Archive for the ‘حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم’ Category

خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مناقب کا بیان

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو برا مت کہو۔ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو پھر بھی وہ ان کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔

الحديث رقم 37 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : قول النبي صلي الله عليه وآله وسلم : لو کنت متخذاً خليلا، 3 / 1343، الرقم : 3470، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : تحريم سب الصحابة، 4 / 1967، الرقم : 2540، والترمذي فيالسنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : (59)، 5 / 695، الرقم : 3861 وقال : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في النهي عن سب أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 214، الرقم : 4658، وابن ماجه في السنن، باب : فضائل أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فضل أهل بدر، 1 / 57، الرقم : 161، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 84، الرقم : 8308، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 11، الرقم : 11094، 11534، 11535، 11626، وابن حبان في الصحيح، 16 / 238، الرقم : 7253، وأبو يعلي في المسند، 2 / 342، الرقم : 1087، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 404، الرقم : 32404، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 212، الرقم : 687.

اسے بخاری نے روایت کیا ہے اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے اضافہ کے ساتھ روایت کیا ہے : ’’میرے صحابہ کو برا مت کہو، میرے صحابہ کو برا مت کہو (دو مرتبہ فرمایا)۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ ‘‘ پھر اسی طرح پوری حدیث بیان کی۔ ‘‘

————————————————————————————————————————

حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ رضی اللہ عنھم کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو! اﷲ سے ڈرو! اور میرے بعد انہیں تنقید کا نشانہ مت بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی عنقریب اللہ تعالیٰ اُسے پکڑے گا۔

الحديث رقم 38 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : فيمن سبّ أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 696، الرقم : 3862، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 54، 57، الرقم : 20549 – 20578، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 191، الرقم : 1511، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 479، الرقم : 992، والروياني في المسند 2 / 92، الرقم : 882، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 146، الرقم : 525، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 568، الرقم : 2284

————————————————————————————————————————

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو تم (انہیں) کہو : تمہارے شر پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔

الحديث رقم 39 : أخرجه الترمذي فيالسنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في فضل من رَأي النَّبِيَ صلي الله عليه وآله وسلم وَ صَحِبَهُ، 5 / 697، الرقم : 3866، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 191، الرقم : 8366، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 263، الرقم : 1022.

————————————————————————————————————————

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میرے صحابہ کو گالی دی تو اس پر اﷲ تعالیٰ کی، تمام فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔

الحديث رقم 40 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 142، الرقم : 12709، وعن أبي سعيد رضي الله عنه في المعجم الأوسط، 5 / 94، الرقم : 4771، وابن أبي شيبة عن عطا بن أبي رباح في المصنف، 6 / 405، الرقم : 32419، والخلال في السنة، 3 / 515، الرقم : 833، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 483، الرقم : 1001، وابن جعد في المسند، 1 / 296، الرقم : 2010، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 14، الرقم : 7302، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 21، والمناوي في فيض القدير، 5 / 274.

(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کی فضیلت)

احادیث مبارکہ معہ حوالا جات

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اﷲتعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (رحمت) بھیجتا ہے۔ اور امام ترمذی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا : اور اﷲتعالیٰ اس کے لئے دس نیکیاں بھی اس (درود پڑھنے) کے بدلے میں لکھ دیتا ہے۔

الحديث رقم 31 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم بهذا التشهد، 1 / 306، الرقم : 408، والترمذي في السنن، أبواب : الوتر عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 2 / 353، 354، الرقم : 484 – 485، والنسائي في السنن، کتاب : السهو، باب : الفضل في الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 50، الرقم : 1296، وفي السنن الکبري، 1 / 384، الرقم : 1219، والدارمي في السنن، 2 / 408، الرقم : 2772، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 375، الرقم : 8869 – 10292، وابن حبان في الصحيح، 3 / 187، الرقم : 906، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم : 8702، والطبراني في المعجم الصغير، 2 / 126، الرقم : 899، وأبويعلي بإسناده في المسند، 11 / 380، الرقم : 6495، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 211، الرقم : 1559، وأبو عوانة في المسند، 1 / 546، الرقم : 2040.

———————————————————————————————————————————————–

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کے دس گناہ معاف کیے جاتے ہیں اور اس کے لئے دس درجات بلند کیے جاتے ہیں۔

الحديث رقم 32 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب : السهو، باب : الفضل في الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 50، الرقم : 1297، وفي السنن الکبري، 1 / 385، الرقم : 1220 / 10194، وفي عمل اليوم والليلة، 1 / 296، الرقم : 362، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 224، الرقم : 643، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، والرقم : 8703، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 102، الرقم : 12017، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 210، الرقم : 1554، والحاکم في المستدرک، 1 / 735، الرقم : 2018.

———————————————————————————————————————————————–

حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے روز لوگوں میں سے میرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہو گا جو (اس دنیا میں) ان میں سے سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجتا ہے۔

الحديث رقم 33 : أخرجه الترمذي في السنن أبواب : الوتر عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 2 / 354، الرقم : 484، وابن حبان في الصحيح، 3 / 192، الرقم : 911، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 249، الرقم : 5791، وفي شعب الإيمان، 2 / 212، الرقم : 1563، وأبويعلي في المسند، 8 / 427، الرقم : 5011، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 81، الرقم : 250، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 327، الرقم : 2575.

———————————————————————————————————————————————–

حضرت عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بلا شبہ اﷲ تعالیٰ کی زمین میں بعض گشت کرنے والے فرشتے ہیں جو مجھے میری امت کا سلام پہنچاتے ہیں۔

الحديث رقم 34 : أخرجه النسائي في السنن کتاب : السهو، باب : السلام علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 43، الرقم : 1282، وفي السنن الکبري، 1 / 380، الرقم : 1205، 6 / 22، الرقم : 9894، وفي عمل الليوم والليلة، 1 / 67، الرقم : 66، والدارمي في السنن، 2 / 409، الرقم : 2774، وابن حبان في الصحيح، 3 / 195، الرقم : 914، والحاکم في المستدرک، 2 / 456، الرقم : 3576، والبزار في المسند، 5 / 307، الرقم : 4210، 4320، وأبويعلي في المسند، 9 / 137، الرقم : 5213، والطبراني في المعجم الکبير، 10 / 219، الرقم : 10528. 10530، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 217، الرقم : 1582، وابن شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم : 8705، 31721، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 215، الرقم : 3116، والشاشي في المسند، 2 / 252، ، الرقم : 825. 826، وابن حيان في العظمة، 3 / 990، الرقم : 513، وابن المبارک في الزهد، 1 / 364، الرقم : 1028، والديلمي عن أبي هريرة رضي الله عنه في مسند الفردوس، 1 / 183، الرقم : 686، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 326، الرقم : 2570.

———————————————————————————————————————————————–

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میری امت میں سے کوئی شخص) ایسا نہیں جو مجھ پر سلام بھیجے مگر اﷲتعالیٰ نے مجھ پر میری روح واپس لوٹا دی ہوئی ہے یہاں تک کہ میں ہر سلام کرنے والے کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔

الحديث رقم 35 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : المناسک، باب : زيارة القبور، 2 / 218، الرقم : 2041، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 527، الرقم : 10867، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 262، الرقم : 3092، 9329، والبيهقي في السنن الکبري، 5 / 245، الرقم : 10050، وفي شعب الإيمان، 2 / 217، الرقم : 5181. 4161، وابن راهويه في المسند، 1 / 453، الرقم : 526، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 326، الرقم : 2573، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 162.

———————————————————————————————————————————————–

حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود بھیجا کرو، بیشک تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے۔

الحديث رقم 36 : أخرجه أحمد بن حنبل عن أبي هريرة رضي الله عنه في المسند، 2 / 367، الرقم : 8790، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 82، الرقم : 2729، وفي المعجم الأوسط، 1 / 17، الرقم : 365، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 15، الرقم : 7307 والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 326، الرقم : 2571.

———————————————————————————————————————————————–

حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس پر خوشی ظاہر ہو رہی تھی.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا : آپ کا رب فرماتا ہے : اے محمد! کیا آپ اس بات پر راضی نہیں کہ آپ کی امت میں سے جو شخص ایک مرتبہ آپ پر درود بھیجے، میں اس پر دس رحمتیں بھیجوں؟ اور آپ کی امت میں سے کوئی آپ پر ایک مرتبہ سلام بھیجے تو میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجوں۔

الحديث رقم 37 : أخرجه النسائي في السنن کتاب : السهو، باب : الفضل في الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم 3 / 50، الرقم 1295، والدارمي في السنن 2 / 408، الرقم : 2773، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 30، وابن المبارک في کتاب الزهد، 1 / 364، الرقم : 1067، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 100، الرقم : 4720، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 252، الرقم : 8695.

———————————————————————————————————————————————–

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ یقیناً دعا اس وقت تک زمین اور آسمان کے درمیان ٹھہری رہتی ہے اور اس میں سے کوئی بھی چیز اوپر نہیں جاتی جب تک تم اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ پڑھ لو۔

الحديث رقم 38 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الصلاة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 2 / 356 الرقم 486، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 330، الرقم : 2590.

———————————————————————————————————————————————–

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر دعا اس وقت تک پردہ حجاب میں رہتی ہے جب تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پراور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ بیت پر درود نہ بھیجا جائے۔

الحديث رقم 39 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 220، الرقم : 721، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 216، الرقم : 1575، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 330، الرقم : 2589 وقال رواته ثقات، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 255، الرقم : 4754، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 160.

———————————————————————————————————————————————–

حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر ستر مرتبہ (بصورتِ رحمت) درود بھیجتے ہیں۔

الحديث رقم40 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 172، 187، الرقم : 6605. 6754، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 325، الرقم : 2566 وقال : إِسْنَادُهُ حَسَنٌ، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 160، وقال : رواه أحمد وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

———————————————————————————————————————————————–

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو لوگ کسی مجلس میں اکٹھے ہوئے اور پھر (اس مجلس میں) اللہ تعالیٰ کا ذکر اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھے بغیر وہ منتشر ہو گے تو وہ مجلس ان کے لئے قیامت کے روز باعث حسرت (و باعثِ خسارہ) بننے کے سوا اور کچھ نہیں ہو گی۔

الحديث رقم 41 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، 2 / 351، الرقم : 590، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 446، الرقم : 9763، وابن المبارک في الزهد، 1 / 342، الرقم : 962، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 79 وقال الهيثمي : رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح

———————————————————————————————————————————————–

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی قوم کسی بیٹھنے کی جگہ (یعنی مجلس میں) بیٹھے اور اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کرے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ بھیجے تو وہ مجلس روزِ قیامت ان کے لئے حسرت (و خسارہ) کا باعث ہونے کے سوا کچھ نہیں ہوگی اگرچہ وہ لوگ جنت میں بھی داخل ہو جائیں (لیکن انہیں ہمیشہ اس بات کا پچھتاوا رہے گا)۔

الحديث رقم 42 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، 2 / 352، الرقم : 591، وابن أبي عاصم في کتاب الزهد، 1 / 27، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 263، الرقم : 2331، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 577، الرقم : 2322، وفي مجمع الزوائد، 10 / 79.

———————————————————————————————————————————————–

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتوں کا نزول فرماتا ہے اور جو شخص مجھ پر دس مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر سو رحمتیں نازل فرماتا ہے اور جو شخص مجھ پر سو مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (یعنی پیشانی پر) منافقت اور آگ (دونوں) سے ہمیشہ کے لئے آزادی لکھ دیتا ہے اور روزِ قیامت اس کا قیام (اور درجہ) شہداء کے ساتھ ہو گا۔

الحديث رقم 43 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 188، الرقم : 7235، وفي المعجم الصغير، 2 / 126، الرقم : 899، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 323، الرقم : 2560، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 163.

———————————————————————————————————————————————–

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر درود پڑھا کرو بلاشبہ (تمہارا) مجھ پر درود پڑھنا تمہارے لئے (روحانی و جسمانی) پاکیزگی کا باعث ہے۔

الحديث رقم 44 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم : 8704، وأبو يعلي في المسند، 11 / 298، الرقم : 6414، والحارث في المسند (زوائد الهيثمي)، 2 / 962، الرقم : 1062، وهناد في الزهد، 1 / 117، الرقم : 147.

———————————————————————————————————————————————–

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص صبح کے وقت اور شام کے وقت مجھ پر دس دفعہ درود بھیجے گا اسے قیامت کے روز میری شفاعت نصیب ہو گی۔

الحديث رقم 45 : أخرجه المنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 261، الرقم : 987، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 120، وَقَالَ المُنذرِيُّ وَالْهَيْثَميُّ : رواه الطبراني بإسنادين أحدهما جيد ورجاله وثقوا.

 

شان اولیاء اللہ

شان اولیا اللہ

حدیث نمبر -1

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔ جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے زریعے قرب حاصل نہیں کرتا جو مجھے پسند ہیں اور میں نے اس پر فرض کی ہیں بلکہ میرا بندہ برابر نوافل کے زریعے میرا قُرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے اور اُسکی بصارت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے اور اسکا ہاتھ بن جاتا ہوں جسکے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اُسکا پیر بن جاتا ہوں جسکے ساتھ وہ چلتا ہے اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں ضرور اُسے عطاء فرماتا ہوں اور اگر وہ میرے پناہ پکڑے تو ضرور میں اُسے پناہ دیتا ہوں اور کِسی کام میں مجھے تردّد نہیں ہوتا جسکو میں کرتا ہوں مگر مومن کی موت کو بُرا سمجھنے میں کیونکہ میں اُسکے اس بُرا سمجھنے کو بُرا سمجھتا ہوں۔

بخاری شریف کتاب الرقاق

حدیث نمبر -2

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک شخص نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا  پھر وہ  یہ پوچھتا پھرتا تھا کہ کیا اِسکی توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ اس نے ایک  راہب  (عیسائیوں میں تارک الدنیا عبادت گزار) کے پاس جا کر یہ سوال کیا: کیا اسکی توبہ ہے؟ راہب نے کہا : تمہاری توبہ نہیں ہوسکتی، اُس نے راہب کو بھی قتل کر دیا۔ اِس نے پھر سوال کرنا شروع کیا اور وہ اُس بستی سے نکل کر دوسری بستی کی طرف جانے لگا۔ جس میں کچھ نیک لوگ (اولیاء اللہ) رہتے تھے ۔ جب اس نے راستے کا کچھ حصّہ طے کیا تھا تو اسکو مو ت نے آلیا، اس نے اپنا سینہ کچھ دور کردیا ، پھر مرگیا، پھر رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں بحث ہوئی ، وہ ایک بالشت کے برابر نیک آدمیوں (اولیاء اللہ) کی بستی کے قریب تھا، سو اس کو اس بستی والوں سے لاحق کر دیا گیا۔

صحیح مسلم ، کتاب التوبہ

 

حدیث نمبر -3

حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ریع کی بہن ام حارثہ نے کسی انسان کو زخمی کر دیا ۔ انہوں نے اس کا مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پیش کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قصاص یعنی بدلہ لیا جائے گا ام ربیع نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا فلاں سے بدلہ لیا جائے گا؟ اللہ کی قسم! اس سے بدلہ نہیں لیا جائے گا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ پاک ہے۔ اے ام ربیع بدلہ لینا اللہ کی کتاب (کا حکم) ہے۔ اس نے کہا اللہ کی قسم اس سے کبھی بدلہ نہ لیا جائے گا۔ راوی کہتے ہیں وہ مسلسل اسی طرح کہتی رہی۔ یہاں تک کہ ورثاء نے دیت قبول کرلی۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کے بندوں میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ پر قسم اٹھالیں تو اللہ ان کی قسم کو پورا فرما دیتا ہے۔

متعلقه احاديث

صحيح مسلم : 7583181
صحيح البخاري : 4166 | 6416
سنن النسائى الصغرى : 1126 | 4697
سنن الدارمي : 1433
سنن ابن ماجه : 1413 | 1414 | 1412
جامع الترمذي : 354
السنن الكبرى للنسائي : 720 | 6709 | 6712 | 6714 | 7979

ذبحِ عظیم

نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم

شیخ الاسلام حضرت ڈاکٹر محمد طاہر القادری (دامت برکاتہم) کی بہت ہی اعلی تصنیف ( ںور محمدﷺ )۔

 

حسنینِ کریمین رضی اللہ تعالٰی عنھما

وَ يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًا۰۰۸

اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبّت پر مسکین اور یتیم اور اسیر کو – (مترجم : امام احمد رضا بریلوی)
خزائن العرفان مفسر : حضرت علامہ نعیم الدین مرآدآبادی رحمۃ اللہ علیہ
یعنی ایسی حالت میں جب کہ خود انہیں کھانے کی حاجت و خواہش ہو اور بعض مفسّرین نے اس کے یہ معنٰی لئے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی محبّت میں کھلاتے ہیں ۔ شانِ نزول: یہ آیت حضرت علیِ مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ان کی کنیز فضّہ کے حق میں نازل ہوئی ، حسنینِ کریمین رضی اللہ تعالٰی عنھما بیمار ہوئے ، ان حضرات نے ان کی صحت پر تین روزوں کی نذر مانی ، اللہ تعالٰی نے صحت دی ، نذر کی وفا کا وقت آیا ، سب صاحبوں نے روزے رکھے ، حضرت علیِ مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک یہودی سے تین صاع (صاع ایک پیمانہ ہے) جَو لائے ، حضرت خاتونِ جنّت نے ایک ایک صاع تینوں دن پکایا لیکن جب افطار کاوقت آیا اور روٹیاں سامنے رکھیں تو ایک روز مسکین ، ایک روز یتیم ، ایک روز اسیر آیا اور تینوں روز یہ سب روٹیاں ان لوگوں کو دے دی گئیں اور صرف پانی سے افطار کرکے اگلا روزہ رکھ لیا گیا ۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ بیت اور قرابت داروں کے مناقب

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں خطبہ دینے کے لئے مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان اس تالاب پر کھڑے ہوئے جسے خُم کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کی حمدو ثناء اور وعظ و نصیحت کے بعد فرمایا : اے لوگو! میں تو بس ایک آدمی ہوں عنقریب میرے رب کا پیغام لانے والا فرشتہ (یعنی فرشتہ اجل) میرے پاس آئے گا اور میں اسے لبیک کہوں گا۔ میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ان میں سے پہلی اﷲ تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتاب اﷲ (کی تعلیمات پر عمل کرنے کی) ترغیب دی اور اس کی طرف راغب کیا پھر فرمایا : اور (دوسرے) میرے اہلِ بیت ہیں میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اﷲ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اﷲ کی یاد دلاتا ہوں۔ میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اﷲ کی یاد دلاتا ہوں۔

الحديث رقم 15 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 3 / 1873، الرقم : 2408، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 366، الرقم : 19265، وابن حبان في الصحيح، 1 / 145، الرقم : 123، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 62، الرقم : 2357، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 1 / 79، الرقم : 88، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 148، الرقم : 2679، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 487.
—————————————————————————————————————————————————–

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھا تو میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے۔ ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے۔ اﷲتعالیٰ کی کتاب آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے اور میری عترت یعنی اہلِ بیت اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ دونوں میرے پاس (اکٹھے) حوض کوثر پر آئیں گی پس دیکھو کہ تم میرے بعد ان سے کیا سلوک کرتے ہو؟

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في مناقب أهل بيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 663، الرقم : 3788 / 3786، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 45، الرقم : 8148، 8464، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 14، 26، 59، الرقم : 11119، 11227، 11578، والحاکم في المستدرک، 3 / 118، الرقم : 4576، وأبويعلي في المسند، 2 / 303، الرقم : 10267، 1140، والطبراني عن أبي سعيد رضي الله عنه في المعجم الأوسط، 3 / 374، الرقم : 3439، وفي المعجم الصغير، 1 / 226، الرقم : 323، وفي المعجم الکبير، 3 / 65، الرقم : 2678، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 133، الرقم : 30081، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 644، الرقم : 1553.
—————————————————————————————————————————————————–

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : اے لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم انہیں پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ (ان میں سے ایک) اﷲ تعالیٰ کی کتاب اور (دوسری) میرے اہلِ بیت (ہیں)۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في مناقب أهل بيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 662، الرقم : 3786، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 89، الرقم : 4757، وفي المعجم الکبير، 3 / 66، الرقم : 2680، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 114.
—————————————————————————————————————————————————–

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل أهل بيت النّبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1883، 2424، والحاکم في المستدرک، 3 / 159، الرقم : 4707. 4709، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 149، الرقم : 2680، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 370، الرقم : 32102.
—————————————————————————————————————————————————–

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت ’’اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔‘‘ نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سلام اﷲ علیہم کو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے۔ سیدہ اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی! میں (بھی) ان کے ساتھ ہوں، فرمایا : تم اپنی جگہ رہو اور تم تو بہتر مقام پر فائز ہو۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة الأحزاب، 5 / 351، الرقم : 3205، وفي کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 699، الرقم : 3871، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 134، الرقم : 3799.
—————————————————————————————————————————————————–

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ نازل ہوئی : ’’آپ فرما دیں کہ آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں۔‘‘ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا : یا اﷲ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 4 / 1871، الرقم : 2404، والترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة آل عمران، 5 / 225، الرقم : 2999، وفي کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : (21)، 5 / 638، الرقم : 3724، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الرقم : 1608، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 107، الرقم : 8399، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 63، الرقم : 13169 – 13170، والحاکم في المستدرک، 3 / 163، الرقم : 4719.
—————————————————————————————————————————————————–
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اللہ! قریش جب آپس میں ملتے ہیں تو حسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو (جذبات سے عاری) ایسے چہروں کے ساتھ ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر شدید جلال میں آگئے اور فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میری قرابت کی خاطر تم سے محبت نہ کرے۔
ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : ’’خدا کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہ ہوگا جب تک اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میری قرابت کی وجہ سے تم سے محبت نہ کرے۔

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 207، الرقم : 1772، 1777، 17656، 17657، 17658، والحاکم في المستدرک، 3 / 376، الرقم : 5433، 2960، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 51 الرقم : 8176، والبزار في المسند، 6 / 131، الرقم : 2175، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 188، الرقم : 1501، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 361، الرقم : 7037.
—————————————————————————————————————————————————–

حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اﷲ عنھما بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے اور وہ باہم گفتگو کر رہے ہوتے تو گفتگو روک دیتے ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اس امر کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جب میرے اہل بیت سے کسی کو دیکھتے ہیں تو گفتگو روک دیتے ہیں؟ اﷲ رب العزت کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوگا جب تک ان (یعنی میرے اہلِ بیت) سے اﷲ تعالیٰ کے لیے اور میری قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے۔

أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : فضل العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه، 1 / 50، الرقم : 140، والحاکم في المستدرک، 4 / 85، الرقم : 6960، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 382، الرقم : 472، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 113، الرقم : 6350.
—————————————————————————————————————————————————–

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہو گیا۔
اور ایک روایت میں حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا : جو اس میں سوار ہوا وہ سلامتی پا گیا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ غرق ہو گیا۔

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 34، الرقم : 2388، 2638، 2638، 2636، وفي المعجم الأوسط، 4 / 10، الرقم : 3478 : 5 / 355، الرقم : 5536 : 6 / 85، الرقم : 5870، وفي المعجم الصغير، 1 / 240، الرقم : 391 : 2 / 84، الرقم : 825، والحاکم في االمستدرک، 3 / 163، الرقم : 4720، والبزار في المسند، 9 / 343، الرقم : 3900، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 238، الرقم : 916.
—————————————————————————————————————————————————–

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سواء ہر سلسلہ نسب منقطع ہو جائے گا۔

أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 153، الرقم : 4684، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 44، الرقم : 2633، 2634 – 2635، وفي المعجم الأوسط، 5 / 376، الرقم : 5606، وعبد الرزاق في المصنف، 6 / 163، الرقم : 10354، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 63، الرقم : 13171، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 197، الرقم : 101، وَقَالَ : إِسْنَادَهُ حَسَنٌ، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 255، الرقم : 4755، والهيثمي في مجممع الزوائد، 9 / 173، وقال : إِسنادُهُ حَسَنٌ.
—————————————————————————————————————————————————–

وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر ماں کے بیٹوں کا آبائی خاندان ہوتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتے ہیں سوائے فاطمہ کے بیٹوں کے، پس میں ہی ان کا ولی ہوں اور میں ہی ان کا نسب ہوں۔

أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 179، الرقم : 4770، وأبو يعلي في المسند 2 / 109، الرقم : 6741، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 44، الرقم : 2631 – 2632.
—————————————————————————————————————————————————–

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : ہر عورت کی اولاد کا نسب اپنے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہ کے کیونکہ میں ہی ان کا نسب اور میں ہی ان کا باپ ہوں۔

أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 3 / 234، الرقم : 4787، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 224.
—————————————————————————————————————————————————–

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقیناً اﷲ تعالیٰ نے ہر نبی کی اولاد اس کی صلب میں رکھی اور بیشک اﷲتعالیٰ نے میری اولاد علی بن ابی طالب کی صلب میں رکھی ہے۔

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 43، الرقم : 2630، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 172، الرقم : 643، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172، والمناوي في فض القدير، 2 / 223.
—————————————————————————————————————————————————–

حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے نماز پڑھی اور مجھ پر اور میرے اہل بیت پر درود نہ پڑھا اس کی نماز قبول نہ ہو گی۔ حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر میں نماز پڑھوں اور اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پاک نہ پڑھوں تو میں نہیں سمجھتا کہ میری نماز کامل ہوگی۔

أخرجه الدار قطني في السنن، 1 / 355، الرقم : 6.7، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 530، الرقم : 3969، وابن الجوزي في التحقيق في أحاديث الخلاف، 1 / 402، الرقم : 544، والشوکاني في نيل الأوطار، 2 / 322.
—————————————————————————————————————————————————–

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک فرشتہ جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ اترا تھا اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرے اور مجھے یہ خوشخبری دے کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنھا اہلِ جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی اﷲ عنھما جنت کے تمام جوانوں کے سردار ہیں۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب الحسن والحسين علهيما السلام، 5 / 660، الرقم : 3781، والنسائي في السنن الکبري، 80، 95، الرقم : 8298، 8365، وفي فضائل الصحابة، 1 / 58، 76، الرقم : 193، 260، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 391، الرقم : 23369، وفي فضائل الصحابة، 2 / 788، الرقم : 1406، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 388، الرقم : 32271، والحاکم في المستدرک، 3 / 164، الرقم : 4721. 4722، والطبراني في المعجم الکبير، 22 / 402، الرقم : 1005، وأبونعيم في حلية اولياء، 4 / 190، والبهيقي في الاعتقاد : 328.
—————————————————————————————————————————————————–

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ درآں حالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چادر بچھائی ہوئی تھی۔ پس اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (بنفسِ نفیس) حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیھم السلام بیٹھ گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس چادر کے کنارے پکڑے اور ان پر ڈال کر اس میں گرہ لگا دی۔ پھر فرمایا : اے اﷲ! تو بھی ان سے راضی ہوجا، جس طرح میں ان سے راضی ہوں۔

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 348، الرقم : 5514، والهيثي في مجمع الزوائد، 9 / 169.
—————————————————————————————————————————————————–

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں گئے اور کہا : اے فاطمہ! خدا کی قسم! میں نے آپ کے سوا کسی شخص کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک محبوب تر نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! لوگوں میں سے مجھے بھی آپ کے والد محترم کے بعد کوئی آپ سے زیادہ محبوب نہیں۔

أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 168، الرقم : 4736، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 432، الرقم : 37045، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 364، والشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 360، الرقم : 2952، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 4 / 401.
—————————————————————————————————————————————————–

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن علیہ السلام سینہ سے سر تک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہ ہیں اور حضرت حسین علیہ السلام سینہ سے نیچے تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہ ہیں۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب الحسن والحسين، 5 / 660، الرقم : 3779، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 99، الرقم : 774، 854، وابن حبان في الصحيح، 15 / 430، الرقم : 6974، والطيالسي في المسند، 1 / 91، الرقم : 130، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 394، الرقم : 780.
—————————————————————————————————————————————————–

شعبہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ۔ ۔ ۔ یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في مناقب علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 5 / 633، الرقم : 3713، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الرقم : 5071، 5096.
الحاکم في المستدرک، 3 / 134، الرقم : 4652، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 78، الرقم : 12593، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 12 / 343، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، وابن کثير في البداية والنهاية، 5 / 451، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 108.
ابن أبي عاصم في السنة : 602، الرقم : 1355، وابن ابي شيبه في المصنف، 6 / 366، الرقم : 32072.
إبن أبي عاصم في السنة : 602، الرقم : 1354، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 173، الرقم : 4052، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 229، الرقم :
عبد الرزاق في المصنف، 11 / 225، الرقم : 20388، والطبراني في المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکرفي تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143.
إبن أبي عاصم في السنة : 601، الرقم : 1353، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفي البداية والنهاية، 5 / 457، وحسام الدين هندي في کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904.
الطبراني في المعجم الکبير، 19 / 252، الرقم : 646، وابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 106.

—————————————————————————————————————————————————–

جمیع بن عمر تمیمی بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ہمراہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں کون زیادہ محبوب تھا؟ اُمُّ المومنین رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : فاطمہ (سلام اﷲ علیھا)۔ عرض کیا گیا : مردوں میں سے (کون زیادہ محبوب تھا؟) فرمایا : ان کے شوہر اور جہاں تک میں جانتی ہوں وہ بہت زیادہ روزے رکھنے والے اور راتوں کو عبادت کے لئے بہت قیام کرنے والے تھے۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : فضل فاطمة بنتِ محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 701، الرقم : 3874، والطبراني في المعجم الکبير، 22 / 403. 404، الرقم : 1008. 1009، والحاکم في المستدرک، 3 / 171، الرقم : 4744، وأبويعلي في المعجم، 1 / 128، الرقم : 235.
—————————————————————————————————————————————————–

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم سے فرمایا : تم جس سے لڑو گے میں اُس کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں اور جس سے تم صلح کرنے والے ہو میں بھی اُس سے صلح کرنے والا ہوں۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 699، الرقم : 3870، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : فضل الحسن والحسين ابنَيْ عَلِيِّ بْنِ أبي طالِبٍ رضی الله عنهم، 1 / 52، الرقم : 145، والحاکم في المستدرک، 3 / 161، الرقم : 4714، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 182، الرقم : 5015، وفي المعجم الکبير، 3 / 40، الرقم : 2620، والصيداوي في معجم الشيوخ، 1 / 133، الرقم : 85.
—————————————————————————————————————————————————–

حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں اور میرے اہلِ بیت اسے اس کے اہل خانہ سے محبوب تر نہ ہو جائیں اور میری اولاد اسے اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اسے اپنی ذات سے محبوب تر نہ ہو جائے۔

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 7 / 75، الرقم : 6416، وفي المعجم الأوسط، 6 / 59، الرقم : 5790، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 189، الرقم : 1505، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 154، الرقم : 7795، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 88.
—————————————————————————————————————————————————–

شان رسول ﷺ و محبت رسول ﷺ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ عزوجل اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے باقی ہر ایک سے محبوب تر نہ ہوجائیں، اور اس وقت تک جب کہ وہ کفر سے نجات پانے کے بعد دوبارہ (حالت) کفر (اور ایک روایت میں ہے کہ یہودیت اور نصرانیت) کی طرف لوٹنے کو وہ اس طرح ناپسند کرتا ہو کہ اس کے بدلے اسے آگ میں پھینکا جانا پسند ہو۔ اور تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اُس کی اولاد اور اس کے والد (یعنی والدین) اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 207، الرقم : 13174، 3 / 278، الرقم : 13991 – 13992، 3 / 230، الرقم : 13431، وابن حبان في الصحيح، 1 / 473، الرقم : 237، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 394، الرقم : 1328، وابن منده في الإيمان، 1 / 433، الرقم : 283، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 33.

————————————————————————————————————————————————

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ مجھے میری جان اور میرے اہل و عیال اور میری اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو بھی آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں اور اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کرلوں۔ لیکن جب مجھے اپنی موت اور آپ کے وصال مبارک کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ آپ تو جنت میں انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ بلند ترین مقام پر جلوہ افروز ہوں گے اور اگر میں جنت میں داخل ہوں گا تو خدشہ ہے کہ کہیں آپ کی زیارت سے محروم نہ ہو جاؤں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی کے جواب میں سکوت فرمایا : یہاں تک کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام یہ آیت مبارکہ کو لے کر اترے : ’’اور جو کوئی اللہ تعالیٰ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روز قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے (خاص) انعام فرمایا ہے۔‘‘ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو بلایا اور اسے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔

الحديث رقم 41 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 152، الرقم : 477، وفي المعجم الصغير، 1 / 53، الرقم : 52، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 4 / 240، 8 / 125، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 7، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 524، والسيوطي في الدر المنثور، 2 / 182.
————————————————————————————————————————————————

حضرت آدم بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا : روزِ قیامت سب لوگ گروہ در گروہ ہو جائیں گے۔ ہر امت اپنے اپنے نبی کے پیچھے ہو گی اور عرض کرے گی : اے فلاں! شفاعت فرمائیے، اے فلاں! شفاعت کیجئے۔ یہاں تک کہ شفاعت کی بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آ کر ختم ہو گی۔ پس اس روز شفاعت کے لئے اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : تفسير القرآن، باب : قوله : عسي أن يبعثک ربک مقاما محمودا، 4 / 1748، الرقم : 4441، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 381، الرقم : 295، وابن منده في الإيمان، 2 / 871، الرقم : 927.
————————————————————————————————————————————————

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری شفاعت میری امت کے ان افراد کے لئے ہے جنہوں نے کبیرہ گناہ کئے۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في الشفاعة، 4 / 625، الرقم : 2435، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في الشفاعة، 4 / 236، الرقم : 4739، وابن ماجه عن جابر رضي الله عنه في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة، 2 / 1441، الرقم : 4310، والحاکم في المستدرک، 1 / 139، الرقم : 228، وقال الحاکم : هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين، وأبو يعلي في المسند، 6 / 40، الرقم : 3284، والطبراني في المعجم الصغير، 1 / 272، الرقم : 448، والطيالسي في المسند، 1 / 233، الرقم : 1669.
————————————————————————————————————————————————

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری حیات میں میری زیارت کی۔

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 406، الرقم : 13496، والدارقطني عن حاطب رضي الله عنه في السنن، 2 / 278، الرقم : 193، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 489، الرقم : 4154، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 2.
————————————————————————————————————————————————

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قیامت کے متعلق سوال کیا کہ (یا رسول اﷲ!) قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا : میرے پاس تو کوئی تیاری نہیں۔ (امام احمد کی روایت میں ہے کہ اس نے عرض کیا : میں نے تو اس کے لئے بہت سے اعمال تیار نہیں کیے، نہ بہت سی نمازیں اور نہ بہت سے روزے) سوائے اس کے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم (قیامت کے روز) اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت رکھتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں (یعنی تمام صحابہ کو) کبھی کسی خبر سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمانِ اقدس سے ہوئی کہ تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما سے محبت کرتا ہوں لہٰذا امید کرتا ہوں کہ ان کی محبت کے باعث میں بھی ان حضرات کے ساتھ ہی رہوں گا اگرچہ میرے اعمال تو ان کے اعمال جیسے نہیں۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص القرشي العدوي، 3 / 1349، الرقم : 3485، وفي کتاب : الأدب، باب : ما جاء في قول الرجل ويلک، 5 / 2285، الرقم : 5815، ومسلم في الصحيح، کتاب : البر والصلة والآداب، باب : المرء مع من أحب، 4 / 2032، الرقم : 2639، والترمذي في السنن، کتاب : الزهد عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم باب : ما جاء أن المرء مع من أحب، 4 / 595، الرقم : 2385، وقال أبو عيسي : هذا حديث صحيح، وأبو داود في السنن، کتاب : الأدب، باب : إخبار الرجل الرجل بمحبته إياه، 4 / 333، الرقم : 5127، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 129، الرقم : 352، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 104، 168، 178، الرقم : 12032، 12738، 12846، وابن حبان في الصحيح، 10 / 308، الرقم : 105، وأبو يعلي في المسند، 5 / 372، الرقم : 3023، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 254، الرقم : 8556.
————————————————————————————————————————————————

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا : (یا رسول اﷲ!) قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا : اﷲ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت (یہی میرا سرمایہ حیات ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبت ہے۔

أخرجه البخاري في صحيح، کتاب : الأدب، باب : علامة الحب في اﷲ، 3 / 1349، الرقم : 3485، ومسلم في الصحيح، کتاب : البر والصلة والآداب، باب : المرء مع من أحب، 4 / 2032، الرقم : 2639، والترمذي في السنن، کتاب : الزهد عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء أن المرء مع من أحب، 4 / 595، الرقم : 2385.
————————————————————————————————————————————————

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میں ایک مرتبہ مسجد سے نکل رہے تھے کہ مسجد کے دروازے پر ایک آدمی ملا اور اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ وہ آدمی کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اس کے لئے (فرائض سے) زیادہ روزہ، نماز اور صدقہ وغیرہ (اعمال) تو تیار نہیں کئے لیکن (اتنا ہے کہ) میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے تم محبت رکھتے ہو۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الأحکام، باب : القَضَاءِ وَالفُتْيَاَ في الطَّرِيْقِ، 6 / 2615، الرقم : 6734، وفي کتاب : الأدب، باب : ماجائَ في قول الرّجُلِ ويلَکَ، 5 / 2282، الرقم : 5815، وفي کتاب الأدب، باب : علامًةِ حُبِّ اﷲِ عزوجل لقولِهِ : (وَإِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِي يُحْبِبْکُمُ اﷲُ)، (آل عمران : 31)، 5 / 2285، الرقم : 5816 – 5819، وفي کتاب : فضائل أصحاب النّبِي صلي الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب عُمَرَ بنِ الْخطَّابِ، 3 / 1349، الرقم : 3485، ومسلم في الصحيح، کتاب : البرو الصلة والآداب، باب : المرء مع من أحبَّ 4 / 2032. 2033، الرقم : 2639، والترمذي نحوه في السنن، کتاب : الزهد عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء أن المرء مع من أحب، 4 / 595، الرقم : 2385 وَصَحَّحَهُ، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 465 الرقم : 12715، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 149، الرقم : 1796، وابن حبان في الصحيح، 1 / 182، الرقم : 8، والطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 267، الرقم : 7465، والطيالسي في المسند، 1 / 284، الرقم : 2131، وأبويعلي في المسند، 5 / 372، الرقم : 3023، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 387، الرقم : 498.
————————————————————————————————————————————————

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : یارسول اﷲ! ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ جب ہم آپ کی بارگاہِ اقدس میں ہوتے ہیں تو ہمارے دل نرم ہوتے ہیں ہم دنیا سے بے رغبت اور آخرت کے باسی ہو جاتے ہیں اور جب آپ کی بارگاہ سے چلے جاتے ہیں اور اپنے گھر والوں میں گھل مل جاتے ہیں اور اپنی اولاد سے ملتے جلتے رہتے ہیں تو ہمارے دل بدل جاتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم اسی حالت میں رہو جس طرح میرے پاس سے اٹھ کر جاتے ہو تو فرشتے تمہارے گھروں میں تمہاری زیارت کریں اور اگر تم گناہ نہ کرو تو اﷲتعالیٰ ضرور ایک نئی مخلوق لے آئے گا تاکہ وہ گناہ کریں (اور پھر توبہ کر لیں) اور پھر اﷲ تعالیٰ انہیں بخش دے۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفة الجنة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في صفة الجنة ونعيمها، 4 / 672، الرقم : 2526، وابن حبان في الصحيح، 16 / 396، الرقم، 3787، والطيالسي في المسند، 1 / 337، الرقم : 2583، والبيهقي في شعب الإيمان، 5 / 409، الرقم : 7101، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 415، الرقم : 1420، وابن المبارک في الزهد، 1 / 380، الرقم : 1075.
————————————————————————————————————————————————

حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے، عروہ بن مسعود (جب بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کفار کا وکیل بن کر آیا تو) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم (کے معمولاتِ تعظیم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو دیکھتا رہا کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعاب دہن پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ پر لے لیتا تھا جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو اس کی فوراً تعمیل کی جاتی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو فرماتے ہیں تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ (اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے ہر ایک کی کوشش ہوتی تھی کہ یہ پانی میں حاصل کروں) جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو فرماتے ہیں تو صحابہ کرام اپنی آوازوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پست رکھتے تھے اور انتہائی تعظیم کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا : اے قوم! اﷲ ربّ العزت کی قسم! میں (بڑے بڑے عظیم الشان) بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں، میں قیصر و کسری اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں۔ لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس طرح تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! جب وہ تھوکتے ہیں تو ان کا لعاب دہن کسی نہ کسی شخص کی ہتھیلی پر ہی گرتا ہے، جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو فوراً ان کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے، جب وہ وضو فرماتے ہیں تو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ لوگ وضو کا استعمال شدہ پانی حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جائیں گے وہ ان کی بارگاہ میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، اور غایت تعظیم کے باعث وہ ان کی طرف آنکھ بھر کر دیکھ نہیں سکتے۔

الحديث رقم 51 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الشروط، باب : الشروط في الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب وکتابة، 2 / 974، الرقم : 2581، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 329، وابن حبان في الصحيح، 11 / 216، الرقم : 4872، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 9، الرقم : 13، والبيهقي في السنن الکبري، 9 / 220.
————————————————————————————————————————————————

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقام جمرہ پر کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی کا فریضہ ادا فرما لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا، اس نے بال مبارک مونڈے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو وہ بال عطا فرمائے، اِس کے بعد حجام کے سامنے (سر انور کی) بائیں جانب کی اور فرمایا : یہ بھی مونڈو، اس نے ادھر کے بال مبارک بھی مونڈ دیئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ بال بھی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائے اور فرمایا : یہ بال لوگوں میں تقسیم کر دو۔

الحديث رقم 52 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الحج، باب : بيان أن السنة يوم النحر أن يرمي ثم ينحر ثم يحلق، 2 / 948، الرقم : 1305، والترمذي فيالسنن، کتاب : الحج عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء بأي جانب الرأس يبدأ في الحلق، 3 / 255، الرقم : 912، وأبوداود في السنن، کتاب : المناسک، باب : الحلق والتقصير، 2 / 203، الرقم : 1981، والنسائي في السنن الکبري، 2 / 449، الرقم : 4114، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 111، الرقم : 12113، وابن حبان في الصحيح، 9 / 191، الرقم : 1743، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 299، الرقم : 2928، والحاکم في المستدرک، 1 / 647، الرقم : 1743، وَ قَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
————————————————————————————————————————————————
ُ
حضرت ابن سیرین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حصرت عبیدہ سے کہا : ہمارے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ موئے مبارک ہیں جنہیں ہم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یا حضرت انس کے گھر والوں سے حاصل کیا ہے۔ حضرت عبیدہ نے فرمایا : اگر ان میں سے ایک موئے مبارک بھی میرے پاس ہوتا تو وہ مجھے دنیا (اور جو کچھ اس دنیا میں ہے ان سب) سے کہیں زیادہ محبوب ہوتا۔

الحديث رقم 54 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الوضوء، باب : الماء الذي يغسل به شعرا الإنسان وکان عطاء لا يري، 1 / 75، الرقم : 168، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 67، الرقم : 13188.
————————————————————————————————————————————————

حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ عنھما کے غلام حضرت عبداﷲ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت اسماء رضی اﷲ عنھا نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جبّہ مبارک کے متعلق بتایا اور فرمایا : یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جبّہ مبارک ہے اور پھر انہوں نے ایک جبّہ نکال کر دکھایا جو موٹا دھاری دار کسروانی (کسریٰ کے بادشاہ کی طرف منسوب ہے) جبّہ تھا جس کا گریبان دیباج کا تھا اور اس کے دامنوں پر دیباج کے سنجاف تھے حضرت اسماء رضی اﷲ عنھا نے فرمایا : یہ مبارک جبّہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کے پاس ان کی وفات تک محفوظ رہا، جب ان کی وفات ہوئی تویہ میں نے لے لیا۔ یہی وہ مبارک جبّہ ہے جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہنتے تھے۔ سو ہم اسے دھو کر اس کا پانی بیماروں کو پلاتے ہیں اور اس کے ذریعے شفا طلب کی جاتی ہے۔

الحديث رقم 55 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : اللباس والزينة، باب : تحريم استعمال إناء الذهب والفضة علي الرجال، 3 / 1641، الرقم : 2069، وأبو داود في السنن، کتاب : اللباس، باب : الرخصة في العلم وخيط الحرير، 4 / 49، الرقم : 4054، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 423، الرقم : 4010، وفي شعب الإيمان 5 / 141، الرقم : 6108، وأبو عوانة في المسند، 1 / 230، الرقم : 511، وابن راهويه في المسند، 1 / 133، الرقم : 30.
————————————————————————————————————————————————

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت اُم سُلیم رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کے بچھونے پر سو جاتے جبکہ وہ گھر میں نہیں ہوتی تھیں۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور اُن کے بچھونے پر سو گئے، وہ آئیں تو ان سے کہا گیا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے گھر میں تمہارے بچھونے پر آرام فرما ہیں۔ یہ سن کر وہ (فورًا) گھر آئیں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسینہ مبارک آیا ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ مبارک چمڑے کے بستر پر جمع ہو گیا ہے۔ حضرت اُمّ سُلیم نے اپنی بوتل کھولی اور پسینہ مبارک پونچھ پونچھ کر بوتل میں جمع کرنے لگیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچانک اٹھ بیٹھے اور فرمایا : اے اُمّ سُلیم! کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم اس (پسینہ مبارک) سے اپنے بچوں کے لئے برکت حاصل کریں گے (اور اسے بطور خوشبو استعمال کریں گے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے ٹھیک کیا ہے۔

الحديث رقم 56 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : طيب عرق النبي صلي الله عليه وآله وسلم والتبرک به، 4 / 1815، الرقم : 2331، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 221، الرقم : 1334 / 1339.
————————————————————————————————————————————————

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا جاتا کہ وہ منبر (نبوی) کی وہ جگہ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوتے، اسے اپنے ہاتھ سے چھوتے اور پھر ہاتھ اپنے چہرہ پر مل لیتے۔

قاضي عياض، الشفاء بتعريف حقوق المصطفیٰ، 2 : 620
تميمي، الثقات، 4 : 9، رقم : 1606
ابن سعد، الطبقات الکبری، 1 : 254
ابن قدامه، المغني، 3 : 299
————————————————————————————————————————————————

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قحط پڑ جاتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے : اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برسا دیتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معزز چچا جان کو وسیلہ بناتے ہیں کہ تو ہم پر بارش برسا۔ فرمایا : تو ان پر بارش برسا دی جاتی۔

الحديث رقم 57 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاستسقاء، باب : سُؤَالِ النَّاسِ الإمام الاستسقاء إِذا قَحَطُوا، 1 / 342، الرقم : 964، وفي کتاب : فضائل الصحابة، باب : ذکر العَبَّاسِ بنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ رضي اﷲ عنهما، 3 / 1360، الرقم : 3507، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 337، الرقم : 1421، وابن حبان في الصحيح، 7 / 110، الرقم : 2861، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 49، الرقم : 2437، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 352، الرقم : 6220، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 270، الرقم : 351، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 / 135، الرقم : 87 وابن عبد البر في الاستيعاب، 2 / 814، وابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 4 / 433.
————————————————————————————————————————————————

حدیث نبوی ﷺ کےنیچے ٹاپک سلیکٹ کریں۔شکریہ

شان رسول ﷺ و محبت رسول ﷺ