبھرا ؤ نہیں میں آپ کے ساتھ ہوں۔ میں جب آگ میں گیا تو کچھ دیر آگ میں رہا تو آگ بجھ گئی، میں نے کہا کہ یہ آگ تو بجھ گئی ہے اس کے چاروں طرف آگ لگائی جائے۔ پھر لوگوں نے چاروں طرف سے آگ لگائی اور پھر میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر آگ میں گیا ۔ جب ہم دونوں آگ میں پہنچےتو آگ نہ مجھے جلاتی رہی تھی اور نہ ہی اسکو جلارہی تھی۔ وہ کبھی ادھر جاتا کبھی اُدھر جاتا اور باھر جانے کی کوشش بھی کرتا تھا۔ میں بہت حیران تھا کہ آگ نہ اسکو جلاتی ہے اور نہ مجھے جلاتی ہے ۔ اچانک تصوّر میں مجھے مرشدکریم کی آواز آئی کہ بیٹا اس نمرود کا ہاتھ چھوڑئیے آپ سے اُس کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ جیسے ہی میں نے اس کا ہاتھ چھوڑ ا تو آگ نے اس پر حملہ کردیا اور صرف 2 یا 3 سیکنڈ میں اُس وہابی کا بُرا حال ہوگیا اور وہ بھاگ کر باہر نکلا ۔ تو میں بھی اُسکے پیچھے باہر نکلا۔ جس سائیڈ پر میرا ہاتھ تھا اسکی وہ طرف والی سائیڈ نہیں جلی اور دوسری والی سائیڈ سے داڑھی ، چہرا اور ہاتھ اور ٹانگ جل گئی ۔ مجھے دیکھ کر اُس کےرشتے دار کہنے لگے کہ یہ تو جلا ہی نہیں ۔۔۔ یہ سن کر مجھےزوردار جزب کی کیفیت طاری ہوئی تو میں چھلانگ لگا کر پھر آگ میں گھس گیا اور بہت دیر تک اُسی میں رہا ۔ سبحان اللہ
جب محمد پنا آگ سے نکلا تو وہاں موجود لوگ حیران رہ گئے کہ اس کے ہاتھ پاؤں داڑھی اور کپڑے نا صرف سلامت تھے بالکہ نور کی طرح چمکنے لگے تھے اور وہاں موجود لوگوں نے یہ دیکھ کر اُس کو کندھوں پر اُٹھا لیا اور نارے لگا تے ہوئے چل پڑے اور دوسری طرف وہ وہابی ابو لہب کی اولاد جو کہ بُری طرح جل چکا تھا اس کو اُسکے رشتے دار ہسپتال لے کر بھاگے۔
سبحان اللہ حق کی فتح ساری دنیا کے سامنے آشکار ہوگئی ۔ جب 1998 میں یہ واقع اخبارات میں چھپا تو میں نے اس وقت تک حضرت قبلہ سید غلام حسین شاہ بخاری نقشبندی دامت برکاتہم العالی کے دست پاک پر بیعت نہیں کی تھی لیکن اُس خبر کو ہم نے اپنی مسجد کے بوڑد پر بھی چسپا کیا اور اس کا خوب چرچا کیا کیوں کہ ہمیں حقانیت کی ایک زندہ جاوید دلیل مل گئی تھی ۔ پاکستان کی تمام اہلسنت مساجد میں اس واقعے کا چرچا ہونے لگا اور بہت سے علماء نے اس بات کی تصدیق کرنے کی خاطر وہاں کا سفر بھی کیا اور پھر اس تصدیق کے ساتھ سارے علماء اپنے مسلک کے حق ہونے پر ایک اور دلیل بیان کرنے لگے۔ الحمد للہ اس واقعہ کو آج تک وہابی بھی تسلیم کرتے ہیں کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو وہ اس خبر کے خلاف ہمیں جھوٹا ثابت کرنے کی آڑ میں خوب جلسے جلوس نکالتے اور اور ہارون کو سامنے لا کر کہتے کہ دیکھو یہ اہلسنت والے جھوٹ بیان کرتے ہیں۔ اس حق کو ناصرف وہ مانتے ہیں اور بالکہ اس کے خلاف بات بھی نہیں کرتے کیوں کہ انکو معلوم ہے کہ اس بات کے گواہ بے شمار موجود ہیں کس کس کو وہ منہ دیں گے۔

امام احمد رضا کیا خوب فرماتے ہیں۔

آج لے اُنکی پناہ ، آج مدد مانگ اُن سے

  کل نہ مانیں گے ، قیامت میں اگر مان گیا

news of panah

 

 

 

 

 

 

 

 

بچہ مرتے مرتے جی اُٹھا

کچھ دن پہلے میری ملاقات ایک پیر بھائی سے ہوئی جو کہ حضرت قبلہ مرشد کریم سید غلام حسین شاہ بخاری دامت برکاتم العالیہ کے جلسوں میں جھنڈے اور اسٹیکر کے فروخت کا کام کرتے ہیں انہوں نے ایک نہایت ہی ایمان افروز واقع ، کرامت بتائی جسکے وہ خود چشم دید گواہ ہیں

بتاتے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں حضرت قبلہ مرشد کریم دعوت پر تشریف لائے تھے اور واپسی پر ہم حضرت کی گاڑھی کے پیچھے والی گاڑی میں سوار حضرت کو رخصت کرنے جا رہے تھے کہ راستے میں ایک پُل پر ایک بچہ حضرت مرشد کریم کی گاڑی کے نیچے آگیا جس پر ہم سب رک گئے اور گاؤں کے بہت سے لوگ بھی وہاں ہجوم کی صورت میں جمع ہوگئے۔ حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ اس کو اپنی گاڑی میں لے کر چلو اس کو ہسپتال لے کر چلتے ہیں۔ لیٰذا ہم وہاں سے روانہ ہوئے تو بچہ میری گود میں تھا اورایسا لگ رہا تھا کہ بس موت کے بہت قریب ہے ہم ابھی ۱۰ کلو میٹر ہی چلے تھے کہ حضرت کی گاڑی رُکی اور آپ گاڑی سے اُتر کر ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ بچے کا کیا حال ہے ہم نے بتایا کہ حضرت سانس لے رہا ہے ۔ چناچہ پھر روانہ ہوگئے ابھی کچھ ہی فاصلہ تے کیا تھا کہ حضرت کی گاڑی پھر رُکی اور ہمارے پاس تشریف ہائے اور پوچھا کہ بچے کا کیا حال ہے تو ہم نے بتایا کہ اب کچھ ہل جل رہا ہے ۔ پھر ہم وہا ں سے روانہ ہوئے تو کچھ فاصلہ تہے کرنے کے بعد پھر رُکے اور ہم سے دریافت کیا کہ بچے کا اب کیا حال ہے تو ہم نے بتایا کہ اب بہتر ہے ۔ پھر وہاں سے روانہ ہوئے تو شہر کے قریب ہی تھے کہ حضرت قبلہ پھر رُکے اور ہمارے پاس تشریف لائے اور پوچھا کہ اب کیا حال ہے تو ہم نے خوش ہو کر بتایا کہ حضرت یہ تو بالکل ہی ٹھیک ہوچکا ہے۔

وہاں رُکے ہوئے تھے تو ایک قوم کا سردار بھی آن پہنچا اور حضرت سے ملاقات کے بعد رُکنے کی وجہ پوچھنے لگا تو حضرت قبلہ مرشد کریم نے بتایا کہ یہ بچہ ہماری کار سے زخمی ہوگیا تھا اور ہم اسکو ہسپتال لے کر جارہے تھے لیکن اللہ کے فضل سے یہ بچہ خود ہی ٹھیک ہوگیا۔

پھر حضرت قبلہ مرشدکریم نے اس کو بہت سے پیسے بھی دیئے اور اس وڈیرے نے بھی خوشی سے اس بچے کو پیسے دیئے تو ہم کو مرشد کریم نے حکم فرمایا کہ اس بچے کو اس کے گھر چھوڑ آؤ اور اسکے والدین کو بتانا کہ اس کے پاس بہت سے پیسے ہیں انکو سنبھال لیں کہیں بچے ضائع نہ کردے اسکی دیکھ بھال میں کام آئیں گے اور ان سے کہنا کہ بچے کے ساتھ سارے گھر والے درگاہ پر ملنے آئیں۔ جب ہم اس بچے کے والدین کے گھر پہنچے تو ان لوگوں نے بتایا کہ ہم دل سے اس معاملے پر راضی تھے اور حضرت مرشد کریم کے لیے دعا گو تھے اور ہمارا بچہ سائیں پر قربان ہے۔

سبحان اللہ کیا شان ہے ہمارے مرشد کریم کی کہ راستے میں ہی بچے کو پہلے جیسا ٹھیک کرڈالا ۔

اولیاء اللہ کی مہربانیاں

12684_305095339591231_1629400539_n

میرے مرشد کریم حضرت قبلہ سید غلام حسین شاہ بخاری مدظلہ العالی شہنشاہ ولایت ، غوث الاعظم ، مجدد ِ دوراں کہ جن سے فیض حاصل کرنے والوں میں اولیاء ، علماء اور عام لوگ شامل ہیں کہ ہر وقت حضرت قبلہ کی درگاہ ِ عالیہ پر میلے کا سا سماء بندھا رہتا ہے۔ میں نے تو یہی دیکھا ہے کہ حضرت کے ہاں دو بہر ہمہ وقت جاری ہیں ایک شریعت کا اور دوسرا طریقت کا اور جو جس طلب میں وہاں جاتا ہے سب پاتا ہے۔تقوہ اور عاجزی میں آپ کا کوئی ثانی نہیں اس دور میں اور اگر میں یہ کہوں کے آپ امام المتقین ہیں تو یہ بے شک کہنا حق ہی ہے ۔ آپ کی شان تو آپ کو دیکھنے ہی سے ظاہر ہوجاتی ہے کہ اس قدر آپ کے چہرے پر نورانیت ہے کہ گویا نور کی مانند آفتاب روشن ہو۔ایک شیخ الحدیث سے میری ملاقات مدینہ منورہ پاک میں مسجد نبوی ﷺ کے اندر ہوئی تو میں نے جناب سے پوچھا کہ ہمارے مرشد کریم بھی یہاں آج کل تشریف فرما ہیں کیا آپ کی ملاقات ہوئی اُن سے ؟ تو فرمانے لگے کہ ابھی کچھ لمحے پہلے ہی ہوئی تھی اور میں بہت خوش ہوں ۔ انکے چہرے پر خوشی کہ آسار جھلک رہے تھے اور مسکراتے ہوئے اور جوش و جزبے کے ساتھ بتانے لگے کہ آپ کے مرشد کے چہرے میں اللہ نے ناجانے کیا شان پوشیدہ رکھی ہے کہ جو انکو دیکھتا ہے دیکھتا ہی رہ جاتا ہے ۔ سبحان اللہ۔

سن ۲۰۱۲ کے مارچ کے مہینے میں میرے ساتھ ایک بہت ہی عالیشان کرامت پیش آئی وہ آپ کو بھی سناتا ہوں ۔ مارچ کے مہینے میں حضرت قبلہ مرشد کریم عمرےکے لیئے روانہ ہوئے تو میری بہت کوشش تھی کہ میں بھی حضرت کے ساتھ وہاں کی حاضری کاشرف حاصل کروں چناچہ میں نے ہر ممکن کوشش کر کے عمرے کا ویزہ حاصل کرلیا اور آخر کار میں عمرہ کر کے دوسرے دن ہی مدینے کا مسافر بن گیا ۔ دوپہر کو میں کھانا کھا کر ایک دوست کی مدد سے ایک کار میں سوار ہوا جو کہ سواری کے حساب سے لوگوں کو مدینہ لے کر جاتے ہیں اور ہمارا سفر شروع ہوا جب میں مدینے پہنچا تو وہ لوگ سیدھے مسجد نبوی ﷺ کی طرف جانے لگے تو میرے دل میں خیال آیا کہ پہلے حضرت سائیں مرشد کریم کے ہوٹل جا کر ان کے ساتھ حاضر ی کا شرف حاصل کروں۔ تو میں مسجد سے کچھ پہلے ہی کار سے اُتر گیا اور میں نے اُترتے ہی واپس پلٹا اور بنگالی پاڑے کی جانب روانہ ہوا ۔ ابھی روڈ کراس کر کے جیسے ہی میں فوٹپاتھ پر پہنچا تو ایک شخص کھڑا تھا جو مجھ سے پوچھنے لگا کہ بھائی آپ کو ہوٹل چاہیے تو میں نے کہا نہیں تو کہنے لگا کہ سستا ہوٹل دلوادیتا ہوں میں نے کہا مجھے نہیں چاہیے تو کہنے لگا کس کو تلا ش کررہے ہو میں نے کہا میں اپنے مرشد کو تلاش کر رہا ہوں ۔ اس پر اُس نے دوبارہ پوچھا کیا آپ سائیں قمبر والے کو تلاش کر رہے ہو؟ میں خوش اور حیران ہوگیا کہ جی بھائی میں اُنہیں کو تلاش کرنے نِکلا ہوں تو کہنے لگا کہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ کہاں ٹھرے ہوئے ہیں پھر تھوڑا آگے چل کر کہتا ہے کہ وہ سامنے جو ہوٹل ہے اس میں ٹھرے ہوئے ہیں قبلہ حضرت سائیں۔ میں بہت خوش ہوگیا کہ پچھلی بار تو بہت تلاش کرنا پڑھا تھا لیکن اب کی بار تو بہت آسانی سے مل گیا۔بڑی مہربانی ہوگئی مجھ پر ۔

      چناچہ میں چلتے چلتے جب وہاں پہنچا تو جیسے ہی میں پارکنگ کے راستے ہوٹل میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں حضرت سائیں باہر تشریف لا رہے ہیں ۔ میں نے بڑھ کر حضرت سائیں کے قدم چھوئے اور دست مبارک کا بوسا لیا تو حضرت سائیں نے میرے چہرے پر بوسا دیا اور فرمایا کہ بیٹا آپ ہمارے ساتھ ہی رہو تو میں خوش ہوگیا اور انہوں نے فرمایا جاؤ اپنا سامان رکھ کر آؤ ہم نماز کے لیے جارہے ہیں میں نے فوراً تیاری کی اور حضرت سائیں کے ساتھ مسجد روانہ ہوگیا ۔ نماز ادا کرنے سے پہلے حضرت تشریف فرما تھے کہ مجھے اپنے پاس بُلایا اور پوچھا کہ یہ بتاؤ آپ کو کس نے بتایا کہ میں اس ہوٹل میں ٹھرا ہوا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے پوری بات بتائی تو حضرت انتہائی مسرت اور مہربانی کے انداز میں مسکرائے اور میرے دل میں یہ بات روشن فرمادی اور میرا دل گواہی دینے لگا کہ یہ تو حضرت نے ہی بندہ کھڑا کیا تھا اپنے اس گناہگار غلام کے لیئے۔ سبحان اللہ کیا شان ہے میرے مرشد کی کہ ہر جگہ اور ہروقت اپنے غلاموں پر نظر فرماتے ہیں اور ہر مشکل میں دستگیری فرماتے ہیں۔

خدا کی قسم اللہ نے ہمیں اپنے ایسے دوست سے ملا دیا ہے کہ ہر فقیر اپنے مرشد کی کرامات کا مشاہدہ کر کے یقین کی بلندیوں پر پہنچا ہے اور ایک بات جو میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ علماء جو سابقہ زمانے کے اولیاء کی کرامات ممبر وں پر بیٹھ کر بیان کرتے ہیں اللہ کے جلال کی قسم ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ان کا یقین صرف علم تک محدود ہے اور ہم ظاہری طور پر مشاہدہ کرتے ہیں۔
کچھ لوگ اپنے مرشد کے بارے میں صرف کرامات بیان کرتے ہیں لیکن ان میں سے اکثریت نے کبھی کرامات کو دیکھا نہیں ہوتا اور اس در کی کیا بات ہے کہ کوئی بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے خود کرامت کا مشاہدہ نہ کیا ہو۔

ایک فقیر کا سفر رائے ونڈ سے قمبر تک

Murshid Hussain

زندگی گردش ِ ایام اور تغّیر و تبدّل کا نام ہے ۔ ہزاروں محفلیں جمتی ہیں اور ہزاروں حلقہ یاراں بنتے ہیں ۔ اسکول کا دور ، کالج کا زمانہ اور پھر یونیورسٹی کی دلفیرب ذندگی۔ کتنے ہیں لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اور کتنے ہی آئینہِ چشم سے گزر کر دل کی لوح پر ثبت ہوجاتے ہیں۔

جب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو نئے تعلقات کی شروعات ہوئیں ۔ بہت سے لوگ رویّوں کے ترازو سے گزر کر دوستی کی نہج پر پہنچے۔ ان ہی میں میرے ایک دوست محمد علی بھی تھے۔ نہایت ملنسار ، خوش طبع اور بااخلاق مگر مسلکی طور پر دیوبندی اور تبلیغی جماعت کے کارکن ۔ مسلکی تضاد کے باوجود ہماری دوستی ہوگئی۔ جب دوستی کے مراسم مضبوط ہوئے تو دل میں اس کی بھلائی اور آخرت کی فکر بھی زور پکڑتی گئی۔ مزید یہ کہ ۲ سال بعد ہم نے ایک ہی میجر سبجیکٹ منتخب کیا۔ یوں ہماری دوستی کا دورانیہ مزید دو سال بڑھ گیا۔ حافظ حماد جو کہ ہمارے بہت ہی مخلص ساتھی ہیں وہ بھی ان چار سالوں میں ہمارے کلاس میٹ رہے۔

میں شب و روز اپنے دوست محمد علی کے لئے دعا کرتا رہاکہ اے اللہ اسے راہ ہدایت عطاء فرما۔ اسی دوران اس کو اپنے مرشد کریم سیّد غلام حسین شاہ بخاری مدظلہ العالی و برکاتہم کی درگاہ شریف پر جانے کی دعوت بھی دی۔ چھٹے سیمسٹرمیں اس نے درگاہ شریف پر جانے کی حامی بھر لی یا شاید مجھ سے وقتی طور پر جان چھڑانا چاہی۔ لیکن میرے دل میں طلب مزید بڑھ گئی اور دعاؤں میں بھی شدّت و گداز مزید بڑھ گئی۔

پھر وہ گھڑی بھی آئی جب خالق ِ کائنات نے میری دعاؤں کی شرف ِ قبولیت بخشا۔ یہ ۸ جون ۲۰۱۰ ء کی رات تھی۔ میں سویا تو قسمت جاگ اٹھی۔ دعاؤں کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں اور محمد علی درگاہ شریف میں ایک جگہ لیٹے ہوئے ہیں ۔ وہ مجھے جگا کر مجھ سے کہتا ہے کہ پیر صاحب تشریف لائے ہیں ۔ میں اٹھتا ہوں اور دستار سر پر رکھتا ہوں اور حضرت سائیں کے صاحبزادے کے مزار شریف میں پہنچ جاتا ہوں ۔ محمد علی سائیں کے سامنے کھڑا ہے اور سائیں کریم اسکے قلب پر انگشت مبارک رکھ کر ذکر کی تلقین فرمارہے ہیں۔ میں آگے بڑھتا ہوں اور آہستہ سے سائیں کریم کو عرض کرتا ہوں۔ سائیں یہ لڑکا تیز طرار لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے اس پر خاص نظرِ کرم فرمائیں۔جواب بہت مختصر مگر قابل فراموش ملتا ہے ، فرمایا۔ بیٹا اسکا ( جدول) شیڈول بنادیا گیا ہے۔سبحان اللہ۔

اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور مندرجہ بالا فقرہ میرے کانوں میں گونج رہا تھا۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کیوں کہ مجھے منزل قریب نظر آرہی تھی۔

   جون کے مہینے کے درمیان میں سمسٹر ختم ہوگیا تو میں نے دوبارہ محمد علی کو بڑی محبت اور چاہت کیساتھ درگاہ شریف پر جانے کی دعوت دی۔ لیکن وہ بہانے بنانے لگا کہ قمبر شریف بہت دور ہے ، بہت گرمی ہے پھر کبھی جائیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ بہر حال میں اپنی آرزو کو سینے میں لئے گاؤں لوٹ گیا۔ لیکن اللہ کی قدرت دیکھئے کہ محمد علی کی تبلیغی ڈیوٹی رائے وِنڈ والوں نے حیدرآباد میں لگادی۔ لیٰذا جولائی میں اس نے مجھے فون کیا کہ ۱۸ جولائی کو حیدرآباد سے واپسی ہے اور قمبر شریف جانے کے لئے رضامند ہوگیا۔ میں نے ۱۷ جولائی کو خوشی خوشی پتوکی اسٹیشن سے روانہ ہوا اور ۱۸ جولائی کو میں پتوکی سے اور محمد علی حیدرآباد سے قمبر شریف پہنچ گئے۔ مغرب کا وقت تھا سائیں کریم نماز کے لئے تشریف لائے اور پھر روضہ شریف میں حسب معمول تلاوت و نعت کے بعد مرشد کریم نے دعاء فرمائی ۔ میں سوچ میں گم تھا کہ کیسے محمد علی کو سائیں سے ملِوا سکوں گا۔ دعاء کے بعد میں نے سائیں کریم کے خدمتگار مولوی و حافظ بشیر احمد کو متوجہ کیا ۔ انہوں نے مجھے بلایا اور میرے بولنے سے پہلے کہا ۔۔۔۔۔ابھی صرف ذکر ملے گا بیعت بعد میں کروانا۔سبحان اللہ۔
میری خوشی اور حیرانی کی حد نہ رہی۔ میں نے جلدی سے علی کو بلایا اور سائیں کریم نے اس کو ذکر دیا ۔ جیسا کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ یوں صرف ایک ماہ کے قلیل عرصہ میں محمدعلی کا شیڈیول مکمل ہوجاتا ہے۔ یونیورسٹی واپسی پر جو واقعات پیش آئے وہ ایک الگ داستان ہے۔

یوں رائے ونڈ کا باسی ، قمبر شریف پہنچ جاتا ہے ۔ وہ محبتوں کا داعی اور ادب کا پیکر بن جاتا ہے ۔ اور آج طارق ہال جامعہ زرعیہ فیصل آباد میں ہمہ وقت صلوٰۃ و سلام کے نغمے الاپتا نظر آتا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے بندوں کے دامن سے وابستگی عطاء فرمائے۔ (آمین)

مُرید کے ہر عمل پر باخبر مرشد

ایک فقیر نے مجھے اپنا واقعہ سنایا کہ وہ ایک دفعہ ٹرین کا سفر کر رہا تھا اور درگاہ شریف جا رہا تھا ان دنوں وہ نیا نیا فقیر بنا تھا اور حضرت سائیں کی بارگاہ میں حاضری کی نیت سے روانہ ہوا تھا۔ جب وہ ٹرین میں سوار ہوا تھا ان دنوں اسکی نہ داڑھی تھی اور نہ ہی تذکیہ نفس کرنے کی سوچ پیدا ہوئی تھی۔ جب وہ ٹرین میں سوار ہوا تو کچھ سفر طے کرنے کے بعد اُسی ڈبے میں موجود اس کی نظر ایک بُرقہ دار عورت پر پڑھی جس کو دیکھنے میں وہ یہ بھول گیا کہ وہ کہاں کا سفر کر رہا ہے اور اسکی آنکھوں میں اتنا گم ہوگیا کہ اس کے چہرے پر سے نظر ہی نہ ہٹی اور اسی طرح سفر جاری رہا۔ بہر حال وہ براستہ لاڑکانہ اسٹیشن ہوتا ہوا قمبر شریف پہنچ گیا۔ جب حضرت سائیں جمعہ کی تقریر کے لیے مسند پر بیٹھے اور تقریر کا آغاز کیا تو دورانِ تقریر حضرت سائیں نے فرمایا کہ میرا ایک فقیر ایسا بھی ہے جو بُرقعے میں باپردہ خواتین کو بھی نہیں چھوڑتا اسے اتنی بھی شرم نہیں آتی کہ پردےدار خواتین پر بھی گندی نظر رکھتا ہے۔ یہ گفتگو سُن کر وہ بہت رویا اور اللہ سے سچی توبہ کی اور آج ماشاء اللہ وہ ایک کامل فقیر ہے ۔ اس شخص کی اصلاح دورانِ بیان حضرت سائیں نے ایسی فرمائی کہ اسکا نام نہ بتا کر اسکی عیب پوشی بھی کی اور اسکی اصلاح بھی فرمائی۔ کامل مرشد کی یہی پہچان ہے کہ وہ ہر دم اپنے مرید پر نظر رکھے اور شیطان کے نرغے سے اپنے مُرید کو بچائے اور اسکے بُرے اعمال پر اسے باخبر کرتے ہوئےاسکی اصلاح بھی فرمائے۔
آج کے دور میں بہت سے ایسے پیر بھی دیکھے ہیں کہ وہ ہو ہا ہوُ بہت کرتے ہیں لیکن انکے مُرید علماء اور عام لوگوں کا جینا دو بھر کردیتے ہیں اور انکے پیر کو کچھ خبر نہیں ۔ پیر کامل تو وہ ہوتا ہے جو اپنے مُرید کی خبر گیری کرے اور اسے ہر طرح کے گناہ سے بچائے اور اسکی ظاہری و باطنی اصلاح فرمائے۔
اللہ ہمیں حضرت قبلہ مرشد کریم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور انکے صدقے ہماری مغفرت فرمائے اور ہمیں اس دارِ فانی میں ایسے اعمال سے بچائے جن سے اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے منع فرمایا اور ایسے اعمال پر توفیق دے جس کے کرنے سے اللہ اور اسکا رسول ﷺ راضی ہوتے ہیں۔

ایک عالیشان مہربانی کا واقعہ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اپنی بہن کے ساتھ ٹرین میں کراچی سے سبح 6 بجے کی ٹرین سے ہزارہ ایکسپریس میں حویلیاں جا رہا تھا اور چونکہ صبح صبح کا وقت تھا تو میری بہن جو کہ اپنی چار بیٹیوں اور ایک اکلوتے بیٹے کے ساتھ تھی کہنے لگی کہ تمہاری نیند بہت گھری ہے تو تم ابھی سوجاؤاور میں جاگتی ہوں تاکہ رات میں جب ہم سوجائیں تو تم جاگنا تو میں نے اس پر عمل کرتے ہوئے سوگیا۔
سونے کے بعد ابھی کچھ گھنٹے ہی گزرے تھے کہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کے ہر طرف سفیدی سفیدی ہے جیسے بادلوں میں ہوں اور میں سو رہا ہوں اور ایک جانب میرے مرشد کریم قمبر والے سائیں حضر ت قبلہ سید غلام حسین شاہ شہنشاہ ولایت ، رئیس المتّقین، سردارِ اولیاء مدظلہ العالی کھڑے ہیں اور انکے صاحبزادے حضرت سائیں عطاء اللہ شاہ بخاری دامت برکاتہم العالی مجھے اٹھنے کو فرما رہے ہیں میں دیکھتا ہوں کہ حضرت مجھے فرماتے ہیں اٹھو ، اٹھو پھر تیسری بار حضرت نے فرمایا کہ اب نہیں اٹھو گے تو کب اٹھو گے۔ میں خواب ہی میں سوچتا ہوں کہ ایسا کیا ہوگیا گیا ہے کہ مجھے سائیں اٹھنے کو کہہ رہے ہیں یقینن مجھے اٹھ جانا چاہیئے ۔ جیسے ہی میں اٹھ کر بیٹھا اور میں چونکہ اُپر والی برتھ پر سورہا تھا اور جب میں نے نیچے دیکھا تو میری بہن بھی چادر اوڑھے سو رہی تھی اور اسکے سارے بچے بھی یہاں وہا ں سورہے تھے ۔ میں گھبرا کر اٹھا اور اور ایک مائک یا لاؤڈ پر اعلان سنا کہ لوگو ! ہوشیار ہوجاؤ اس ڈبے میں کچھ اغوا کار گھس گئے ہیں اور اپنے سامان کی بھی حفاظت کرو۔ میں نے اپنی بہن کو جاگنے کو کہا اورمیں اتنا ڈر گیا کہ میں دیکھ کر حیران ہوگیا کہ ہمارے ڈبے میں بہت سی مانگنے والیاں اور بھیکاری بھرے ہوئے ہیں اور بدنامِ زمانہ اسٹیشن حیدرآباد پر ٹرین رُکی ہوئی ہے۔ ہم نے جلدی جلدی سارا سامان سمیٹا اور بچوں کو بھی ایک جگہ جمع کیا۔
دوستو! یقین جانو یہ اتنی بڑی مہربانی تھی کہ اس کا اندازاہ شاید وہ شخص لگا سکتا ہے کہ جسکی بیٹیا ں ہوں یا اولاد والا ہو کیوں کہ اگر خدا نا خواستہ کوئی اغواء کار ہماری کسی بچی کو لے جاتا تو شاید ساری زندگی اس غم کا مداوا نا ہوپاتا۔ یہ اتنا بڑا سانحہ ہوتا کہ اگر اسکے اکلوتے بیٹے کو بھی کوئی لے جاتا تو شاید وہ جیتے جی مرجاتی۔ سبحان اللہ میرے مرشد کریم کی کس کس مہربانی کا ذکر کریں ۔ ہم ان خوشنصیبوں میں شامل ہیں جنہیں ایسے ولی ِ کامل کا دامن نصیب ہوا کہ جو ہمارے گھروالوں کے بھی نگہبان ہیں اور اپنے مُرید کو سوتے ہوئے بھی اکیلا نہیں چھوڑتے۔ہمارے جان و مال کی بھی حفاظت فرماتے ہیں۔ اللہ ہمیں کامل کے دامن سے وابستہ رکھے اور ہماری نسبت ان سے تاقیامت قائم رکھے اور انکے صدقے ہمیں آخرت میں بھی ان ہی کے دامن سے وابستہ رکھے۔ آمین۔
ایک جمعہ کی تقریر میں حضرت قبلہ سائیں نے فرمایا کہ دنیاء میں بھی تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے اور آخرت میں بھی تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں اور میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں ہوگا۔انشاء اللہ سبحان وتعالٰی۔ حق مھنجا سائیں

فقیر سید زاہد حسین شاہ حسینی

جب پُکارا تو مدد کو پہنچے


خصدار میں حضرت علامہ مولانا مفتی اعظم شیخ الحدیث مولوی عبدالخالق بروھی نقشبندی حسینی نے ایک دل کو بہار کردینے والی کرامت ارشاد فرمائی کہ ایک رات اچانک انکے دل میں شدید درد اٹھا۔ درد اتنا شدید تھا کہ میں سمجھا کہ شاید موت کا وقت آن پہنچااور اور بہت تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔ فرماتے ہیں کہ میں نے دل میں مرشد کو پُکارا کہ مہربانی فرمائیں تاکہ میں کلمہ پڑھ سکوں تو اچانک اتنے میں دروازہ کھلا اور دیکھا کہ میرے مرشد کریم قمبر والے سائیں حضر ت قبلہ سید غلام حسین شاہ شہنشاہ ولایت ، سردار متّقین، سردارِ اولیاء مدظلہ العالی پہنچ گئےاور فرمانے لگے کہ مولوی صاحب غم نہ کرو اللہ تعالٰی ابھی تم سے دین کا کام لے گا پھر اپنا دست کرامت یعنی ہاتھ مبارک میرے سینے پر گھمایا اور میرا دل کا درد اچانک ختم ہوگیا اور میں بالکل بھلا ہوگیا۔ اس کے بعد جب ابا سائیں جانے لگے تو میں دروازے پر بیٹھا ہوا تھا اور یہ مہربانی خواب میں نہیں بیداری کے عالم میں پیش آئی سبحان اللہ۔

ڈوبتے ہوئے کو بچانا


قمبر شریف میں ایک مسجد جسکا نام بلال ہے وہاں کا متولّی محمد ایوب ابا سائیں کا معتقد تھا۔ کچھ بد عقیدوں کے ورغلانے پر وہ وہابی ہو گیا تھا ۔ جب اس کا آخری وقت آیا اور سکرات میں پھنسا اور اسکا سانس بھی نہیں نکل رہا تھا۔ اسکے گھر والے سخت پریشان ہو گئے تھے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کچھ لوگوں نے اسکے بیٹوں کو مشورہ دیا کہ سائیں قمبر والے کو لے آؤ تو اچھا ہوگا۔ محمد ایوب کے بیٹے مجبور ہوگئے اور ابا سائیں کے پاس گئے اور عرض گزار ہوئے۔ ابا سائیں تھوڑی دیر میں کچھ مُریدوں کے ساتھ وہاں پہنچے اور آتے ہی فرمایا کہ محمد ایوب کلمہ پڑھ ۔ اللہ کی قدرت دیکھو کہ محمد ایوب کا سانس بھی نہیں نکل رہا تھا اور ہوش میں بھی نہیں آرہا تھا کہ ابا سائیں کی آواز سن کر کلمہ پڑھا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ وہاں موجود ابا سائیں کے مُرید مفتی نبی بخش نے کہا کہ ابا سائیں یہ تو آپ کو چھوڑ چکا تھا اسکو کلمہ کیوں پڑھایا؟ ابا سائیں نے فرمایا کہ محمد ایوب نے ہمیں چھوڑا دیا تھا پر ہم نے اسکے قلب پر انگلی رکھی تھی ہم نے اسکو نہیں چھوڑا۔سبحان اللہ۔
تاجدار تصوف و روحانیت حضرت پیر سید غلام حسین شاہ شاہ بخاری دامت برکاتہم العالی نے اپنی زندگی دین اسلام کی اشاعت و سربلندی ،احیاء سنت ،معاشرے کی روحانی اصلاح اور گمراہی کے خاتمے کیلئے وقف کئے ہوئے ہیں آپ نےسندھ اور بلوچستان اور کئی شہروں اور مختلف گاؤں اور بے شمارو یران دلوں میں محبت خداوندی اور عشق رسول کی لازوال شمع روشن کرکے لافانی اجالے بکھیر دیئے،علم و حکمت کے جواہر تقسیم کیئے ،رشدو ہدایت کے انعامات لٹائے اور فیض کے دریا بہا ئے آپ نے مردہ دلوں کو نئی زندگی بخشی اور گمگشتگان راہ کو نشان منزل دیا آپ سنت نبوی کا عملی نمونہ اور شریعت اسلامیہ کے عظیم پاسدار ہیں ۔

تصوف و طریقت

تصوف و طریقت